سوال :
جو شخص یہ کہے کہ مسافر کے لیے نماز پوری پڑھنا ہی واجب ہے، قصر جائز نہیں،اس کا کیا حکم ہے؟
جواب :
کتاب وسنت اور اجماع امت سے ثابت ہے کہ مسافر نماز قصر کر سکتا ہے، البتہ اگر مقیم امام کی اقتدا میں نماز پڑھے، تو پوری پڑھے گا۔ جو مسافر کے لیے نماز پوری پڑھنے کو واجب سمجھے، وہ سخت گمراہ ہے اور جو جانتے بوجھتے کلی طور پر قصر نماز کا انکار کرے، وہ مرتد کافر ہے، کیونکہ اس نے قرآنی آیات، احادیث متواترہ اور اجماع امت کا انکار کیا ہے، جو کہ کفر ہے۔
❀ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728 ھ) فرماتے ہیں :
من قال : إنه يجب على كل مسافر أن يصلي أربعا فهو بمنزلة من قال : إنه يجب على المسافر أن يصوم شهر رمضان، وكلاهما ضلال ، مخالف لإجماع المسلمين، يستتاب قائله، فإن تاب وإلا قتل ، والمسلمون متفقون على أن المسافر إذا صلى الرباعية ركعتين، والفجر ركعتين، والمغرب ثلاثا، وأفطر شهر رمضان وقضاه أجزأه ذلك .
”جس نے یہ کہا کہ ہر مسافر کے لیے (ظہر، عصر اور عشاء) چار رکعت ادا کرنا واجب ہے، تو وہ اس شخص کی طرح ہے، جو مسافر کے لیے ماہِ رمضان کے روزے رکھنا واجب سمجھتا ہے۔ یہ دونوں گمراہ اور مسلمانوں کے اجماع کے مخالف ہیں ، ایسی بات کہنے والے کو توبہ کرائی جائے گی، توبہ کرلے، تو درست ، ورنہ ( ارتداد کی حد میں) قتل کر دیا جائے گا۔ مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ مسافر اگر چار رکعت والی نماز کو دو رکعت نماز فجر کی دورکعت نماز مغرب کی تین رکعت ادا کر لے اور ماہِ رمضان کے روزے چھوڑ دے اور ( بعد میں روزوں کی) قضا کرلے، تو اس کے لیے ایسا کرنا جائز ہے۔“
(مجموع الفتاوى : 31/22)