مسجد حرام میں جوتوں سمیت چلنے کا حکم
سوال:
مسجد حرام کی زمین پر جوتوں سمیت چلنے والوں کے بارے میں کیا حکم ہے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مسجد حرام کی زمین پر جوتوں سمیت چلنا درست نہیں ہے، کیونکہ یہ عمل ان لوگوں کے لیے راستہ کھول دیتا ہے جو مسجد کا ادب و احترام نہیں کرتے۔ ایسے افراد بعض اوقات جوتے پہن کر اور پانی کے ساتھ گیلے جوتے لیے مسجد میں داخل ہو جاتے ہیں، جس سے یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ ان کے جوتے نجاست سے آلودہ ہوں، اور وہ مسجد کو بھی ناپاک کر دیں۔
شریعت کا اصول
اسلامی شریعت کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ:
"اگر کسی چیز کے کرنے سے خرابی جنم لے سکتی ہو تو اس چیز کو ترک کر دینا واجب ہے۔”
علماء کے نزدیک یہ قاعدہ معروف ہے کہ:
"جب کسی معاملے میں فائدہ اور نقصان دونوں پہلو موجود ہوں اور دونوں برابر ہوں یا نقصان کا پہلو زیادہ غالب ہو تو ایسی صورت میں نقصان کو ختم کرنا فائدہ حاصل کرنے سے زیادہ اہم ہوتا ہے۔”
نبی کریم ﷺ کی حکمت عملی
رسول اللہ ﷺ نے کعبہ شریف کو گرا کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بنیادوں پر دوبارہ تعمیر کرنے کا ارادہ فرمایا تھا۔ مگر چونکہ اس وقت لوگ نیا نیا اسلام میں داخل ہوئے تھے اور ابھی کفر سے باہر نکلے تھے، اس لیے آپ ﷺ نے اس ارادے کو ترک کر دیا تاکہ کسی فتنہ یا فساد کا اندیشہ نہ ہو۔
آپ ﷺ نے اس موقع پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:
((لَوْلَا أَنَّ قَوْمَكِ حَدِيثُو عَهْدٍ بِكُفْرٍ لَهَدَمْتُ الْكَعْبَةَ وَبَنَيْتُهَا عَلَىٰ قَوَاعِدِ إِبْرَاهِيمَ، وَجَعَلْتُ لَهَا بَابَيْنِ: بَابًا يَدْخُلُ النَّاسُ مِنْهُ، وَبَابًا يَخْرُجُونَ مِنْهُ))
(صحیح البخاري، الحج، باب فضل مکة وبنائها، ح: ۱۵۸۶، و صحیح مسلم، الحج، باب نقض الكعبة وبنائها، ح: ۱۳۳۳)
ترجمہ:
"اگر یہ بات نہ ہوتی کہ تمہاری قوم نے کفر کو نیا نیا چھوڑا ہے تو میں کعبہ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بنیادوں پر استوار کر دیتا اور اس کے دو دروازے بنا دیتا، ایک سے لوگ داخل ہوتے اور دوسرے سے باہر نکلتے۔”
ھذا ما عندي، والله أعلم بالصواب