مسجد میں بے وضو بیٹھنے کا حکم – احادیث کی روشنی میں وضاحت
یہ اقتباس الشیخ محمد منیر قمر کی کتاب احکام مساجد سے ماخوذ ہے۔

مسجد میں بے وضو ہونا

یہاں بعض لوگوں کی ایک غلط فہمی کا ازالہ بھی کرتے جائیں، جو لوگ یہ سمجھتے اور کہتے ہیں کہ بلاوضو مسجد میں داخل ہونا، یا بے وضو مسجد میں بیٹھنا اور رہنا منع ہے۔ اور انہوں نے بے وضو شخص کو جنبی سے ہی ملا دیا۔ ان کی یہ بات تشدد پر مبنی ہے۔ کیونکہ مسجد میں کھانے پینے اور خصوصاً سونے کے جواز کا پتہ دینے والی احادیث ان کی تردید کر رہی ہیں۔ اور صحیح بخاری میں ان کے اس نظریہ کی تردید کے لئے باقاعدہ ایک باب باندھا ہے:
باب الحدث فى المسجد
یعنی مسجد میں حدث یا بے وضو ہونے کا بیان
اور اس باب کے تحت جو حدیث وارد کی ہے وہ صحیح مسلم، صحیح ابن خزیمہ، ابو داؤد و نسائی اور مسند احمد میں بھی ملتے جلتے الفاظ سے ہے۔ اس میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:
الملائكة تصلي على أحدكم ما دام فى مصلاه الذى صلى فيه ما لم يحدث
اللہ کے فرشتے تم میں سے جب کوئی جانماز (مسجد) میں ہی رہے جہاں اس نے نماز پڑھی ہو اس کے لئے دعائے رحمت کرتے رہتے ہیں۔ اور یہ تب تک ہے جب تک کہ وہ بے وضو نہ ہو جائے۔
اور آگے فرمایا کہ فرشتے اس کے لئے یہ دعا کرتے ہیں:
اللهم اغفر له اللهم ارحمه
بخاری 538/1 – صحیح الجامع 21/6/3 – صحیح ابی داؤد 444 -مسلم مع نووی 166/5/3 – صحیح نسائی 707 – ابن ماجہ 799
اے اللہ! اسے بخش لے، اے اللہ! اس پر رحم فرما۔

لفظ حدث کی تشریح:

لفظ حدث کی تشریح صحیح بخاری کے ایک دوسرے مقام یعنی باب لا تقبل صلاة بغير طهو کے تحت وارد کی گئی حدیث میں جو کہ صحیح ابو داؤد و مسند احمد اور مصنف عبدالرزاق میں بھی ہے۔ اس میں خود حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:
لا تقبل صلاة من أحدث حتى يتوضأ
حدث والے آدمی کی نماز قبول نہیں ہوتی، جب تک کہ وہ وضو نہ کر لے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان کی تو حضرموت کے کسی آدمی نے پوچھا:
ما الحدث يا أبا هريرة؟
اے ابو ہریرہ! حدث کیا ہے؟
تو انہوں نے جواباً فرمایا:
فساء أو ضراط
بخاری مع الفتح 234/1 – صحیح الجامع 165/6/3 – مسلم 166/5/3 -صحیح ابی داؤد 446
پھسکی یا گوز (یعنی بلا آواز یا آواز کے ساتھ پیٹ سے اخراج ہو)۔
تو معلوم ہوا کہ حدث سے مراد محض ہوا کے خروج سے بے وضو ہونے والا شخص ہے نہ کہ جنبی شخص۔
انظر فتح الباری 538/1-5

مصلیٰ سے مراد:

اور جس طرح اس حدیث اول میں وارد لفظ حدث کی تشریح دوسری نے کر دی ہے۔ اسی طرح ہی اس پہلی حدیث میں وارد لفظ مصلاہ یعنی جانماز کی تشریح کے لئے بھی ایک دوسری حدیث معاون ہو سکتی ہے۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں مصلاہ سے مراد صرف یہی نہیں کہ نماز پڑھ کر وہ شخص اس جگہ پر ہی بیٹھا رہے تبھی اس کے لئے یہ فضیلت ہے۔ بلکہ یہ فضیلت ہر اس شخص کے لئے ہے جو نماز سے فارغ ہو کر مسجد میں ہی رہے، چاہے اپنی نماز کی جگہ سے اٹھ کر وہ کسی دوسری جگہ ہی کیوں نہ جا بیٹھے۔ تو گویا مصلاہ یا جانماز سے یہاں مسجد مراد ہے۔ اور یہ فضیلت ہر اس شخص کے لئے ہے جو نماز پڑھ کر دوسری نماز کے انتظار میں باوضو بیٹھا رہے۔
جیسا کہ صحیح بخاری کتاب الصلوة، باب من جلس في المسجد ينتظر الصلوة میں، ایسے ہی صحیح مسلم، ابو داؤد اور دیگر کتب حدیث میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے نماز کے انتظار میں بیٹھنے والے شخص کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
ولا يزال فى صلاة ما انتظر الصلاة
بخاری 142/2 – مسلم مع نووی 166/5/3 – صحیح ابی داؤد 466 -صحیح ترمذی 271
وہ شخص جب تک نماز کے انتظار میں رہے گا، وہ ایسے ہی شمار ہوگا جیسے وہ نماز ہی پڑھتا جا رہا ہے۔
اس حدیث میں ہر اس آدمی کے لئے فضیلت وارد ہوئی ہے جو نماز کے انتظار میں مسجد میں رہے۔ وہ اپنی جانماز پر ٹکا رہے، یا کچھ ادھر ادھر ہو جائے۔ اسی طرح حدیث اول میں بھی مصلاہ سے مراد مسجد ہے۔ جانماز نہیں۔ اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وضو ختم ہو جانے کے بعد فرشتوں کی دعائیں بھی منقطع ہو جاتی ہیں۔ اب چاہے وہ اس جگہ ہی کیوں نہ بیٹھا رہے۔
از افادات حافظ ابن حجر – فتح الباری 538/1
البتہ مسجد میں دل لگا کر بیٹھے رہنے کا مقام اور مرتبہ اپنی جگہ ہے اور وہ بے وضو ہونے کی صورت میں بھی حاصل رہے گا۔ یاد رہے کہ مسجد میں ہوتے ہوئے اخراج ہوا سے ہر ممکن پرہیز ہی کرنا چاہئے تاکہ لوگوں کو تکلیف نہ ہو۔ اور تقدس و احترام مسجد بھی اسی کا تقاضا کرتے ہیں۔ لیکن یہ بھی نہیں کہ یہ قطعاً ناجائز و حرام ہے۔ جیسا کہ مسجد میں سونے کے جواز والی احادیث سے ہی اس کی اباحت واضح ہے۔ البتہ یہ فعل ناپسندیدہ سا ہے۔ لہذا علامہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ کی تحقیق اور ابن میسب، حضرت حسن بصری اور امام غزالی کے قول کے مطابق زیادہ سے زیادہ اسے مکروہ تنزیہی کہا جا سکتا ہے۔
حاشیة فتح الباری 539/1 – وانظر ایضاً اعلام الساجد 301،304 -و كرهه ابن المسیب والحسن والغزالی

مسجد میں بے وضو داخل ہونا:

مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ اور حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے بے وضو آدمی کے بارے میں فرمایا:
يمر فى المسجد مارا ولا يجلس فيه
بحوالہ اعلام المساجد للزركشي ص 301
وہ مسجد سے گزرتا ہوا نکل جائے لیکن اس میں بیٹھے نہیں۔
اور یہ حکم جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں۔ جنبی والا ہے جس میں کسی قدر شدت پائی جاتی ہے۔ یہاں مسئلہ جائز و ناجائز کا نہیں، بلکہ اولیٰ و غیر اولیٰ کا ہے۔ جیسا کہ شیخ ابن باز کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے۔ اور مسجد میں بے وضو داخل ہونے کے غیر اولیٰ یا ناپسندیدہ ہونے کی دلیل کے طور پر وہ حدیث پیش کی جا سکتی ہے۔ جو صحیحین و سنن اربعہ، صحیح ابی عوانہ، دارمی، بیہقی، موطا امام مالک اور مسند احمد میں حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے اور ابن ماجہ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ جس میں ارشاد نبوی ہے:
إذا دخل أحدكم المسجد فلا يجلس حتى يصلي ركعتين
بخاری 444 – مسلم مع نووی 225/5/3 – صحیح ابی داؤد 442 -صحیح الترمذی 261 – صحیح نسائی 708 – ابن ماجہ 1012 -موطا امام مالك 162/1 حدیث 57
تم میں سے جب کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تو وہ دو رکعتیں پڑھے بغیر نہ بیٹھے۔
اور جب مسجد میں داخل ہونے والا، نماز پڑھنے پر مامور ہے تو وہ نماز کی شرط یعنی وضو پر بھی مامور ہوگا۔ لہذا باہر سے مسجد میں داخل ہونے والے کے لئے وضو کی اہمیت اس شخص کی نسبت زیادہ ہے جو باوضو مسجد میں گیا اور تا دیر مسجد میں بیٹھا رہا اور کسی وقت اس کا وضو ٹوٹ گیا۔ کیونکہ ایسا شخص دو رکعتوں پر مامور نہیں ہے۔
غرض تقدس و احترام مسجد کی خاطر باوضو ہو کر مسجد میں داخل ہونا اور باوضو رہنے کی کوشش کرنا افضل ہے۔ ورنہ بے وضو کے لئے عدم جواز کی کوئی بات نہیں۔ کیونکہ اصحاب صفہ رضی اللہ عنہ مسجد میں ہی سویا کرتے تھے۔
اور جو شخص باہر سے مسجد میں جائے تو چلتے چلتے کسی کو دیکھ کر نکل آئے تو اسے وضو کرنے یا نہ کرنے میں اختیار ہے۔ اگرچہ ابو داؤد کے الفاظ کی رو سے تو یہ گنجائش بھی نہیں ملتی، کیونکہ اس میں ہے:
ثم ليقعد بعد إن شاء الله أو ليذهب لحاجته
للتفصيل اعلام الساجد للزركشي ص 301،304 و حاشیة فتح الباریباشراف شیخ ابن باز 539/1
پھر وہ چاہے تو مسجد میں بیٹھ رہے یا اپنے کام سے چلا جائے۔
لیکن اگر بیٹھنے کا خیال نہیں تو رعایت ہو سکتی ہے۔ البتہ جو مسجد میں جا کر کسی وجہ سے کچھ دیر بیٹھنا چاہے تو افضل و احوط یہی ہے کہ وہ وضو کر کے مسجد میں داخل ہو۔ اس طرح مسجد میں بے وضو داخل ہونے اور مسجد میں داخل ہو کر بے وضو ہو جانے کے مابین فرق بھی ہو جاتا ہے۔
صحیح ابی داؤد 443 – ارواء الغلیل ایضاً

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے