مسجد میں قضاء ولعان
غیر مسلموں کے مسجد میں داخل ہونے کے جواز کا تذکرہ کرتے ہوئے، امام خطابی رحمہ اللہ کی معالم السنن شرح ابو داؤد سے ہم ایک اقتباس ذکر کر چکے ہیں، جس میں انہوں نے مشرک کے بوقت ضرورت مسجد میں داخل ہونے کی مختلف صورتیں بیان کی ہیں۔ جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ غیر مسلم و مشرک نے کوئی کیس قاضی کی عدالت میں دائر کروانا ہو، اور قاضی مسجد میں بیٹھا ہو، تو اس مشرک کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے حق کو ثابت کرنے کے لیے مسجد میں داخل ہو۔
اور امام خطابی رحمہ اللہ کی اس بات پر بادی النظر میں کچھ تعجب ہوتا ہے کہ یہی کیا ضروری ہے کہ وہ مسجد میں جا کر ہی قاضی کے سامنے اپنا مسئلہ رکھ دے۔ وہ تھوڑا انتظار بھی کر سکتا ہے کہ قاضی صاحب مسجد سے نکل آئیں اور جہاں کچہری لگا کر بیٹھیں، وہاں وہ اپنا کیس پیش کرے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ تعجب والی کوئی بات نہیں۔ کیونکہ سلف صالحین کے عہد میں قاضی حضرات مسجد میں بیٹھ کر فیصلے کیا کرتے تھے۔
اور یہ جائز بھی ہے۔
البتہ نفاذ حدود کے لیے مجرم کو مسجد سے نکال لیا جاتا تھا۔ چنانچہ اس سلسلے میں صحیح بخاری کتاب الاحکام باب من حكم في المسجد میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:
أتى رجل رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو فى المسجد فناداه فقال يا رسول الله إني زنيت فلما شهد على نفسه أربعا قال أبك جنون قال لا قال اذهبوا به فارجموه
بخاري مع الفتح 156/13
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک آدمی حاضر ہوا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے۔ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکار کر کہا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! مجھ سے زنا کا ارتکاب ہو گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے اعراض فرمایا۔ اور جب یکے بعد دیگرے وہ چار مرتبہ اقبال جرم کر چکا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم پاگل تو نہیں ہو؟ اس نے کہا نہیں۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے باہر لے جا کر سنگسار کر دو۔
کتاب الحدود باب رجم المحصن میں اس حدیث کے آخری الفاظ ہیں:
وكان قد أحصن
بخاری مع الفتح 117/12
اور وہ شادی شدہ ہو چکا تھا۔
اور کتاب الحدود ہی میں باب لا يرجم المجنون والمجنونة میں اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے پوچھا تم پاگل تو نہیں ہو، اور پھر دوسرا سوال یہ بھی فرمایا:
فهل أحصنت
کیا تم نے شادی کی ہے؟
تو اس نے کہا:
نعم
ہاں۔
تب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ اسے باہر لے جا کر رجم یعنی سنگسار کر دو۔
بخاری مع الفتح 120/12، 121
یہ حضرت ماعز اسلمی رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے۔ جسے متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بیان کیا ہے۔ اور یہی وہ صحابی ہیں جنہوں نے خود حاضر ہو کر اقبال جرم کیا، عذاب آخرت کے خوف سے۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کے نتیجے میں دنیا میں ہی سزا بھگت لینے کو ترجیح دیتے ہوئے عرض کیا:
طهرني يا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم
اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم (مجھ پر حد نافذ کر کے) مجھے پاک کر دیجیے۔
واقعہ میں یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ تم نے شراب تو نہیں پی رکھی؟ اس نے کہا نہیں۔ اور ایک آدمی نے اٹھ کر منہ کے قریب سے سونگھ کر تصدیق بھی کی اور یہ بھی پوچھا کہ ممکن ہے، تم نے محض بوس و کنار کیا ہو؟ اس نے کہا نہیں۔ اور ساتھ سونے اور مباشرت و جماع کی تمام تفصیلات کا اعتراف بھی اس کی زبانی کروایا تھا تا کہ کہیں کسی غلط فہمی میں اتنی بڑی سزا نہ دے دی جائے۔
اس قضیہ کی تفصیل کتب حدیث و شروح حدیث خصوصاً فتح الباری جلد 12 ص 120 تا 128، اور دیگر مقامات پر دیکھی جاسکتی ہے۔
مسجد میں قضاء یعنی قاضی کا فیصلے صادر کرنا، اور کیس کی تحقیق و تفتیش کرنا۔ اس حدیث کے علاوہ بعض دیگر احادیث سے بھی ثابت ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری کتاب الطلاق باب اللعان اور کتاب الاحکام باب من قضى ولا عن في المسجد میں حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:
إن رجلا من الأنصار جاء إلى النبى صلى الله عليه وسلم قال أرأيت رجلا وجد مع امرأته رجلا أيقتله؟ فتقتلونه أم كيف يفعل؟
انصار میں سے ایک صحابی (حضرت عویمر عجلانی رضی اللہ عنہ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور پوچھا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی دوسرے آدمی کو دیکھے۔ تو کیا وہ اسے قتل کر دے؟ تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے قتل کر دیں گے، یا پھر وہ کیا کرے؟
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
قد أنزل الله فيك وفي صاحبتك فاذهب فأت بها
اللہ نے تمہارے اور تمہاری عورت کے بارے میں حکم نازل فرما دیا ہے۔ جاؤ اسے لے آؤ۔
حضرت سہل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر ان دونوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے (مسجد میں ہی) لعان کیا اور میں دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ وہیں موجود تھا۔
بخاری 452,446/9 و 154/13
لعان:
لعان کیا ہوتا ہے، اس کی تعریف یہ ہے کہ شوہر اگر اپنی بیوی پر بدچلنی کا الزام لگائے اور بدکاری پر گواہیاں نہ ہوں تو وہ دونوں اپنے اپنے سچے ہونے کی چار چار قسمیں کھاتے ہیں۔ اور جھوٹے ہونے کی شکل میں اپنے پر لعنت کی پانچویں مرتبہ بددعا کرتے ہیں۔ جسے لعان کہا جاتا ہے۔ اور ساتھ ہی طلاق ہو جاتی ہے۔(اس تفصیل کا موقع نہیں)
ہاں اس کے احکام کی تفصیلات کتب حدیث خصوصاً صحیح بخاری مع الفتح کتاب الطلاق، باب اللعان جلد نمبر ص 438-464 پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ اس مذکورہ حدیث سے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مسجد میں فیصلہ صادر فرمانا ثابت ہوتا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفائے راشدین میں سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا واقعہ صحیح بخاری میں تعلیقاً مروی ہے۔ چنانچہ مسجد نبوی میں ان کے لعان کروانے کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ باب من قضی ولا عن فی المسجد میں فرماتے ہیں:
ولاعن عمر عند منبر النبى صلى الله عليه وسلم
بخاری 154/13
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے کر کے لعان کروایا۔
اور تاریخ اسلام کے معروف قاضی شریح کے بارے میں بھی صحیح بخاری میں تعلیقاً اور مصنف ابن ابی شیبہ و طبقات ابن سعد میں موصولاً مروی ہے۔ ابو خالد بیان کرتے ہیں کہ:
رأيت شريحا يقضي فى المسجد وعليه برنس من جند
بخاری 154/13، 155
میں نے قاضی شریح کو دیکھا کہ وہ مسجد میں فیصلے کیا کرتے تھے اور وہ اون و ریشم سے بنی لمبی ٹوپی پہنے ہوتے تھے۔
اور مصنف عبدالرزاق میں حکم بن عتیبہ بیان کرتے ہیں:
رأيت شريحا يقضي فى المسجد
بحوالہ فتح الباری 155/13
میں نے قاضی شریح کو مسجد میں فیصلے کرتے دیکھا ہے۔
امام یحییٰ بن یعمر رحمہ اللہ کے بارے میں صحیح بخاری میں تعلیقاً اور مصنف ابن ابی شیبہ میں موصولاً مروی ہے۔ عبد الرحمن بن قیس کہتے ہیں:
رأيت يحيى بن يعمر يقضي فى المسجد
بحوالہ بالا بخاری و فتح الباری
میں نے یحییٰ بن یعمر کو دیکھا ہے کہ وہ مسجد میں بیٹھ کر فیصلے کیا کرتے تھے۔
اور امام شعبی رحمہ اللہ کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح کے ایک ترجمہ الباب میں تعلیق لکھا ہے:
وقضى الشعبي فى المسجد
بحوالہ بالا بخاری و فتح الباری
امام شعبی رحمہ اللہ نے مسجد میں بیٹھ کر فیصلے کیے۔
اور امام شعبی رحمہ اللہ کے اس اثر کو جامع سفیان میں سعید بن عبد الرحمن مخزومی نے عبد اللہ بن شبرمہ کے طریق سے موصولاً بھی بیان کیا ہے۔ جس میں ہے:
رأيت الشعبي جلد يهوديا فى قرية فى المسجد
فتح الباری ایضاً
میں نے امام شعبی کو ایک گاؤں کی مسجد میں ایک یہودی کو کوڑے مرواتے دیکھا ہے۔
اور مصنف عبدالرزاق میں بھی یہ اثر سفیان کے حوالے سے موصولاً مروی ہے۔
فتح الباری ایضاً
اور کرابیسی نے ابو زناد کے طریق سے ادب القضاء میں روایت کیا ہے کہ سعد بن ابراہیم، ابو بکر بن محمد بن عمرو بن حزم اور ان کے بیٹے اور محمد بن صفوان اور محمد بن مصعب بن شرجیل مسجد نبوی میں بیٹھ کر فیصلے کیا کرتے تھے۔ اور انہوں نے اور بھی بہت سے قضاۃ کے مسجد میں فیصلہ کرنے کا تذکرہ کیا ہے۔
فتح الباری 155/13
اور صحیح بخاری میں تعلیقاً، لیکن موطا امام مالک میں موصولاً حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اور عبد اللہ بن مطیع کے معاملے میں مروان بن حکم کا فیصلہ بھی ہے۔ جس میں مروان نے فیصلہ کیا تھا کہ حضرت زید رضی اللہ عنہ منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یا اس کے اوپر چڑھ کر قسم کھائیں، لیکن انہوں نے اس سے انکار کرتے ہوئے اپنی جگہ پر بیٹھے بیٹھے ہی قسم کھانے پر اصرار کیا تھا۔
بخاری 285، 284/5 و 154/13، 155
فائدہ: مسجد نبوی کے پاس قسم کھانے کا مطالبہ تاکید کے لیے ہے۔ اور اس سلسلے میں بعض احادیث و آثار بھی ہیں کہ منبر کے اوپر یا منبر کے پاس جھوٹ بولنا عام مقامات کی نسبت زیادہ گناہ اور دخول جہنم کا موجبت ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو فتح الباری 285/ 5
ان تمام احادیث و آثار سے امام بخاری رحمہ اللہ نے مسجد میں فیصلہ کرنے کے جواز پر استدلال کیا ہے۔ جبکہ بعض دیگر آثار ایسے بھی ہیں جن میں سے مسجد کے ہال سے باہر (مسجد کے صحن میں) بنائی گئی ایک مخصوص جگہ پر بیٹھ کر فیصلے کرنے کا ذکر بھی آیا ہے، جسے” رحبہ “ کہا جاتا تھا۔ چنانچہ بخاری شریف میں تعلیقاً اور مصنف ابن ابی شیبہ میں موصولاً مثنیٰ بن سعید سے مروی ہے، جس میں وہ بیان فرماتے ہیں:
رأيت الحسن وزرارة بن أوفى يقضيان فى المسجد
فتح الباری 155/13 – بخاری مع الفتح 155/13
میں نے حضرت حسن بصری اور زرارہ بن اوفی (رحمها اللہ) کو دیکھا ہے کہ وہ مسجد میں بیٹھ کر فیصلے صادر کیا کرتے تھے۔
اور کرابیسی کی ”ادب القضاء“ میں ایک تیسرے قاضی کا ذکر بھی ہے، اور ایک الگ انداز سے، چنانچہ ”ادب القضاء“ میں ہے:
إن الحسن وزرارة وأياس بن معاوية كانوا إذا دخلوا فى المسجد للقضاء صلوا ركعتين قبل أن يجلسوا
بحوالہ فتح الباری 155/13
حضرت حسن اور زرارہ اور ایاس بن معاویہ رحمہم اللہ جب فیصلہ کرنے کے لیے مسجد میں داخل ہوتے، تو وہ بیٹھنے سے پہلے دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔
ان سب آثار سے معلوم ہوا کہ مسجد کے اندر یا مسجد کے صحن میں بنے ہوئے چبوترے وغیرہ پر بیٹھ کر ثالثی کی جا سکتی ہے اور فیصلے صادر کیے جا سکتے ہیں۔ اور صحن میں چبوترے یا رحبہ کے بارے میں اختلاف ہے کہ آیا اسے مسجد کا حصہ شمار کیا جائے یا نہیں۔ تو اس سلسلے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے خلاصہ لکھا ہے کہ
راجح بات یہی ہے کہ یہ مسجد کا حصہ شمار ہوتا ہے، اور اس کا حکم بھی مسجد والا ہی ہوگا۔ اس میں اعتکاف بیٹھنا اور ہر وہ عمل جائز ہے جس کے لیے مسجد شرط ہے۔ اور ان آثار میں اسی چبوترے کا تذکرہ ہے جو مسجد میں شامل ہوتا ہے۔ ہاں اگر مسجد کے احاطے سے الگ کوئی چبوترہ بنایا گیا ہو، تو اس کا حکم الگ ہوگا۔ اسے مسجد شمار نہیں کیا جائے گا۔ اور یہ دو الگ نوعیت کے چبوترے ہوئے اور ان دونوں کا حکم بھی الگ الگ ہی ہوگا۔ مسجد سے متصل کا حکم مسجد والا اور مسجد سے غیر متصل کا حکم غیر مسجد والا۔
غرض ابن بطال کہتے ہیں کہ اہل علم کی ایک جماعت نے مسجد میں قضاء منعقد کرنے کو مستحب قرار دیا ہے۔ اور امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ تو قدیم عمل ہے۔ امام احمد اور اسحاق بن راہویہ رحمها اللہ بھی اس کے استحباب کے ہی قائل ہیں۔ اور بعض علماء نے اسے مکروہ قرار دیا ہے۔ جیسے عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ ۔ اور امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے زیادہ محبوب بات یہ ہے کہ فیصلہ مسجد سے باہر کہیں کیا جائے، تا کہ کافر و مشرک اور حیض و نفاس والی عورتوں کے لیے آسانی رہے۔
کرابیسی نے کراہت والوں کے اقوال ذکر کر کے لکھا ہے کہ سلف صالحین میں یہ مروج تھا کہ وہ مسجد رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں فیصلے کیا کرتے تھے۔ اور اس پر دلالت کرنے والے کتنے ہی آثار ذکر کیے ہیں۔ اور لکھا ہے کہ جب صورت حال یہ رہی ہے، تو پھر عام مساجد میں یہ کیسے مکروہ ہو سکتا ہے؟ اور ابن بطال نے حضرت سہل بن سعد سے مسجد میں لعان کروایا تھا۔ اگرچہ ان کے نزدیک بھی مسجد کی طہارت و نظافت اور تقدس و احترام کے لیے احتیاط اسی میں ہے کہ فیصلے کہیں باہر کیے جائیں۔
تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو فتح الباری 155/13، 156
اس ساری تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ مساجد میں فیصلہ مستحب یا جائز تو ہے، لیکن مسجد کا احترام پیش نظر رکھ کر اگر ایسا نہ کیا جائے تو بھی ٹھیک ہے۔ گویا بات جائز و ناجائز، مکروہ و مستحب کی نہیں، بلکہ اولیٰ و غیر اولیٰ کی ہے۔ اور مسجد میں کیے گئے فیصلے یا دی گئی سزا پر عمل درآمد اور حدود کا نفاذ کرنا الگ الگ چیزیں ہیں۔