حفیظ الرحمن قادری بریلوی کے پیش کردہ دلائل کی حقیقت
پہلی دلیل
فرقان حمید میں ارشاد رب العالمین ہے :
قَدْ جَاءَكُمْ مِنَ اللَّهِ نُورٌ وَكِتَابٌ مُبِينٌ (سورۃ المائدہ: 15)
بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور ایک روشن کتاب۔
الجواب :
سوال پیدا ہوتا ہے کہ بریلوی حضرات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نور مانتے ہیں بلکہ اللہ کا ذاتی نور مانتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بشر کہنے والوں پر گستاخ رسول بے ادب ہونے کے فتوے لگاتے ہیں بشریت رسول کے اتنے واضح اور قاطع دلائل کو نظر انداز کر جاتے ہیں ان کا استدلال کیا ہے ان لوگوں نے کہاں ٹھوکر کھائی ہے اس بات کا اصولی جواب اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یوں بیان فرمایا :
هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ ۖ فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَاءَ الْفِتْنَةِ وَابْتِغَاءَ تَأْوِيلِهِ ۗ وَمَا يَعْلَمُ تَأْوِيلَهُ إِلَّا اللَّهُ(سورۃ آل عمران: 7)
وہ اللہ وہی تو ہے جس نے آپ پر کتاب اتاری یعنی قرآن مجید اس میں محکم آیات ہیں جو اصل کتاب میں اور کچھ متشابہ آیات ہیں جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہوتی ہے وہ متشابہ آیات کے درپے ہوتے ہیں فتنہ بپا کرنے کو اور اپنی طرف سے ان کا مطلب کشید کرتے ہیں حالانکہ ان کا قطعی مطلب اللہ کی سوا کوئی نہیں جانتا۔
اصل بات یہ ہے کہ فتنہ پرور لوگ ایک خاص غرض کے تحت لوگوں کو عقائد حقہ سے برگشتہ کرنے کے لیے ایک دعوی کرتے ہیں اور اس دعوے کو ایک حسین شکل میں پیش کرتے ہیں تاکہ ظاہری الفاظ کی کشش عوام کو اپنی طرف مائل کر سکے جو مسئلہ قرآن کی سینکڑوں محکم اور واضح آیات سے ثابت ہو اسے چھوڑ کر ایک غیر واضح دلیل پر اپنے عقیدہ کی عمارت کھڑی کرنا کون سی دانشمندی ہے۔ اس آیت مبارکہ پر صدق دل سے غور فرمائیں۔
دوسرا جواب :
اکثر مفسرین نور کو کتاب مبین ہی کی صفت قرار دیتے ہیں اور واؤ کو عطف تفسیری سمجھتے ہیں اور اس کی وجہ درج ذیل ہیں اس آیت کی ابتداء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر پہلے ہی آچکا ہے یہ آیت یوں شروع ہوتی ہے :
يَا أَهْلَ الْكِتَابِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا
اگر نور اور کتاب مبین دو الگ الگ چیزیں ہوتیں تو بعد والی آیت میں يهدي به الله کے بجاۓ يهدي بهما الله آنا چاہیے تھا۔
قرآن کی ایک آیت دوسری کی وضاحت کرتی ہے مراد قرآن کریم بالکل واضح ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكُمْ نُورًا مُبِينًا(سورۃ النساء: 174)
ہم نے تمہاری طرف نور مبین نازل کیا یعنی قرآن کریم۔
اس آیت مبارکہ سے صاف واضح ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن ہی کو نور قرار دیا ہے۔
دوسرے مقام پر فرمایا :
وَاتَّبِعُوا النُّورَ الَّذِي أُنْزِلَ مَعَهُ(سورۃ الاعراف: 157)
اور اس نور کی پیروی کی جسے ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اتارا ہے۔
اس آیت مبارکہ میں بھی نور قرآن کو ہی کہا گیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر نور سے الگ کیا گیا ہے۔
مزید ارشاد فرمایا :
فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالنُّورِ الَّذِي أَنْزَلْنَا(سورۃ التغابن: 8)
تو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اس نور پر جو ہم نے نازل کیا۔
اس آیت مبارکہ میں بھی وضاحت کر دی گئی ہے کہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل کیا گیا وہ نور ہے قرآن کی طرح اللہ تعالیٰ نے تورات کو بھی نور کہا چنانچہ ارشاد فرمایا :
قُلْ مَنْ أَنْزَلَ الْكِتَابَ الَّذِي جَاءَ بِهِ مُوسَىٰ نُورًا وَهُدًى لِلنَّاسِ(سورۃ الانعام: 91)
وہ کتاب کس نے نازل کی تھی جو موسیٰ علیہ السلام لائے تھے اور جولوگوں کے لیے نور اور ہدایت تھی۔
اسی طرح انجیل کو بھی نور کہا گیا چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَآتَيْنَاهُ الْإِنْجِيلَ فِيهِ هُدًى وَنُورٌ(سورۃ المائدہ: 46)
ہم نے عیسی علیہ السلام کو انجیل عطا فرمائی جس میں نور اور ہدایت تھی۔
مذکورہ بالا آیات قرآنی سے ثابت ہوا کہ اس آیت مبارکہ میں نور قرآن کریم اور دیگر آسمانی کتابوں کو کہا گیا ہے جبکہ اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت کا اعلان واضح الفاظ میں کر دیا ہے تیسرا جواب لوگوں کا ذہن اس بات پر پختہ ہو چکا ہے کہ نور اور کتاب مبین دو چیزیں ہیں واؤ کی وجہ سے حالانکہ قرآن مجید میں کئی مقامات پر درمیان میں واؤ بھی ہے اور تذکرہ ایک ہی چیز کا ہے۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :
طس ۚ تِلْكَ آيَاتُ الْقُرْآنِ وَكِتَابٍ مُبِينٍ(سورۃ النمل: 1)
یہ قرآن اور کتاب مبین کی آیتیں ہیں۔
حالانکہ قرآن اور کتاب مبین میں دو نہیں بلکہ ایک ہی چیز ہے اگر کوئی قرآن اور کتاب مبین دو سمجھتا ہے تو یہ اس کی جہالت ہے۔
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا :
الر ۚ تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ وَقُرْآنٍ مُبِينٍ(سورۃ الحجر: 1)
یہ کتاب اور قرآن روشن کی آیتیں ہیں۔
یہاں پر بھی کتاب اور قرآن مبین دونوں ایک ہی ہیں الگ الگ نہیں پہلی آیت میں کتاب مبین کا عطف القرآن پر کیا گیا ہے اور زیر بحث آیت میں کتاب مبین کا عطف نور پر کیا گیا ہے پس نور سے مراد قرآن مجید ہے اور دوسری آیت میں قرآن مبین کا عطف الکتاب پر کیا گیا ہے اور دونوں سے مراد ایک ہے اس سے ثابت ہوا کہ نور اور کتاب مبین دونوں سے مراد صرف ایک قرآن کریم ہے۔
قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلمان
اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار
حفیظ الرحمن قادری کی دوسری دلیل اور اس کا جواب :۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ عزوجل نے کائنات بنائی سب سے پہلے کس چیز کو بنایا تو سرکار دو عالم نور مجسم نے ارشاد فرمایا :
اے جابر رضی اللہ عنہ اللہ عزوجل نے تمام اشیاء سے پہلے تیرے نبی کے نور کو اپنے نور سے بنایا۔ (مصنف عبد الرزاق نشر الطیب صفحه 6)
الجواب:
یہ روایت کئی وجوھات کی بنا پر صحیح نہیں ہے۔
اس کی کوئی معروف سند نہیں ملی محدث علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے مشکوۃ کے حاشیہ میں فرمایا ہے کہ اس کی اسناد معروف نہیں ہے۔ (مشکوۃ باب بد الوحی)
اس روایت کو مصنف عبدالرزاق کی طرف منسوب کیا جاتا ہے لیکن اس میں یہ روایت ہی نہیں ہے اس کی تفصیل کے لیے دیکھئے ماہنامہ الحدیث حضرو جلد نمبر شمارہ نمبر 5 صفحه 17 تا 20 جعلی جزء کی کہانی اور علمائے ربانی۔
عبد الرزاق نابینا ہو گئے تھے تلقین کو قبول کر لیتے تھے کئی منکر روایتیں بھی روایت کر دیتے تھے جیسا کہ حافظ ابن عدی نے (الکامل 5/ 1948) میں کہا ہے امام احمد فرماتے ہیں کہ عبد الرزاق سے بعض نے مسند روایات بیان کی ہیں جو اس کی کتابوں میں نہیں ہیں۔ (سبو / 568)
یہ روایت صحیح احادیث کے بھی خلاف ہے کیونکہ صحیح احادیث سے تو معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے قلم پیدا کیا گیا چنانچہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیشک سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے قلم پیدا کیا۔ اسے حکم دیا کہ لکھ اس نے عرض کیا کیا لکھوں فرمایا : قیامت تک جو کچھ ہونے والا ہے لکھ چنانچہ اس نے ہمیشہ تک جو کچھ ہونے والا تھا سب کچھ لکھ دیا۔ (ترمذی ابو داود مسند احمد 317/5)
اور مسلم کی ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان وزمین کے پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے مخلوقات کی تقدیریں لکھی ہیں اور اس کا عرش پانی پر تھا۔(مسلم عن عبد الله بن عمرو رضی اللہ عنہ)
پھر یہ روایت ان نصوص کے بھی خلاف ہے جن میں آتا ہے کہ آدم مٹی سے پیدا ہوئے جن آگ سے اور فرشتے نور سے قرآن میں ہے :
والله خلق كل دابة من ماء
(صحيح مسلم كتاب الزهد والرقائق باب في احاديث متفرقة حديث 2996)
اللہ ہی نے ہر جاندار چیز کو پانی سے پیدا کیا ہے۔
میرے بھائیو : اللہ کے نور کی شان اور جلالت اتنی کہ موسیٰ علیہ السلام بھی اس نور کا مشاہدہ نہیں کر سکے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے ذاتی نور کا مشاہدہ اس دنیا میں نہیں ہو سکتا اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے ذاتی نور کا حصہ ہوتے تو دنیا کا کوئی انسان بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے کی طاقت نہ رکھتا۔
صحیح بات یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ کے بیٹے اور عبدالمطلب کی اولاد ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شجرہ آدم علیہ السلام تک پہنچتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ اللہ کے نور سے پیدا ہونے والی روایت جھوٹی ہے۔ حالانکہ باپ کا نام عبداللہ ہے جس کے معنی اللہ کا بندہ ہیں جو بندے کا بیٹا ہوگا وہ بھی بندہ ہی ہوگا ۔ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام نوریوں سے بھی بلند تھا مگر بات سمجھنے کی ہے۔
یہ روایت قرآنی آیات اور صحیح احادیث کے سراسر خلاف ہے کیونکہ اس روایت سے ظاہر ہوتا ہے۔ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نور اللہ کے نور سے ہوا تو وہ ذات الہی کا جزء ہوا اور یہ کھلی اللہ تعالیٰ کی ناشکری اور انکار ہے جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَجَعَلُوا لَهُ مِنْ عِبَادِهِ جُزْءًا ۚ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَكَفُورٌ مُبِينٌ(سورۃ الزخرف: 15)
اور اس کے بندوں میں سے ٹکڑا ٹھہرایا بیشک انسان کھلا ناشکرا ہے۔ (ترجمہ احمد رضا خان بریلوی)
یہ بات پوری امت کو تسلیم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک انسان تھے انسان کے بیٹے تھے بی بی آمنہ اور جناب عبداللہ بھی انسان تھے اور انسان کی پیدائش اللہ کے نور سے نہیں ہوتی بلکہ والدین کے نطفے سے ہوتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا :
إِنَّا خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشَاجٍ(سورۃ الدھر: 2)
ہم نے انسان کو نطفہ مخلوط سے پیدا کیا۔
احمد رضا خان بریلوی کو بھی اس بات کا اعتراف ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مٹی سے پیدا ہوئے نور سے نہیں چنانچہ خان صاحب نے ایک حدیث لکھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں اور ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما ایک ہی مٹی سے پیدا کیے گئے اور اسی میں دفن ہونگے۔ (فتاوی افریقہ ص 83)
احمد رضا خان بریلوی کے نزدیک یہ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مٹی سے پیدا ہونے پر نص ہے مفتی احمد یار خان نعیمی بریلوی نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بشر ہونے کا اعتراف کیا ہے چنانچہ وہ جاء الحق کی ایک عبارت لکھتے ہیں کہ ہم بھی عقیدے کے ذکر میں کہتے ہیں کہ نبی بشر ہوتے ہیں۔ (جاء الحق صفحہ 16)
میں پوچھتا ہوں کہ اگر بشر کہنا گستاخی ہے کفر ہے تو بریلوی علماء نے اس گستاخی کفر کی تائید کیوں کی؟
چنانچہ مفتی امجد علی بریلوی نے اپنی مشہور کتاب بہار شریعت میں یہ عبارت تحریر کی ہے کہ نبی علیہ السلام اس بشر کو کہتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے لیے وحی بھیجی ہو۔ انبیا سب بشر تھے۔ (بہار شریعت جلد 1 ص 7)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس روایت کا کوئی سر پاؤں نہیں ہے بالکل بناؤٹی من گھڑت روایت ہے بے سند موضوع روایت ہے جو قرآن و صحیح احادیث کے سراسر خلاف ہے۔ کیوں کہ صحیح احادیث سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بشر ہونا ثابت ہے اور قرآن بھی اس پر ناطق ہے۔ جس طرح ہم اس بات کے شروع میں دلائل نقل کر آئے ہیں لہذا یہ روایت کلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث اور قرآن کریم کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن کریم اور صحیح احادیث کے مطابق عقیدہ اپنانے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمين
قادری صاحب کی تیسری دلیل اور اس کا جواب:۔
حفیظ الرحمن قادری صاحب جبریل علیہ السلام کی عمر کے بارے میں تحریر کرتے ہیں۔
کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اے جبریل علیہ السلام تیری عمر کتنی ہے عرض کرنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اپنی عمر کا پتہ نہیں البتہ چوتھے حجاب میں ایک ستارہ ستر ہزار سال بعد طلوع ہوتا ہے اور میں نے زندگی میں اس کو بہتر ہزار مرتبہ دیکھا ہے میری عمر کا اندازہ آپ خود ہی لگالیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے جبریل وہ ستارہ میرا ہی نور تھا۔ (شرک کیا ہے کتاب صفحہ 8)
الجواب:
حقیقت یہ ہے کہ یہ ساری کہانی ایک افسانہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی صحیح سند سے یہ بات ہرگز ثابت نہیں مصنف نے بھی اس روایت کو بے سند نقل کیا ہے کسی بھی قابل اعتماد محدث نے اس روایت کو کسی معتبر حدیث کی کتاب میں نقل نہیں کیا۔ لہذا یہ روایت جھوٹی ہے۔ حدیث رسول نہیں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر افتراء و بہتان ہے۔ ہمارے مسلمان کا حال یہ ہے کہ لکھنے والے بھی آنکھیں بند کر کے اردو رسالے سے لکھی ہوئی بات کو اپنی کتاب میں بغیر تحقیق کے نقل کر دیتے ہیں اور دوسرے لوگ بغیر تحقیق کے ایسی باتوں کو اپنا عقیدہ بنالیتے ہیں اور ایسی باتوں کو دین سمجھنے لگ جاتے ہیں یہ بہت بڑا المیہ ہے۔
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
قادری صاحب کی چوتھی دلیل اور اس کا جواب:۔
بعض افراد کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہیں وہ نوری نہیں کیونکہ نور بشر نہیں ہو سکتا حالانکہ قرآن مجید میں اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا کہ : حضرت مریم علیہا السلام کے حجرے میں حضرت جبریل علیہ السلام لباس بشر میں تشریف لائے۔
وَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّا(سورۃ مریم: 17)
وہ اس کے سامنے ایک تندرست آدمی کے روپ میں ظاہر ہوا۔ترجمہ کنز الایمان
الجواب :
بشریت دو قسم کی ہے ایک اصلی حقیقی دوسری تمثیلی صوری حقیقی بشریت میں اصلیت ماہیت اور لوازمات نہیں بدلتے جیسے کھانا پینا، خوشی غمی ، نیند بیداری ،صحت بیماری، ازدواجی زندگی لباس میں قیام تجارت سفر حضر وغیرہ جو بشر تمثیلی صوری ہوتا ہے کہ اصل میں نور ہو شکل صورت بشری لباس میں تشریف لے آئے تو اس میں اصلی نسلی حقیقی بشر جیسے لوازمات خواہشات نہیں ہوتیں غور فرمائیں اور انصاف سے فیصلہ کریں کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم حقیقی اصلی نسل بشر ہے ، تمثیلی صوری۔
جیسے ابراہیم علیہ السلام کے پاس فرشتہ انسانی شکل میں آئے تھے چنانچہ قرآن کریم میں ہے :
هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْرَاهِيمَ الْمُكْرَمِينَ ﴿٢٤﴾ إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقَالُوا سَلَامًا ۖ قَالَ سَلَامٌ قَوْمٌ مُّنكَرُونَ ﴿٢٥﴾ فَرَاغَ إِلَىٰ أَهْلِهِ فَجَاءَ بِعِجْلٍ سَمِينٍ ﴿٢٦﴾ فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ قَالَ أَلَا تَأْكُلُونَ ﴿٢٧﴾ فَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةً ۖ قَالُوا لَا تَخَفْ ۖ وَبَشَّرُوهُ بِغُلَامٍ عَلِيمٍ(سورۃ الذاریات: 24-28)
بھلا تمہارے پاس ابراہیم علیہ السلام کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے جب وہ ان کے پاس آئے تو سلام کہا انہوں نے بھی سلام کہا دیکھا تو ایسے لوگ کہ نہ جان نہ پہچان تو اپنے گھر جا کر ایک بھنا ہوا موٹا بچھڑا لائے اور ان کے آگے رکھ کر کہنے لگے کہ آپ تناول کیوں نہیں کرتے اور دل میں ان سے خوف معلوم کیا انہوں نے کہا خوف نہ کیجئے ان کو ایک دانش مند لڑکے کی بشارت بھی سنائی۔
جناب ابراہیم علیہ السلام کے پاس نوری فرشتے بشر کے لبادہ وصورت میں آئے۔ جناب ابراہیم علیہ السلام نبی ہونے کے باوجود بھی ان کو معلوم نہ کر سکے جب تک کہ انہوں نے خود وضاحت نہ کی اور پھر نوری چاہے انسانی شکل میں آئے وہ کھانا نہیں کھاتا اس سے معلوم ہوا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نوری بشریت کے لبادہ میں آتے تو پھر بھی نہ کھانا کھاتے نہ پانی پیتے نہ شادی کرتے نہ بچے پیدا کرتے۔
رہا مسئلہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ذوالنورین کہنے کا یہ کسی حدیث سے ثابت ہی نہیں ہاں اگر تو نور ہدایت کے معنوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں کی وجہ سے کہا جائے تو اس میں حرج نہیں مگر نور من نور الله سمجھ کر کہنے کی گنجائش نہیں جس کی پیدائش ہو ماں باپ ہوں سسرال ہوں وہ نوری نہیں بلکہ بشر ہی ہوا کرتے ہیں پتہ نہیں یہ لوگ حقیقت کو کیوں تسلیم نہیں کرتے یہ بات قرآن کریم میں واضح موجود ہے :
وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا ۗ وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيرًا(سورۃ الفرقان: 54)
اور وہی تو ہے جس نے پانی سے بشر کو پیدا کیا۔ پھر اس کو صاحب نسب۔ اور صاحب قرابت دامادی بنایا اور تمہارا رب ہر طرح کی قدرت رکھتا ہے۔
خلاصہ کلام میں نے قرآن وحدیث کے حوالہ جات کی روشنی میں ثابت کر دیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام انبیاء کرام علیہم السلام حقیقی اصلی جنس نسلی ذاتی پیدائشی بشر انسان آدم رجال بندے تھے جو آدمی قرآن وحدیث کے اتنے دلائل سننے کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور من نور الله کا قائل ہے وہ ان دلائل قرآن وحدیث کا منکر ہے جو یہ کہے کہ نبی کی حقیقت کیا ہے وہ بھی گمراہ ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقت اللہ تعالیٰ نے قرآن میں بیان فرما دی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنا تعارف واضح کروا دیا ہے اور اعلان فرمادیا کہ میں بھی تمہاری طرح کا ایک بشر ہوں ۔ (صحیح مسلم)
اور قرآن میں اللہ تعالیٰ نے بھی اعلان کروایا کہ کہہ دو کہ میں تمہاری طرح بشر ہوں۔ (سورہ کہف)
میرے دل کو دیکھ کر میری وفا کو دیکھ کر
بندہ پرور منصفی کرنا خدا کو دیکھ کر
دار دنیا سے کسی دن سفر ہے کہ نہیں
اور محشر کا کچھ خوف وخطر ہے کہ نہیں
ضد وعناد اور کینہ کو دل سے نکال کر ٹھنڈے دل سے غور کرو کہ ہم آپ کے سامنے صرف وہی کچھ بیان کرتے ہیں جو اللہ کے قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے ثابت ہے۔ اور اسی کے مطابق عقیدہ رکھتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عقیدہ تھا اور اُسی سچے عقیدے کی دعوت اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کی خدمت میں پیش کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن وحدیث کے مطابق عقیدہ اپنانے کی توفیق دے۔ آمين