مسجد میں ذکر بالجہر اور حدیث ابن مسعودؓ
تحریر: حافظ زبیر علی زئیؒ

مسجد میں ذکر بالجہر اور حدیث ابن مسعودؓ

امام ابومحمد عبد اللہ بن عبد الرحمن بن الفضل بن بہرام الدارمی رحمہ اللہ (متوفی ۲۵۵ ھ) نے فرمایا:
’’أخبرنا الحكم بن المبارك : أنبأنا عمرو بن يحيى قال : سمعت أبي يحدّث عن أبيه قال: كُنَّا نَجْلِسُ عَلَى بَابِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَبْلَ صَلَاةِ الْغَدَاةِ ، فَإِذَا خَرَجَ ، مَشَيْنَا مَعَهُ إِلَى الْمَسْجِدِ ، فَجَاءَ نَا أَبو مُوسَىٰ الأشْعَرِيُّ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ – فَقَالَ : أَخَرَجَ إِلَيْكُمُ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ؟ قُلْنَا : لَا ، بَعْدُ فَجَلَسَ مَعَنَا حَتَّى خَرَجَ ، فَلَمَّا خَرَجَ ، قُمْنَا إِلَيْهِ جَمِيعًا، فَقَالَ لَهُ أَبُو مُوسَىٰ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، إِنِّي رَأَيْتُ فِي الْمَسْجِدِ آنِفًا أَمْرًا أَنْكَرْتُهُ وَلَمْ أَرَ – وَالْحَمْدُ لله إِلَّا خَيْرًا قَالَ : فَمَا هُوَ؟ فَقَالَ: إِنْ عِشْتَ فَسَتَراهُ.
قَالَ : رَأَيْتُ فِي الْمَسْجِدِ قَوْمًا حِلَقًا جُلُوسًا يَنْتَظِرُونَ الصَّلَاةَ فِي كُلِّ حَلَقَةٍ رَجُلٌ ، وَفِي أَيْدِيهِمْ حَصًا ، فَيَقُولُ : كَبِّرُوا مِئَةً ، فَيُكَبِّرُونَ مِئَةً ، فَيَقُولُ : هَتِلُوا مِنَةٌ ، فَيُهللونَ مِنَةٌ ، وَيَقُولُ : سَبِّحُوا مِنَةٌ ، فَيُسَبِّحُونَ مِنَةٌ ، قَالَ : فَمَاذَا قُلْتَ لَهُمْ ؟ قَالَ : مَاقُلْتُ لَهُمْ شَيْئًا انتِظَارَ رَأْيِكَ أَوِ انْتِظَارَ أَمْرِكَ . قَالَ : أَفَلَا أَمَرْتَهُمْ أَنْ يَعُدُّوا سَيِّئَاتِهِمْ، وَضَمِنْتَ لَهُمْ أَنْ لَا يَضِيعَ مِنْ حَسَنَاتِهِمْ، ثُمَّ مَضَى وَمَضَيْنَا مَعَهُ حَتَّى أَتَى حَلَقَهُ مِنْ تِلْكَ الْحِلَقِ ، فَوَقَفَ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ : مَا هَذَا الَّذِي أَرَاكُمْ تَصْنَعُونَ؟ قَالُوا : يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَصًا نَعُدُّ بِهِ التَّكْبِيرَ وَالتَّهْلِيلَ وَالتَّسْبِيحَ . قالَ : فَعُدُّوا سَيِّئَاتِكُمُ ، فَأَنَا ضَامِنْ أَنْ لَا يَضِيعَ مِنْ حَسَنَ شَيْءٌ وَيُعَكُمْ يَا أُمَةَ مُحَمَّدٍ مَا أَسْرَعَ هَلَكَتكُم هؤُلَاءِ صَحَابَةُ نَبِيِّكُمْ ، مُتَوَافِرُونَ : وَهَذِهِ ثِيَابُهُ لَمْ تَبَلَ ، وَآنِيَتُهُ لَمْ تُكْسَرُ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ ، إِنَّكُمْ لَعَلَى مِلَّةٍ هِيَ أَهْدَى مِنْ مِلَّةِ مُحَمَّدٍ الله أَوْ مُفْتِحُو بَابِ ضَلَالَةٍ ، قَالُوا : وَاللَّهِ يَ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، مَا أَرَدْنَا إِلَّا الْخَيْرَ . قَالَ : وَكَمْ مِنْ مُرِيدٍ لِلْخَيْرِ لَنْ يُصِيبَهُ ، إنَّ رَسُولَ الله الله حَدَّتَنَا أَنَّ قَوْمًا يَقْرَرُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُم ، وَايْمُ اللهِ مَا أَدْرِي لَعَلَّ أَكْثَرَهُمْ مِنْكُمْ ، ثُمَّ تَوَلَّى عَنْهُمْ فَقَالَ عَمْرُو بْنُ سَلَمَةَ : رَأَيْنَا عَامَّةَ أُولئِكَ الْحِلَقِ يُطَاعِنُونَا يَوْمَ النَّهْرَوَانِ مَعَ الْخَوَارِجِ.‘‘

ہمیں حکم بن المبارک نے روایت بیان کی (کہا): ہمیں عمرو بن یحیٰی نے روایت بیان کی ، کہا : میں نے اپنے والد (یحیٰی بن عمرو بن سلمہ الہمدانی) کو حدیث بیان کرتے ہوئے سنا، انھوں نے اپنے والد(عمرو بن سلمہ الہمدانی) سے ،انھوں نے کہا: ہم صبح کی نماز سے پہلے (سیدنا) عبداللہ بن مسعودؓ کے دروازے کے پاس بیٹھتے تھے، پھر جب وہ باہر تشریف لاتے تو ہم پیدل چل کر اُن کے ساتھ مسجد جایا کرتے تھے۔
پھر (ایک دن) ہمارے پاس (سیدنا) ابو موسی الاشعریؓ تشریف لائے تو کہا: کیا ابوعبدالرحمن (عبد اللہ بن مسعودؓ) تمھارے پاس باہر تشریف لائے ہیں؟ ہم نے کہا: ابھی تک نہیں آئے ۔ پھر وہ ہمارے پاس بیٹھ گئے حتی کہ آپ (سیدنا ابن مسعودؓ) باہر تشریف لائے ۔ پھر جب وہ آئے تو ہم سارے(مسجد کو پیدل جانے کے لئے) کھڑے ہو گئے اور آپ کے پاس گئے تو (سیدنا) ابوموسیؓ نے آپ سے کہا: اے ابو عبدالرحمن ! میں نے تھوڑی دیر پہلے مسجد میں ایک چیز دیکھی ہے، جسے میں نے ناپسند کیا ہے اور الحمدللہ میری نیت خیر کی ہی ہے۔ انھوں (سیدنا ابن مسعودؓ) نے فرمایا : وہ کیا ہے؟
(ابوموسیؓ) نے کہا: آپ اگر زندہ رہے تو عنقریب دیکھ لیں گے۔ (ان شاء اللہ) میں نے مسجد میں کچھ لوگوں کو دیکھا ہے ، وہ نماز کے انتظار میں حلقوں کی صورت میں بیٹھے ہوئے ہیں اور ہر حلقے میں ایک آدمی (ان کا سربراہ) ہے ۔ لوگوں کے ہاتھوں میں کنکریاں ہیں ۔ پھر وہ (سربراہ) آدمی کہتا ہے: سو دفعہ اللہ اکبر کہو، تو وہ سو دفعہ اللہ اکبر کہتے ہیں۔ پھر وہ کہتا ہے: سو دفعہ لا الہ الا اللہ پڑھو ، تو وہ سو دفعہ لا الہ الا اللہ پڑھو کہتے ہیں ۔ پھر وہ کہتا ہے : سو دفعہ سبحان اللہ کہو تو وہ سو دفعہ سبحان اللہ کہتے ہیں ۔ انھوں (سیدنا ابن مسعودؓ) نے پوچھا:
آپ نے اُن سے کیا کہا ہے؟ انھوں (سیدنا ابو موسیؓ) نے جواب دیا: میں نے آپ کی رائے یا آپ کے حکم کا انتظار کرتے ہوئے انھیں کچھ بھی نہیں کہا۔ انھوں نے فرمایا: آپ نے انھیں یہ حکم کیوں نہیں دیا کہ اپنے گناہ شمار کریں اور یہ ضمانت کیوں نہیں دی کہ ان کی نیکیاں ضائع نہیں ہوں گی ۔ پھر وہ چلے تو ہم بھی آپ کے ساتھ چلے حتی کہ وہ ان حلقوں میں سے ایک حلقے کے پاس پہنچے تو وہاں کھڑے ہو کر اُن سے پوچھا: تم لوگ یہ کیا کر رہے ہو؟ انھوں نے جواب دیا : اے ابوعبدالرحمن ! ہم کنکریوں پر اللہ اکبر ، لا الہ الا اللہ ، سبحان اللہ پڑھ رہے ہیں ۔ انھوں(سیدنا ابن مسعودؓ) نے فرمایا : پس تم اپنے گناہ شمار کرلو اور میں ضمانت دیتا ہوں کہ تمھاری نیکیوں میں سے کچھ بھی ضائع نہیں ہوگا۔
اے محمد ﷺ کے امتیو! تمھاری خرابی ہو، تم کتنی تیزی سے ہلاک و برباد ہو رہے ہو ۔ دیکھو! تمھارے نبی ﷺ کے یہ صحابہ کثرت سے موجود ہیں ، آپ ﷺ کے کپڑے ابھی تک بوسیدہ نہیں ہوئے اور آپ جو برتن استعمال کرتے تھے وہ ابھی تک نہیں ٹوٹے ۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! کیا تم ایسی ملت پر ہو جو محمد ﷺ کی ملت سے زیادہ ہدایت یافتہ ہے یا کہ تم گمراہی کے دروازے کھولنے والے ہو؟!
انھوں نے کہا: اے ابوعبدالرحمن ! اللہ کی قسم ! ہمارا ارادہ تو صرف خیر کا ہی تھا۔ انھوں (سیدنا ابن مسعودؓ) نے فرمایا : کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو خیر کا ارادہ رکھتے ہیں اور خیر سے محروم رہتے ہیں۔ بے شک رسول اللہ ﷺ نے ہمیں جو حدیث سنائی کہ کچھ لوگ قرآن پڑھیں گے، وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا اور اللہ کی قسم ! مجھے پتا نہیں کہ شاید ان لوگوں میں تمھاری کثرت ہو۔ پھر وہ ان سے ہٹ کر چلے گئے ۔ عمر و بن سلمہ نے کہا: ان حلقوں والے عام لوگوں کو میں نے دیکھا ، وہ جنگ نہروان والے دن خوارج کے ساتھ مل کر ہم سے جنگ کر رہے تھے ۔
(سنن دارمی ج اص ۲۸۶ – ۲۸۷ ح ۲۱۰ باب فی کراھیة اخذ الرأی، وسندہ حسن)

اس روایت کے راویوں کا مختصر تذکرہ و توثیق درج ذیل ہے:
❀ ابو صالح الحکم بن المبارک الباہلی البلخلی الخاشتی الخواشتیؒ میرے علم کے مطابق آپ کی توثیق درج ذیل ہے:
➊ حافظ ابن حبان نے انھیں کتاب الثقات میں ذکر کیا۔ (۱۹۵/۸)

➋ امام ترمذی نے ان کی بیان کردہ ایک منفرد اور ضعیف السند روایت کے بارے میں فرمایا :
هذا حديث حسن غریب
(ح ۲۲۳۸ باب ماجاء فی علامات خروج الدجال)
ثابت ہوا کہ وہ امام ترمذی کے نزدیک صدوق وحسن الحدیث راوی تھے۔

➌ یاقوت بن عبدالله الحموی الرومی البغدادی الادیب نے فرمایا :
وكان ثقة
(معجم البلدان ۲/ ۳۳۸ خاشت)

➍ حافظ ذہبی نے فرمایا:
ثقة
(الکاشف ۱۸۳/۱ت ۱۱۹۸)

➎ حافظ ابن حجر العسقلانی نے فرمایا:
” صدوق ربماوهم“
(تقریب التہذیب: ۱۳۵۸)
ایسا راوی حسن الحدیث ہوتا ہے، بشرطیکہ جمہور محدثین نے اس کی توثیق کی ہو۔

➏ ابو عبداللہ محمد بن اسحاق بن مندہ الاصبہانی رحمہ اللہ نے فرمایا :
” أحد الثقات“
وہ ثقہ راویوں میں سے ایک ہیں۔
(فتح الباب في الكنى والألقاب ص ۴۳۳ ت ۳۹۲۸)

❀ ابو سعد عبدالکریم بن محمد بن منصور السمعانی (متوفی ۵۶۲ھ) نے حکم بن المبارک کے بارے میں امام احمد بن حنبل کا قول نقل کیا :
هو عندنا ثقة
(الانساب۳۰۹/۲، الخاشتی)
یہ قول باسند صحیح ثابت نہیں۔

جمہور کی اس توثیق و تعدیل کے مقابلے میں حافظ ابن عدی کا درج ذیل قول ہے :
هذا الحديث رواه نعيم بن حماد عن عيسى والحديث له وأنكروه عليه ، وسرقه منه جماعة منهم : عبدالوهاب (بن) الضحاك وسويد بن سعيد وأبو صالح الخراساني الخاستى والحكم بن المبارك.
(الکامل فی ضعفاء الرجال ۱/ ۱۸۹، دوسرا نسخه ۳۰۴/۱)

اس عبارت میں امام ابن عدی نے حکم بن مبارک پر ’’سرقة الحديث‘‘ (احادیث چوری کرنے) کا سنگین الزام لگایا ہے اور خود انھوں نے دوسری جگہ فرمایا:
وهذا إنما يعرف بنعيم بن حماد ورواه عن عسى بن يونس فتكلم الناس فيه مجراه ثم رواه رجل من أهل خراسان يقال له الحكم بن المبارك يكنى أبا صالح الخواشتي يقال انه لابأس به ، ثم سرقه قوم ضعفاء ممن يعرفون بسرقة الحديث منهم : عبدالوهاب بن الضحاك والنضر بن طاهر وثالثهم سويد الأنباري .
(الکامل ۳/ ۱۳۶۵، دوسرا نسخه ۳/ ۴۹۸)

اس عبارت میں حافظ ابن عدی نے حکم بن المبارک کو ’’سرقة الحديث‘‘ کی تہمت سے باہر نکالا اور ’’لا بأس به“ قرار دیا، لہذا جرح و تعدیل والے دونوں اقوال باہم متعارض ہو کر ساقط ہو گئے اور اگر متعارض نہ بھی ہوتے تو جمہور کی توثیق کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ امام ابن عدی کا پہلا قول منسوخ ہو اور دوسرا قول(بعد میں ہونے کی وجہ سے) ناسخ ہو ۔ واللہ اعلم

خلاصة التحقیق

حکم بن المبارک موثق عند الجمہور ہونے کی وجہ سے صدوق حسن الحدیث راوی ہیں ۔
اختصار اور تفصیل کے ساتھ درج ذیل راویوں نے حکم بن المبارک کی متابعت کر رکھی ہے:

اول : علی بن الحسن بن سلیمان الحضرمی
(تاریخ واسط لاسلم بن سبل الواسطی ص ۱۹۸ ۱۹۹)

دوم امام ابو بکر بن ابی شیبه
(المصنف ۳۰۶/۱۵ ح ۳۷۸۷۹)

❀ عمرو بن یحیٰی رحمہ اللہ
(دیکھئے سنن دارمی بنسخه حسین سلیم اسدا / ۲۸۶ – ۲۸۷ ح ۲۱۰)

سنن دارمی کے بعض نسخوں میں ’’عمر بن یحیٰی“ ہے جو کہ خطا ہے، جیسا کہ مصنف ابن ابی شیبہ وغیرہ سے ثابت ہے۔
(نیز دیکھئے السلسلۃ اصحہ للالبانی۱۲/۵ ح ۲۰۰۵)

عمرو بن یحیٰی بن عمرو بن سلمہ الہمدانی کے بارے میں جرح و تعدیل کے اقوال درج ذیل ہیں:
➊ امام یحیی بن معین نے فرمایا :
صالح
(کتاب الجرح والتعدیل ۲۶۹/۶)

اس کے مقابلے میں ابن عدی نے احمد بن ابی یحیٰی (الانماطی البغدادی) کی سند سے نقل کیا کہ یحییٰ بن معین نے فرمایا:
” ليس بشي “
(الکامل ۱۷۷۳/۵، دوسرا نسخه ۲۱۵/۶)

ابوبکر احمد بن ابی یحیٰی الانماطی کے بارے میں حافظ ابن عدی نے فرمایا:
”ولأبي بكر بن أبي یحیٰی هذا غير حديث منكر عن الثقات ، لم أخرجه هاهنا وقد روى عن يحيي بن معين وأحمد بن حنبل تاريخا في الرجال .“
(الکامل ۱۹۹/۱، دوسرا نسخه ۳۲۲/۱)

ابراہیم بن اورمہ الاصبہانی رحمہ اللہ نے فرمايا :
”أبوبكر بن أبي يحيي كذاب“
(الکامل ۱/ ۱۹۸، وسنده صحیح ، دوسرانسخه ۳۲۲/۱)

اسے ابن الجوزی نے کتاب الضعفاء والمتروکین (۹۲/۱ت ۲۷۲) میں ذکر کیا اور ذہبی نے فرمایا:
”بغدادي متهم“
(دیوان الضعفاء اوالمتروکین ۱/ ۳۸ ت۱۲۲)

ثابت ہوا کہ امام ابن معین کی طرف منسوب یہ جرح، غیر ثابت ہونے کہ وجہ سے مردود ہے۔

تنبیہ

احمد بن ابی یحیٰی کا شاگرد ابن ابی عصمہ العکبری مجہول الحال ہے، لہذا یہ سند ظلمات ہے۔
لیث بن عبدہ سے روایت ہے کہ یحیٰی بن معین نے فرمایا :
عمرو بن يحيى بن سلمة ، سمعت منه لم يكن يرضى
(الکامل ۱۷۷۵/۵، دوسر انسخه ۲۱۵/۶)

لیث بن عبدہ المصری البصری المروزی شیخ الطحاوی کی توثیق نامعلوم ہے، لہذا یہ جرح بھی ثابت نہیں۔

ابن عدی نے فرمایا :
وعمر و هذا ليس له كثير رواية ولم يحضرني له شي فأذكره
(الکامل ۱۷۷۳/۵، دوسرا نسخہ ۲۱۵/۶)

یہ عبارت نہ جرح ہے اور نہ تعدیل، لہذا توثیق و تضعیف سے خارج ہے۔

کہا گیا ہے کہ ابن خراش (رافضی) نے کہا:
ليس بمرضي
(لسان المیزان ۲/ ۳۷۸ ، دوسرا نسخه ۵ / ۳۳۵)

یہ جرح دو وجہ سے ساقط ہے:
اول:
یہ بے سند ہے، ابن خراش سے باسند صحیح ثابت نہیں۔

دوم :
ابن خراش رافضی تھا۔

➋ حافظ ابن حبان نے عمرو بن یحیٰی مذکور کو کتاب الثقات میں داخل کیا ہے۔ (۴۸۰/۸)

❀ حافظ ابن الجوزی نے امام یحیٰی بن معین وغیرہ کی طرف غیر ثابت جرح کی بنیاد پر عمرو بن یحیٰی کو کتاب الضعفاء والمتروکین (۲۳۳/۲ ت ۲۶۰) میں ذکر کیا اور اصل بنیاد کا لعدم ہونے کی وجہ سے یہ جرح بھی کالعدم ہے۔ حافظ ذہبی نے بھی عمرو بن یحییٰ کو ابن معین کی طرف غیر ثابت جرح کی وجہ سے دیوان الضعفاء والمتروکین (۲۱۲/۲ ت (۳۲۲۹) وغیرہ میں ذکر کیا اور اصل بنیاد منہدم ہونے کی وجہ سے یہ جرح بھی منہدم ہے۔

خلاصة اتحقیق

❀ حافظ ذہبی اور حافظ ابن الجوزی کی جرح مرجوح ہے اور ابن حبان و ابن معین کی توثیق کی وجہ سے عمرو بن یحیٰی صدوق حسن الحدیث راوی ہیں۔

➌ یحیٰی بن عمرو بن سلمہ الہمدانی کے بارے میں امام عجلی نے فرمایا :
”كو في ثقة“
(التاریخ المشهور باشقات: ۱۹۹۰)

ان سے شعبہ نے روایت بیان کی۔
(کتاب الجرح والتعدیل ۱۷۶/۹)

اور شعبہ (اپنے نزدیک، عام طور پر) صرف ثقہ سے روایت کرتے تھے۔
(تہذیب التہذیب کا مقدمہ ج ا ص ۱۰)

امام یعقوب بن سفیان الفارسی کی کتاب المعرفۃ والتاریخ میں یحیٰی بن عمر و بن سلمہ کے بارے میں لکھا ہوا ہے :
لا بأس به
(ج ۳ ص ۱۰۴)

خلاصة اتحقیق

یحیٰی بن عمر و بن سلمہ ثقہ و صدوق تھے۔

➍ عمرو بن سلمہ بن خرب الہمدانی الكوفي الكندى:
ثقة
(تقريب التهذيب:۵۰۴۱)

اس تحقیق سے ثابت ہوا کہ امام دارمی کی بیان کردہ سند حسن لذاتہ ہے اور حنفیوں کے ایک فقیہ ابن عابدین شامی نے سیدنا ابن مسعودؓ کی روایت مذکورہ کو درج ذیل الفاظ میں صحیح قرار دیا ہے :
لماصح عن ابن مسعود أنه أخرج جاعة من المسجد يهللون
(رد المختار علی الدر المختار ۲۸۱/۵-۲۸۲ باب الاستبراء وغیرہ)

سرفراز خان صفدر دیوبندی نے لکھا ہے :
قلت بسند صحیح
(راه سنت ص ۱۳۳ طبع نهم ۱۹۷۵ء )

اب اس روایت کے بعض شواہد پیش خدمت ہیں:

أسد عن عبد الله بن رجاء عن عبيدالله بن عمرو عن يسار أبى الحكم أن عبدالله بن مسعود حدث
(البدع وانهى عنها تحقیق عمر بن عبدالمنعم بن سلیم ۲۱)

یہ سند منقطع ہے اور یسارا بوالحکام کی توثیق معلوم نہیں ، لہذا یہ روایت ضعیف ہے۔

نا محمد بن سعيد قال : نا أسد بن موسى عن يحيٰى بن عيسى عـن الأعمش عن بعض أصحابه.
(البدع والنهي عنها: ۲۴)
اعمش مدلس ہیں اور بعض اصحابہ مجہول ہیں، لہذا یہ سند بھی ضعیف ہے۔

نا أسد عن محمد بن يوسف عن الأوزاعي عن عبدالله بن أبي لبابة۔
یہ سند انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے۔

محمد بن وضاح قال : نا موسى بن معاوية عن عبدالرحمن بن مهدى عن سفيان عن سلمة بن كهيل عن أبى الزعراء قال .
امام سفیان ثوری کی سلمہ بن کہیل سے روایت قوی ہوتی ہے، لہذا یہ سند حسن لذاتہ ہے۔

فائدہ:

کتاب البدع والنہی عنھا کے راوی ابو القاسم اصبغ بن مالک بن موسی القرطبی رحمہ اللہ کے بارے میں حافظ ابو الولید عبداللہ بن محمد بن یوسف الا زردی: ابن الفرضی نے فرمايا:
وكان ابن وضاح يجله ويعظمه … و كان إماما في قراءة نافع ، وكان عابدا زاهدًا يجتمع إليه أهل الزهد والفضل ويسمعون منه ، توفيؒ بیشتر سنة أربع وثلاث مائة ذكره أحمد وقال الرازي : توفي يوم الاثنين لثلاث خلون من رجب سنة تسع وتسعين ومائتين .
(تاريخ العلماء والرواۃ للعلم بالاندلس ۱/ ۹۵ت ۲۵۰)

ابن عذاری نے (وفیات ۲۹۹ھ کے تحت ) کہا :
’’وفيها توفي أصبغ بن مالك الزاهد الفقيه.“
(البيان المغرب في اخبار الاندلس ۲۰۴/۱، مکتبہ شاملہ)

حافظ ذہبی نے فرمایا :
اصبغ بن مالك أبو القاسم المالكي الزاهد نزيل قرطبة ، أصله من قبرة وصحب ابن وضاح أربعين سنة وكان ابن وضاح يجله و يعظمه وسمع من ابن وضاح و ابن القزاز وكان إماماً في قراءة نافع.
(تاریخ الاسلام ۲۳/ ۱۳۸، وفیات ۳۰۱ ۵۳۱۰)

ابن الجزری (متوفی ۸۳۳ھ) نے لکھا ہے :
الزاهد توفي سنة أربع وثلا ثمائة
(غاية النهاية في طبقات القراءا / ۷۱ات ۷۹۹)

محمد بن حارث بن اسد الخشنی القیروانی کی طرف منسوب مشکوک کتاب : اخبار الفقہاء والمحدثین میں لکھا ہوا ہے :
وكان عابدا زاهدًا ورعًا خيرًا … وكان ابن وضاح له مكرما معظما.
(ص۲۹ت ۴۴)

خلاصہ

یہ ہے کہ اصبغ بن مالک القرطبی صدوق حسن الحدیث راوی ہیں اور ان پر کسی محدث یا مستند عالم کی کوئی جرح ثابت نہیں۔

اس شاہد کے ساتھ سنن دارمی والی روایت صحیح لغیرہ ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس حدیث کو اپنے السلسلہ الصحیحہ میں ذکر کیا ہے۔
(۱/۵ ۱۲ ۲۰۰۵)

آلِ بریلی کا مذہب ضعیف و موضوع روایات پر قائم ہے اور ان کے اصول پر بھی یہ روایت پانچ سندوں کے ساتھ حسن لغیرہ یا صحیح لغیرہ یعنی حجت ہے۔

وما علينا إلا البلاغ

(۵ فروری ۲۰۱۲ء حضرو)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے