مساجد سے جلوس نکالنے کا شرعی حکم
یہ اقتباس الشیخ محمد منیر قمر کی کتاب احکام مساجد سے ماخوذ ہے۔

مساجد سے جلوس نکالنا

اور آداب مسجد کے خلاف امور و افعال میں سے ہی ایک یہ بھی ہے۔ کہ بعض لوگ سال کے مختلف مواقع پر اپنے مریدوں اور خلفاء یا حاشیہ نشینوں کو ساتھ لے کر مسجد میں اکٹھے ہوتے ہیں۔ اور پھر منظم صورت میں جلوس نکالتے ہیں۔ جھنڈے لہراتے ہوئے، اور بعض جگہوں پر ڈھول وغیرہ بجایا جاتے ہوئے پہلے ایک جگہ اکٹھے ہوتے ہیں۔ اور پھر منظم صورت میں وہاں سے چلتے ہیں۔ اور ان جلوسوں میں بعض ایسے غیر شرعی امور بلکہ صریح بدعات کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔ کہ جن کا دین اسلام اور اس کی تعلیمات سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ بلکہ ان کی بعض حرکتیں تو ایسی ہوتی ہیں۔ جنہیں دیکھ کر کم عقلوں کو ہنسی اور عقلمندوں کو رونا آتا ہے۔
ان لوگوں نے اپنے لیے جو راستہ اختیار کر رکھا ہے۔ خود ان کی زبان کے مطابق تو اس میں اخلاص، تنہائی سے محبت، لوگوں سے دوری، بیہودہ کلام سے اجتناب و پرہیز ہمیشہ ذکر و فکر میں مصروفیت، شب بیداری کرنا، تہجد پڑھنا، لوگوں سے بے نیاز رہنا اور سنت نبوی کا اتباع کرنا واجبات میں سے ہے۔ لیکن عملی طور پر ان اصولوں کی کوئی پرواہ نہیں کی جاتی۔
سنتوں کی جگہ بدعات نے لے لی ہے۔ اور شریعت، خواہشات نفس کی بھینٹ چڑھا دی گئی ہے۔ ان کے لکھے ہوئے یا زبانی اصولوں اور ان کے عملی کروار کا موازنہ کر کے تو دیکھیے۔ بات کھل کر سامنے آ جائے گی۔
کہاں ان کی یہ حرکتیں اور کہاں باطن کی صفائی و اخلاص؟ کہاں لوگوں سے دوری و گمنامی کا دعوئی اور کہاں ان کے یہ نمائشی ہتھکنڈے کہاں ذکر و فکر اور تواضع، اور کہاں گھوڑوں پر سوار ڈھول تاشے کے ساتھ چلنا، کہاں لوگوں سے دوری و بے نیازی کے دعوے، اور کہاں دنیوی معاملات میں مزاحمت، کہاں ریا کاری و دکھلاوے سے دوری کے اعلانات، اور کہاں ہزاروں، لاکھوں کے ساتھ لچکتے مٹکتے چلنا؟ ان امور و افعال کے ہوتے ہوئے ارشاد و سلوک اور پیر و شیخ کی بات کے کیا معنے؟
لگتا ہے کہ یہ سب دنیوی مفاد اور معاشی منفعت کے لیے کیا جاتا ہے۔ طبلے کی تھاپ پر ان کا جھومنا، بھنگڑے اور دھمالیں ڈالنا، بلکہ رقص کرنا اور چیخ و پکار مچانا غیر مسلم لوگوں کے دلوں پر کتنی غلط تصویر ثبت کرتا ہے۔ انہیں تو معلوم ہے کہ مسلمانوں کی عبادت خشوع و خضوع اور انتہائی اطمینان و سکون سے ہوتی ہے۔
لیکن بظاہر اہل صفا لیکن در حقیقت اہل ہوس و ہوا کو ناچتے، جھومتے دیکھتے ہیں تو کیا سوچتے ہوں گے۔ ہمارے لوگوں کے ایسے افعال غیر مسلموں کو دین اسلام سے متنفر کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ اور کچھ بھی نہ ہو تو علماء تاریخ و سیرت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ اور سیرت مبارکہ کا ایک ایک لمحہ محفوظ کر رکھا ہے۔ کیا ان میں کسی نے یہ افعال دیکھے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام افعال و ارشادات اور حرکات و سکنات مدون ہیں۔ کیا ان میں ایسی کسی بات کا سراغ ملتا ہے؟ خلفاء راشدین، عام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تا بعین اور آئمہ کرام رحمہم اللہ حتیٰ کہ متقدمین صوفیاء کا عمل ہمارے سامنے ہے۔ کیا ان میں سے کسی نے کبھی ایسا کیا تھا۔ اور پھر وہ بھی مسجد کے حوالے سے، ہرگز نہیں یہ ان مسعود و میمون ادوار کے بعد کی ایجادات و اختراعات ہیں۔ لہذا ایسے جلوسوں میں شریک ہونے اور ان کی رونق بڑھانے سے بچنے میں ہی عافیت ہے۔
مختصر از اصلاح المساجد ص 267، 269

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے