مسجد امام کی تنخواہ زکوٰۃ یا قربانی کی کھالوں سے دینا جائز ہے؟
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ، جلد 1، صفحہ 562

سوال

زیر تعمیر جامع مسجد شہدائے اہل حدیث منڈی بہاؤالدین میں مقامی بچوں کے لیے ایک مدرسہ قائم ہے۔ قاری صاحب امامت کے ساتھ ساتھ بچوں کو تعلیم القرآن بھی دیتے ہیں۔ مسجد کے آس پاس زیادہ تر حنفی گھرانے آباد ہیں، جماعت چھوٹی ہے اور مستقل طور پر ہر ماہ تنخواہ دینا بہت دشوار ہے۔ ایسی صورت میں کیا قاری صاحب کی تنخواہ قربانی کی کھالوں یا زکوٰۃ فنڈ سے دی جا سکتی ہے یا نہیں؟ براہ کرم کتاب و سنت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

◈ جمہور مفسرین کے نزدیک مسجد کی تعمیر وغیرہ "فی سبیل اللہ” میں شامل نہیں۔

◈ تاہم امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
"واعلم ان ظاھر اللفظ فی قوله تعالیٰ (فی سبیل اللہ) لأیوجب القصر علی کل الغزاة فلھذا المعنی نقل الققال فی تفسیرة عن بعض الفقھاء أنھم اجازوا صرف الصدقات الی جمیع وجوہ الخیر من تکفین الموتی وبناء الحصون وعمارۃ المساجد لان قوله (فی سبیل اللہ) عام فی الکل۔ انتھی عبارة الفجر۔”

◈ نیز انس رضی اللہ عنہ اور حسن رحمہ اللہ کا قول ہے:
"وَقَالَ انس والحَسنُ ما اعطبت فِی الجسُور والطرق فھی صدقة ماضیه۔”

ان عبارتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ زکوٰۃ کو مسجد کی تعمیر اور اس کے مفاد میں خرچ کیا جا سکتا ہے اور بعض فقہاء اس کے جواز کے قائل ہیں۔

فقہاء کی تائید

◈ امام فخرالدین رازی رحمۃ اللہ علیہ
◈ صاحب کتاب الارض النفیر
◈ صاحب کتاب المرشدنی احکام الزکوۃ

یہ سب اس بات کے مؤید ہیں کہ ایسے وجوہِ خیر جن میں "تملیک” موجود نہیں، ان پر زکوٰۃ صرف کرنا جائز ہے۔

صورتِ مسئولہ

لیکن موجودہ مسئلہ اس سے مختلف ہے کیونکہ:

◈ پیش امام کو اگر زکوٰۃ یا قربانی کی کھالیں دی جائیں تو یہ تنخواہ اور امامت کے معاوضے کے طور پر شمار ہوگا۔
◈ اس صورت میں ایک شبہ پایا جاتا ہے کہ زکوٰۃ دہندگان اپنی زکوٰۃ اپنے امام پر خرچ کر کے دراصل خود پر خرچ کر رہے ہیں۔
◈ اسی طرح تعلیم بھی چونکہ ان کے اپنے بچوں کو دی جا رہی ہے تو اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اپنی زکوٰۃ اپنے ہی بچوں پر صرف کر رہے ہیں، جو کہ درست نہیں۔

اصل حکم

◈ لہٰذا امام کی تنخواہ زکوٰۃ یا قربانی کی کھالوں کے بجائے اپنے اصل مال سے ادا کرنی چاہیے۔
◈ کیونکہ زکوٰۃ کے علاوہ بھی مال میں اللہ کا حق ہے، جیسا کہ حدیث میں فرمایا گیا:
"فی المال حق سوی الزکوٰۃ”
(یعنی فرض زکوٰۃ کے علاوہ بھی مال میں اللہ تعالیٰ کا حق ہے)

نتیجہ

احتیاط اسی میں ہے کہ امام کی تنخواہ زکوٰۃ یا قربانی کی کھالوں سے ادا کرنے کے بجائے اپنے ذاتی اور دیگر ذرائع سے ادا کی جائے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے