مسجد میں محراب بنانے کی بحث اور حدیث کا مفہوم
ماخوذ: قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل، جلد 02

سوال

زید کہتا ہے کہ مسجد میں محراب بنانا درست ہے اور ثبوت یہ دیتا ہے کہ مسجد نبوی بھی محراب ہے، بکر کہتا ہے کہ مسجدوں میں محرابیں بنانا بدعت ہے کیونکہ یہ دوسری صدی ہجری میں رائج ہوئیں اور یہ حدیث شریف پیش کرتا ہے کہ فرمایا رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری امت ہمیشہ بھلائی پر رہے گی جب تک کہ وہ اپنی مسجدوں میں نصاریٰ کی طرح محراب نہ بنائیں گے۔

الجواب

نصاریٰ کا محراب درمیان میں اس طرح کا ہوتا ہے اس میں واعظ کھڑا ہو کر وعظ کہتا ہے مساجد میں محراب ایسے نہیں ہوتے لہٰذا حدیث مذکور ان محرابوں پر چسپاں نہیں ہے ہاں اس میں شک نہیں کہ زمانہ رسالت میں محراب نہ تھے جیسے مینار بھی نہ تھے پس محراب مثل مینار کے مساجد کی علامت ہیں (۲۳ ذی الحجہ ۴۸ھ)

محراب مسجد:

محراب مسجد میں بنانا درست ہے بدعت نہیں جس امر کا ثبوت قرآن و حدیث سے پایا جاتا ہے اس کو بدعت کہنا ناجائز ہے۔ برابر خیر القرون سے اس پر مسلمانوں کا تعامل چلا آیا ہے۔
قال اللّٰہ تعالى فنادته الملائکة وھو قائم یصلی فی المحراب (پارہ ۳) قال السدي المحراب الصلى۔ شریعت انبیاء سابقین کی شریعت ہماری ہے مگر ان امور میں جس کو قرآن و حدیث نے منسوخ کر دیا ہے بے شک اس پر عمل کرنا جائز ہے محراب کی ممانعت قرآنی آیت و احادیث الرسول سے ثابت نہیں آیت مذکورہ زکریا علیہ السلام کا فعل اللہ پاک نے ذکر کیا۔ پس اس کا جواز بین طور پر ثابت ہوا دوسری اس امر پر یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دلیل ہے۔
أخرج البيهقي فى السنن الكبرى من طريق سعيد بن عبد الجبار بن وائل عن امه عن وائل بن حجر قال حضرت رسول اللّٰه صلى الله عليه وسلم نهض إلٰي المسجد فدخل محراب ثم رفع يديه بالتكبير الحديث وقال الشيخ ابن الهمام من ساداة الحنفية ولا يخفي ان امتياز الإمام مقرر مطلوب فى الشرع فى حق المكان حتي كان التقدم واجبا عليه ونبي فى المساجد المحاريب من زمن رسول اللّٰه صلى الله عليه وسلم انتهيٰ
مولانا شمس الحق صاحب مرحوم۔ ’’عون العبود‘‘ میں لکھتے ہیں۔
قلت ما قاله القاري المحاريب من المحدثات ففيه نظر لان وجود المحراب زمن النبى صلى الله عليه وسلم يثبت من بعض الروايات
اور اس پر حدیث مذکور بیہقی کی پیش کی ہے۔
وفي عون المعبود شرح أبى داؤد . ومن ذهب إلى الكراهة فعليه البينة ولا يسمع كلام أحد من غير دليل وبرهان. انتهيٰ
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اس کے مجوز ہیں۔ ’’كشاف القناع‘‘ فقہ حنبلیہ میں بھی اس کی اباحت موجود ہے، وہ یہ ہے۔
ويباح اتخاذ المحراب نصّا وقيل لا يستحب اؤما إليه أحمد واختاره الاجري وابن عقيل يستدل به الجاهل. انتهيٰ
مؤلف کشاف القناع میں بھی اباحت بلکہ استحباب ثابت کرتا ہے، اور کہتا ہے کہ نص سے ثابت ہے، اصطلاح علمائے میں نص قرآنی آیات و احادیث کو کہتے ہیں یعنی قرآن و حدیث سے محراب بنانا ثابت ہے جن احادیث سے کراہت بعض لوگ ثابت کرتے ہیں وہ یہ ہیں۔
وقد اخرج الطبراني والبيهقي عن ابن عمر أن النبى صلى الله عليه وسلم قال: «اتقوا هذهٖ المذابح يعني المحاريب» واخرج ابن ابي شيبة فى المصنف عن موسٰي الجهني قال قال رسول اللّٰه صلى الله عليه وسلم لا تزال امتي بخير ما لم يتخدوا فى مساجد هم مذابح كمنذ انصاريٰ
اس پر نظر ہے بچندہ وجوہ۔ اولاً ان کے راوی ذکر کے ہر ایک کی توثیق ضروری ہے جرح و علت خفیہ وغیرہ جو نقائص کے سندوں وغیرہ میں واقع ہوتے ہیں یا متن میں اس سے برأت لا بد ہے اور بیان راویوں کا ذکر ان کی توثیق جو بذمہ مدعی ہے مفقود ہے ثانیاً ممانعت مذابح کی ثابت ہوئی جو حجرے علیحدہ مسجد سے بنایا کرتے تھے نہ محراب کی ۔ ثالثاً کسی احادیث سے محراب کی ممانعت نہیں ثابت ہوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذابح سے منع فرمایا کمذابح النصاری اگر مشابہت نہ ہو تو جائز ہے۔ رابعاً حدیث میں مذابح ہے یعنی المحاریب یہ راوی کی تقریر ہے اپنے فہم کے مطابق نہ حدیث کے لفظ۔
جناب! محراب کے دو معنی ہیں ایک حجرہ و غرفہ دوسرا محراب المسجد حرام نہیں ہے۔
محاريب پيش گاه هائے مجالس و بنه محراب المسجد وهو ايضاً
وقوله تعالىٰ فخرج علٰي قومه من المحراب. قالوا من المسجد وفي فتح البيان كلما دخل عليها ذكريا المحراب يعني الغرفة والمحراب فى اللغة اكرم موضع فى المجلس قاله القرطبي وسبيت محرابا لانها محل محاربة الشيطان لان المتعبد فيها يحاربه و كذالك هو فى المسجد وكذالك يقال لكل محال العبادة محراب.
الحاصل محراب المسجد بنانا درست ہے۔ اس کی ممانعت کرنا شریعت میں تنگی کرنا ہے، بغیر برہان و بینہ اور جس کی ممانعت آئی ہے وہ اور چیز ہے والله اعلم وعلمه اتم.
(حررہ احمد اللہ مدرس مدرسہ رحمانیہ دہلی، ۴ جمادی اول ۴۲۔)
الجواب صحیح:… بے شک محراب بنانا مسجدوں میں جائز ہے اس کے عدم جواز پر کوئی دلیل نہیں یہود و نصاریٰ کے طریق پر امام کے واسطے بصورت خاص محراب بنانا ناجائز ہے۔ واللّٰه اعلم وعلمه اتم واحكم.
(کتبہ ابو طاہر البہاری عفا اللہ عنہ الباری المدرس الاول فی المدرسۃ دارالحدیث رحمانیہ الکائنتہ فی بلدہ دہلی)
نفس محراب بنانا تو جائز ہے مگر جیسا کہ آج کل اس میں نقش و نگار کا رواج ہے۔ یہ نہیں ہونا چاہیے سادہ ہونا چاہیے۔ والله اعلم.
(کتبہ عبد الوہاب آلا روی مدرس مدرسہ رحمانیہ دہلی)
( والجواب صحیح والرای نجیع واللّٰہ اعلم وعلمہ اتم۔( سید ابو الحسن عفی عنہ)
محراب والی مسجدوں میں رسالت مآب اس وقت تک ثابت ہے۔ لہٰذا اس کو بدعت کہنا غلط ہے۔ سنن بیہقی کی روایت اس پر دال ہے۔ ہاں نصرانیوں کے گرجے کے مشابہ محراب بنانی منع ہے۔ مذابح کمذابح النصاری سے ممانعت وارد ہوئی اور مذابح کے معنی مقاصیر کے ہیں۔ واللہ اعلم۔
(کتبہ عبد السلام المبارکفوری ، الجواب صحیح محمد عبد القدیر مدرس مدرسہ ریاض العلوم دہلی)
نفس محراب بنانا جائز ہے اس میں شک نہیں۔
(کتبہ عبد الرزاق مدرس اول مدرسہ ریاض العلوم دہلی)
مسجدوں میں محراب بنانا جائز ہے مگر مشرکین و اہل کتاب کے محرابوں کی مشابہت جائز نہیں یہاں تک کہ اگر غیر اہل اسلام کی عبادت گاہوں پر مسلمانوں کا قبضہ ہو اور وہ ان کی مسجد بنانا چاہیں تو بنا سکتے ہیں مگر اُن کے محرابوں میں تغیر وضعی یا ذاتی کرنا ضرور ہے۔ ’’نیل الاوطار‘‘ صفحہ ۳۱ ج۲
والحديث يدل على جواز جعل الكنائس والبيع أو مكنة الأصنام مساجد وكذلك فعل كثير من المحاربة حين فتحو البلاد وجعلوا متعبدا تهم مكتعبدت المسلمين وغيرو امحاربها
والله اعلم بالصواب.

(کتبہ محمد اسحاق الاوری مدرس دارالحدیث رحمانیہ دہلی)
مسجدوں میں جو محراب آج کل بنے ہوئے وہ درست ہیں۔ جیسا کہ حدیث بیہقی سے ثابت ہے اس مسئلہ کی تحقیق عون المعبود میں موجود ہے جو اس کو بدعت کہتے ہیں وہ غلط کہتے ہیں والله اعلم.
(محمد یونس عفی عنہ مدرس مدرسہ حضرت میاں صاحب مرحوم پھاٹک حبش خان دہلی)
جواب صحیح ہے نفس محراب جو آج کل مساجد میں ہے جائز ہے جن روایتوں میں ممانعت ہے وہ اہل کتاب کی مشابہت سے منع فرمایا ہے جو اس محراب میں نہیں پائی جاتی۔ نصاریٰ کے معبد جا کر دیکھو ہر گز اس کے مشابہ نہیں۔ پھر ممانعت اس محراب سے کیسی۔ الغرض یہ محراب جائز ہے۔
(ابو سعید محمد شرف الدین عفی عنہ مدرس اول)
محراب مسجد میں بنانا جائز ہے، لیکن یہود و نصاریٰ کی طرح بڑا اور خوبصورت نبقش مزین نہ ہو۔ جیسا کہ آج کل گرجوں میں دیکھا جاتا ہے۔ اس کا ثبوت زمانہ قدیم سے چلا آتا ہے احادیث میں مذکور ہے اور اصحاب لغت بھی ذکر کرتے آتے ہیں مدت مدیدہ سے بغیر انکار کرنے کے۔
(عبد الرحمن مدرس مدرسہ حاجی علی جان دہلی)
مسلمانوں میں جو آج کل محراب مروج ہے وہ یہود و نصاریٰ کی طرح نہیں ہے۔ لہٰذا بدعت نہیں ہے ہاں اگر مشابہت ہو تو البتہ بدعت ہے ورنہ نہیں واللہ اعلم بالصواب
(محمد یوسف علی بیر بھومی ۱۸ جنوری ۲۴۔ فتاویٰ ثنائیہ جلد نمبر ۱ صفحہ ۲۹۴)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے