اعتراض کی حقیقت
مستشرقین نے ایک گمراہ کن نظریہ پیش کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ حضرت محمد ﷺ پر وحی نازل نہیں ہوتی تھی بلکہ معاذ اللہ آپ مرگی کے مریض تھے، اور مرگی کے دورے کے بعد جو باتیں آپ ﷺ فرماتے، وہی لوگوں نے وحی سمجھ لی۔ یہ اعتراض انتہائی سطحی اور بے بنیاد ہے جسے علمی و تحقیقی طور پر رد کیا جا چکا ہے۔
➊ مستشرقین کے اعتراض کی بنیاد
- مستشرقین نے اپنے دعوے کے حق میں کوئی مستند روایت یا ثبوت پیش نہیں کیا۔
- ضعیف اور کمزور روایات کو بنیاد بنا کر بے جا استدلال کیا۔
- صحیح اور متفق علیہ احادیث کو نظرانداز کیا۔
➋ مستشرقین کی نفرت اور علمی خیانت
مستشرقین کی اسلام دشمنی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ وہ اپنے تعصبات کی بنیاد پر جھوٹے الزامات لگاتے ہیں۔ مثال کے طور پر:
- حضرت آمنہؓ کو دی گئی خوشخبری کو مرگی کے موروثی مرض سے تعبیر کیا۔
- واقعہ شق صدر کو مرگی کا حملہ قرار دیا۔
- نزولِ وحی کی کیفیت کو مرگی کی حالت کہہ دیا۔
➌ نزولِ وحی کی کیفیات: صحیح احادیث کی روشنی میں
مستشرقین کے دعووں کے برعکس، صحیح احادیث میں رسول اللہ ﷺ پر وحی کے نزول کی مختلف کیفیات کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے:
حضرت جبرائیل علیہ السلام کی اصلی صورت میں زیارت:
- حضرت جبرائیل علیہ السلام اپنی اصلی صورت میں صرف تین مرتبہ دکھائی دیے:
- ایک مرتبہ آپ ﷺ کی درخواست پر۔
- دوسری مرتبہ واقعہ معراج میں۔
- تیسری بار ابتدائی ایام میں مکہ کے مقام اجیاد پر۔
(فتح الباری، 1/118)
وحی کی آواز محسوس ہونا:
حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ جب آپ ﷺ پر وحی نازل ہوتی، تو آپ کے چہرے کے قریب شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ جیسی آواز سنائی دیتی تھی۔
(مسند احمد، کتاب السیرۃ النبویۃ، 2/212)
براہِ راست ہمکلامی:
اللہ تعالیٰ سے براہ راست ہمکلامی کا شرف آپ ﷺ کو معراج کے موقع پر بیداری کی حالت میں حاصل ہوا۔
(الاتقان، 1/46)
قلبِ مبارک میں القاء:
بعض اوقات حضرت جبرائیل علیہ السلام سامنے آئے بغیر آپ ﷺ کے قلبِ مبارک میں بات القاء کرتے تھے، جسے "نفث فی الرّوع” کہا جاتا ہے۔
(الاتقان، 1/46)
وحی کا سخت بوجھ:
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ سردیوں کے دنوں میں بھی جب وحی نازل ہوتی، تو آپ ﷺ کی پیشانی پسینے سے شرابور ہو جاتی تھی۔
(الاتقان، 1/446)
جانور یا انسان پر بوجھ:
وحی کے دوران آپ ﷺ پر اتنا بوجھ پڑتا کہ اگر آپ کسی جانور پر سوار ہوتے، تو وہ بوجھ کی شدت سے بیٹھ جاتا۔
(زاد المعاد، 1/18)
➍ مرگی کے اعتراض کا تفصیلی رد
مرگی کی علامات:
مرگی ایک دماغی بیماری ہے جس کی علامات درج ذیل ہیں:
- اچانک بے ہوشی اور جھٹکے۔
- جسم کا اکڑ جانا۔
- منہ میں جھاگ آنا۔
- یادداشت کا مکمل خاتمہ۔
- زبان کٹ جانا یا بے قابو باتیں کرنا۔
(ماہر نیورولوجی ڈاکٹر وہاج الدین احمد، نارتھ کیرولائنا)
وحی اور مرگی کا تقابل:
- مرگی کے مریض کو دورے کے دوران یا بعد کی کوئی بات یاد نہیں رہتی، جب کہ رسول اللہ ﷺ پر نازل ہونے والی وحی نہ صرف یاد رہتی بلکہ آپ ﷺ حرف بہ حرف قرآن صحابہ کو املا کرواتے۔
- مرگی کے مریض کے کلام میں کوئی تسلسل یا فصاحت نہیں ہوتی، جب کہ قرآن ایک بے مثال اور معجزانہ کلام ہے، جس کی فصاحت و بلاغت کو عرب کے عظیم شعراء نے بھی تسلیم کیا۔
(الخصائص الکبریٰ للسیوطی، 1/113)
➎ مستشرقین کے کمزور دلائل
- مستشرقین نے ایک کمزور اور غریب روایت کو بنیاد بنا کر یہ الزام لگایا کہ آپ ﷺ جبرائیل علیہ السلام کی اصلی صورت دیکھ کر بے ہوش ہو گئے اور منہ سے جھاگ نکلنے لگا۔
- اس روایت کو علمائے اسلام نے ضعیف اور موضوع قرار دیا ہے۔
(فتح الباری، 1/118)
➏ مستشرقین کا دہرا معیار
- حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کا تجلی ربّی دیکھ کر موت کا شکار ہونا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا بے ہوش ہونا مستشرقین تسلیم کرتے ہیں، لیکن رسول اللہ ﷺ پر وحی کی کیفیت کو مرگی سے تعبیر کرنا ان کی تعصب کی انتہا ہے۔
➐ اسلامی روایات کا مستند جواب
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب وحی کا سلسلہ شروع ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے ایک فرشتے کو آسمان اور زمین کے درمیان دیکھا۔ آپ ﷺ گھر واپس آئے اور کہا: "مجھے کپڑا اوڑھا دو”، پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں:
(يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ () قُمْ فَأَنذِرْ () وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ () وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ)
’’اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے!
اٹھو اور (لوگوں کو) خبردار کرو،
اور اپنے رب کی بڑائی بیان کرو،
اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھو۔‘‘
(صحیح بخاری، جلد دوم، حدیث 481)
➑ مستشرقین کے اعتراض کی تردید
- رسول اللہ ﷺ پر وحی نازل ہوتے وقت کیفیات کی جو تفصیلات صحیح احادیث میں موجود ہیں، وہ مرگی کی علامات سے کوئی مشابہت نہیں رکھتیں۔
- 23 سال تک مختلف اوقات میں نازل ہونے والا قرآن کریم اپنی ترتیب، فصاحت و بلاغت اور علمی معجزات کے باعث کسی عام انسان کا کلام نہیں ہو سکتا۔
- آپ ﷺ کے ماننے والوں میں عرب کے بڑے شعراء، حکما، اور اہلِ علم شامل تھے، جنہوں نے کبھی آپ ﷺ کی وحی کو مرگی یا کسی بیماری سے تعبیر نہیں کیا۔
خلاصہ
مستشرقین کے اعتراضات علمی کمزوری، تعصب اور بدنیتی پر مبنی ہیں۔ صحیح احادیث اور تاریخی شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ وحی کی کیفیت مرگی کے کسی بھی پہلو سے مطابقت نہیں رکھتی۔ قرآن مجید کا فصیح و بلیغ کلام اور اس کی تاثیر اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے، نہ کہ کسی انسان کا۔