مسجد میں حدود و تعزیرات کا نفاذ
مسجد میں فیصلہ کرنا جائز ہے۔ اور اگر تعزیر و سزا معمولی ہو تو، مسجد میں بھی ممکن ہے۔ ورنہ اس کے لیے مجرم کو مسجد سے باہر نکالنا ضروری ہے۔ چنانچہ اس سلسلے میں ایک تو اسی انصاری صحابی حضرت ماعز اسلمی والی حدیث سے استدلال ممکن ہے۔ بلکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے استدلال کیا ہے۔ جس میں انہوں نے اقبال جرم کیا تو تحقیق و تفتیش سے فارغ ہو کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اذهبوا به فارجموه
”اسے باہر لے جاؤ اور رجم یعنی سنگسار کر دو۔“
بخاری مع الفتح 156/13
اور اس واقعہ سے تعلق رکھنے والی ایک حدیث کے راوی حضرت جابر رضی اللہ عنہ ہیں اور وہ بیان فرماتے ہیں:
كنت فيمن رجمه بالمصلى
”میں بھی ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے اس کو عیدگاہ کے پاس رجم کیا تھا۔“
بخاری 121/12، 129، 130 و 156/13 تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو فتح الباری 129/12، 131
اور بخاری شریف ”کتاب الحدود، باب الرجم بالمصلیٰ “میں وارد اس حدیث کے آخر میں یہ الفاظ بھی ہیں:
فقال له النبى صلى الله عليه وسلم خيرا وصلى عليه
”رجم کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیر و بھلائی کے ساتھ ان کا ذکر فرمایا، اور ان کی نماز جنازہ پڑھی۔“
بخاری 129/12 – تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو فتح الباری 129/12، 131
اور عیدگاہ کے پاس رجم کے حکم سے بلکہ اس کے نفاذ سے بھی مسجد سے باہر نفاذ حدود کا پتہ چلتا ہے۔ اور امام بخاری نے اذهبوا به فارجموه کے الفاظ سے اسی بات پر استدلال کیا ہے۔ اور” کتاب الاحکام“ میں یوں تبویب کی ہے:
باب من حكم فى المسجد حتى إذا أتى على أحد أمر أن يخرج من المسجد فيقام
”اس شخص کا بیان جس نے مسجد میں فیصلہ کیا، اور جب حد یا سزا نافذ کرنے کا وقت آیا، تو حکم فرمایا کہ مجرم کو مسجد سے باہر نکال کر اس پر حد قائم (یا سزا نافذ) کی جائے۔“
بخاری مع الفتح 156/13
امام بخاری رحمہ اللہ کے اس استباط و استدلال پر یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ یہ تو رجم و سنگساری کا معاملہ تھا، جو بہت بڑی سزا ہے۔ اور اس آدمی کے خون وغیرہ سے مسجد کو کچھ لگنے کا واضح خدشہ ہوتا ہے۔ لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مسجد سے باہر لے جانے کا حکم فرمایا تھا۔ اسی طرح رجم کے لیے گڑھا کھودنے کی ضرورت بھی پیش آتی ہے۔ جس کے لیے مسجد مناسب نہیں تھی۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی تو نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس شخص کو مسجد سے باہر رجم کروانے سے یہ لازم آئے کہ دوسری حدود کا نفاذ بھی مسجد میں نہیں ہونا چاہیے۔
لیکن جیسا کہ معروف ہے کہ رئیس المحدثین امام بخاری رحمہ اللہ کی فقہ ژرف نگاہی صحیح بخاری کے ابواب میں ہے۔ اور وہ بات بھی بالکل صحیح ہے۔ اور اسی مسئلے میں اس کا ثبوت انہوں نے یوں دیا ہے کہ ارشاد نبوی کے الفاظ ( اذهبوا به فارجموه ) کو بنیاد بنا کر یہ باب قائم کیا ہے۔ اور مذکورہ اعتراض و اشکال کو پیشگی طور پر حل کرنے کے لیے ترجمہ الباب میں ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دو خلفاء راشدین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے آثار بھی تعلیقاً بیان کر دیے ہیں۔ جن سے استدلال کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں تعلیقاً اور مصنف عبد الرزاق و ابن ابی شیبہ میں موصولاً مروی ہے۔ طارق بن شہاب کے طریق سے بیان کرتے ہیں:
أتي عمر بن الخطاب رضى الله عنه برجل فى حد فقال: اخرجاه من المسجد ثم أضرباه
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس ایک آدمی لایا گیا، جس پر حد کا حکم صادر ہوا تھا۔ تو انہوں نے فرمایا: اسے مسجد سے باہر نکال کر اس پر حد نافذ کرو۔
بخاری مع الفتح 156/13، 157
اس اثر کی سند کو شارح بخاری نے امام بخاری و مسلم کی شروط کے مطابق صحیح قرار دیا ہے۔ جبکہ دوسرے اثر کو امام بخاری رحمہ اللہ نے تمریض و تضعیف کے صیغہ سے تعلیقاً اور مصنف ابن ابی شیبہ و مصنف عبد الرزاق میں موصولاً مروی ہے۔ ابن معقل رحمہ اللہ کے طریق سے بیان کرتے ہیں:
إن رجلا جاء إلى على رضى الله عنه فساره فقال: يا قمبر! أخرجه من المسجد فأقم عليه
ایک آدمی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان کے کان میں کچھ کہا، انہوں نے فرمایا: اے قمبر! اسے مسجد سے باہر نکال کر اس پر حد قائم کرو (یعنی شرعی سزا نافذ کرو)۔
بخاری مع الفتح 156/13، 157
لیکن اس کی سند میں ایک راوی ایسا ہے جس پر کچھ کلام کیا گیا ہے۔ اور امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنے انداز بیان و تحریر سے ہی اس بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ لیکن اس کے ضعف کو پہلے اثر فاروقی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مرفوع حدیث سے تقویت ملتی ہے۔ اس حدیث اور ان آثار کی بناء پر فقہاء (یعنی احناف)، امام شافعی، احمد بن حنبل اور اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ نے کہا ہے کہ مسجد میں کسی کو شرعی سزا نہ دی جائے۔ البتہ امام شعبی رحمہ اللہ اور ابن ابی لیلیٰ رحمہ اللہ نے اس کی اجازت دی ہے۔ اور امام مالک رحمہ اللہ نے اس سلسلہ میں کہا ہے:
لا بأس بالضرب بالسياط اليسيرة فإذا كثرت الحدود فليكن ذلك خارج المسجد
”اگر تھوڑے سے کوڑوں کی سزا ہو تو کوئی حرج نہیں۔ اور اگر نفاذ حدود کے لیے کوڑوں کی تعداد زیادہ ہو تو پھر مسجد سے باہر ہی ہونا چاہیے۔“
بحوالہ فتح الباری ایضاً
امام مالک رحمہ اللہ کی یہ رائے کافی حد تک معتدل ہے۔ البتہ ابن بطال رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ جس نے بالکل ہی مسجد کے باہر کا کہا ہے، وہی قول اولیٰ ہے۔ اور اس سلسلہ میں بھی بات جائز و ناجائز کی نہ سہی، البتہ اولیٰ اور غیر اولیٰ کی ضرور ہے۔ جبکہ مسجد میں اقامت حدود کی ممانعت کے بارے میں جو حدیثیں صریح ہیں، ان میں سے بعض کی اسناد ضعیف، بعض کی حسن اور بعض کی صحیح ہیں۔ مثلاً ابو داؤد، دارقطنی، مسند احمد، مصنف ابن ابی شیبہ، مستدرک حاکم، ابن السکن اور بیہقی میں حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے:
لا تقام الحدود فى المساجد ولا يستقاد فيها
”مساجد میں حدود (سزائیں) نافذ نہ کی جائیں۔ اور نہ ان میں قصاص لیا جائے۔“
الارواء 361/7 و حسنه، منتقی مع نیل 223/2/1، الریاض
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تلخیص الحبیر میں اس روایت کی سند کے بارے میں کہا ہے:
لا بأس بأمناده
”اس کی سند پر کوئی خاص مواخذہ نہیں ہے۔“
تلخیص الحبیر 77/4/2، 78 – نیل الاوطار ایضاً
لیکن بلوغ المرام (مع السبل 155/1) میں اس کی سند کو ضعیف قرار دیا ہے۔ اور شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن درجہ کی قرار دیا ہے۔
الارواء 361/7 – صحیح ابن ماجہ 89/2، صحیح ابی داؤد 800/3، مشکوٰة 229/1
اسی طرح ایک دوسری حدیث ترمذی، ابن ماجہ، دارمی، دارقطنی اور بیہقی میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی مرفوعاً ہے:
لا تقام الحدود فى المساجد
”مساجد میں حدود (سزائیں) نافذ نہ کی جائیں گی۔“
بحوالہ الارواء 271/7، 362 – صحیح ابن ماجہ 89/2، البیہقی 39/8، الخلافیات
لیکن اس کی سند میں ایک راوی اسماعیل بن مسلم مکی ہے، اس کا حافظہ کمزور تھا۔
تلخیص الحبیر 16/4/2 و نیل الاوطار ایضاً
لیکن اس کی کئی دوسرے رواۃ نے متابعت کی ہے، جن کی بناء پر اسے جید قرار دیا گیا ہے۔
ارواء الغلیل 271/7، 272 – تلخیص الحبیر 16/4/2، 17 – مجمع الزوائد 285/6/3
اور اسی موضوع کی ایک تیسری روایت ابن ابی شیبہ میں مرسلین مکحول اور الخلافیات للبیہقي میں مکحول کے طریق سے حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ، وائلہ رضی اللہ عنہ اور ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے، اور مصنف عبدالرزاق و طبرانی کبیر میں حضرت وائلہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً ہے، جس میں ہے:
جنبوا مساجدكم.. إقامة حدودكم
”اپنی مساجد میں حدود کے نفاذ سے اجتناب کرو۔“
بحوالہ فتح الباری 157/13 – الارواء 362/7 – سبل السلام 155/1/1
اس روایت میں اس مسئلہ کے علاوہ بعض دیگر امور کا تذکرہ بھی ہے۔ اور اس کی اصل سنن ابن ماجہ میں صرف حضرت واثلہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ اور اس میں دیگر امور کا ذکر تو آیا، لیکن بقول حافظ ابن حجر رحمہ اللہ حدود اور سزاؤں کا سرے سے اس میں ذکر ہی نہیں ہے۔ جو خلافیات والی روایت میں اس کے در و دیوار کو مخدوش بنا دیتا ہے۔ لیکن ہمارے پیش نظر نسخے میں یہ الفاظ بھی موجود ہیں۔ اور ابن ماجہ میں یہ الفاظ آ بھی جائیں تو بھی اس سے کوئی بات نہیں بن سکتی، کیونکہ ابن ماجہ کی سند سخت ضعیف ہے۔
بحوالہ فتح الباری 157/13 – انظر ضعیف ابن ماجہ ص 59 – الارواء 362/7
ایسے ہی ابن ماجہ میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ایک اور مرفوع حدیث میں بھی ہے، جس میں ہے:
خصال لا تنبغي فى المسجد ولا يتخذ طريقا
”کچھ امور ایسے ہیں جو مسجد میں جائز نہیں ہیں، مثلاً مسجد کو راستہ بنانا۔“
اور آگے دیگر خصائل و امور کا تذکرہ ہے، جن میں سے ہی ایک یہ بھی ہے:
ولا يضرب فيها حد
”اور مسجد میں کسی کو سزا کے کوڑے بھی نہ مارے جائیں۔“
صحیح ابن ماجہ ولکن الجزء الاولیٰ منہ – ضعیف ابن ماجہ ص 59، صحیح ابن حبان 125/1
لیکن اس کی سند کو بھی محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔
صحیح ابن ماجہ ولکن الجزء الاولیٰ منہ – ضعیف ابن ماجہ ص 59 – صحیح ابن حبان 125/1 – وفتح الباری ایضاً
اور مسند بزار و معجم طبرانی کبیر میں حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے بھی ایسی ایک مرفوع روایت مروی ہے، جس کی سند میں ایک راوی واقدی ہے، جو کہ معروف متکلم فیہ راوی ہے۔
تلخیص الحبیر 78/4/2، نیل الاوطار 223/2/1 – مجمع الزوائد 28/2/1
ایک روایت عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ کی سند سے مرفوعاً مروی ہے، جبکہ اس کی سند میں معروف فیہ راوی ابن لہیعہ ہے۔
الارواء 362/7، 363، نیل الاوطار 223/2/1 – تلخیص الحبیر ایضاً
البتہ دیگر شواہد وغیرہ کی وجہ سے بعض کبار محدثین کرام نے اسے بھی حسن درجہ کی قرار دیا ہے۔
صحیح ابن ماجہ 89/2، وحسنہ الابانی
غرض حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اور خصوصاً امام شوکانی رحمہ اللہ کا رجحان اس طرف ہے کہ مساجد میں حدود و تعزیرات کا نفاذ نہیں ہونا چاہیے، بلکہ یہ سزائیں مسجد سے باہر ہی دی جائیں تو بہتر ہے۔