مساجد سے متعلق احکام و فضائل صحیح احادیث کی روشنی میں
یہ اقتباس مکتبہ دارالاندلس کی جانب سے شائع کردہ کتاب صحیح نماز نبویﷺ سے ماخوذ ہے جو الشیخ عبدالرحمٰن عزیز کی تالیف ہے۔

مساجد کا بیان:

❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أحب البلاد إلى الله تعالى مساجدها
”اللہ تعالیٰ کے ہاں تمام جگہوں سے زیادہ محبوب جگہ مسجد ہے۔“
[مسلم، كتاب المساجد، باب فضل الجلوس في مصلاه بعد الصبح وفضل المساجد: 671]

تعمیر مسجد کی فضیلت:

❀ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ
(سورۃ التوبة: 18)
”اللہ کی مسجدیں تو وہی آباد کرتا ہے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لایا۔“
❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جو اللہ کی رضا کی خاطر مسجد تعمیر کرتا ہے تو اللہ اس کے لیے جنت میں ویسا ہی گھر تعمیر فرماتا ہے۔“
[بخاری، کتاب الصلاة، باب من بنى مسجدا: 450 – مسلم: 533]
❀ اور ایک دوسری جگہ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
”جس نے پرندے کے گھونسلے کے برابر، یا اس سے بھی چھوٹی مسجد تعمیر کر دی، اللہ اس کا گھر جنت میں بنائے گا۔“
[ابن ماجه، كتاب المساجد والجماعة، باب من بنى لله مسجدا: 738 – صحیح]
علماء نے اس کا معنی یہ کیا ہے کہ کبھی مسجد میں پرندے کے گھونسلے کے برابر کام کی ضرورت تھی اور کسی شخص نے وہ کام کر دیا، یا کئی لوگوں نے مل کر ایک مسجد تعمیر کی اور ایک شخص کے حصہ میں ایک گھونسلا کے برابر، یا اس سے بھی کم جگہ آئی تو اس کے لیے بھی یہ فضیلت ہے۔

تعمیر مسجد کے آداب:

❀ مسجد محض اللہ کی رضا کے لیے بنانی چاہیے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن الله لا يقبل من العمل إلا ما كان له خالصا وابتغي به وجهه
”بلاشبہ اللہ تعالیٰ وہی عمل قبول کرتا ہے جو خالص اس کے لیے ہو اور جو خاص اس کی رضامندی کے لیے کیا جائے۔“
[نسائی، کتاب الجهاد، باب من غزا يلتمس الأجر والذكر: 3142 – صحیح]
❀ قبرستان میں مسجد تعمیر نہیں کرنی چاہیے، اگر قبرستان مشرکین وغیرہ کا ہو اور اسے ختم کر دیا جائے تو پھر مسجد کی تعمیر جائز ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی کی تعمیر کے وقت کیا۔
[بخاری، کتاب الصلاة، باب هل تنبش قبور مشركي الجاهلية: 428]
❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک لوگ مساجد میں تزئین و زیبائش نہ کرنے لگ جائیں (یعنی مساجد کی بلاضرورت تزئین قیامت کی علامت ہے)۔“
[ابو داود، كتاب الصلاة، باب في بناء المساجد: 449 – حسن]
❀ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی کی تعمیر کا حکم دیا اور فرمایا: ”میرا مقصد لوگوں کو بارش سے بچانا ہے اور مسجدوں پر سرخ یا زرد رنگ مت کرو کہ اس سے لوگ فتنہ میں پڑ جائیں گے۔“
[بخاری، کتاب الصلاة، باب بنيان المسجد، معلقًا، قبل الحديث: 446]
❀ مسجد میں قالین وغیرہ بھی سادہ ہوں، تاکہ نمازی کا خیال اس طرف نہ چلا جائے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے گھر میں ایک پردہ لٹکا رکھا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں فرمایا:
”اس پردے کو میرے سامنے سے ہٹا دو، کیونکہ اس کے نقش و نگار کی طرف نماز میں میرا دھیان چلا جاتا ہے۔“
[بخاری، کتاب الصلاة، باب إن صلى في ثوب مصلب: 374]
❀ مساجد میں ایسی گھڑیاں لگانا جو ہر گھنٹہ پر ناقوس کی طرح بجتی ہوں، جائز نہیں، کیونکہ یہ گرجا گھروں کے گھنٹوں کی مشابہت ہے۔
❀ کسی تہوار پر مسجد میں لائٹنگ کرنا اور اسے پھولوں، جھنڈیوں اور قمقموں سے سجانا بھی گرجا گھروں کی مشابہت ہے، لہذا اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔

مسجد کی خبر گیری کرنا:

مسجد کی خبر گیری اور آباد کاری آدمی کے ایمان کی علامت ہے۔
❀اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
إِنَّمَا يَعْمُرُ مَسْجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ
(سورۃ التوبة: 18)
”اللہ کی مسجدیں تو وہی آباد کرتا ہے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لایا۔“
❀ مسجد کی صفائی اور اس میں خوشبو کا انتظام کرنا چاہیے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم بناء المساجد فى الدور، وأن تنظف وتطيب
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محلوں میں مساجد بنانے، انھیں صاف کرنے اور وہاں خوشبو کا انتظام کرنے کا حکم دیا۔“
[ابو داود، كتاب الصلاة، باب اتخاذ المساجد في الدور: 455 – ابن ماجه: 758 – صحیح]

مسجد کی آباد کاری:

❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
سات قسم کے آدمیوں کو اللہ تعالیٰ قیامت والے دن اپنے سائے میں جگہ دے گا، جب اس کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہیں ہو گا . اور (ان میں سے) ایک وہ شخص جس کا دل مسجد کے ساتھ اٹکا ہوا ہے۔
[بخاری، کتاب الأذان، باب من جلس في المسجد ينتظر الصلاة: 660 – مسلم: 1031]
❀ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بشر المشائين فى الظلم إلى المساجد بالنور التام يوم القيامة
”اندھیرے میں مساجد کی طرف جانے والوں کو قیامت کے دن مکمل نور ملنے کی خوشخبری دو۔“
[ابن ماجه، کتاب المساجد، باب المشي إلى الصلاة: 781 – صحیح]
❀ صحیح بخاری میں فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
من غدا إلى المسجد وراح أعد الله له نزله من الجنة كلما غدا أو راح
”جو شخص صبح و شام مسجد میں بار بار جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ جنت میں (اتنی مرتبہ) اس کی مہمان نوازی کرے گا، وہ صبح و شام جب بھی مسجد میں جائے۔“
[بخاری، كتاب الأذان، باب فضل من غدا إلى المسجد: 662 – مسلم: 779]
❀ اور فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
جو شخص گھر سے اچھی طرح وضو کر کے مسجد کی طرف صرف نماز کی نیت سے جاتا ہے، نماز کے علاوہ اور کوئی چیز اسے لے جانے کا باعث نہیں بنتی، تو جو بھی قدم وہ اٹھاتا ہے اس سے ایک درجہ اس کا بلند ہوتا ہے، یا اس کی وجہ سے اس کا ایک گناہ معاف ہوتا ہے، اور جب تک کوئی شخص اس جگہ بیٹھا رہتا ہے جہاں اس نے نماز ادا کی ہے تو فرشتے برابر اس کے لیے رحمت کی دعائیں یوں کرتے ہیں: ”اے اللہ! اس پر اپنی رحمتیں نازل فرما، اے اللہ! اس پر رحم فرما۔“ یہ دعائیں اس وقت تک جاری رہتی ہیں جب تک وہ بے وضو نہیں ہوتا اور کسی کو کوئی تکلیف نہیں پہنچاتا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جتنی دیر تک کوئی آدمی نماز کی وجہ سے رکا رہتا ہے وہ سب وقت نماز ہی میں شمار ہوتا ہے۔“
[بخاری، کتاب البيوع، باب ما ذكر في الأسواق: 2119 – مسلم: 649]
❀ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وما اجتمع قوم فى بيت من بيوت الله يتلون كتاب الله ويتدارسونه بينهم إلا نزلت عليهم السكينة وغشيتهم الرحمة وحفتهم الملائكة وذكرهم الله فيمن عنده
”جب تک لوگ مساجد میں بیٹھ کر قرآن کی تلاوت اور اس کی تعلیم میں لگے رہتے ہیں، تب تک ان پر (اللہ کی طرف سے) سکینت نازل ہوتی رہتی ہے، انھیں رحمت ڈھانپے رہتی ہے اور فرشتے انھیں گھیرے رکھتے ہیں اور اللہ اپنے فرشتوں میں ان کا ذکر خیر فرماتا ہے۔“
[مسلم، كتاب الذكر والدعاء، باب فضل الاجتماع على تلاوة القرآن وعلى الذكر: 2699]
❀ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
اس شخص سے بڑا ظالم کون ہو گا جو لوگوں کو مساجد میں اللہ کی عبادت کرنے سے منع کرے اور ان میں خرابی پیدا کرنے کی کوشش کرے۔
(سورۃ البقرة: 114)

بعض مساجد کی خاص فضیلت:

بعض مساجد کو بعض اسباب کی وجہ سے خاص اہمیت حاصل ہے، جو حسب ذیل ہے:

1 : مسجد حرام (بیت اللہ)

❀ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”بلاشبہ پہلا گھر جو لوگوں کے لیے مقرر کیا گیا، یقیناً وہی ہے جو مکہ میں ہے، بہت با برکت اور جہان والوں کے لیے ہدایت ہے۔“
(سورۃ آل عمران: 96)
❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الحجر الأسود من الجنة
”حجر اسود جنت سے آیا ہے۔“
[نسائی، كتاب مناسك الحج، باب ذكر الحجر الأسود: 2938 – ترمذی: 877]
❀ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
صلاة فى المسجد الحرام أفضل من مائة ألف صلاة فيما سواه
”مسجد حرام میں ایک نماز ادا کرنا دوسری مساجد میں ادا کی گئی ایک لاکھ نمازوں سے افضل ہے۔“
[ابن ماجه، كتاب إقامة الصلوات، باب ما جاء في فضل الصلاة في المسجد الحرام: 1406 – صحیح]

2:مسجد نبوی

❀ اس کی تعمیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے کی ہے۔
[بخاری، کتاب الصلاة، باب هل تنبش قبور مشركي الجاهلية: 428 – مسلم: 524]
❀ اس مسجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک سے منبر رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک کا حصہ ”رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ“ (جنت کا باغ) ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منبر حوض کوثر پر ہوگا۔
[بخاری، كتاب فضل الصلاة في مسجد مكة والمدينة، باب فضل ما بين القبر والمنبر: 1196 – مسلم: 1391]
❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
صلاة فى مسجدي هذا خير من ألف صلاة فيما سواه إلا المسجد الحرام
”مسجد نبوی میں ایک نماز پڑھنا مسجد حرام کے سوا دوسری مساجد میں ادا کی گئی ایک ہزار نماز سے بہتر ہے۔“
[بخاری، كتاب فضل الصلاة في مسجد مكة والمدينة: 1190 – مسلم: 1394]

3:مسجد اقصیٰ (بیت المقدس)

❀ یہ دنیا میں مسجد حرام کے بعد تعمیر ہونے والی دوسری مسجد ہے۔
[بخاری، کتاب الأنبياء، باب ووهبنا لداود سليمن: 3425 – مسلم: 520]
❀ یہ مسجد مسلمانوں کا پہلا قبلہ ہے۔
[بخاری، کتاب الصلاة، باب التوجه نحو القبلة: 399 – مسلم: 525/17]
❀ یہی تین مساجد ہیں جن کی طرف محض زیارت کی نیت سے جانا جائز اور جن کی زیارت پر بھی ثواب ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تشد الرحال إلا إلى ثلاثة مساجد: المسجد الحرام ومسجدي هذا ومسجد الأقصى
”تین مساجد (مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ) کی زیارت کے علاوہ کسی اور مقام کی زیارت پر ثواب کی نیت سے اس کی طرف سفر نہ کرو۔“
[بخاری، کتاب فضل الصلاة في مسجد مكة والمدينة: 1189 – مسلم: 1397]

4:مسجد قبا

❀ تاریخ اسلام میں یہ پہلی مسجد ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعمیر فرمایا۔
[بخاری، کتاب مناقب الأنصار، باب هجرة النبي وأصحابه إلى المدينة: 3906]
❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الصلاة فى مسجد قباء كعمرة
”مسجد قبا میں ایک نماز ادا کرنا ایک عمرہ کے برابر ہے۔“
[ترمذی، کتاب الصلاة، باب ما جاء في الصلاة في مسجد قباء: 324]
ابن ماجه (1412) میں ہے کہ جو شخص گھر سے وضو کر کے مسجد قبا میں آئے اور ایک نماز پڑھے تو اسے ایک عمرے کا ثواب ملے گا۔
❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود ہر ہفتے اس میں نماز پڑھنے کے لیے وہاں تشریف لے جاتے تھے۔
[بخاری، کتاب فضل الصلاة في مسجد مكة والمدينة، باب إتيان مسجد قباء ماشيا وراكبا: 1194 – مسلم: 1399/516]

5:مسجد ذوالحلیفہ

❀ مسجد ذوالحلیفہ با برکت وادی میں ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الليلة أتاني آت من ربي وهو بالعقيق أن صل فى هذا الوادي المبارك
”آج رات میرے رب کی طرف سے ایک فرشتہ آیا، تب آپ وادی عقیق میں تھے، اس نے فرمایا: ”اس مبارک وادی میں نماز پڑھے۔“
[بخاری، كتاب الحرث والمزارعة: 2337]

مسجد کی طرف جانے کے آداب:

❀ اپنے قریب والی مسجد میں جانا چاہیے، بغیر کسی معقول عذر کے دور والی مساجد میں نہیں جانا چاہیے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”آدمی کو اپنے قریب والی مسجد میں جانا چاہیے، (بلاوجہ) دیگر مساجد کی تلاش میں نہ لگا رہے۔“
[طبرانی کبیر: 283/12، ح: 13373 – إسناده حسن]
❀ منہ میں بو پیدا کرنے والی چیز کھا کر مسجد میں نہیں جانا چاہیے، کھا ہی لی ہے تو بدبو ختم ہونے تک مسجد میں نہ جائیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من أكل ثوما أو بصلا فليعتزلنا أو فليعتزل مسجدنا أو ليقعد فى بيته حتى يذهب ريحها
”جو شخص لہسن یا پیاز (اور گندنا) کھائے وہ ہم سے، یا ہماری مساجد سے دور رہے، یا اپنے گھر میں بیٹھا رہے، یہاں تک کہ اس کی بو ختم ہو جائے۔“
[بخاری، كتاب الأذان، باب ما جاء في الثوم النيء والبصل والكراث: 855 – مسلم: 564/69]
مسجد میں جانے سے قبل خاص خیال رکھنا چاہیے کہ جسم یا منہ سے کسی قسم کی بدبو تو نہیں آرہی۔ اگر کسی شخص کا پیشہ ہی ایسا ہے کہ اس سے بو آتی ہے، مثلاً ماہی گیری وغیرہ تو استطاعت ہو تو وہ نماز میں پہننے کے لیے ایک علیحدہ سوٹ بنالیں اور ایسی خوشبو بھی استعمال کی جا سکتی ہے جو بدبو پر غالب آ جائے۔ لیکن سگریٹ یا حقہ پینا اور پھر پی کر مسجد جانا تو بالکل حرام ہے، ایسے شخص کو مسجد میں جانے کی بالکل اجازت نہیں ہے۔

مسجد میں جانے کی دعائیں:

❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز کے لیے مسجد کی طرف جاتے ہوئے راستہ میں یہ دعا پڑھی:
اللَّهُمَّ اجْعَلْ فِي قَلْبِي نُورًا وَفِي لِسَانِي نُورًا وَاجْعَلْ فِي سَمْعِي نُورًا وَاجْعَلْ فِي بَصَرِي نُورًا وَاجْعَلْ مِنْ خَلْفِي نُورًا وَمِنْ أَمَامِي نُورًا وَاجْعَلْ مِنْ فَوْقِي نُورًا وَمِنْ تَحْتِي نُورًا اللَّهُمَّ أَعْطِنِي نُورًا
”اے اللہ! میرے دل میں نور بنا دے اور میری زبان میں نور بنا دے اور میرے کانوں میں نور بنا دے اور میری آنکھوں میں نور بنا دے اور میرے پیچھے اور میرے آگے نور بنا دے اور میرے اوپر اور میرے نیچے نور بنا دے، اے اللہ! مجھے نور عطا فرما۔“
[مسلم، كتاب صلاة المسافرين، باب صلوة النبي لو دعائه بالليل: 763/191 – بخاری: 6316]
❀ مسجد میں داخل ہوتے وقت یہ دعا پڑھنی چاہیے:
اللَّهُمَّ افْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ
”اے اللہ! میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔“
[مسلم، کتاب صلاة المسافرين، باب ما يقول إذا دخل المسجد: 713]
❀ مسجد میں داخل ہوتے ہوئے یہ دعا پڑھنے سے آدمی سارا دن شیطان سے محفوظ رہتا ہے:
أَعُوذُ بِاللَّهِ الْعَظِيمِ وَبِوَجْهِهِ الْكَرِيمِ وَسُلْطَانِهِ الْقَدِيمِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ
”میں عظمت والے اللہ کی اور اس کے کریم چہرے کی اور قدیم سلطنت کی پناہ چاہتا ہوں شیطان مردود سے۔“
[ابو داود، كتاب الصلاة، باب ما يقول الرجل: 466 – صحیح]
❀ مسجد سے نکلتے وقت یہ دعا پڑھنی چاہیے:
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ
”اے اللہ! میں بلاشبہ تجھ سے تیرے فضل کا سوال کرتا ہوں۔“
[مسلم، کتاب صلاة المسافرين، باب ما يقول إذا دخل المسجد: 713]
❀ مسجد میں داخل ہوتے وقت پہلے دایاں پاؤں داخل کریں اور جب نکلیں تو پہلے بایاں پاؤں نکالیں۔
[بخاری، کتاب الصلاة، باب التيمن في دخول المسجد وغيره: 426]

جن لوگوں کا مسجد میں داخلہ ممنوع ہے:

❀ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”اے اہل ایمان! مسجد کے قریب نہ جاؤ، جب تم نشے کی حالت میں ہو، یہاں تک کہ تم اپنی بات کو سمجھنے لگو اور جنسی (مرد و عورت) بھی، جب تک غسل نہ کر لیں، الا یہ کہ اس کا راستہ مسجد میں سے گزرتا ہو۔“
(سورۃ النساء: 43)
❀ جنبی شخص بھول کر مسجد میں آ گیا تو یاد آنے پر فوراً مسجد سے نکل جانا چاہیے۔
❀ کسی شخص کو مسجد میں احتلام یا کسی عورت کو حیض شروع ہو جائے تو وہ فوراً مسجد سے نکل جائے۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایک مرتبہ نماز کھڑی ہوئی اور صفوں درست ہو گئیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور جب اپنے مصلیٰ پر کھڑے ہو گئے تو آپ کو یاد آیا کہ وہ جنبی ہیں، تو آپ نے ہمیں اپنی جگہ رکنے کا حکم دے کر چلے گئے، پھر غسل کیا اور ہمارے پاس اس حال میں آئے کہ آپ کے سر سے قطرے ٹپک رہے تھے، پھر آپ نے تکبیر کہی اور ہم نے آپ کے ساتھ نماز ادا کی۔
[بخاری، کتاب الغسل، باب إذا ذكر الجنب في المسجد: 275 – مسلم: 605]
❀ جس شخص نے کچا لہسن، پیاز، کراٹ (یا سگریٹ، حقہ اور کوئی بھی بدبو دار چیز) کھائی ہو اسے تب تک مسجد میں جانے کی اجازت نہیں جب تک اس کے منہ سے بدبو آ رہی ہو۔

جن کا مسجد میں داخلہ جائز ہے:

❀ عورتیں عبادت وغیرہ کے لیے مسجد میں جا سکتی ہیں۔ (تفصیل ”خواتین کی جماعت“ میں دیکھیں)
❀ نابالغ بچے مساجد میں آ سکتے ہیں۔
سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امامہ بنت زینب کو اٹھایا ہوا تھا۔“
[بخاری، کتاب الصلاة، باب إذا حمل جارية: 516 – مسلم: 2543]
❀ کافر کا مسجد میں داخلہ بوقت ضرورت جائز ہے۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کی جانب ایک لشکر بھیجا تو وہ بنو حنیفہ کا ایک آدمی پکڑ کر لے آئے، اس کا نام ثمامہ بن اثال تھا، تو انھوں نے اسے مسجد کے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا۔“
[بخاری، کتاب الصلاة، باب دخول المشرك المسجد: 469]

مسجد میں ممنوع کام:

❀ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”بلاشبہ مساجد اللہ کی ہیں، ان میں اللہ کے ساتھ کسی کو مت پکارو۔“
(سورۃ الجن: 18)
یعنی مساجد میں خالص اسلام کی بات ہونی چاہیے، تقاریر اور وعظ میں غیر اللہ کی دعوت دینا، انھیں پوجنے اور ان کے مزارات پر حاضری کی ترغیب دینا، یا غیر اسلامی اور شرکیہ نعتیں پڑھنا بالکل حرام ہے۔
❀ مسجد میں گمشدہ چیز کا اعلان کرنا۔
❀ مسجد میں خرید و فروخت کرنا۔
صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں خرید و فروخت کرنے اور گمشدہ چیز کا اعلان کرنے سے منع فرمایا ہے۔“
[ابو داود، كتاب الصلاة، باب التحلق يوم الجمعة: 1079 – ترمذی: 322 – حسن]
مساجد میں تجارتی اعلانات کرنا، یا اس کے اندر دیواروں پر اس قسم کے اعلانات چسپاں کرنا بھی اسی حکم میں ہے۔ کسی کو کوئی گمشدہ چیز ملی ہو تو اس کا اعلان مسجد کے دروازے سے باہر کیا جا سکتا ہے اور اس کا اشتہار لگایا جا سکتا ہے۔
[المغنی لابن قدامة]
❀ مساجد میں مجالس لگا کر بیٹھنا اور دنیاوی باتیں کرنا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إنما هي لذكر الله عز وجل والصلاة وقراءة القرآن
”مساجد تو صرف اللہ عزوجل کے ذکر، نماز اور تلاوت قرآن کے لیے ہوتی ہیں۔“
[مسلم، كتاب الطهارة، باب وجوب غسل البول: 285]
مسجد میں کوئی ایسی چیز نہ لائی جائے جو لوگوں کو تکلیف دینے کا باعث ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جو شخص ہماری مساجد یا بازار سے نوک (تلوار، تیر، چھری، برچھی) والی چیز لے کر گزرے تو لازمی طور پر اسے نوک سے پکڑنا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ وہ کسی مسلمان کو تکلیف دے۔“
[بخاری، کتاب الصلاة، باب المرور في المسجد: 452 – مسلم: 2615]
❀ مسجد میں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں ڈالنا ممنوع ہے۔
[مسند أحمد: 242/4، ح: 18115 – حسن]
❀ لیکن ضرورت کے وقت تشبیک جائز ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عمل ثابت ہے۔
[بخاری، كتاب الصلاة، باب تشبيك الأصابع في المسجد: 481، 482]
❀ مسجد میں تھوکنا گناہ ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”مسجد میں تھوکنا گناہ ہے اور اس کا کفارہ اس پر مٹی ڈال دینا (یا اسے صاف کرنا) ہے۔“
[بخاری، کتاب الصلاة، باب كفارة البزاق في المسجد: 415 – مسلم: 552]

مسجد میں جائز کام:

❀ مسجد میں اگر کوئی سو جائے تو کوئی حرج نہیں، کیونکہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں مسجد نبوی میں سو جایا کرتا تھا اور وہ جوان اور کنوارے تھے۔
[بخاری، کتاب الصلاة، باب نوم الرجال في المسجد: 440 – مسلم: 2479]
❀ ضرورت ہو تو مسجد میں عورت بھی سو سکتی ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ عرب کی ایک سیاہ عورت مسلمان ہوئی، تو اس کی رہائش کے لیے مسجد میں ایک خیمہ لگا دیا گیا۔
[بخاری، کتاب مناقب الأنصار، باب أيام الجاهلية: 3835]
❀ لیکن اگر مسجد میں احتلام یا حیض شروع ہو جائے تو اسے فوراً باہر نکل جانا چاہیے۔
❀ حمد، نعت اور جہادی ترانے وغیرہ پڑھنا جائز ہے۔
[بخاری، کتاب بدء الخلق، باب ذكر الملائكة: 3212 – مسلم: 2485]
❀ مسجد میں صرف دینی کام یعنی ذکر، نماز اور قرآن کی درس و تدریس ہی ہونی چاہیے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”مساجد صرف اللہ تعالیٰ کے ذکر، نماز اور قرآن کی تلاوت کے لیے ہیں۔“
[مسلم، کتاب الطهارة: 661]
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”مساجد کو صرف انھی کاموں کے لیے استعمال کرو، جن کے لیے انھیں بنایا گیا ہے۔“
[مسلم، کتاب المساجد، باب النهي عن نشد الضالة في المسجد: 569]

مسجد میں بیٹھنے کے آداب:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا کہ کوئی آدمی مسجد میں اپنے لیے اونٹ کی طرح جگہ خاص کر لے کہ ہر حالت میں اس نے وہیں بیٹھنا ہے۔
[ابو داود، کتاب الصلاة، باب صلاة من لا يقيم صلبه في الركوع والسجود: 862 – نسائی: 1113]
❀ مسجد میں دو رکعات (تحیۃ المسجد) پڑھ کر بیٹھنا چاہیے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا دخل أحدكم المسجد فليركع ركعتين قبل أن يجلس
”جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو اسے بیٹھنے سے پہلے دو رکعتیں پڑھنی چاہییں۔“
[بخاری، کتاب الصلاة، باب إذا دخل المسجد فليركع ركعتين: 444 – مسلم: 714]
❀ مسجد میں جائیں تو وہاں مجلس کے آداب کا خیال رکھا جائے، جو مندرجہ ذیل ہیں:
➊ جب وہاں پہنچے تو لوگوں کو سلام کرے۔
[بخاری، کتاب الاستئذان: 6254 – مسلم: 1798]
اگر خطبہ شروع ہو تو آس پاس بیٹھنے والوں کو آہستہ آواز میں سلام کہہ دے۔
➋ جہاں جگہ ملے وہاں بیٹھ جائے، لوگوں کی گردنیں پھلانگ کر آگے نہ جائے۔
[ابو داود، كتاب الصلاة، باب تخطي رقاب الناس يوم الجمعة: 1118 – نسائی: 1400]
➌ دو آدمیوں کے درمیان گھس کر نہ بیٹھے۔
[بخاری، کتاب الجمعة: 910]
➍ کسی کو اٹھا کر اس کی جگہ نہ بیٹھے۔
[بخاری، کتاب الجمعة: 911 – مسلم: 2177]
➎ اگر کوئی شخص مجلس سے کسی غرض سے اٹھے، پھر واپس آجائے تو وہ اس جگہ کا زیادہ حق دار ہے۔
[مسلم، کتاب السلام: 2179]
➏ ایسے تمام کاموں اور عادات سے پرہیز کرے جو دوسروں کے لیے تکلیف کا باعث ہوں۔
[بخاری، كتاب الإيمان: 10 – مسلم: 40]
➐ مسجد میں بلند آواز سے گفتگو نہ کی جائے۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ مسجد میں دو آدمی اونچی آواز سے باتیں کر رہے ہیں، وہ طائف کے رہائشی تھے، تو آپ نے فرمایا: ”اگر تم مدینہ کے باشندے ہوتے تو میں ضرور تمھیں سزا دیتا، تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں اپنی آواز بلند کرتے ہو۔“
[بخاری، کتاب الصلاة، باب رفع الصوت في المساجد: 470]
➑ مسجد میں فارغ نہ بیٹھے، بلکہ تلاوت اور ذکر و دعا کرتا رہے اور درود پڑھتا رہے۔
➒ اگر خطبہ جمعہ کے دوران میں کسی کو نیند آرہی ہو تو وہ جگہ تبدیل کر لے۔
[ترمذی، كتاب الجمعة: 526]
➓ مجلس کے آخر میں کفارہ مجلس کی دعا پڑھے، یہ دعا مجلس میں کیے گئے گناہوں کا کفارہ ہو جائے گی:
سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وَبِحَمْدِكَ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ
”اے میرے اللہ! تو پاک ہے اپنی تعریف کے ساتھ، میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں، میں تجھ سے بخشش مانگتا ہوں اور تیری طرف توبہ کرتا ہوں۔“
[ترمذی، کتاب الدعوات: 3433 – صحیح]

مسجد کے علاوہ مقامات نماز:

❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”میرے لیے ساری زمین کو مسجد اور پاک بنا دیا گیا ہے، لہذا میری امت کے جس شخص کی نماز کا وقت جہاں ہو جائے وہ وہیں نماز پڑھ لے۔“
[بخاری، كتاب الصلاة: 438 – مسلم: 521]
لہذا مساجد کے علاوہ تمام مقامات پر نماز ادا کرنا جائز ہے، سوائے چند مقامات کے۔

جہاں نماز پڑھنا حرام ہے:

❀ اب ہم ان مقامات کا تذکرہ کریں گے جہاں نماز پڑھنا حرام ہے:
➊ جس کمرے کی دیواروں پر جانداروں کی تصویریں یا وہاں ان کے مجسمے ہوں۔
❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”ان لوگوں (یہود و نصاری) میں کوئی نیک آدمی مر جاتا تو وہ اس کی قبر پر مسجد بنا دیتے اور اس میں ان کی تصویریں بناتے، یہ لوگ اللہ کے ہاں بدترین مخلوق ہیں۔“
[بخاری، کتاب الصلاة، باب الصلاة في البيعة: 434 – مسلم: 528]
➋ جس جگہ پیشاب، پاخانہ، یا غسل کیا جائے اور قبرستان میں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
الأرض كلها مسجد إلا الحمام والمقبرة
زمین ساری کی ساری مسجد ہے، سوائے حمام اور قبرستان کے۔
[ترمذي، كتاب الصلاة، باب ما جاء أن الأرض الخ : 317]
➌ اسی طرح کوڑا کرکٹ اور دیگر گندگی والی جگہ میں نماز نہ پڑھی جائے، کیونکہ وہاں نجاست ہوتی ہے۔
➍ اونٹوں کے باڑے میں۔ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا : کیا میں بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھ لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”ہاں !“ پھر اس نے پوچھا : کیا میں اونٹوں کے باڑے میں نماز پڑھ لوں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”نہیں۔“ [مسلم، کتاب الحیض، باب الوضوء من لحوم الإبل : 360]
➎ کسی قبر کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا جائز نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لا تصلوا إلى القبور
قبروں کی طرف رخ کر کے نماز نہ پڑھو۔
[مسلم، کتاب الجنائز، باب النهي عن الجلوس الخ : 972/98]
لہذا مساجد میں قبریں بنانا جائز نہیں اور جن مساجد میں قبریں ہیں وہاں نماز پڑھنے سے بچنا چاہیے۔
➏ مقامات عذاب میں بھی نماز جائز نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”عذاب نازل ہونے والی جگہوں پر مت جاؤ، مگر روتے ہوئے، اگر روتے ہوئے نہ جا سکو تو وہاں جاؤ ہی نہ، ایسا نہ ہو کہ ان پر آنے والا عذاب تم پر بھی آجائے۔“
[بخاری، کتاب الصلاة، باب الصلاة في مواضع الخسف والعذاب : 433]
سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بابل میں جہاں زمین دھنسی تھی، وہاں نماز پڑھنے کو برا سمجھتے تھے۔
[بخاری، کتاب الصلاة، باب الصلاة في مواضع الخسف والعذاب، معلقا قبل الحديث : 433]

وہ جگہیں جہاں نماز پڑھنا جائز ہے :

❀ اب ہم ان مقامات کا تذکرہ کریں گے جہاں نماز پڑھنا بعض لوگ مکروہ یا ناجائز سمجھتے ہیں، لیکن شریعت کی رو سے جائز ہے :
➊ گدے اور موٹی چٹائی وغیرہ پر نماز پڑھنا جائز ہے۔
سیدہ ام الدرداء رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
ما أبالي لو صليت على خمس طنافس
”مجھے کوئی پروا نہیں، اگر میں پانچ چٹائیوں کو جمع کر کے ان پر نماز پڑھوں۔“
[التاريخ الكبير للبخاري، باب خليد مولى أبي الدرداء : 669]
➋ بستر پر نماز پڑھنا جائز ہے، بشرطیکہ بستر پاک ہو۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے اور عائشہ آپ کے اور قبلہ کے درمیان بستر پر لیٹی ہوتی تھی۔
[بخاری، کتاب الصلاة، باب الصلاة على الفراش : 383۔ مسلم : 512]
➌ تخت پوش وغیرہ پر (چارپائی کی طرح کا لکڑی کا زمین سے فٹ دو فٹ اونچا مصلیٰ پر) نماز پڑھنا جائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ منبر پر کھڑے ہو کر نماز پڑھائی۔
[بخاری، کتاب الصلاة، باب الصلاة على السطوح والمنبر والخشب : 377۔ أبو داود : 597-598]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے