حفیظ الرحمن قادری بریلوی تحریر کرتے ہیں کہ بعض لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے جیسا بشر کہتے ہیں دلیل کے طور پر قرآن کی یہ آیت پیش کرتے ہیں۔
قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ(سورۃ الکہف:110)
یہ تم فرماؤ ظاہر صورت بشری میں تو میں تم جیسا ہوں ۔ (ترجمہ کنز الایمان)
ان کے نزدیک نبی بشر ہے اور بشر نور نہیں ہوسکتا اگر کوئی ایسا عقیدہ رکھے کہ نبی علیہ السلام نور ہیں تو ایسا عقیدہ رکھنا شرک ہے۔ (شرک کیا ہے صفحہ 68)
مسئلہ نور و بشر پر اہلحدیث کا موقف
قارئین محترم قادری بریلوی کے دلائل کا جواب ترتیب وار اس باب کے آخر میں دیا جائے گا۔ پہلے ہم اہل حدیث کا عقیدہ قرآن سے پیش کریں گے کہ تمام انبیاء علیہم السلام بشر ہی تھے کوئی نبی نوری دنیا میں نہیں آیا بلکہ سارے رسولوں نے اپنے بشر ہونے کا اعلان خود فرمایا :
بشریت انبیاء علیہم السلام قرآن سے 60 دلائل
دلیل نمبر : 1
قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ إِن نَّحْنُ إِلاَّ بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ وَلَـكِنَّ اللّهَ يَمُنُّ عَلَى مَن يَشَاء مِنْ عِبَادِهِ (سورۃ ابراہیم:11)
کفار کو رسولوں نے کہا کہ یہ ضرور ہے کہ ہم تمہاری طرح کے بشر ہیں لیکن اللہ تعالٰی اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے اپنا فضل کرتا ہے۔
اس آیت مبارکہ میں بتادیا گیا کہ بشریت میں تو تمہارے ساتھ شریک ہیں یعنی ہماری جنس اور تمہاری جنس ایک ہے تم بھی انسان ہو اور ہم بھی انسان ہیں مگر آیت کے دوسرے حصے میں امتیاز بیان فرمایا کہ ہم پر اللہ نے احسان فرمایا نبوت ورسالت عطا فرمائی مگر یہ بات یاد رکھیں کہ مقام کے لحاظ سے رسول و نبی کا رتبہ مخلوق میں سب سے زیادہ اونچا ہوتا ہے۔ جس کا عقیدہ یہ ہو کہ نبی علیہ السلام کا مقام میرے مقام کی طرح ہے نبی علیہ السلام کی عزت میری طرح ہے۔ نبی علیہ السلام کی شان میری طرح ہے نبی علیہ السلام کی سیرت وصورت میری طرح ہے نبی کی عظمت میری طرح ہے تو ہمارے عقیدے کے مطابق ایسا انسان مسلمان ہی نہیں بلکہ کافر ہے یہاں جو یہ بیان کیا گیا ہے کہ تمہاری طرح کا بشر ہوں یہ صرف جنس بشریت کے اعتبار سے ہے۔ اکثر لوگ اہل حق پر کیچڑ اچھالتے رہتے ہیں کہ یہ نبی علیہ السلام کی عزت بڑے بھائی جتنی کرتے ہیں سب جھوٹ اور افتراء ہے وگرنہ کوئی مسلمان اہل ایمان ایسا سوچ بھی نہیں سکتا کروڑوں بھائی، باپ، ماں، قبیلے، خاندان نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی جوتی کی خاک کا بھی مقابلہ نہیں کر سکتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان جیسی کسی کی شان نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام جیسا کسی کا مقام نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رتبہ جیسا کسی کا رتبہ نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام تمام مخلوقات سے اونچا ہے۔
سنا جس کسی نے کلام محمدﷺ
ہوا جان و دل غلام محمدﷺ
ہوا ہے نہ ہوگا میسر کسی کو
بلند اس قدر ہے مقام محمدﷺ
اگر چاہتا ہے کہ خدا تجھ سے خوش ہو
دل و جان سے کر احترام محمدﷺ
اس آیت مبارکہ میں تمام انبیاء علیہم السلام نے اپنے بشر ہونے کا اعلان فرمایا ہے :
اس لیے اہل حدیث نے یہ عقیدہ اپنایا ہے:
دلیل نمبر : 2
اللہ تعالیٰ نبوت صرف بشر کو ہی عطا کرتا ہے چنانچہ ارشاد ہے :
مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُؤْتِيَهُ اللّهُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُواْ عِبَادًا لِّي مِن دُونِ اللّهِ (سورۃ آل عمران:79)
کسی بشر کے لیے یہ جائز نہیں کہ اللہ تو اُسے کتاب ، حکم اور نبوت دے پھر وہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کو چھوڑ کر تم میرے بندے بن جاؤ۔
اس آیت مبارکہ سے صاف ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ بشر کو ہی کتاب حکمت اور نبوت سے نوازتا ہے اللہ تعالیٰ نے امام کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی بشریت کا واضح اعلان کروایا :
دلیل نمبر : 3
قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنتُ إَلاَّ بَشَرًا رَّسُولاً (سورۃ بنی اسرائیل:93)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجئے کہ اللہ پاک ہے میں بجز اس کے اور کیا ہوں بشر رسول ہوں۔
اس آیت مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے واضح اعلان کروایا گیا کہ کہہ دو کہ میں ایک بشر رسول ہوں اللہ نے اعلان کروایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا مگر سمجھ نہیں آتی کہ مولوی اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پر یقین کیوں نہیں کرتے اور نور نور کی رٹ لگائے پھرتے ہیں اور جن لوگوں کا عقیدہ اللہ کے قرآن کے مطابق ہے ان پر گستاخ رسول کے فتویٰ صادر کر رہے ہیں۔ ایک مقام پر پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تصریحی اعلان بشریت کا حکم ملا۔
دلیل نمبر : 4
قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ (سورۃ الکہف:110)
کہہ دو کہ میں تمہاری طرح کا ایک بشر ہوں میری طرف وحی آتی ہے۔
دلیل نمبر : 5
اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پھر اعلان کروایا :
قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَى إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ (سورۃ حم السجدہ:6)
آپ کہہ دیجئے کہ میں تم ہی جیسا بشر ہوں مجھ پر وحی کی جاتی ہے بیشک معبود تمہارا ایک ہے۔
دلیل نمبر : 6
ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا بشر ہمیشہ رہنے والا نہیں۔
وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّن قَبْلِكَ الْخُلْدَ أَفَإِن مِّتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ(سورۃ الانبیاء:34)
ہم نے آپ سے پہلے کسی بشر کو دائمی زندگی نہیں دی کیا پس آپ وفات پاجائیں پس یہ ہمیشہ رہیں گے۔
ایک جگہ میں تقریر کرنے کے لیے گیا تو میں نے مذکورہ آیات قرآنی پر درس دیا تو فارغ ہونے کے بعد ایک صاحب میرے پاس آکر بیٹھ گئے اور کہنے لگے کہ آپ نے جو بیان کیا کہ اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا: تم کہہ دو کہ میں تمہاری طرح کا بشر ہوں یہ اللہ نے صرف نبی کو کہا ہم یہ نہیں کہہ سکتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آپ کو بشر کہیں تو درست ہے اگر ہم کہیں تو گستاخی ہوگی میں نے پوچھا حضرت یہ بتائیں کہ اللہ کتنے ہیں کہنے لگے یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے اللہ تو ایک ہی ہے میں نے کہا اللہ کو ایک کہنا گستاخی نہیں اُس نے کہا وہ کیسے میں نے کہا اللہ تعالیٰ نے تو صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا۔ قل هو الله احد کہ دو کہ اللہ ایک ہے نبی علیہ السلام تو کہہ سکتے ہیں کہ اللہ ایک ہے مگر ہم نہیں کہہ سکتے یہ بات سننے کے بعد وہ آدمی خاموش ہو کر چلا گیا تعصب کی عینک اگر اتار کر بندہ قرآن وسنت کے دلائل پر غور کرے تو صراط مستقیم کچھ دور نہیں۔
دلیل نمبر : 7
تمام انبیاء علیہم السلام جن پر اللہ نے انعام فرمایا آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے :
أُوْلَـئِكَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ مِن ذُرِّيَّةِ آدَمَ (سورۃ مریم:58)
یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا نبیوں سے سب آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں۔
دلیل نمبر : 8
بشر خاکی ہوتے ہیں نوری نہیں ہوتے ۔
وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُكَلِّمَهُ اللّهُ إِلاَّ وَحْيًا أَوْ مِن وَرَاء حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولاً فَيُوحِيَ بِإِذْنِهِ مَا يَشَاء إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ (سورۃ الشورى:51)
اور یہ کسی بشر کے لائق نہیں کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر وحی سے یا تو پر دے کے پیچھے سے یا فرشتہ بھیج کر سو وہ وحی پہنچادے اللہ کے حکم سے جو اللہ کو منظور ہوتا ہے۔ بیشک وہ عالیشان خوب حکمت والا ہے۔
دلیل نمبر : 9
جتنے انبیاء علیہم السلام بھی دنیا میں تشریف لائے سب کے سب مرد تھے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ إِلاَّ رِجَالاً نُّوحِي إِلَيْهِمْ فَاسْأَلُواْ أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ (سورۃ الانبیاء:7)
اور ہم نے تم سے پہلے مرد ہی پیغمبر بنا کر بھیجے جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے اگر تم نہیں جانتے تو جو یاد رکھتے ہیں ان سے پوچھ لو۔
دلیل نمبر : 10
يَا بَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي فَمَنِ اتَّقَى وَأَصْلَحَ فَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ(سورۃ الاعراف:35)
اے آدم کی اولاد اگر تمہارے پاس پیغمبر آئیں جو تم میں سے ہی ہوں گے جو میرے احکام تم سے بیان کریں گے سو جو شخص پرہیزگاری رکھے اور درستگی کرے سو ان لوگوں پر نہ کچھ اندیشہ ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
دلیل نمبر : 11
وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلاَّ رِجَالاً نُّوحِي إِلَيْهِم مِّنْ أَهْلِ الْقُرَى(سورۃ النحل:43)
اور ہم نے آپ سے پہلے بھی صرف آدمی ہی رسول بنا کر بھیجے ہم ان پر وحی بھیجا کرتے تھے اگر تمہیں علم نہیں تو اہل علم سے پوچھ لو۔
دلیل نمبر : 12
وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلاَّ رِجَالاً نُّوحِي إِلَيْهِم مِّنْ أَهْلِ الْقُرَى(سورۃ یوسف:109)
اور ہم نے تم سے پہلے بستیوں کے رہنے والوں میں سے مرد ہی بھیجے تھے جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے۔
وصف :
بشریت ہی سے ملحقہ ایک پہلو وصف عبدیت بھی ہے مشرکین کی سمجھ میں یہ پہلو کبھی نہیں آیا جس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بار بار سمجھایا چنانچہ ارشاد فرمایا : حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بندے تھے۔
دلیل نمبر : 13
لَن يَسْتَنكِفَ الْمَسِيحُ أَن يَكُونَ عَبْداً لِّلّهِ (سورۃ النساء:172)
مسیح السلام اس بات سے عار نہیں رکھتے کہ اللہ کے بندے ہوں۔
مزید تاکید کے لیے اس وصف عبدیت کو اپنی زبان سے دہرایا ہے آپ نے شروع ہی میں اپنی زبان سے کہہ دیا تھا۔
دلیل نمبر : 14
قَالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا(سورۃ مریم:30)
میں تو اللہ کا بندہ ہوں اُسی نے مجھ کو کتاب دی اور اُسی نے مجھے نبی بنایا۔
دلیل نمبر : 15
چنانچہ حضرت زکریا علیہ السلام کے سلسلہ میں ہے:
ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهُ زَكَرِيَّا (سورۃ مریم:2)
یہ تذکرہ ہے آپ کے پروردگار کی مہربانی کا اپنے بندے زکریا علیہ السلام پر۔
دلیل نمبر : 16
نوح علیہ السلام کے سلسلہ میں ہے :
كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ فَكَذَّبُوا عَبْدَنَا (سورۃ القمر:9)
ان سے پہلے قوم نوح نے بھی ہمارے بندے کو جھٹلایا تھا۔
دلیل نمبر : 17
حضرت ایوب علیہ السلام بھی بندے تھے چنانچہ ارشاد فرمایا :
وَاذْكُرْ عَبْدَنَا أَيُّوبَ إِذْ نَادَى رَبَّهُ(سورۃ ص:41)
ہمارے بندے ایوب علیہ السلام کا بھی ذکر کر جب اُس نے اپنے رب کو پکارا۔
دلیل نمبر : 18
حضرت داؤد علیہ السلام بھی اللہ کے بندے تھے چنانچہ ارشاد فرمایا :
وَاذْكُرْ عَبْدَنَا دَاوُودَ ذَا الْأَيْدِ (سورۃ ص:17)
ہمارے بندے داؤد علیہ السلام کا ذکر کریں جو بڑی قوت والا تھا۔
دلیل نمبر : 19
وَوَهَبْنَا لَهُ سُلَيْمَانَ نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّابٌ(سورۃ ص:30)
ہم نے داؤد علیہ السلام کو سلیمان علیہ السلام عطا فرمایا جو بڑا اچھا بندہ تھا۔
دلیل نمبر : 20
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی بندے تھے چنانچہ رب العالمین کا ارشاد ہے :
تَبَارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلَى عَبْدِهِ لِيَكُونَ لِلْعَالَمِينَ نَذِيرًا(سورۃ الفرقان:1)
برکت والی ہے وہ ذات جس نے نازل کیا قرآن کو اپنے بندے پر تاکہ تمام لوگوں کو ڈرائے۔
دلیل نمبر : 21
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الأَقْصَى(سورۃ بنی اسرائیل:1)
پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا۔
دلیل نمبر : 22
أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ وَيُخَوِّفُونَكَ بِالَّذِينَ مِن دُونِهِ(سورۃ الزمر:36)
کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں یہ لوگ آپ کو اللہ تعالیٰ کے سوا اوروں سے ڈراتے ہیں۔
دلیل نمبر : 23
الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنزَلَ عَلَى عَبْدِهِ الْكِتَابَ وَلَمْ يَجْعَل لَّهُ عِوَجَا (سورۃ الکہف:1)
سب تعریف اللہ ہی کو ہے جس نے اپنے بندے پر یہ کتاب نازل کی اور اس میں کسی قسم کی کجی نہ رکھی۔
دلیل نمبر : 24
هُوَ الَّذِي يُنَزِّلُ عَلَى عَبْدِهِ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ لِيُخْرِجَكُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ(سورۃ الحدید:9)
وہ (اللہ) ایسا ہے جو اپنے بندے پر کھلی ہوئی آیتیں نازل کرتا ہے کہ وہ تم کو تاریکیوں سے روشنی کی طرف لے آئے۔
دلیل نمبر : 25
وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُواْ بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ(سورۃ البقرہ:23)
اگر تمہیں شک ہے اس (کتاب) کے بارے میں جو ہم نے اپنے بندے پر اتاری ہے تو تم بھی ایک سورۃ اس طرح کی لے آؤ۔
دلیل نمبر : 26
جس کا خاندان اور حسب نسب ہو وہ بشر ہی ہوتا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاء بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيرًا (سورۃ الفرقان:54)
اور وہی تو ہے جس نے پانی سے بشر کو پیدا کیا پھر اس کو صاحب نسب اور صاحب قرابت دامادی بنایا اور تمہارا پروردگار (ہر طرح) کی قدرت رکھتا ہے۔
یہ معاملات بشر کے ہی ہوتے ہیں کسی نوری کا کوئی قبیلہ خاندان اور نسب نہیں ہوتا وہ کسی کا داماد ہوتا ہے نہ سسر نہ صاحب اولاد جبکہ ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام رشتے موجود تھے پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت سے انکار کی کیا وجہ ہے؟
دلیل نمبر : 27
تمام رسول انسانوں کی جنس سے ہی آئے تھے جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی تھی :
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْهُمْ(سورۃ البقرہ:129)
ہمارے پروردگار اور اس جماعت کے اندر ان ہی میں سے ایک ایسا پیغمبر بھی مقرر کیجئے۔
دلیل نمبر : 28
هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولاً مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ(سورۃ الجمعہ:2)
وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں سے ایک رسول انہی میں سے بھیجا جو ان کے سامنے اس کی آیات پڑھتا ہے۔
دلیل نمبر : 29
كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولاً مِّنكُمْ(سورۃ البقرہ:151)
جس طرح تم لوگوں میں ہم نے ایک رسول کو بھیجا تم ہی میں سے۔
دلیل نمبر : 30
لَقَدْ مَنَّ اللّهُ عَلَى الْمُؤمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِهِمْ(سورۃ آل عمران:164)
حقیقت میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں پر احسان کیا جب اس نے ان میں ایک رسول انہی میں سے بھیجا۔
دلیل نمبر : 31
لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنْفُسِكُمْ(سورۃ التوبہ:128)
تمہارے پاس ایک ایسے رسول تشریف لائے ہیں جو تمہاری جنس سے ہیں۔
تمام انسان خاکی مخلوق ہیں ان میں کوئی نوری مخلوق نہیں ابتداء میں انسان کی تخلیق مٹی سے ہوئی سب سے پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام تھے۔
دلیل نمبر : 32
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ(سورۃ الحجر:26)
ہم نے انسان کو کھنکھناتے سڑے ہوئے گارے سے پیدا کیا ہے۔
دلیل نمبر : 33
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ سُلَالَةٍ مِنْ طِينٍ(سورۃ المومنون:12)
اور ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے سے پیدا کیا ہے۔
دلیل نمبر : 34
خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ(سورۃ الرحمن:14)
پیدا کیا اللہ نے انسان کو مٹی سے جو بجتی ہوئی ٹھیکری کی مانند تھی۔
دلیل نمبر : 35
وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنْسَانِ مِنْ طِينٍ(سورۃ السجدہ:7)
اور انسان کی پیدائش کی ابتداء مٹی سے کی۔
دلیل نمبر : 36
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِنَ الْبَعْثِ فَإِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ تُرَابٍ(سورۃ الحج:5)
اے لوگو اگر تمہیں قیامت کے دن جینے میں کچھ شک ہو تو یہ غور کرو کہ ہم نے تمہیں پیدا کیا مٹی سے۔ (ترجمہ احمد رضا بریلوی)
دلیل نمبر : 37
وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَكُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ إِذَا أَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُونَ(سورۃ الروم:20)
اور اس کی نشانیوں سے ہے یہ کہ تمہیں پیدا کیا مٹی سے پھر جبھی تم بشر دنیا میں پھیلے ہوئے۔
دلیل نمبر : 38
وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ مِنْ تُرَابٍ(سورۃ فاطر:11)
اللہ نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا۔
دلیل نمبر : 39
هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ تُرَابٍ(سورۃ غافر:67)
اللہ وہی تو ہے جس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا۔
دلیل نمبر : 40
هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ طِينٍ(سورۃ الانعام:2)
وہ اللہ وہی تو ہے جس نے تمہیں مٹی گارے سے پیدا کیا۔
دلیل نمبر : 41
اِنَّا خَلَقْنٰهُمْ مِّنْ طِیْنٍ لَّازِبٍ(سورۃ الصافات:11)
ہم نے پیدا کیا ان کو چکنی مٹی سے۔
دلیل نمبر : 42
مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ(سورۃ طہ:55)
ہم نے تمہیں اس زمین سے پیدا کیا پھر تمہیں اس میں لوٹائیں گے۔
دلیل نمبر : 43
پوری انسانیت کے باپ جناب آدم علیہ السلام کی پیدائش کے وقت فرمایا فرشتوں سے :
إِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِنْ طِينٍ(سورۃ ص:71)
جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے کہا کہ میں مٹی سے بشر کو پیدا کرنے والا ہوں۔
سب سے پہلے بشر حضرت آدم علیہ السلام ہیں باقی سارے انسان آدم سے پھیلے ہیں۔
دلیل نمبر : 44
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً(سورۃ النساء:1)
اے لوگو ڈرو اپنے رب سے جس نے تمہیں پیدا کیا ایک ہی نفس سے اور پیدا کیا اس سے اس کی بیوی کو اور پھر پھیلا دیئے ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں۔
اس مفہوم کی آیات اور بھی ہیں مثلاً (سورۃ الزمر آیت نمبر 6 ، سورۃ الانعام آیت 98 ، سورۃ الاعراف آیت 189) نیز مذکورہ بالا آیات قرآنی سے معلوم ہوا کہ آدم علیہ السلام کی بیوی سارے انسانوں کی ماں حضرت آدم علیہ السلام کے جسم سے تخریج کی گئیں ہے معلوم ہوا کہ تمام انسان ان ہی کی نسل سے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان دونوں کے بیٹے تھے اگر یقین نہیں آتا تو میں نمونے کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آدم علیہ السلام کے بیٹے ہونے کا بین ثبوت یعنی سلسلہ نسب پیش کر دیتا ہوں غور فرمائیں کہ آپ خاکی تھے یا نوری۔
امام کائنات کا شجر طیبہ:۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان بن اود بن ہمزہ بن سلامان بن عوص بن بوز بن قموال بن ابوب بن عوام بن ناشد بن حزا بن بلداس بن یدلاف بن طابخ بن جاحم بن ناحش بن ماکی بن ابقر بن عبید بن الدعا بن حمدان بن سنبر بن یثربی بن یحزن بن یلہان بن ارعوی بن عیض بن دیشان بن عیسی بن افناد بن ایہام بن مقصر بن ناحث بن زارح بن سمی بن مزی بن عوضہ بن عرام بن قیدار بن اسماعیل بن ابراہیم بن تارخ بن ناخور بن سروغ بن رعو بن فالغ بن عابر بن شالخ بن ارفکشاد بن سام بن نوح علیہ السلام بن لامک بن متوشلخ بن اخنوخ بن یرد بن مہلائیل بن قینان بن انوش بن شیث علیہ السلام بن آدم علیہ السلام ۔(بحوالہ تحفة الموحدين صفحہ 259)
افسوس ہے محض لوگوں کی احمقانہ سوچ پر کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر آدم علیہ السلام تک 80 پشتوں کا شجرہ پڑھ لیا پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشر نہیں بلکہ نوری ہیں تو حماقت کا دروازہ توڑ کر باہر آجائیں اصلاح عقیدہ کے لیے بشریت کا نسخہ استعمال کریں۔
ہمارا فرض ہے کہنا بتا دینا
تمہارا کام ہے مانو یا نہ مانو
دلیل نمبر : 45
بشر کے رسول ہونے پر کفار کو بڑا تعجب تھا کہ بشر رسول کیسے بن گئے۔
وَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا أَنْ أَوْحَيْنَا إِلَى رَجُلٍ مِنْهُمْ أَنْ أَنْذِرِ النَّاسَ(سورۃ یونس:2)
کیا لوگوں کو تعجب ہوا کہ ہم نے انہی میں سے ایک مرد کو حکم بھیجا کہ لوگوں کو ڈر سنادو۔
دلیل نمبر : 46
أَوَعَجِبْتُمْ أَنْ جَاءَكُمْ ذِكْرٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَلَى رَجُلٍ مِنْكُمْ لِيُنْذِرَكُمْ (سورۃ الاعراف:69)
کیا تم کو اس بات پر تعجب ہوا ہے کہ تم میں سے ایک شخص کے ہاتھ تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس نصیحت آئی تا کہ وہ تمہیں ڈرائے۔
دلیل نمبر : 47
بَلْ عَجِبُوا أَنْ جَاءَهُمْ مُنْذِرٌ مِنْهُمْ فَقَالَ الْكَافِرُونَ هَذَا شَيْءٌ عَجِيبٌ(سورۃ ق:2)
بلکہ ان لوگوں نے تعجب کیا کہ انہی میں سے ایک ہدایت کرنے والا ان کے پاس آیا تو کافر کہنے لگے کہ یہ بات تو بڑی عجیب ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی بننے پر کفار بڑا تعجب کرتے تھے کہ بشر رسول کیسے بن گیا جیسے آج کل لوگ نبوت کو مانتے ہیں مگر بشریت کا انکار کرتے ہیں اور نوری ہونے پر اصرار کرتے ہیں۔ کفار کا عقیدہ تھا کہ بشر رسول نہیں ہو سکتا بلکہ نبی ہونے کے لیے نوری مخلوق ہونا شرط ہے اسی لیے وہ نبیوں پر ایمان نہیں لائے جو ان کی طرف مبعوث ہوئے تھے کیوں کہ وہ نبیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے تھے اور ان میں بشر کی خاصیت انہیں واضح نظر آتی تھی تو انہوں نے دیکھ کر کہہ دیا کہ یہ بشر نبی نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ ان میں نوری مخلوق ہونے کی شرط مفقود ہے۔ قرآن کریم نے اس عقیدے کو بیان بھی کیا اور رد بھی کیا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
دلیل نمبر : 48
وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَنْ يُؤْمِنُوا إِذْ جَاءَهُمُ الْهُدَى إِلَّا أَنْ قَالُوا أَبَعَثَ اللهُ بَشَرًا رَسُولًا (سورۃ بنی اسرائیل:94)
اور جب لوگوں کے پاس ہدایت آگئی تو ان کو ایمان لانے سے اس کے سوا کوئی چیز مانع نہ ہوئی کہ کہنے لگے کہ کیا اللہ نے بشر کو پیغمبر کر کے بھیجا ہے۔
دلیل نمبر : 49
حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے سرداروں کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ بشر نبی نہیں ہو سکتا :
فَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَوْمِهِ مَا هَذَا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُرِيدُ أَنْ يَتَفَضَّلَ عَلَيْكُمْ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَأَنْزَلَ مَلَائِكَةً(سورۃ المومنون:24)
اس (نوح) کی قوم کے سرداروں نے صاف کہہ دیا کہ یہ تو تمہاری طرح کا بشر ہے جو تم پر فضیلت حاصل کرنا چاہتا ہے اور اگر اللہ نبی بنانا چاہتا تو وہ فرشتوں کو نبی بنا کر اتار دیتا۔
دلیل نمبر : 50
حضرت ہود علیہ السلام کی قوم کا بھی یہی نظریہ تھا کہ رسول کے لیے نوری ہونا ضروری ہے بشر رسول نہیں ہو سکتا جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے :
وَقَالَ الْمَلَأُ مِنْ قَوْمِهِ الَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِلِقَاءِ الْآخِرَةِ وَأَتْرَفْنَاهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا مَا هَذَا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يَأْكُلُ مِمَّا تَأْكُلُونَ مِنْهُ وَيَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُونَ وَلَئِنْ أَطَعْتُمْ بَشَرًا مِثْلَكُمْ إِنَّكُمْ إِذًا لَخَاسِرُونَ (سورۃ المومنون:33-34)
اس (ہود علیہ السلام) کی قوم کے سرداروں نے کہا جنہوں نے کفر کیا تھا اور وہ آخرت کی ملاقات کی تکذیب کرتے تھے اور ہم نے انہیں دنیوی زندگی میں خوشحال کر رکھا تھا انہوں نے کہا یہ (ہود علیہ السلام) تو تم جیسا بشر ہے تمہاری ہی خوراک یہ بھی کھاتا ہے اور تمہارے پینے کا پانی یہ بھی پیتا ہے اگر تم نے اپنے جیسے بشر کی اطاعت کی تو تم خسارہ اٹھاؤ گے۔
دلیل نمبر : 51
دوسری جگہ ارشاد فرمایا :
قَالُوا مَا أَنْتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُنَا وَمَا أَنْزَلَ الرَّحْمَنُ مِنْ شَيْءٍ إِنْ أَنْتُمْ إِلَّا تَكْذِبُونَ(سورۃ یس:15)
ان لوگوں نے کہا تم تو ہماری طرح کے بشر ہو اور رحمان نے کوئی چیز نازل نہیں کی تم نرا جھوٹ بولتے ہو۔
یہ کہنے کا مطلب یہی تھا کہ چونکہ تم بشر ہو اور بشر نبی نہیں ہوسکتا لہذا تم نبی نہیں ہو کیونکہ اللہ نے ان پر وحی نازل نہیں کی لہذا تم پر بھی وحی نازل نہیں ہو گی تم اپنے دعویٰ نبوت میں جھوٹے ہو بشر ہونے کی وجہ سے ان کی نبوت کا انکار کر دیا۔
دلیل نمبر : 52
إِذْ جَاءَتْهُمُ الرُّسُلُ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّهَ قَالُوا لَوْ شَاءَ رَبُّنَا لَأَنْزَلَ مَلَائِكَةً فَإِنَّا بِمَا أُرْسِلْتُمْ بِهِ كَافِرُونَ(سورۃ حم السجدہ:14)
جب ان کے پاس پیغمبران آگے اور پیچھے سے آئے کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو کہنے لگے کہ اگر ہمارا پروردگار چاہتا تو فرشتے اتار دیتا سو جو تم دے کر بھیجے گئے ہو ہم اس کو نہیں مانتے۔
ان کا نظریہ یہ تھا کہ بشریت نبوت کے منافی ہے یعنی بشریت اور نبوت دونوں وصف کسی شخص میں اکٹھے نہیں ہو سکتے یعنی جو بشر ہو گا وہ نبی نہیں ہو سکتا اور جو نبی ہوگا وہ بشر نہیں ہو سکتا جس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ جو نبی ہو گا وہ ضرور نوری مخلوق ہوگا۔ اسی لیے وہ بشر نہیں ہو سکتا۔ اور کہتے ہیں :
مَا أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى بَشَرٍ مِنْ شَيْءٍ(سورۃ الانعام:91)
اللہ نے کسی بشر پر کوئی چیز نازل نہیں کی۔
ان کا مطلب یہ تھا کہ اللہ نے کبھی بھی کسی بشر کو نبی یا رسول بنا کر مبعوث نہیں کیا فرعونیوں کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ بشر رسول نہیں ہوسکتا موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کے بشر ہونے کی وجہ سے وہ ان پر ایمان نہیں لائے جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
دلیل نمبر : 53
فَقَالُوا أَنُؤْمِنُ لِبَشَرَيْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُهُمَا لَنَا عَابِدُونَ(سورۃ المومنون:47)
کہنے لگے کہ کیا ہم ان اپنے جیسے دو بشروں پر ایمان لے آئیں اور ان کی قوم کے لوگ ہمارے غلام ہیں۔
دلیل نمبر : 54
اللہ تعالیٰ نے سب قوموں کے باطل اعتراض کا جواب یوں دیا :
قُلْ لَوْ كَانَ فِي الْأَرْضِ مَلَائِكَةٌ يَمْشُونَ مُطْمَئِنِّينَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِمْ مِنَ السَّمَاءِ مَلَكًا رَسُولًا(سورۃ بنی اسرائیل:95)
کہہ دو کہ زمین میں فرشتے ہوتے چلتے پھرتے آرام کرتے تو ہم ان کے پاس فرشتے کو پیغمبر بنا کر بھیجتے۔
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے مسئلہ واضح بتا دیا کہ زمین پر بسنے والے نوری نہیں تھے بلکہ خاکی تھے اگر نوری ہوتے تو ہم کسی نوری فرشتے کو رسول بنا کر مبعوث کرتے ۔ کیونکہ زمین پر بسنے والے انسان تھے اس لیے بشروں کو ہی رسول بنا کر بھیجا گیا۔
ایک باطل اعتراض اور اس کا جواب:۔
کچھ لوگ ان پڑھ سادہ لوگوں کے دلوں میں یہ بات ڈالتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام کو بشر کافروں نے کہا تھا تو جو نبی کو بشر کہے وہ کافر ہے ۔ معاذ الله
پہلی بات یہ کہ انہوں نے انبیاء علیہم السلام کو جو بشر کہا تھا وہ ان کی نبوت کا انکار کر کے کہا تھا دراصل ان کے کفر کی وجہ انبیاء علیہم السلام کو بشر کہنا نہ تھی بلکہ ان کے کفر کی وجہ بشر کو نبی رسول نہ ماننا تھا یعنی جو کوئی بشر کو نبی تسلیم نہ کرے یہ کفر کی بات ہے خالص ایمان کی بات یہ ہے کہ نبی کو بشر بھی تسلیم کرے اور رسول و نبی بھی کیوں کہ سب رسولوں علیہم السلام نے اپنے بشر ہونے کا اعلان خود فرمایا تھا۔
جیسا کہ سورۃ ابراہیم میں ہے اس کفر کی کبھی تائید نہ کرتے بلکہ رد کرتے رسولوں علیہم السلام کا اس بات کا اقرار کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ نبی کو بشر کہنا کفر نہیں بلکہ ایمان ہے اس لیے انبیاء علیہم السلام نے تائید فرمائی۔
دلیل نمبر : 55
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نوری ہونے کا انکار فرمایا جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے :
قُلْ لَا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ(سورۃ الانعام:50)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجئے کہ نہ تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں نوری فرشتہ ہوں۔
اہل حق کے خلاف ایک پراپیگنڈا :۔
اہل حق کے خلاف جب ان لوگوں کو قرآن و حدیث سے کوئی دلیل نہیں ملتی تو یہ کہ دیتے ہیں کہ یہ گستاخ رسول ہیں معاذ اللہ اہل حدیث کا تو یہ عقیدہ ہے کہ گستاخی کرنا تو دور کی بات جس کے ذہن میں رسول کی گستاخی کا تصور بھی آجائے تو کافر اور واجب القتل ہو جاتا ہے۔ جب پوچھا جائے کہ وہ کیا گستاخی کرتے ہیں تو عام مشہور ہے ہمیں بچپن سے ہی یہ کہہ کر وہابی سے متنفر کیا جاتا تھا کہ وہ نبی کی عزت بڑے بھائی جتنی کرتے ہیں یہ بات انہوں نے اس لیے بنائی کہ بعض علماء حق نے یہ کہا تھا کہ نبی کو بھائی کہنا جائز ہے۔ مگر نبی کا مقام پوری کائنات سے بلند و بالا ہوتا ہے ساری کائنات کے بھائی بیٹے باپ سب مل کر بھی اللہ کے پیغمبر کے ایک چھوٹے سے صحابی کے مقام تک بھی نہیں پہنچ سکتے۔ تمام انبیاء علیہم السلام تمام فرشتوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام سب سے اونچا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان نبی کا مقام میرے بھائی جتنا ہے ہمارے نزدیک ایسا شخص مسلمان ہی نہیں ہو سکتا ہاں دینی رشتہ سے محض بھائی کہہ دینا کوئی گستاخی کی بات نہیں جتنے بھی نبی آئے وہ سارے اپنی قوم کے رشتہ دار بھائی ہی تھے جیسا کہ قرآن کریم ہے :
دلیل نمبر : 56
إِذْ قَالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ هُودٌ أَلَا تَتَّقُونَ (سورۃ الشعراء:124)
جب ان سے ان کے بھائی ہود علیہ السلام نے کہا کیا تم ڈرتے نہیں۔
دلیل نمبر : 57
وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ هُودًا(سورۃ الاعراف:65)
اور قوم عاد کی طرف ان کے بھائی ہود علیہ السلام کو بھیجا انہوں نے کہا کہ اے میری قوم اللہ ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں کیا تم ڈرتے نہیں ہو۔
دلیل نمبر : 58
وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا(سورۃ الاعراف:73)
اور قوم ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح علیہ السلام کو رسول بنا کر بھیجا۔
دلیل نمبر : 59
وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا(سورۃ الاعراف:85)
اور مدین والوں کی طرف ان کے بھائی شعیب علیہ السلام کو بھیجا۔
ان چار قرآنی آیات سے اس امر کا ثبوت کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کو اپنی امتوں کا بھائی قرار دیا اس سے معلوم ہوا کہ امتی اگر نبی علیہ السلام کو بھائی کہہ دے تو اس میں کوئی گستاخی کا پہلو نہیں نکلتا غور فرمائیں غصہ تھوک کر مسئلہ کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
دور ہو جائے اگر کینہ تو دل آئینہ ہو
معرفت کے نور سے روشن تمہارا سینہ ہو
دلیل نمبر : 60
بعض لوگوں نے اللہ کے بندوں کو اللہ کا جزء قرار دیا ہے کھلے ناشکرے ہیں چنانچہ ارشاد ہے :
وَجَعَلُوا لَهُ مِنْ عِبَادِهِ جُزْءًا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَكَفُورٌ مُبِينٌ (سورۃ الزخرف:15)
اور انہوں نے اللہ کے بعض بندوں کو اس کا جزء ٹھہرا دیا یقینا انسان کھلا ناشکرا ہے۔
بعض لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے نور کا ٹکڑا ہیں ایسے لوگوں کو قرآن کی روشنی میں اپنے عقیدے کی اصلاح کرنی چاہیے۔ جب اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس مسئلہ کو واضح بیان فرما دیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک بشر رسول ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن میں واضح اعلان کروا دیا :
قُلْ سُبْحَانَ رَبِّي هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَسُولًا(سورۃ بنی اسرائیل:93)
اے نبی ان لوگوں سے کہہ دو کہ میرا رب ہر عیب و نقص سے پاک ہے میں تو صرف ایک بشر رسول ہوں۔
اس آیت مبارکہ میں بشریت اور رسالت دونوں کا واضح ثبوت موجود ہے مگر ضد اور تعصب ہٹ دھرمی کا کوئی علاج نہیں کشادہ ذہن سے غور کیا جائے تو بات کھل کر سامنے آجاتی ہے۔
دوسری جگہ پر اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن میں واضح اعلان کروایا کہ ان لوگوں کو بتادیں :
قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ(سورۃ الکہف:110)
کہہ دو کہ میں تمہاری طرح کا ایک بشر ہوں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور پوری انسانیت کے باپ کو اللہ نے بشر کہا :
إِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِنْ طِينٍ(سورۃ ص:71)
جبکہ آپ کے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں مٹی سے بشر کو پیدا کرنے والا ہوں۔
تمام رسولوں علیہم السلام نے اپنی بشریت کا خود اعتراف کیا جیسا کہ قرآن کریم سے واضح ہے :
قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ إِنْ نَحْنُ إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ(سورۃ ابراہیم:11)
ان کے رسولوں نے ان سے کہا ہم تو تمہارے جیسے بشر ہی ہیں۔
قرآن مجید کے اتنے واضح دلائل دیکھنے کے باوجود بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اگر بشر نہیں مانتا بلکہ نوری مخلوق تصور کرتا ہے تو میرے خیال میں اسے اپنے ایمان کی فکر ہونی چاہیے کہ اللہ کی آیات کا انکار کرتا ہے صرف اپنے خود ساختہ عقیدے کو ثابت کرنے کے لیے تو بعض لوگ جب قرآن کے اتنے واضح دلائل دیکھتے ہیں تو وہ یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشر نہ تھے مجبور ہو کر کہتے ہیں کہ وہ بشر بھی ہیں اور نور بھی یہ بات تو اس طرح ہے کہ دن کے بارہ بجے کسی سے پوچھا جائے کہ بتاؤ دن ہے کہ رات وہ کہے دن بھی ہے اور رات بھی یہ عجیب ہی منطق ہے جو ہماری سمجھ سے بالا تر ہے۔ کیونکہ جو نوری مخلوق ہے وہ خاکی نہیں اور جو خاکی ہے وہ نوری نہیں ایک ہی وقت میں دونوں کا ہونا ناممکنات میں سے ہے اللہ تعالیٰ میرے مسلمان بھائیوں کو قرآن وسنت کے مطابق عقیدہ اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمين
تمام امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سب سے اشرف مخلوق انسان ہے انسان کے سامنے نوریوں سے سجدہ کروا کے بھی مالک کائنات نے ثابت کر دیا کہ بشر نوریوں سے افضل ہے نوری مفضول ہیں۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اشرف مخلوق سے نکال کر ادنی مخلوق میں داخل کرنا مقام میں کمی ہے نہ کہ
اضافہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام نوریوں سے بلند ہے۔
اب ہم حدیث کی روشنی میں اس مسئلہ کو بیان کریں گے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نور تھے یا بشر ؟
بشریت امام الانبیاء علیہ السلام حدیث کی روشنی میں
دلیل نمبر :1
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
لا تطروني كما أطرت النصارى ابن مريم، فإنما أنا عبده، فقولوا : عبد الله ورسوله
(صحیح بخاری مع شرح ج 4 ص 717 حدیث 3445)
مجھے میرے مرتبہ و مقام کی حد سے آگے نہ بڑھاؤ جس طرح عیسائیوں نے عیسی ابن مریم کو حد سے بڑھا دیا میں تو اللہ کا بندہ ہوں تم مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہا کرو۔
دلیل نمبر : 2
حضرت عبداللہ مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھا کہ سلام پھیر دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کیا نماز کے متعلق کوئی نیا حکم نازل ہوا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا ہوا صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو نماز زیادہ پڑھا دی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاؤں قبلہ کی طرف کئے اور دو سجدے کئے پھر سلام پھیر دیا پھر لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے اگر نماز کے متعلق کوئی نیا حکم نازل ہوگا تو میں تمہیں بتا دوں گا۔
إنما أنا بشر مثلكم، أنسى كما تنسون، فإذا نسيت فذكروني
(صحیح بخاری شریف باب التوجه نحو القبله حدیث 401 ج ، ص 464 مع شرح)
میں تمہارے جیسا ایک بشر ہی ہوں میں بھی تمہاری طرح بھول جاتا ہوں اگر میں بھول جاؤں تو مجھے یاد کرا دیا کرو۔
دلیل نمبر : 3
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إنما أنا بشر، وإنكم تختصمون إلي، فلعل بعضكم أن يكون ألحن بحجته من بعض، فأقضي له بحق أخيه شيئا فلا يأخذه، فإنما أقطع له قطعة من النار
(بخاری شریف کتاب الاحكام باب موعظة الامام حديث : 7169)
میں ایک بشر ہی ہوں اور تم میری طرف اپنے جھگڑے لے کر آتے ہو شاید تم میں سے کوئی اپنی حجت پیش کرنے میں دوسرے سے زیادہ تیز طرار ہو تو میں اس کی حجت سننے کے مطابق اس کے حق میں فیصلہ دے دوں تو سن لو جس کے حق میں میں کسی مسلمان کے حق کا فیصلہ کر دوں تو سمجھو کہ وہ آگ کا ٹکڑا ہے چاہے تو اسے پکڑ لے چاہے چھوڑ دے۔
اس حدیث مبارکہ سے دو باتیں واضح ہوئیں ایک یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بشر ہی تھے دوسرا یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب بھی نہ تھے تعصب چھوڑ کر غور کیا جائے تو حق تک پہنچنا آسان ہے۔
دلیل نمبر : 4
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إنما أنا بشر ، وإني اشترطت على ربي عزوجل، أى عبد من المسلمين سببته أو شتمته، أن يجعل ذلك له زكاة وأجرا
(صحیح مسلم شریف کتاب البر والصلة حديث 2602)
میں ایک بشر ہی ہوں اور میں نے اپنے رب سے ایک شرط کی ہے کہ میں نے جس کسی مسلمان کو بُرا بھلا کہا ہو (اور وہ اس کا مستحق نہ تھا) تو وہ اس کے لیے باعث خیر اور اجر ثواب بنادے۔
دلیل نمبر : 5
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا اللہ کی حمد وثنا کے بعد فرمایا :
أيها الناس إنما أنا بشر يوشك أن يأتيني رسول ربي فأجيب
(مسلم شریف فضائل الصحابه؛ مسند احمد ج 4 ص 347، وهو فى المشكوة باب مناقب)
اے لوگو سن لو میں تو ایک بشر ہی ہوں قریب ہے میرے پاس میرے رب عزوجل کا بھیجا ہوا (موت کا فرشتہ) پیغام لے کر آجائے تو میں اس کا پیغام قبول کرلوں۔
دلیل نمبر : 6
حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إنما أنا بشر، إذا أمرتكم بشيء من دينكم فخذوه، وإذا أمرتكم بشيء من رأيي، فإنما أنا بشر
(مسلم شریف ،کتاب الفضائل باب وجوب امتثال حدیث : 2362)
میں ایک بشر ہی ہوں میں جب تمہیں تمہارے دین کی کسی بات کا حکم دوں تو اس کو قبول کیا کرو اور جب تمہیں اپنی رائے سے کوئی حکم دوں تو میں ایک بشر ہی ہوں۔
دلیل نمبر : 7
حضرت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إنما أنا بشر تدمع العين ويخشع القلب ولا نقول إلا ما يرضى الرب
(صحيح جامع صغير حديث 2340 سلسله صحیحه 1732)
میں ایک بشر ہی ہوں آنکھ بہتی ہے دل غمگین ہے اور ہم ایسی کوئی بات نہیں کہیں گے جو رب کو ناراض کرے یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بیٹے ابراہیم کی وفات کے وقت کہی تھی۔
دلیل نمبر : 8
ایک اور حدیث مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إنما أنا بشر أرضى كما يرضى البشر وأغضب كما يغضب البشر
( صحيح جامع صغیر حدیث : 7856)
میں ایک بشر ہی ہوں بشروں کی طرح راضی خوش ہوتا ہوں اور مجھے بشروں کی طرح غصہ بھی آجاتا ہے۔
دلیل نمبر : 9
مخلوقات سے عاقل مخلوق کی تین قسمیں ہیں ملائکہ جنات اور انسان ان میں سے ہر ایک کی اصلیت اور خلقت کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
خلقت الملائكة من نور، وخلق الجان من مارج من نار، وخلق آدم مما وصف لكم
(مسلم شريف كتاب الزهد والرقائق باب في حديث متفرقه حديث : 2996)
(مطلب یہ ہے) کہ ملائکہ تو نور سے پیدا ہوئے اور جنات آگ کے شعلے سے اور آدم مٹی اور پانی سے جس کا بیان قرآن کریم میں موجود ہے اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ انسان کی تخلیق مٹی سے ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی انسان تھے خاکی تھے نوری مخلوق نہ تھے۔
دلیل نمبر : 10
ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کسوف کے خطبہ میں فرمایا تھا :
أيها الناس إنما أنا بشر رسول
(موارد الظمان : 158)
اے لوگو میں تو ایک بشر رسول ہوں۔
یہ فرمان رسول قرآن کریم کی آیت کے بالکل مطابق ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا تھا کہ آپ کہہ دیں :
هَلْ كُنْتُ إِلَّا بَشَرًا رَسُولًا(سورۃ بنی اسرائیل: 93)
میں تو صرف ایک بشر رسول ہوں۔
دلیل نمبر : 11
چنانچہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ تھیں بیان کرتی ہیں کہ :
كان بشرا من البشر
(مسند احمد احمد : 4 ، صفحه : 256)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشروں میں سے ایک بشر تھے
دلیل نمبر : 12
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد یہ فرمایا تھا کہ :
إن رسول الله قد مات وإنه بشر
(دار می شریف باب وفات النبي ص : 23)
بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں اور وہ بشر ہیں۔
دلیل نمبر : 13
احمد رضا خان صاحب بریلوی کی کتاب فتاویٰ افریقہ سے پڑھیے وہ تحریر کرتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر بچہ کی ناف میں اس مٹی کا حصہ ہوتا ہے جس سے وہ بنایا گیا یہاں تک کہ مرنے کے بعد اس میں دفن کیا جائے گا۔
إنا وأبو بكر وعمر خلقنا من تربة واحدة فيها ندفن
(فتاوی افریقه ص 85 مطبوعه رضوی پریس 1236)
میں صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما ایک ہی مٹی سے پیدا کئے گئے ہیں اور اسی میں دفن ہوں گے۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاکی تھے نوری نہ تھے مٹی سے پیدا کیے گئے تھے۔
ان احادیث مبارکہ سے روز روشن کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت ثابت ہو چکی ہے ماننے والوں کے لیے ایک آیت قرآنی اور ایک حدیث نبوی کافی ہوتی ہے اس عنوان کی سینکڑوں احادیث موجود ہیں میں نے خوف طوالت سے صرف چند احادیث کو نقل کیا ہے لیکن مختلف طریقے سے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نوری ثابت کرنے کی سعی لاحاصل کرتے ہیں مگر حق دلائل کیونکہ قرآن وسنت سے ثابت ہیں اس لیے کسی کو انکار کی جراءت نہیں ہو سکتی میں نے بھی کبھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نوری ثابت کرنے کی بڑی کوشش کی تھی مگر بیکار کیوں کہ قیاسی من گھڑت روایات جو کہ عوام الناس میں مشہور ہو چکی ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں اس موضوع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی صحیح روایت مروی نہیں ہے یہ جھوٹی کہانیاں اللہ کے قرآن کے صریح خلاف ہیں اور حدیث کے بھی۔
یہ مدعی اسلام تو ہیں ساتھ مگر بیگانوں کے
تقویٰ کی تو بو ہی نہیں اور رنگ نہیں ایمان میں