مسجدوں کی تعمیر میں کافروں سے کام لینے کا حکم
سوال: مساجد کی تعمیر میں کافروں سے کام لینے کا کیا حکم ہے؟
جواب: کافروں کو مسجد میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دینی چاہئیے اس لیے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ”اقتضاء الصراط المستقیم“ میں بیان کیا ہے کہ حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس عراق کا حساب لے کر آئے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم اپنے منشی کو بلاؤ کہ وہ پڑھ کر سنائے انہوں نے کہا: وہ مسجد میں داخل نہیں ہوگا ، وہ عیسائی ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں کوڑے سے مارنا چاہا اور اگر وہ کوڑا فی الواقع ان پر پڑتا تو تکلیف دہ ہوتا اور فرمایا کہ تم ان کو عزت نہ دو حالانکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں رسوا و ذلیل کیا ہے اور تم ان کو سچا مت سمجھو اللہ نے ان کو جھوٹا قرار دیا ہے ۔ اور تم انہیں امانت دار نہ سمجھو جب کہ اللہ پاک نے انہیں خائن قرار دیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ الخ“
اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کو نا پاک قرار دیا ہے اور انہیں مسجد حرام کے قریب ہونے سے روکا ہے ۔ علماء کرام نے استدلال کیا کہ مشرکوں کو پورے حرم سے دور رکھا جائے کیوں کہ انہیں مسجد سے قریب ہونے سے منع کیا گیا ہے ۔ اور اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ مشرکوں کی نجاست معنوی ہے جو کہ عقائد کی خرابی کی وجہ سے ہے اور وہ اپنے دلوں میں مسلمانوں کے لیے کینہ کیے اور بغض رکھتے ہیں نیز ان کا یہ عقیدہ ہے کہ اسلام ایک باطل دین ہے اور مسلمانوں کا نبی جھوٹا ہے اور یہ کہ اسلام نے انہیں ذلیل و خوار کیا ہے اور یہودی اور عیسائی مذہب کو ضعیف و کمزور کیا ہے لہٰذا کوئی شبہ نہیں کہ وہ اس بات کی بھرپور کوشش میں ہیں کہ وہ مسلمانوں کے خلاف سازش اور مکر و فریب کریں ، تاکہ مسلمانوں کو ان کے دین سے نکال باہر کریں ۔ اسی بناء پر کافروں اور مشرکوں کا مسجدوں میں داخل ہونا جائز نہیں ، اس لیے کہ وہ اس کے حق دار نہیں ہیں ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِينَ أَن يَعْمُرُوا مَسَاجِدَ اللَّهِ . . .﴾ [التو بة: 17]
”مشرکین کے یہ لائق نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مسجدوں کو آباد کریں ۔ ۔ ۔“
ہاں ! لیکن واضح رہے کہ یہاں لفظ ”عمارۃ“ سے مراد عبادت و طاعت ہے ۔ کفار اس زمانہ میں مسلمانوں کے ملکوں پر غلبہ حاصل کر چکے ہیں اور یہ فتنہ عام ہو چکا ہے اور وہ بہت سے اداروں اور کمپنیوں کے مالک بن چکے ہیں ، تعمیری کام اور عام و خاص منصوبے مکمل کر رہے ہیں ۔ ان جملہ کاموں میں سے کبھی کبھی مسجدوں کی تعمیر کا کام بھی ان کے حوالے کر دیا جاتا ہے ۔ اور کبھی کبھی خصوصی کام بھی انجام دیتے ہیں ، مثلاً ڈیزائننگ ، انجینئرنگ ، بجلی کا کام اور کام کی نگرانی وغیرہ سبھی کام شامل ہوتے ہیں ۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جو کام صرف مسلمانوں کو کرنے چاہئیے تھے وہ کافروں کے سپرد کرنا بہت بڑی غفلت اور ستی ہے ، اور یہ بات بھی معلوم ہے کہ ایسے مسلمان موجود ہیں جو اِن کاموں کو بحسن و خوبی انجام دے سکتے ہیں ۔
لیکن ادارے والوں اور کمپنی والوں کا خیال و تصور ہے کہ مسلمان کمزور ہیں اور ان کا علم بھی ناقص ہے اور وہ ان کاموں کو اچھے ڈھنگ اور مضبوطی و پختگی سے نہیں کر سکتے اور یہ بہت بڑی غلطی ہے ۔ مسلمان فائد ہ اٹھانے کا زیادہ حق دار ہے حالانکہ مسلمان کے اندر اخلاص زیادہ پایا جاتا ہے اور وہ قابل اعتماد اور صاحب امانت بھی ہے واللہ اعلم !