مسجد میں جادو ٹونا اور تعویذ فروشی: قرآن و حدیث کی روشنی میں
یہ اقتباس الشیخ محمد منیر قمر کی کتاب احکام مساجد سے ماخوذ ہے۔

مسجد میں تعویذ گنڈے بیچنے، جادو ٹونے اور منتر جنتر کرنے والوں کا قیام

برصغیر کے ملکوں اور بعض دیگر ممالک کی مساجد میں پائے جانے والے ایسے ممنوع امور میں سے ایک مساجد میں تعویذ گنڈے بیچنے اور منتر جنتر کرنے والوں کا کاروبار بھی ہے۔ چنانچہ المدخل میں ابن الحاج رحمہ اللہ نے لکھا ہے:
”کہ مسجد میں جانوروں کے بال یا لکھنے کا چھڑا فروخت کرنے والوں کو اس سے روکا جائے گا۔“
اور امام غزالی رحمہ اللہ نے ”احیاء علوم الدین“ میں مساجد سے متعلقہ منکرات یا ممنوع افعال کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
ایک منکر امر یہ ہے کہ جمعہ کے دن (یا کسی بھی دن) حلقے بنا کر تعویذات وغیرہ فروخت کیے جائیں۔ اور تعویذ بیچنے والے لوگ مختلف قسم کی تلبیس و عیاری سے کام لیتے ہیں۔ اور ہر وہ بیع جس میں جھوٹ، تلبیس یا عیب چھپانے کی بات ہو وہ بیع حرام ہے۔ اور ایسے تلبیس و دجل پر مبنی امور نہ صرف مسجد میں بلکہ یہ تو مسجد اور باہر ہر جگہ ہی حرام ہیں۔
مختصراً از اصلاح المساجد ص 227
یہ امام غزالی رحمہ اللہ کے الفاظ کا ترجمہ ہے۔ جبکہ علامہ جمال الدین قاسمی رحمہ اللہ اپنی کتاب” اصلاح المساجد“ میں لکھتے ہیں کہ:
بعض مساجد میں حجرے ہوتے ہیں۔ جن میں غیب اور مستقبل کے حالات سے واقفیت رکھنے کا دعویٰ کرنے والے لوگ مقیم ہوتے ہیں۔ ان کے پاس گمشدہ ضرورتوں اور اشیاء والے اور مستقبل کے نفع و نقصان کو جاننے کے خواہش مند آتے رہتے ہیں۔ اور اپنے مقصد کے لیے یہ لوگ منتر جنتر پڑھنے والے کو پیسے بھی دیتے ہیں۔ کچھ بیماریوں کی بجائے محض وہم و وسوسہ کے سبب بھی ان عاملوں کے پاس آتے ہیں۔ اور عامل آنے والوں کو یہ باور کراتا ہے کہ ان امراض اور شیطانی اثرات کا علاج اس کے منتروں اور عجیب و غریب طریقوں کے سوا کوئی نہیں ہے۔ پھر ایسے عیار لوگ کبھی خون حیض سے کچھ لکھتے ہیں، کبھی عورت کے پیٹ پر لکھتے ہیں۔
غرض وہ کئی انوکھی و بھونڈی حرکات کرتے ہیں۔ اور ہمارے سادہ دل لوگ ایسے لوگوں کو عامل کامل اور نہ جانے کیا کیا سمجھے ان کے مکر و فریب میں پھنسے رہتے ہیں۔ اور وہ ان کی جیبوں، عزتوں اور ایمان پر ڈاکے ڈالتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو مساجد سے نکال دینا چاہیے۔
اور آگے علامہ قاسمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ قابل افسوس بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ اب مسلمانوں میں رائج ہے۔

ان لوگوں کی خدمت میں:

شاید انہیں یہ معلوم نہیں کہ یہ حدیث میں وارد ہے کہ جس نے نجومی سے عقیدت رکھی اس کی نماز قبول نہیں ہوتی۔ اور وہ کفر کی حد میں داخل ہو جاتا ہے۔
اصلاح المساجد ص 226
اور اس سے ان کا اشارہ ان احادیث کی طرف ہے، جن میں سے ایک صحیح مسلم و مسند احمد میں حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے طریق سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی زوجہ محترمہ سے مروی ہے، جس میں ارشاد نبوی ہے:
من أتى عرافا فسأله عن شيء لم تقبل له صلاة أربعين ليلة
”جو شخص کسی نجومی و قیافہ شناس یا سیانے کے پاس گیا، اور اس سے کچھ پوچھا، اس کی چالیس دنوں کی نمازیں قبول نہیں ہوتیں۔“
مسلم مع نووی 227/14/7 – مسند احمد 68/4 – بحوالہ فتاوی اللجنة الدائمہ 162/1، 397 – غایة المرام ص 172، 173، صحیح الجامع 123/5/3
اور دوسری حدیث سنن اربعہ، مسند احمد و بزار اور مستدرک حاکم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
من أتى كاهنا أو عرافا وصدقه بما يقول فقد كفر بما أنزل على محمد
”جو شخص کسی کاہن (ماضی و مستقبل کی خبریں جاننے کا دعویٰ کرنے والے) اور قیافہ شناس کے پاس گیا اور اس کی باتوں کو سچ مانا، اس نے شریعت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے انکار کیا۔“
مسند احمد 208/2 – صحیح ابی داؤد 3304 – صحیح ترمذی 116 – ابن ماجہ 639 – الدارمی 259/1 – صحیح الجامع 5939، 5942
ایسے ہی مسند بزار، معجم طبرانی اوسط اور حلیة الاولیاء ابونعیم میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے جید سند کے ساتھ مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ليس منا من تطير أو تطير له أو تكهن أو تكهن له أو سحر أو سحر له، ومن أتى كاهنا فصدقه بما يقول فقد كفر بما أنزل على محمد صلى الله عليه وسلم
جس نے جانور اڑا کر شگون لیا یا کسی سے یہ کام کروایا، یا جس نے کہانت و غیب دانی کی، یا کسی سے کہانت کروائی، یا جادو کیا یا جادو کروایا، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ اور جو شخص غیب کی خبریں دینے کا دعویٰ کرنے والے کاہن کے پاس گیا اور اس کی بات کو سچ مانا۔ اس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ شریعت سے انکار کیا۔
بحوالہ فتاوی 397/1، مجمع الزوائد 1/15 – تلخیص 401/4/2 – الترکیب 245/5 – قبولیت عمل کی شرائط ص 108
جبکہ صحیح مسلم، ابو داؤد، نسائی اور مسند احمد میں حضرت معاویہ بن حکم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ عہد جاہلیت میں ہم بعض امور پر یہ عقیدہ رکھتے تھے۔ مثلاً ہم کاہنوں کے پاس جاتے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
فلا تأتوا الكهان
”کاہنوں کے پاس مت جاؤ۔“
انہوں نے عرض کیا کہ ہم پرندے اڑا کر شگون لیتے تھے۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ذلك شيء يجده أحدكم فى نفسه فلا يصدنكم
”یہ ایک چیز ہے جسے تم میں سے کوئی شخص اپنے دل میں پاتا ہے، لیکن تمہیں یہ کسی کام سے نہ روکے۔“
مسلم مع نووی 333/14/7، صحیح ابی داؤد 823
عمارہ
ضعیف الاعتقاد لوگوں کو لوٹنے اور ایسی خرافات پھیلانے والوں کو بقول علامہ محمد جمال الدین قاسمی رحمہ اللہ مساجد کے حجروں میں نہیں رہنے دینا چاہیے۔ اور ان لوگوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ کمائی کی ہوس میں ہر جائز و ناجائز طریقہ نہ اپنائیں۔ بلکہ صرف حلال رزق کے ذرائع سے روزی کمانے کا اہتمام کریں۔ کیونکہ وہ تو کچھ نہ کچھ پڑھے لکھے بھی ہوتے ہیں۔ کیا وہ عامل حضرات قرآن کریم نہیں پڑھتے۔ سورہ بقرہ آیت 79 میں انہی جیسے تعویذ گنڈے کرنے والے فریب کاروں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿فَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا يَكْسِبُونَ﴾
”ویل و خرابی ہے ان کی اس لکھائی پر، اور ویل و ہلاکت ہے ان کی اس کمائی پر۔“
(2-البقرة:79)
اور کیا انہیں معلوم نہیں کہ سحر اور یہ جادو ٹونے کفریہ افعال ہیں۔ اور یہ رمل و فال اور نجومت و کہانت سب ممنوع ہیں۔ قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جادو سیکھنے اور اسے بروئے کار لانے والا کافر ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ آیت 102 میں ہاروت و ماروت کا قول نقل کیا ہے کہ وہ اپنے پاس جادو سیکھنے کے لیے آنے والوں سے کہتے تھے:
﴿إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ﴾
”یقیناً ہم ایک فتنہ و آزمائش کے لیے ہیں، لہذا تم کفر میں نہ پڑو۔“
اور آگے چل کر فرمایا:
﴿وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَٰكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ﴾
”حضرت سلیمان علیہ السلام نے کفر کی کوئی بات نہیں کی، بلکہ ان شیطانوں نے ہی کفر کیا۔ اور وہ لوگوں کو جادو سکھلایا کرتے تھے۔“
اور سورہ طہ آیت 69 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلَا يُفْلِحُ السَّاحِرُ حَيْثُ أَتَىٰ﴾
”جادوگر جہاں بھی جائے فلاح نہیں پائے گا۔“
اور جادوگر و تعویذ گنڈے کرنے والوں کی آخرت برباد ہونے کا ذکر سورہ بقرہ آیت 102 میں آیا ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلَقَدْ عَلِمُوا لَمَنِ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ ۚ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهِ أَنفُسَهُمْ ۚ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ﴾
”اور انہیں (یہود کو) خوب معلوم تھا کہ جو کوئی (ایمان دے کر) جادو کا خریدار بنا اس کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ اگر وہ سمجھتے ہوتے تو کتنا برا بدلہ ہے یہ جس کے عوض انہوں نے اپنی جانوں کو بیچ ڈالا۔“
غرض امام ابوحنیفہ، مالک و احمد بن حنبل اور سلف صالحین کی کثیر جماعت نے جادو کو کفر قرار دیا ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے یہاں کچھ تفصیل ہے۔ اور پھر وہ بھی جادوگر کو کافر ہی قرار دیتے ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے کفر ہی قرار دیا ہے۔
ہدایة المستفید ترجمہ فتح المجید 774/2، مترجم مولانا عطاء اللہ ثاقب، طبع طارق اکیڈمی لاہور
اور قرآنی آیات کی طرح ہی ارشادات نبوی بھی ان لوگوں کے لیے تازیانہ عبرت ہیں۔ چنانچہ صحیح بخاری و مسلم، ابو داؤد اور نسائی میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اجتنبوا السبع الموبقات
”سات ہلاکت انگیز (کبیرہ گناہوں) سے بچو۔“
بخاری 2766 – مختصر مسلم للمنذری 47 – صحیح ابی داؤد 2498 – صحیح النسائی 3432 – صحیح الجامع 144
اور ساتوں کے یکے بعد دیگرے شمار کرتے ہوئے پہلے الشرك بالله اور دوسرے نمبر پر السحر یعنی جادو کا نام لیا۔
مسند بزار ص 169 – طبرانی 162/18 – مجمع الزوائد 117/5 – صحیح الجامع 5335 – الصحیحہ 2195
اور معجم اوسط، مسند بزار اور حلیة الاولیاء ابونعیم میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے۔ جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ليس منا فرما کر جن لوگوں کو اسلام سے خارج قرار دیا ہے۔ ان میں سے ہی دو یہ ہیں۔
اور سنن ترمذی میں مرفوعاً مروی ہے، جسے امام ترمذی رحمہ اللہ نے موقوفاً مروی ہونا ہی صحیح قرار دیا ہے کہ انہوں نے فرمایا:
حد الساحر ضربه بالسيف
”جادوگر کی سزا تلوار سے گردن کاٹنا ہے۔“
فتح المجید ص 242، طبع الریاض – ضعیف ترمذی 244 – ملاحظہ ہو ہماری کتاب قبولیت عمل کی شرائط ص 109
اور اس کی تائید صحیح بخاری میں مروی اس اثر فاروقی سے ہوتی ہے جس میں ہے:
كتب عمر بن الخطاب رضى الله عنه إن اقتلوا كل ساحر وساحرة
”ہر جادوگر مرد و زن کو قتل کر دو۔“
ملاحظہ ہو قبولیت عمل کی شرائط ص 109 مصنف عبدالرزاق 8752
اور موطا امام مالک میں ام المؤمنین حضرت حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا کے بارے میں مروی ہے کہ ان کی ایک کنیز نے ان پر جادو کا وار کیا تھا، تو ان کے کہنے پر اس جادوگرنی کو قتل کر دیا گیا تھا۔
غرض ان تینوں صحابہ کے علاوہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ، عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما، جندب بن کعب رضی اللہ عنہ اور حضرت قیس بن سعد رضی اللہ عنہ سے ساحر کی سزا قتل مروی ہے۔ اور پانچویں خلیفہ راشد حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ، اسی طرح امام ابو حنیفہ، امام مالک اور احمد بن حنبل رحمہم اللہ نے بھی جادوگر کی سزا قتل ہی قرار دی ہے۔
فتح المجید ص 243، 244 – تفسیر ابن کثیر 179/1 مترجم اردو، طبع تعمیر انسانیت لاہور
یہی حال نجومیوں، جوتشیوں، قیافہ شناسوں، رمل فال والوں، سیانوں اور کاہنوں کا بھی ہے۔ بلکہ ان سب کو بھی جادوگروں کی اقسام ہی قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ اور ابن حبان و مسند احمد میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ارشاد نبوی ہے:
من اقتبس شعبة من النجوم فقد اقتبس شعبة من السحر زاد ما زاد
”جس شخص نے علم نجوم کا کوئی حصہ بھی حاصل کیا اس نے گویا جادو سیکھا، اور جس قدر زیادہ سیکھتا جائے گا، اتنا ہی اس کے گناہ میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔“
صحیح ابی داؤد 33۔5، ابن ماجہ 3726 – مسند احمد 311/1 – الصحیحہ 793 – صحیح الجامع 6074 – مسند احمد 477/3 – سنن ابی داؤد 3907، ابن حبان 1466 – ضعیف الجامع 3904 – اس حدیث کی سند میں ایک راوی حیان بن علاء ہے، جن کی توثیق ابن حبان کے بغیر کسی دوسرے نے نہیں کی، اس (حیان) کے علاوہ اس حدیث کی سند کے تمام راوی ثقہ ہیں۔ تخریج ریاض الصالحین ص 637 حدیث 1968
ایسے ہی ابو داؤد و نسائی اور ابن حبان میں ہے:
إن القيافة والطرق والطيرة من الجبت
”پرندوں کو اڑانے، زمین وغیرہ پر لکیریں کھینچنے سے فال لینا اور قیافہ شناسی کرنا یہ سب جبت و جادو ہے۔“
اور علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے الزواجر جلد دوم ص 109، 110 پر ان تمام امور کو گناہ کبیرہ شمار کیا ہے۔
غرض ایسے افعال والے لوگوں کو مسجد کے حجروں سے نکال کر باہر کرنا چاہیے۔ تقدس اور احترام مسجد کا یہی تقاضا ہے۔ بعض لوگ جادو کو محض نظر بندی اور نگاہوں کا فریب قرار دیتے ہوئے اس کی حقیقت کا ہی انکار کر دیتے ہیں۔ ان کی اس بات کا جامع و مانع جواب، اور ان کے ذکر کیے گئے تمام امور و امراض کی تفصیلات ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں۔ اور ہماری شائع ہونے والی کتاب ”قبولیت عمل کی شرائط “حصہ اول کے ص 102، 126 پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ لہذا یہاں ان کے اعادے کی ضرورت نہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے