مسجد میں رہائش: شرعی حکم اور آداب صحیح احادیث کی روشنی میں
یہ اقتباس الشیخ محمد منیر قمر کی کتاب احکام مساجد سے ماخوذ ہے۔

مسجد میں رہائش

اس سلسلے میں ہمارے استاذ گرامی مولانا حافظ ثناء اللہ مدنی (شیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ لاہور) کا فتویٰ ”الاعتصام “میں شائع ہوا ہے۔ جسے یہاں افادہ عام کے لیے نقل مع الاستفتاء کیا جا رہا ہے۔
سوال:
ایک صاحب نے اپنے مکان کے ساتھ والی جگہ مسجد کے لیے وقف کی اور دوسرے صاحب کو اس مسجد کی تعمیر کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کو کہا۔ دوسرے صاحب نے مختلف علاقوں میں جا کر چندہ اکٹھا کیا اور وہاں دو منزلہ مسجد تعمیر کروائی۔ ان دو منزلوں کے درمیان ایک گیلری بھی بنوائی۔ نیچے والی جگہ اور گیلری مرد حضرات کے لیے اور دوسری منزل عورتوں کے لیے تھی۔ یہ آدمی پہلے کرائے کے مکان میں رہتا تھا۔ اس نے دوسری منزل میں جہاں عورتیں نماز ادا کرتی تھیں۔ انتظامیہ کے افراد کی منت سماجت کر کے دو کمرے بنوائے اور اپنے اہل خانہ کے ساتھ پانچ سال سے وہاں رہائش پذیر ہے۔
ان صاحب کا مسجد سے آدھ فرلانگ دور اپنا ذاتی مکان ہے (جو کہ کچھ عرصہ ہوا تعمیر کروایا ہے)۔ یہ چار مرلہ کا مکان ہے۔ اس میں ہر قسم کی سہولت موجود ہے۔ لیکن وہ وہاں جانے کا نام نہیں لیتا۔ اکثر لوگ اس بات پر اعتراض کرتے ہیں، تو وہ دلیل میں مسجد کی خدمت کرنے کا بہانہ تراشتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے سوا کوئی خدمت نہیں کر سکتا۔
دلچسپی کی بات یہ ہے کہ امامت نماز جو صاحب کرواتے ہیں، ان کا بھی مسجد کے محراب کے ساتھ (پہلی ہی منزل پر) کمرہ ہے جہاں امام مسجد رہائش پذیر ہے۔ اس کے علاوہ بجلی، پانی اور سوئی گیس کے کنکشن بھی اکٹھے ہیں اور وہ بل مسجد کے چندے سے ادا ہوتے ہیں۔ جس سے مسجد کا خرچہ زیادہ ہو گیا ہے۔ اس اکٹھے کنکشن پر اعتراض میں وہ پھر خدمت والی دلیل پیش کرتا ہے۔
قرآن و سنت کی روشنی میں آپ یہ بتائیں کہ کیا ایسا شخص مسجد کی دوسری منزل پر گھر بنا سکتا ہے یا مسجد میں کوئی اپنے اہل خانہ کے ساتھ بغیر کسی مجبوری یا ویسے ہی رہائش رکھ سکتا ہے، جس میں لیٹرین بھی شامل ہوتی ہے۔ (ایک سائل)

الجواب بعون الوہاب:

اسلام میں مسجدوں کی طہارت و صفائی کے بارے میں چونکہ سخت تاکید کی گئی ہے۔ اس لیے ان میں ایسا کوئی فعل نہیں ہونا چاہیے جو ان کی عظمت اور آداب و اکرام کے منافی ہو یا ان کی شان میں تحقیر و تذلیل کے پہلو کی نشاندہی کرتا ہو۔ صحیح مسلم میں حدیث ہے:
إن هذه المساجد لا تصلح لشيء من هذا البول ولا القذر وإنما هي لذكر الله وقراءة القرآن
مسلم – مختصر مسلم مع المنذری حدیث 186
یعنی مسجدوں میں بول و براز اور نجاست وغیرہ کا پھیلانا درست نہیں، یہ تو محض اللہ کی یاد اور قرآن کی تلاوت کے لیے بنائی گئی ہیں۔
اس بناء پر امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ويكره أن يجعل المساجد مقعد الحرفة كالخياطة ونحوها
المجموع 192/3
یعنی مسجد کو باقاعدہ پیشہ سلائی وغیرہ کے لیے اڈا بنا لینا، غیر درست ہے۔
البتہ اتفاقی امر کا کوئی حرج نہیں۔ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے طائف کے دو آدمیوں کو مسجد الرسول میں آوازیں لگاتے ہوئے دیکھا، تو فرمایا:
لو كنتما من أهل المدينة لأوجعتكما
یعنی اگر تم اہل مدینہ سے ہوتے تو اس فعل کے ارتکاب پر میں تمہیں سزا دیتا۔
نیز احترام مسجد کے پیش نظر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مسجد کی ایک جانب مجلس بنوائی تھی اس کا نام بطیحا رکھا ہوا تھا۔ جو گفتگو کرنا چاہتا یا قصیدہ گوئی کا عزم کرتا، یا رفع صوت کا محتاج ہوتا، اسے وہاں بھیج دیا کرتے تھے۔
رواہ المالك و البیہقی
اور صحیح مسلم میں ہے، جس نے کسی شخص کو سنا کہ وہ گمشدہ جانور مسجد میں تلاش کر رہا ہے، تو جواباً کہنا چاہیے:
اللہ کرے تجھے یہ جانور نہ مل سکے۔
إن المساجد لم تبن لهذا
مسلم مع نووی 541، 513
یعنی مسجدیں اس غرض کے لیے تو نہیں بنی ہوئیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید فرمایا:
لا تقام الحدود فى المسجد ولا يستقاد فيها
رواہ احمد و ابو داؤد – دار قطبی – صحیح الترمذی 1130 – ابن ماجه 2099 – مستدرک حاکم 360، 14، دار قطبی 184
یعنی مسجد میں نہ حد قائم کی جائے اور نہ قصاص لیا جائے۔
حدیث ہذا شواہد کی بناء پر ثابت وقوی ہے۔
المشكاة للالبانی 229/1
آداب مسجد کے پیش نظر ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تمام دروازے جو مسجد کی طرف کھلتے تھے، بند کروا دیے۔ ماسوائے استثنائی صورت کے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ زیر حدیث فرماتے ہیں:
وأن المساجد تصان عن التطرق إليها لغير ضرورة مهمة
فتح الباری جلد 7، ص 15
مذکورہ احادیث کی روشنی میں بلا تردد یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسجد میں رہائش کی صورت میں کئی ایک مسائل کا سامنا کرنے کے علاوہ بے شمار پیش آمدہ ضروریات زندگی سے محفوظ و مصؤن نہیں رہا جا سکتا۔ جس سے مسجد کی صیانت و کرامت کا مجروح ہونا ایک یقینی امر ہے۔ لہذا مسجد کی خدمت کو بہانہ بنا کر شرف مسجد کو پامال کرنا درست فکر نہیں۔ مسجد کی خدمت باہر رہ کر بھی بطریق احسن سرانجام دی جا سکتی ہے۔ اس میں کون سی شے مانع ہے؟ لہذا سوال میں مذکور اشخاص کو مسجد سے علیحدہ مسکن اختیار کرنا چاہیے ۔ یا مسجد سے ملحق ایسی جگہ جس سے احترام مسجد میں فرق نہ آئے۔
بالخصوص صاحب ملک کو اپنے مکان کی آبادکاری پر توجہ دینی چاہیے تا کہ اللہ کی عطا کردہ نعمت سے کماحقہ مستفید ہو سکے۔ باقی رہائی کا معاملہ تو وہ بجلی میں اشتراک کی صورت میں انتظامیہ کی رضامندی سے طے پا سکتا ہے۔ جس پر طرفین کا اتفاق ہو، اس کے مطابق عمل ہوگا۔
الاعتصام جلد 44، شماره 20، بابت ماہ 12 ذو القعدہ 1412ھ بمطابق 5 مئی 1992ء

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے