مسئلہ فاتحہ خلف الامام پر قرآن و حدیث سے متعدد عام اور خاص دلائل
یہ اقتباس شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی کتاب مسئلہ فاتحہ خلفُ الامام سے ماخوذ ہے۔

✔ فاتحہ خلف الامام کے عام دلائل

متعدد عام دلائل سے ثابت ہے کہ
1 : نماز میں سورہ فاتحہ ضرور پڑھنی چاہئے ۔
2 : سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
مثلا قرآن مجید میں ارشاد ہے:
فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ
(73-المزمل:20)
پس پڑھو جو آسان ہو قرآن میں سے ۔
اس آیت کے بارے میں ملا جیون حنفی (متوفی 1130ھ ) لکھتے ہیں:
فإن الأول بعمومه يوجب القراءة على المقتدي
پس بے شک پہلی آیت ( آیت مذکورہ بالا ) اپنے عموم کے ساتھ مقتدی پر قراءت واجب کرتی ہے۔
(نور الانوار: ص194، 193)
تقریباً ایسی ہی عبارت” نامی شرح حسامی“ (155/1 156) کتاب تعلیق (ص73) التقرير النامی شرح اردو الحسامی ( از قلم : محمد اشرف نقشبندی ) وغیرہ کتب اصول فقہ میں بغیر کسی انکار کے لکھی ہوئی ہے۔
قاسم بن قطلو بغا حنفی (متوفی 879ھ) نے لکھا ہے کہ ۔
(فحكمه ) أى : حكم وقوع التعارض بين الآيتين المصير إلى السنة كقوله تعالى ( فاقرواما تيسر من القرآن ) يوجب (القرآن) بعمومه القراءة على المقتدي ، وقوله تعالى (وإذا قري القرآن فاستمعوا له ) ينفي وجوبها، إذ كلاهما ورد فى الصلوة كما بينه الطحاوي فى الأحكام فصير إلى الحديث
اگر دو آیتوں میں تعارض آجائے تو اس کا حکم یہ ہے کہ سنت کی طرف رجوع کیا جائے ، اس کی مثال اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے کہ قرآن میں سے جو میسر ہو پڑھو یہ آیت اپنے عموم کے ساتھ مقتدی پر قراءت واجب کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی آیت : اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو اس کے وجوب کی نفی کرتی ہے، چونکہ یہ دونوں ( آیتیں ) نماز کے بارے میں وارد ہوئی ہیں ، جیسا کہ طحاوی نے (اپنی کتاب ) الاحکام میں بیان کیا ہے ، پس حدیث کی طرف رجوع کیا گیا۔ الخ
(خلاصة الافكار شرح مختصر المنار ص 197، 198)
معلوم ہوا کہ حنفی فقہاء کے نزدیک قرآن مجید کی دو آیتیں آپس میں ٹکرا کر ساقط ہوگئی ہیں، إنا لله وإنا إليه راجعون
تنبیہ:
قاسم بن قطلو بغا پر محدث بقاعبی رحمہ اللہ (متوفی 885ھ) کی شدید جرح کے لئے دیکھئے الضوء اللامع للسخاوی (186/6) بلکہ حنفیوں کی کتاب التحقیق میں ہے کہ اہل التفسیر کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ آیت نماز کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ صاحب ہدایہ نے بھی اس آیت سے نماز میں قراءت کی فرضیت پر استدلال کیا ہے۔
(1/ 98 باب صفتہ الصلوۃ)
جب اس آیت مبارکہ سے نماز میں فرضیت قراءت ثابت ہوگئی تو ‏ ‎﴿وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَىٰ ﴾‏ اور یہ کہ ہر انسان کو اس کی اپنی کوشش ہی کام آئے گی ۔ (53-النجم:39) کی روشنی میں مقتدی سے اس کی فرضیت کیسے ساقط ہو سکتی ہے؟
سید نا عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لا صلوة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب
اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو سورۃ فاتحہ نہ پڑھے۔
( صحیح بخاری: 104/1 756 صحیح مسلم : 169/1 ح 394)
یہ حدیث اس پر دلیل واضح اور برہان قاطع ہے کہ سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی اور اس سے فاقرؤا کے عمومی حکم قراءت سے فاقرؤا الفاتحه کی بھی تقئید ہو جاتی ہے۔
امام خطابی رحمہ اللہ (متوفی 388 ھ) اعلام الحدیث فی شرح صحیح البخاری میں فرماتے ہیں:
قلت : عموم هذا القول يأتى على كل صلاة يصليها المرء وحده أو من وراء الإمام ، أسر إمامه القراءة أو جهربها
میں نے کہا: اس حدیث کا عموم ہر اس نماز کو شامل ہے جو کوئی ایک شخص ، اکیلے پڑھتا ہے یا امام کے پیچھے ہوتا ہے ، اس کا امام قراءت بالسر کر رہا ہو یا قراءت بالجبر کرے۔ (500/1)
اس عموم کی تائید اس حدیث کے راوی عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ کے فہم وعمل سے بھی ہوتی ہے آپ فاتحہ خلف الامام کے قائل و فاعل تھے۔
( دیکھئے کتاب القراء للبیہقی ص29 ح 133، واسناد صحیح)
سرفراز خان صفدر صاحب دیوبندی لکھتے ہیں :
یہ بالکل صحیح بات ہے کہ حضرت عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے کے قائل تھے اور ان کی یہی تحقیق اور مسلک و مذہب تھا۔
(احسن الکلام: 152/1ط با ردوم )
اصول میں یہ بات مسلم ہے کہ راوی ( صحابی ) اپنی روایات کے مفہوم سے دوسروں کی بہ نسبت زیادہ واقف ہوتا ہے، عبدالحئی صاحب لکھنوی فرماتے ہیں:
ومن المعلوم أن فهم الصحابي لا سيما الراوي أقوى من فهم غيره وقوله أحق بالإعتبار فى تفسير المروي
اور یہ بات معلوم ہے کہ صحابی کا فہم بالخصوص جو حدیث کا راوی ہو وہ دوسرے کے مفہوم سے زیادہ راجح ہوتا ہے اور اس کا قول اس کی روایت کی تفسیر میں زیادہ قابل اعتبار ہوتا ہے۔
(امام الکلام: ص 255)
سرفراز خان صفدر صاحب دیوبندی لکھتے ہیں:
اور یہ بات با قرار مبارکپوری صاحب اپنے مقام پر آئیگی کہ راوی حدیث (خصوصا جب کہ صحابی ہو ) اپنی مروی حدیث کی مراد دوسروں سے بہتر جانتا ہے۔
(احسن الکلام : 1/ 268)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من صلى صلوة لم يقرأ فيها بأم القرآن فهي خداج ، ثلثا ، غير تمام
جس نے نماز پڑھی اور اس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی تو اس کی نماز ناقص ( باطل) ہے، یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دفعہ فرمائی ، پوری نہیں ہے۔
(صحیح مسلم: 169/1 ج 395)
ایک روایت میں ہے:
كل صلوة لا يقرأ فيها بأم الكتاب فهي خداج فهي خداج فهي خداج غير تمام
ہر نماز جس میں ام الکتاب (سورۂ فاتحہ ) نہ پڑھی جائے (وہ) ناقص (باطل) ہے ناقص (باطل ) ہے ناقص (باطل ) ہے، پوری نہیں ہے۔
(مسنداحمد: 457/2ح9900 ، واسناده صحیح علی شر مسلم )
اس حدیث کی بہت سی سندیں ہیں، جن میں سے بعض کو راقم الحروف نے مسند الحمیدی کی تخریج ( ص 677، 678ح980) میں ذکر کیا ہے۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے شاگرد نے ان سے پوچھا کہ ہم امام کے پیچھے ہوتے ہیں تو سید نا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
إقرأ بها فى نفسك
اپنے دل میں پڑھو۔
(مسلم: 169/1 ح 395)
دل میں پڑھنے سے مراد سرا غیر جہر ہے۔
(مرقات : 283/2 و فی نسختہ ص 549 ح 823)
یعنی آہستہ پڑھ بلند آواز سے نہ پڑھ۔
(نیز دیکھئے نووی شرح مسلم : 1701، الشعۃ اللمعات : 372/1)
❀ امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
والمراد بقوله اقرأبها فى نفسك أن يتلفظ بها سرا دون الجهر ولا يجوز حمله على ذكرها بقلبه دون التلفظ بها لإجماع أهل اللسان على أن ذلك لا يسمى قراءة
یعنی دل میں پڑھنے کا یہ مطلب ہے کہ آہستہ اس کو لفظا پڑھا جائے ، بلند آواز سے نہ پڑھا جائے اور اسے دل میں غور و تدبر کے معنی پر محمول کرنا جائز نہیں کیونکہ (عربی) زبان والوں کا اس پر اتفاق ہے کہ اسے قراءت نہیں کہتے ۔
( کتاب القراءت ص 21 وفی نسختہ ص 34٬31، نیز دیکھئے شاہ ولی اللہ الدہلوی کی کتاب مسون مصفی شرح موطا امام مالک/فارسی: 106/1)
ایک روایت میں ہے کہ شاگرد نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں امام کی قراءت سن رہا ہوتا ہوں؟ تو انھوں نے فرمایا: اپنے نفس میں ( آہستہ ) پڑھو۔
(مسند حمیدی: 980 صحیح ابی عوانه 128/2 وغیر ہما، واسناد صحیح )
ایک دوسری روایت میں ہے کہ
إذا قرأ الإمام بأم القرآن فاقرأبها واسبقه
جب امام سورۃ فاتحہ پڑھے تو تم بھی پڑھو اور اسے اس سے پہلے ختم کردو ۔
( جزء القراءت للبخاری ص 16 س 283، 337)
محمد بن علی النیموی الحنفی اس اثر کی سند کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
” إسناده حسن“ اس کی سند حسن ہے۔
( آثار السنن ص 83 : ح 358)
مشہور اہل حدیث عالم مولانا ارشاد الحق اثری صاحب فرماتے ہیں:
یہ اثر اس بات کی صریح دلیل ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ جہری نماز میں مقتدی کو فاتحہ پڑھنے کا حکم دیتے تھے، جس سے ” في نفسك “ کی وہ تمام تاویلیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں جنھیں مولانا سرفراز خان صفدر صاحب نے پیش کیا ہے۔
(توضیح الکلام : 491/1)
انور شاہ کشمیری دیوبندی صاحب نے ان لوگوں کی سخت تردید کی ہے جو اس سے تدبر مراد لیتے ہیں ۔
(العرف الشذی ص 117)
❀ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وإن حديث عبادة وأبي هريرة يدلان على فرض أم القرآن
اور بے شک عبادہ اور ابو ہریرہ ( رضی اللہ عنہ ) کی حدیثیں سورۃ فاتحہ کے فرض ہونے پر دلالت کرتی ہیں ۔
( کتاب الام: 103/1)
ان کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں :
لا تجزي صلوة لا يقرأ فيها بفاتحة الكتاب
جس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ نماز کافی نہیں ہوتی۔
(صحیح ابن خزیمه : 1/ 248، 490 صحیح ابن حبان : 139/3ح1787)
ان کے علاوہ اور بھی بہت سی مرفوع احادیث ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی ۔
امیر المومنین فی الحديث والفقہ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وتواتر الخبر عن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم لا صلوة إلا بقراءة أم القرآن
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ خبر متواتر ہے کہ سورہ فاتحہ کی قراءت کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
(جزء القراءة :19)
فاتحہ فی الصلوۃ کے مسئلہ میں صحیح بخاری و صحیح مسلم و غیر ہما کی یہ احادیث عام ہیں اور ان کا کوئی مخصص موجود نہیں ہے اور ان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جو شخص نماز میں سورۃ فاتحہ نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی ۔ خداج یعنی ناقص ( باطل ) ہوتی ہے ، اور خداج سے مراد نقصان ذاتی ہے جیسا کہ علامہ خطابی، علامہ زبیدی اور علامہ ابن منظور رحمہم اللہ وغیر ہم نے صراحت کی ہے ، بلکہ حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے ان حضرات کی پر زور تردید کی ہے جو خداج سے نقصان و صفی مراد لیتے ہیں۔
(دیکھئے توضیح الا کلام: 176/1)
القاموس الوحید میں لکھا ہوا ہے کہ ”خدج – خداجا“ ناقص ہونا ، ادھورا ہونا ”اخدج الصلوة“ اچھی طرح نماز نہ پڑھنا بعض ارکان میں کمی کرنا۔ (ص413)
یہ ظاہر ہے کہ جس نماز کا رکن کم ہو جائے وہ نماز باطل ہوتی ہے ، ابن عبدالبر اندلسی ( متوفی 463ھ) نے لکھا ہے کہ والخداج : النقصان والفساد خداج نقصان اور فساد ( فاسد ہونے) کو کہتے ہیں۔ (الاستذکار1/448 ح 161)
اور یہ ظاہر ہے کہ فاسد نماز باطل ہوتی ہے، مزید تفصیل کے لئے دیکھئے میری کتاب ”نصر البارى في تحقيق جزء القراءت للبخاری“ (ح224 وح 108)
بعض لوگوں نے ان نصوص عامہ کی تاویل و تخصیص ان نصوص سے کرنے کی کوشش کی ہے جو بذات خود عام ہیں اور اپنے مدلول پر صریح بھی نہیں ہیں، جیسا کہ آگے آرہا ہے۔ عام کی تخصیص عام کے ساتھ کس طرح جائز ہے۔
اب ہم فاتحہ خلف الامام کے وہ دلائل پیش کرتے ہیں جو اپنے مدلول پر صریح بھی ہیں اور محدثین کے اصولوں پر بلحاظ سند و متن صحیح بھی ہیں ، تاہم پہلے اصول تصحیح وتضعیف کا مختصر تعارف پیش خدمت ہے۔

اصول تصحیح وتضعیف

➊ جس راوی کے ثقہ یا ضعیف وغیرہ ہونے پر ثقہ محدثین کا اتفاق ہو، وہ حقیقت میں ویسا ہی ہے جیسا کہ محدثین نے گواہی دی ہے اور اسی طرح جس حدیث کے صحیح یا ضعیف وغیرہ ہونے پر محدثین کا اتفاق ہو تو اس کے بارے میں محدثین کا فیصلہ ہی حق اور اٹل ہے۔
➋ جس راوی کے ثقہ یا ضعیف وغیرہ ہونے یا حدیث کے صحیح یا ضعیف وغیرہ ہونے پر محدثین کا اختلاف ہو ا تفاق نہ ہو تو اس کے بارے میں ثقہ محدثین کی اکثریت (جمہور ) کے فیصلہ کو ہی تسلیم کیا جائے گا ، اور تفردات کو رد کر دیا جائے گا۔
❀ حافظ ابن کثیر حمید رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وشاورهم فى أحد أن يقعد فى المدينة أو يخرج إلى العدو ، فأشار جمهورهم بالخروج إليهم فخرج إليهم
آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے صحابہ سے اس بات پر مشورہ کیا کہ آیا مدینہ میں بیٹھ کر مقابلہ کیا جائے یا باہر نکل کر دشمن کو للکارا جائے تو جمہور نے باہر نکل کر مقابلے کو ترجیح دی تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) باہر تشریف لے گئے ۔
( تفسیر القرآن العظیم: 429/1 ، سورۃ آل عمران آیت 159)
سرفراز خان صفدر دیو بندی صاحب لکھتے ہیں :
”ہم نے توثیق و تضعیف میں جمہور و آئمہ جرح و تعدیل اور اکثر آئمہ حدیث کا ساتھ اور دامن نہیں چھوڑا ۔ “
(احسن الکلام : 40/1)
محمد ادریس کاندہلوی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں:
جس کسی راوی میں توثیق اور تضعیف جمع ہو جائیں تو محدثین کے نزدیک اکثر کے قول کا اعتبار ہے اور فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ جس کسی راوی میں جرح و تعدیل جمع ہو جائیں تو جرح مبہم کے مقابلہ میں تعدیل کو ترجیح ہوگی اگر چہ جارحین کا عدد معدلین کے عدد سے زیادہ ہو۔
(سیرت المصطفی 79/1)
کاندہلوی صاحب مزید فرماتے ہیں:
حافظ ابن حجر کی رائے یہ ہے کہ جب کسی راوی میں جرح اور تعدیل ، توثیق اور تضعیف جمع ہو جائیں تو اکثر کے قول کو ترجیح دی جائے گی ۔
(سیرت المصطفی79/1)
یہ ظاہر ہے کہ حنفی فقہاء کے مقابلے میں محدثین کرام کی تحقیق ہی راج ہے ۔
تاج الدین عبدالوہاب بن علی السبکی (متوفی 771 ھ) نے لکھا ہے:
كما أن عدد الجارح إذا كان أكثر قدم الجرح اجماعا
اگر جارحین کی تعداد زیادہ ہو تو اس پر ( محدثین کا ) اجماع ہے کہ جرح مقدم ہوگی ۔
( قاعده في الجرح والتعدیل ص50)
خلاصہ یہ کہ جرح و تعدیل میں جمہور محدثین کرام کی تحقیق و شہادات ( گواہیوں ) کو ترجیح دینا ہی صحیح مسلک اور راجح ہے۔ والحمدللہ

✔ فاتحہ خلف الامام کے خاص دلائل

(1) حدیث انس رضی اللہ عنہ

امام ابوعبدالله محمد بن اسماعیل البخاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
حدثنا يحيى بن يوسف قال : أنبأنا عبيد الله عن أيوب عن أبى قلابة عن أنس رضى الله عنه : أن النبى صلى الله عليه وسلم صلى بأصحابه فلما قضى صلاته أقبل عليهم بوجهه فقال : أتقرون فى صلاتكم والإمام يقرأ ؟ فسكتوا ، فقالها ثلاث مرات ، فقال قائل أو قائلون : إنا لنفعل ، قال : فلا تفعلوا ، وليقرأ أحدكم بفاتحة الكتاب فى نفسه
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو ایک نماز پڑھائی، پس جب آپ نے نماز پوری کی تو ان کی طرف چہرہ مبارک کرتے ہوئے فرمایا کیا تم اپنی نماز میں پڑھتے ہو جبکہ امام پڑھ رہا ہوتا ہے؟ تو وہ خاموش ہو گئے ، آپ نے یہ بات تین دفعہ دہرائی ، تو ایک یا کئی اشخاص نے کہا: بے شک ہم ایسا کرتے ہیں تو آپ نے فرمایا : پس ایسا نہ کرو ، اور تم میں سے ہر شخص سورۃ فاتحہ اپنے دل میں پڑھے۔
(جزء القراءت: ح 255)
یہ حدیث مسند ابی یعلی الموصلی (187/5، 188 ح 2805) صحیح ابن حبان ( الاحسان : 160٫3 ح 1841 ص 163، 164 ح 1849) موارد الظمآن ( ح 458، 459 ) السنن الکبریٰ للبیہقی ( ج 2 ص 166 ) کتاب القراءت له (ص72، 73 ح 140) تاریخ بغداد ( 13/175، 172 ) الاوسط للطبرانی ( بحوالہ مجمع الزوائد 2/ 110) احکام القرآن للطحاوی بحواله الجو ہر النقی (167/2 مختصر أجدا)
میں بہت سی سندوں کے ساتھ عبید اللہ بن عمر والرقی سے مروی ہے۔ حافظ ہیثمی اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں:
رواه أبو يعلى والطبراني فى الأوسط ورجاله ثقات
اسے ابو یعلی نے (مسند میں ) اور طبرانی نے الا وسط میں روایت کیا ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں ۔
( مجمع الزوائد : 110/2)
امام ابوحاتم محمد بن حبان البستی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
سمع هذا الخبر أبو قلابة من محمد بن أبى عائشة عن بعض اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم وسمعه من أنس بن مالك ، فالطريقان جميعا محفوظان
ابوقلابہ نے یہ خبر محمد بن ابی عائشہ سے بعض اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سند کے ساتھ سنی اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بھی سنی ، پس ( یہ ) دونوں سند میں محفوظ ( صحیح ) ہیں ۔
( الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان :163٫3 1849 الجوہرالنقی 177،176/2)
( تنبيه في الأصل عن والتصحيح من الجوهر النقي 2/ 167)
راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ اس سند کے تمام راوی صحیح بخاری و صحیح مسلم کے راوی ہیں ۔
(دیکھئے صحیح بخاری (251،85/1، 403 ح 205 ، 1869، 2882) و صحیح مسلم (224/1 ح 378)
عبید اللہ بن عمر والرقی صحیح بخاری وصحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں ۔
امام ابن معین اور امام نسائی نے کہا: ثقة العجلی ، ابن نمیر اور ابن حبان نے توثیق کی ، امام ابو حاتم نے کہا:
صالح الحديث ثقة صدوق، لا أعرف له حديثا منكرا ، هو أحب إلى من زهير بن محمد
یہ صالح الحدیث ثقہ صدوق ہے، مجھے اس کی کوئی منکر حدیث معلوم نہیں ہے اور وہ مجھے زہیر بن محمد سے زیادہ محبوب ہے۔
(تہذیب التہذیب: 38/8)
❀حافظ ذہبی نے کہا:
كان ثقة حجة ، صاحب حديث
آپ ثقہ ( اور ) حجت تھے ( اور ) صاحب حدیث تھے ۔
(سیر اعلام النبلاء: 310/8)
ان کے علاوہ اور بھی بہت سے علماء نے ان کی توثیق کی ہے، اور ان کے مقابلے میں امام ابن سعد رحمہ اللہ نے کہا:
وكان ثقة صدوقا كثير الحديث وربما أخطأ وكان أحفظ من روى عن عبد الكريم الجزري ولم يكن أحد ينازعه فى الفتوى فى دهره
اور آپ ثقہ صدوق تھے ، کثیر الحدیث تھے اور بعض اوقات خطا کر جاتے تھے اور عبدالکریم الجزری سے روایت کرنے والوں میں سب سے زیادہ حافظ تھے اور آپ کے زمانے میں کوئی شخص فتوی دینے میں آپ کی مخالفت نہیں کرتا تھا۔
(طبقات ابن سعد : 4847)
اور اس مرجوح قول پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے تقریب التہذیب (4327 ) میں اعتماد کیا ہے، یہ جرح کئی لحاظ سے مردود ہے:
1: ثقة ربما أخطأ والے راوی کی روایت ضعیف نہیں ہوتی صحیح یا کم از کم حسن لذاتہ ضرور ہوتی ہے۔
ظفر احمد تھانوی صاحب لکھتے ہیں:
قولهم فى الراوي له أوهام ، أويهم فى حديثه أو يخطي فيه لا ينزله عن درجة الثقة
اور ان کا راوی میں کلام کرنا ، اس کے اوہام ہیں یا اسے اپنی حدیث میں وہم ہوتا ہے یا اسے خطا لگتی ہے تو یہ اسے ثقہ کے درجہ سے نہیں گراتا ۔
(قواعد في علوم الحدیث ص 275 و فی نسختہ ص 168 )
2 : امام ابن سعد رحمہ اللہ اگر جرح میں منفرد ہوں تو ان کی جرح مقبول نہیں ہوتی کیونکہ اسماء الرجال کے علم میں وہ (بعض اوقات) واقدی ( کذاب ) کی پیروی کرتے ہیں ۔
(دیکھئے ہدی الساری ص 417، 443 قواعد فی علوم الحدیث ص390 وغیرہما )
3 : جمہور کے مقابلے میں ابن سعد رحمہ اللہ کی منفرد جرح مردود ہے۔
سرفراز صفدر دیوبندی صاحب کیا خوب لکھتے ہیں :
خطا اور نسیان سے کون محفوظ ہے ، معمولی نسیان کی وجہ سے ثقہ روات کی روایتوں کو ہرگز رد نہیں کیا جا سکتا ۔
(احسن الکلام: 249/1)
4: امام ابن سعد رحمہ اللہ نے اپنے اسی کتاب میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں لکھا ہے:
أبو حنيفة واسمه النعمان بن ثابت مولى بني تيم الله بن ثعلبة ، وهو ضعيف فى الحديث وكان صاحب ر أى
امام ابو حنیفہ اور آپ کا نام نعمان بن ثابت ہے، آپ بنی تیم اللہ بن ثعلبہ کے آزاد کردہ غلاموں میں سے تھے اور آپ حدیث میں ضعیف ہیں اور آپ رائے والے ہیں۔
(طبقات ابن سعد : 322/8)
کیا حنفی بھائیوں کو ابن سعد کی یہ جرح قبول ہے؟ اگر نہیں تو پھر امام عبید اللہ بن عمرو الرقی پر ان کی منفرد جرح کیوں قبول ہے جبکہ باقی تمام محدثین ان کی توثیق کرتے ہیں؟
5 : عبید اللہ بن عمر و اس حدیث میں منفرد نہیں ہیں بلکہ اسماعیل بن علیہ نے ان کی متابعت کر رکھی ہے ۔
(کتاب القراء للمتقی ص 73 ح 147)
اور ابن علیہ بالا تفاق ثقہ ہیں عبید اللہ پر الزام ہر لحاظ سے مردود ہے۔

جرح غیر مفسر

بعض علماء نے لکھا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ ، امام ابو حاتم رحمہ اللہ اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس روایت کو غیر محفوظ قرار دیا ہے، تو عرض ہے کہ یہ جرح غیر مفسر ہے، جبکہ اس حدیث کے تمام راوی امام بخاری، امام ابو حاتم اور امام بیہقی کے نزدیک ثقہ ہیں تو اسے کس دلیل کی بنیاد پر غیر محفوظ قرار دیا جا سکتا ہے؟ دوسرے یہ کہ اسے متعدد علماء نے محفوظ قرار دیا ہے:
➊ امام بخاری رحمہ اللہ
➋ حافظ ابن حبان رحمہ اللہ ( دیکھئے ص 16)
امام بیہقی فرماتے ہیں:
إحتج به البخاري
اس حدیث کے ساتھ (امام) بخاری نے حجت پکڑی ہے۔
(کتاب القراءت للبیہقی ص 72 تحت ح: 140)
➌ ابن الترکمانی الحنفی
انھوں نے الجوہر النقی ( ج 2 ص 167 ) میں ابن حبان کی موافقت کی ہے۔
➍ علامہ انورشاہ کاشمیری دیوبندی
( دیکھنے فصل الخطاب ص 153 وغیرہم )

ابوقلابہ کا مختصر تعارف

بعض لوگوں نے دعوی کیا ہے کہ مشہور تابعی ابوقلابہ رحمہ اللہ مدلس ہیں ۔
( دیکھئے احسن الکلام 111/2)
تو عرض ہے کہ ابو قلابہ رحمہ اللہ کتب ستہ کے مرکزی راوی اور بالا جماع ثقہ ہیں ۔ حافظ ذہبی نے انھیں ”الا مام، شیخ الاسلام “کا لقب دیا ہے۔
(سير اعلام النبلاء، ج 3 ص 468)
آپ سیدنا انس ،سید نا مالک بن الحویرث اور سید نا ثابت بن الضحاک رضی اللہ عنہ وغیرہ صحابہ کے شاگر درشید ہیں ۔
(دیکھئے تہذیب التہذیب: 197/5)
حافظ ابن عبدالبر نے بتایا کہ آپ کے ثقہ ہونے پر اجماع ہے۔
( الاستغناء في المعروفين بالکنی مخطوط ص93)
امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ نے انھیں ثقہ کہا ہے اور فرمایا:
لا يعرف له تدليس
اس کا تدلیس کرنا معروف نہیں ہے۔
(الجرح والتعدیل: 58/5)
معلوم ہوا کہ آپ ہرگز مدلس نہیں تھے، مگر حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے آپ کو مدلس قرار دیا ہے۔
(سیر اعلام النبلاء : 469/4 و میزان الاعتدال : 436،435/2)
اس سے مراد لغوی تدلیس یعنی ارسال ہے اصطلاحی تدلیس نہیں کیونکہ خود حافظ ذہبی نے ہی ابو قلابہ رحمہ اللہ کی متعدد ”عن “ والی روایات کو بخاری ومسلم کی شرط پر صحیح (علی شرطہما) کہا ہے ۔
( دیکھئے تلخیص المستدرک: 323/1 )
بلکہ ”النبلا “ میں ہی ان کی معنعن روایت کو هذا حديث حسن صحیح کہا ہے۔ (474٫4)
حافظ ذہبی اپنی اصول حدیث والی کتاب میں لکھتے ہیں :
المدلس : ما رواه الرجل عن آخر ولم يسمعه منه أولم يدركه .
مدلس اس ( روایت) کو کہتے ہیں جو ایک آدمی دوسرے سے بیان کرے اور اس نے اس ( آدمی ) سے سنا نہ ہو یا اس نے اسے نہ پایا ہو۔
(الموقظۃ ص 47)
معلوم ہوا کہ حافظ ذہبی کے نزدیک تدلیس اور ارسال ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔
( نیز دیکھئے میزان الاعتدال 177، 4)
لہذا جس راوی کو ، اگلے محدثین کے خلاف صرف امام ذہبی اکیلے ہی مدلس کہیں تو وہ راوی اصطلاحی مدلس نہیں ہوتا ۔ حافظ ذہبی کی پیروی کرتے ہوئے حافظ ابن حجر نے آپ کو مدلسین میں شمار کیا مگر اس درجہ (المرتبة الأولی ) میں جس کی عن والی روایات بھی ان کے نزدیک یکساں مقبول ہیں (طبقات المدلسین : 1/15) بلکہ انھوں نے اس سے رجوع کر لیا ہے اور بتایا ہے کہ ابو قلا بہ مدلس نہیں تھے ۔
ابوقلابہ کی عن والی روایات کو درج ذیل محدثین نے صحیح قرار دیا ہے:
➊ بخاری (63ح5/1)
➋ مسلم (164/1 ح 378)
➌ ابن خزیمه (صحیح ابن خزیمہ: 190/1 ح 367)
➍ ابن حبان (صحیح ابن حبان : 1673ح92/3)
➎ ترمذی (1/ 48 ح 193)
➏ الحاكم (المستدرک : 323/1 ح 1207)
➐ البیہقى (معرفة السنن والآثار: 53/2ح920)
➑ البغوى (شرح السنته 253/2 ج 404، 403)
➒ الذہبی (دیکھئے نمبر 6 ، و سیر اعلام النبلاء 474/4 )
➓ ابن حجر (تلخيص الحبير : 231/1 ح 344 وغيرہم )
لہذا معلوم ہوا کہ ابوقلابہ اصطلاحی مدلس نہیں تھے ، جو لوگ ان کے معنعن کو ضعیف کہتے ہیں انھیں چاہئے کہ وہ صحیحین وغیرہما کی محولہ بالا روایات پر خط تنسیخ کھینچ دیں ، دیده باید یاد رہے کہ حافظ ابن حبان نے اس کی تصریح کی ہے کہ ابوقلا بہ رحمہ اللہ نے یہ حدیث انس رضی اللہ عنہ سے سنی ہے۔ (دیکھئے ص 16) لہذا تدلیس کا الزام ہر لحاظ سے مردود ہے۔

تدلیس اور حنفیہ

جولوگ سفیان ثوری، سلیمان الاعمش ، قتادہ اور ابوالز بیر وغیرہ مدلسین رحمہم اللہ کی عن والی روایات بطور حجت پیش کرتے ہیں، انھیں ابو قلابہ رحمہ اللہ پر تدلیس کے الزام سے شرم کرنی چاہئے۔ دوسرے یہ کہ حنفیہ کے نزدیک قرون ثلاثہ کے مدلسین کی تدلیس چنداں مضر نہیں ہے۔
❀ ظفر احمد تھانوی صاحب لکھتے ہیں:
والتدليس والإرسال فى القرون الثلاثة لا يضر عندنا
اور قرون ثلاثہ میں ہمارے نزدیک تدلیس اور ارسال مضر نہیں ہے۔
(اعلاء السنن: 313/1 دوسرا نسختہ 431ح342، نیز دیکھئے اعلاء السنن: 30/1، 137 ح 36/3، 215/2، 158 ح 777 )
❀ تھانوی صاحب مزید فرماتے ہیں:
قلت فإن كان المدلس من ثقات القرون الثلاثة يقبل تدليسه كارساله مطلقا
میں نے کہا: اور اگر مدلس قرون ثلاثہ کے ثقہ لوگوں میں سے ہو تو اس کی تدلیس بھی اسی طرح مقبول ہوتی ہے جس طرح اس کی مرسل روایت مقبول ہوتی ہے۔
(قوائد فی علوم الحدیث : ص 159)

(2) حدیث رجل من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم

امام محمد بن اسماعیل البخاری فرماتے ہیں:
حدثنا عبدان قال : حدثنا يزيد بن زريع قال : حدثنا خالد عن أبى قلابة عن محمد بن أبى عائشة عمن شهد ذاك قال : صلى النبى صلى الله عليه وسلم فلما قضى صلاته قال : اتقرون والإمام يقرأ قالوا : إنا لتفعل قال : فلا تفعلوا إلا أن يقرأ أحدكم بفاتحة الكتاب فى نفسه
ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا : کیا تم اس وقت پڑھتے ہو جبکہ امام پڑھ رہا ہوتا ہے ۔ انھوں (صحابہ) نے کہا : ہم بے شک ایسا کرتے ہیں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پس ایسا نہ کر وسوائے اس کے کہ تم میں سے ہر شخص سورۃ فاتحہ اپنے دل میں پڑھے۔
(جزء القراءت : ح 61 )
اس حدیث کو امام عبد الرزاق رحمہ اللہ نے المصنف (126/2 ، 127 ح 2766)، امام احمد بن حنبل نے المسند (236/4 ج 18238، 410،81،60/5 ح6 ، 2087، 12046، 23877) ، امام دارقطنی نے السنن (339/1 ح 1272)، امام بیہقی نے السنن الکبری (2/129) کتاب القراءت (ص: 76 ح 157 ، دوسرا نسختہ : ص 15) معرفته السنن والآثار (920ح53/2) میں متعدد سندوں کے ساتھ خالد الخذاء سے روایت کیا ہے۔
① امام بیہقی نے کہا: هذا إسناده صحيح (معرفته السنن والآثار 921ح54/20)
② ابن خزیمہ نے اس کے ساتھ حجت پکڑی ہے۔ (کتاب القراءت ص 76 ح 157)
③ ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے محفوظ کہا ہے۔ ( صحیح ابن حبان : 165، 31 تحت ح 1849)
④ حافظ ہیثمی نے کہا: رجاله الصحيح (مجمع الزوائد: 11/2)
⑤ حافظ ابن حجر نے کہا: إسناده حسن ( التلخيص الحبير :231/1 344)
اس حدیث کو کسی قابل اعتماد امام نے ضعیف نہیں کہا ہے ، اور اس کے تمام راوی صحیح مسلم کے راوی ہیں۔ ” عمن شهد ذاك “ صحابی رسول ہیں ۔ بہت سی اسانید میں عن رجل من أصحاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ہیں اور اس پر امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ تمام صحابہ عدول ( ثقہ ) ہیں پس ان کے نام کی جہالت مضر نہیں ہے۔
خلیل احمد سہارنپوری دیوبندی فرماتے ہیں:
قد أجمعت الأمة على أن الصحابة كلهم عدول فلا يضر الجهل بأعيانهم فالحديث الذى رواته امرأة من بني عبد الأشهل لا مجال للمقال فيه
امت کا اس پر اجماع ہوا ہے، کہ تمام صحابہ عادل تھے ، لہذا ان کے بعض اشخاص کا ہمارے نزدیک نا معلوم ہونا چنداں مضر نہیں ہے ، پس وہ حدیث جسے بنی عبد الاشبل کی ایک ( نامعلوم ) عورت نے بیان کیا ہے ، اس میں طعن کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
(بذل المحمود، 133/3، نیز دیکھئے آثارالسنن ص 121، ح 263 )
مزید تحقیق کے لئے کتب اصول اور درج ذیل کتب کا مطالعہ کریں:
➊ نصب الریتہ (267/1)
➋ عمدة القاری (53/11، 196/17)
➌ مرقات المفاتیح (268/4/306/2، 330/1)
➍ الجوهر النقی (191، 1)
➎ توضیح الکلام (409/1 تاص 425) وغیره
ابوقلابہ نے یہ حدیث محمد بن ابی عائشہ سے سنی ہے ۔
( التاریخ الکبیر للبخاری : ج 1ص 207)
محمد بن ابی عائشہ ثقہ تابعی ہیں آپ ابو ہریرہ اور جابر رضی اللہ عنہا وغیرہما کے شاگرد ہیں ، ابن معین رحمہ اللہ نے کہا: ثقة، ابن حبان نے بھی ثقہ قرار دیا ہے، آپ صحیح مسلم وغیرہ کے مرکزی راوی ہیں ۔
(دیکھئے تہذیب التہذیب: 219/9)
آپ نے متعدد صحابہ مثلاً انس اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ وغیرہما کا زمانہ پایا ہے اور مدلس بھی نہیں ہیں لہذا آپ کا عنعنہ اتصال پر محمول ہے۔ تفصیل کے لئے تحقیق الکلام (88/1) کی طرف رجوع کریں متعدد غیر اہل حدیث علماء نے بھی عن رجل من أصحاب النبى صلی اللہ علیہ وسلم او مثله والی روایات کو صحیح یا حسن قرار دیا ہے۔
(دیکھئے آثار السنن، ص 58 ، ح 217)

(3) حدیث نافع بن محمود عن عباده رضی اللہ عنہ

امام ابوعبد الرحمن النسائی فرماتے ہیں:
أخبرنا بن عمار عن صدقة عن زيد بن واقد عن حرام بن حكيم عن نافع بن محمود بن ربيعة عن عبادة بن الصامت قال : صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم بعض الصلوات التى يجهر فيها بالقراءة فقال : لا يقرأ أحد منكم إذا جهرت بالقراءة إلا بأم القرآن
عبادہ فرماتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ نماز پڑھائی جس میں قراءت بالجہر کی جاتی ہے، آپ نے فرمایا: جب میں جہر کے ساتھ قراءت کر رہا ہوتا ہوں تو تم میں سے کوئی شخص بھی سورہ فاتحہ کے علاوہ اور کچھ نہ پڑھے ۔
(السنن المجتبي للنسائی: 146/1ح921)
اس حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ نے خلق افعال العباد (ص102، وفی نسختہ ص : 169ح526) اور جزء القراءت (ص 18 ، 19) اور امام دارقطنی رحمہ اللہ نے السنن (320/1 ، ح 1207 ) میں امام بیہقی رحمہ اللہ نے السنن الکبری (165/2) و کتاب القراءت (ص64 ح 121) اور الضیاء المقدسی نے المختارة ( 346/8 ، 347 ح 421 ) میں متعد دسندوں کے ساتھ روایت کیا ہے۔
ظفر احمد تھانوی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں :
وأحاديث الضياء فى المختارة كلها صحاح كما صرح به السيوطي فى خطبة كنز العمال
اور ضیاء (المقدسی ) کی مختارہ میں ساری حدیثیں صحیح ہیں جیسا کہ سیوطی نے کنز العمال کے مقدمے میں صراحت کی ہے۔
(اعلاء السنن: 1/ 438 ح 445)
ہشام بن عمار سے امام بخاری رحمہ اللہ وغیرہ متعدد علماء نے یہ حدیث بیان کی ہے۔ ہشام بن عمار کے علاوہ محمد بن المبارک الصوری وغیرہ نے بھی یہ حدیث صدقہ بن خالد سے بیان کی ہے۔ (دارقطنی : 320/1 ح 1207)
صدقہ بن خالد کے علاوہ الہیثم بن حمید نے بھی یہ حدیث زید بن واقد سے تفصیل کے ساتھ بیان کی ہے ۔
(سنن ابی داود: 126/1 ح 824 والبیہقی فنی کتاب القراء ة ح 121)
زید اور حرام بن حکیم بالا تفاق ثقہ ہیں ۔ (کتب اسماء الرجال )
امام بیہقی کی کتاب القراءت میں حسن لذاتہ سند کے ساتھ اس روایت کا متن درج ذیل ہے:
قال: هل تقرون معي ؟ قالوا : نعم ، قال : لا تفعلوا إلا بأم القرآن فإنه لا صلوة لمن لم يقرأ بها ، وهذا إسناد صحيح ورواته ثقات
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم میرے ساتھ ( پیچھے ) پڑھتے ہو ؟ صحابہ نے کہا: جی ہاں ، آپ نے فرمایا: نہ پڑھو سوائے سورہ فاتحہ کے کیونکہ بے شک جو سورہ فاتحہ نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی ، یہ سند صحیح ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں۔
(ص 64 ج 121)
حرام بن حکیم کے علاوہ امام مکحول شامی رحمہ اللہ نے بھی یہ حدیث نافع بن محمود رحمہ اللہ سے روایت کی ہے ۔
(ابوداود ح:833 )
اس حدیث کو درج ذیل اماموں نے صحیح قرار دیا ہے:
➊ امام بیہقی نے کہا: وهذا إسناد صحيح ورواته ثقات (کتاب القراءت ص 64 ح 121 )
➋ امام دار قطنی نے کہا: هذا إسناد حسن ورجاله ثقات كلهم (سنن دار قطنی 320 ح 1207)
➌ امام ابو داود نے اس پر سکوت کیا ۔ ابو داود جس حدیث پر سکوت کریں حنفیوں اور دیوبندیوں کے نزدیک وہ تصیح یا تحسین کی دلیل ہے۔
(فتح القدیر لابن ہمام : ج 1ص 340/18)
ابن ہمام ایک جگہ لکھتے ہیں:
وسكوت أبى داود والمنذري تصحيح أو تحسين منهما
اور ابو داود اور المنذری رحمہم اللہ کا سکوت ان کے نزدیک حدیث کی تصحیح یا تحسین ہوتی ہے۔
(فتح القدير لا بن ہمام: 75/2)
➍ امام منذری نے سکوت کیا۔
➎ امام نسائی نے اس پر سکوت کیا۔
دیوبندیوں کے نزدیک امام نسائی جس حدیث پر سکوت کرتے ہیں وہ ان کے نزدیک صحیح ہوتی ہے۔
ظفر احمد تھانوی صاحب لکھتے ہیں:
رواه النسائي وسكت عنه فهو صحيح عنده
اسے امام نسائی نے روایت کیا اور سکوت کیا پس وہ ان کے نزدیک صحیح ہے۔
(اعلاء السنن: 1/ 105ح114)
یہ اقوال بطور الزام پیش کئے گئے ہیں ہمارے (اہل حدیث کے) نزدیک ابو داود، نسائی ، منذری اور ابن حجر العسقلانی و غیرہم کا سکوت حجت نہیں ہے، یہ سکوت نہ صحیح ہونے کی دلیل ہے اور نہ حسن ہونے کی ، اسے خوب سمجھ لیں، تاہم دیو بندیوں و بریلویوں کے نزدیک
یہ سکوت حجت ہیں۔
درج ذیل اماموں نے سنن نسائی کو صحیح قرار دیا ہے:
ابوعلی النیسابوری ، ابواحمد بن عدی ، ابن منده ، عبدالغنی بن سعید ، ابو یعلی الخلیلی ، ابوعلی ابن السکن اور ابوبکر الخطیب ۔
( دیکھئے زھرالربی حاشیه سنن نسائی: 3/1، قواعد فى علوم الحدیث ص 72 )
لہذا درج ذیل اماموں کے نزدیک بھی یہ روایت صحیح ہے:
➊ ابو احمد بن عدی رحمہ اللہ
➋ ابن منده رحمہ اللہ
➌ ابو على النيسابورى رحمہ اللہ
➍ عبد الغنی بن سعید رحمہ اللہ
➎ ابو على السكن رحمہ اللہ
➏ الخطيب البغدادى رحمہ اللہ
➐ الضياء المقدسى رحمہ اللہ
(دیکھئے اختصار علوم الحدیث لابن کثیر ص 27 تدریب الراوی 144/1 لسان المیزان 12/1)
تنبیہ:
یادر ہے کہ ابن عدی سے لے کر خطیب بغدادی تک محدثین کی توثیق ، توثیق مبہم ہے جو کہ جرح مفسر کے مقابلے میں پیش نہیں کی جاسکتی۔ نافع پر کوئی جرح مفسر ثابت نہیں لہذا یہاں اس توثیق مبہم سے امام دار قطنی المعتدل اور جمہور محدثین کی تائید میں استدلال صحیح ہے ۔ اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں اور سند میں کوئی علت نہیں ہے ، مگر بعض لوگوں نے نافع بن محمود کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے ، وہ کہتے ہیں کہ نافع بن محمود کے بارے میں حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے : مجہول ، طحاوی رحمہ اللہ نے کہا : لا يعرف ابن قدامہ نے کہا: ليس بمعروف ، ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا: مستور
(دیکھئے احسن الکلام 90/2)
اس تنقید کے مقابلے میں مودبانہ عرض ہے کہ اصول حدیث میں یہ مقرر ہے کہ جس سے دو ثقہ روایت کریں وہ مجہول العین نہیں رہتا بلکہ اس کی جہالت عین ختم ہو جاتی ہے، نافع رحمہ اللہ سے دو ثقہ ( حرام بن حکیم اور امام مکحول رحمہما اللہ روایت کر رہے ہیں )
ظفر احمد تھانوی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں:
وليس بمجهول من روى عنه ثقتان
اور جس سے دو ثقہ روایت کریں وہ مجہول نہیں رہتا۔
(اعلاء السنن : 114/1 ح 153)
لہذا حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ کا قول اصول حدیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے اور لا يعرف جرح ہی نہیں ہے۔
(دیکھئے لسان المیزان : ج 2 ص 175)
لہذا طحاوی رحمہ اللہ وغیرہ کا قول مردود ہے۔
مستور وہ ہوتا ہے جس کی کسی نے بھی توثیق نہ کی ہو۔
(دیکھئے نخبتہ الفکرمع نزھته انظرص 87)
نافع بن محمود رحمہ اللہ کی اکثر علماء نے توثیق کی ہے:
➊ امام دار قطنی نے کہا: ثقة (سنن دار قطنی : 320/1 ح 1207)
➋ امام حاکم رحمہ اللہ نے اس کی ایک حدیث کو صحیح قرار دیا۔ (المستدرک : 55/2ح333)
تنبیہ:
یادر ہے کہ امام حاکم کی صحیح قرار دی ہوئی یہ روایت ، ایک دوسرے راوی کی وجہ سے موضوع ہے، جس کا ذکر حافظ ذہبی نے تلخیص المستدرک میں کر دیا ہے۔
➌ حافظ ابن حزم رحمہ اللہ نے کہا: ثقة (المحلی : 242، 241/3 مسلم 360)
➍ امام بیہقی نے کہا: ثقة ( كتاب القراءت: ص 64 ح 121)
➎ حافظ ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے ثقہ اور مشہور تابعین میں شمار کیا ہے۔
( کتاب الثقات: 470/5، کتاب مشاہیر علماء والا مصارص 117رقم 907)
اور کوئی بھی جرح نہیں کی ۔
➏ حافظ ذہبی نے کہا: ثقة (الکاشف : 197/3)
➐ امام ابو داود رحمة الله
➑ امام نسائی رحمة الله
➒ امام منذری رحمة الله نے اس کی حدیث پر سکوت کیا جو حنفیوں ، دیوبندیوں اور بریلویوں کے نزدیک نافع کی توثیق پر دلالت ہے۔(دیکھئے ص 28)
➓ ابو علی النیسابوری رحمہ اللہ
⓫ ابن عدی رحمہ اللہ
⓬ ابن منده رحمہ اللہ
⓭ حافظ عبد الغنی رحمہ اللہ
⓮ ابو یعلی الخلیلی رحمہ اللہ
⓯ حافظ خطیب بغدادی رحمہ اللہ و غیر ہم نے اس کی حدیث کی تصحیح کی ۔
(دیکھئے ص 52)
جو کہ نافع کی توثیق پر دلالت کرتی ہے۔ اتنی بڑی جماعت ایک شخص کو ثقہ قرار دے تو اسے کیونکر مجہول وغیرہ قرار دیا جاسکتا ہے؟
لہذا ثابت ہوا کہ مجہول والی جرح کئی لحاظ سے مردود ہے:
➊ جمہور کے خلاف ہے۔
➋ مبہم ہے۔
➌ یہ جرح ہی نہیں ہے۔
➍ حنفیوں دیوبندیوں کے نزدیک خیر القرون کے مجہول اور مستور کی روایت بھی صحیح ہوتی ہے۔
ظفر احمد تھانوی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں:
والجهالة فى القرون الثلاثة لا يضر عندنا
اور قرون ثلاثہ (خیر القرون ) میں جہالت ہمارے نزدیک مضر نہیں ہے۔
(اعلاء السنن : 1913 ح 927)
اور فرماتے ہیں:
إن رواية المستور من القرون الثلاثة مقبولة عندنا معشر الحنفية
بے شک قرون ثلاثہ ( پہلی تین صدیوں ) میں مستور کی روایت ہم حنفیوں کے نزد یک مقبول ہوتی ہے۔
(اعلاء السنن : 175/3)
تنبیه:
ظفر احمد تھانوی صاحب اور دیوبندی حضرات حنفی نہیں ہیں بلکہ یہ صرف اور صرف دیوبندی ہیں ، عقائد و اصول میں اشعری وما تریدی بن کر امام ابو حنیفہ کی مخالفت کرنے والے کس طرح اپنے آپ کو خنفی کہلا سکتے ہیں؟
اور تھانوی مذکور صاحب مزید فرماتے ہیں:
أن المستور فى القرون الثلاثة مقبول عندنا
قرون ثلاثہ میں مستور ( کی روایت ) ہمارے نزدیک مقبول ہے۔
(اعلاء السنن: 316/1 ح 435)
مزید تفصیل کے لئے دیکھئے تو ضیح الکلام ( 373/1 تا 377) الحسامی مع النامی (144،143/1) مسلم الثبوت (ص 191) کشف الاسرار (386/2)
جب یہ ثابت ہو گیا کہ نافع بن محمود جمہور علماء کے نزدیک ثقہ اور معروف ہیں اور ان کی بیان کردہ حدیث اکثر علماء کے نزدیک صحیح ہے ، تو انھیں مجہول اور ان کی حدیث کو ”معلل“ کہنا غلط اور مردود ہے۔

(4) حدیث عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جده

❀ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حدثنا شجاع بن الوليد قال : حدثنا النضر قال : حدثنا عكرمة قال : حدثني عمرو بن سعد عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده قال : قال رسول الله الا الله : تقرون خلفي ؟ قالوا : نعم ، إنا لنهد هذا ، قال : فلا تفعلوا إلا بأم القرآن
عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اے صحابہ) تم میرے پیچھے پڑھتے ہو؟ تو انھوں نے جواب میں کہا: جی ہاں ہم جلدی جلدی پڑھتے ہیں، فرمایا : پس کچھ بھی نہ پڑھو سوائے سورہ فاتحہ کے۔
(جزء القراءت : ص 71، 18 ح 63)
اسے امام بیہقی نے کتاب القراءت (ص79 ) میں روایت کیا ہے، اس حدیث کے تمام راوی ثقہ ہیں اور جمہور محدثین کے نزدیک اس کی سند صحیح یا حسن ہے ۔ عمرو بن شعیب بالا جماع ثقہ تابعی ہیں اور ان کی عن ابيه عن جده والي حديث حسن یا صحیح ہوتی ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وأما أئمة الإسلام وجمهور العلماء فيحتجون بحديث عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده إذا صح النقل إليه
ائمہ اسلام اور جمہور علماء کے نزدیک اگر عمر و بن شعیب تک سند صحیح ہو تو ان کی عن ابيه من جده والی روایت حجت ہوتی ہے۔
(مجموع فتاوی: 8/18)
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
والجمهور يحتجون به
اور جمہور ان سے حجت پکڑتے ہیں ۔
(تہذیب السنن : 374/6)
علامہ منذری اپنا فیصلہ سناتے ہیں :
فيه كلام طويل فالجمهور على توثيقه وعلى الإحتجاج بروايته عن أبيه عن جده
اس میں لمبی بحث ہے، جمہور آپ کو ثقہ کہتے ہیں اور آپ کی عن ابيه عن جده والی روایت کو حجت سمجھتے ہیں۔
(الترغیب والترہیب: ج 2 ص 576)
حافظ زیلعی فرماتے ہیں:
وأكثر الناس يحتجون بحديث عمرو بن شعيب
( اہل علم ) لوگوں کی اکثریت عمرو بن شعیب کی حدیث سے حجت پکڑتی ہے۔
( نصب الرلية 1/58 )
محمد یوسف بنوری دیو بندی صاحب گواہی دیتے ہیں:
وذهب أكثر المحدثين إلى صحة الإحتجاج به وهو الصحيح المختار
اکثر محدثین کا یہ مذہب ہے کہ عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده والى حدیث حجت ہے اور یہی صحیح ہے اور ہم اسے اختیار کرتے ہیں ۔
(معارف السنن 315٫3)
عبدالرشید نعمانی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں:
اکثر محدثین عمرو بن شعیب کی ان حدیثوں کو حجت مانتے ہیں اور صحیح سمجھتے ہیں۔
(ابن ماجہ اور علم حدیث ص 141)
شیخ الاسلام البلقینی رحمہ اللہ نے عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده کی حجیت پر ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ” بذل النافد بعض جهده فى الإحتجاج بعمرو بن شعيب عن أبيه عن جده “ ہے اور فرماتے ہیں:
والصواب الذى عليه جمهور المحدثين الإحتجاج به
اور صحیح بات وہی ہے جو کہ جمہور محدثین نے کہی ہے کہ اس کی روایت (عن أبيه عن جده) حجت ہے۔
(محاسن الاصطلاح شرح مقدمہ ابن الصلاح ص 481 )
مزید تفصیل کے لئے تو ضیح الکلام (438/1 تا 453 ) کا مطالعہ کریں۔
خلاصہ یہ ہے کہ جمہور علماء کے نزدیک عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده والى حدیث صحیح یا حجت ہوتی ہے، باقی سند بھی صحیح ہے لہذا اس حدیث کے صحیح ہونے میں کیا شبہ ہے؟

(5) حدیث عبادہ رضی اللہ عنہ

❀ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ثنا يعقوب : ثنا أبى عن ابن إسحاق بحدثني مكحول عن محمود بن الربيع الأنصاري عن عبادة بن الصامت قال : صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم الصبح فثقلت عليه فيها القراءة فلما انصرف رسول الله صلى الله عليه وسلم من صلاته أقبل علينا بوجهه فقال : إني لأراكم تقرون خلف إمامكم إذا جهر قال : قلنا أجل والله إذا يا رسول الله إنه لهذا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : لا تفعلوا إلا بأم القرآن فإنه لا صلاة لمن لم يقرأبها
عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی ، آپ پر قراءت بھاری ہوگئی جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ میں تمھیں دیکھتا ہوں کہ تم امام کے پیچھے ( قرآن ) پڑھتے ہو؟ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: کہ ہم لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اللہ کی قسم ہم پڑھتے ہیں، فرمایا: ایسا مت کرو مگر ہاں ام القرآن یعنی سورۂ فاتحہ پڑھو اور کچھ نہ پڑھو، کیونکہ جس نے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی اس کی نماز نہیں ہوتی ۔
(مسند احمد : 322/5 ح 23125 واللفظ له وص 316 ح 23070) (ترمذی مترجم: 65/1)
یہ حدیث محمد بن اسحاق کی سند سے درج ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے۔
سنن ابی داود (126/1 ح 823) سنن الترمذی (69/1 70ح311)، جزء القراءت للبخاری ( ح 257) سنن دار قطنی (318/1 ح 1200)، مستدرک الحاکم (1/ 238 869)، امعجم الصغیر للطبرانی (230/1 ح 1581) صحیح ابن خزیمہ (36/3) صحیح ابن حبان ( الاحسان 161،137/3 ح 1782 ، 1845) منتقی ابن الجارود ( ح 321) ، السنن الكبرى اللبیہقى (164/2) و کتاب القراءت له ( ص 43، 44 و نسختہ ص 56، 57 ح 109-113) و غیره
اسے متعدد علماء نے صحیح قرار دیا ہے۔ مثلاً :
➊ بخاری رحمہ اللہ
➋ ابو داود رحمہ اللہ
➌ ابن خزیمه رحمہ اللہ
➍ ابن حبان رحمہ الله
➎ بیہقی رحمہ اللہ
اور متعد د علماء نے اسے حسن کہا ہے، مثلاً :
➊ ترمذی رحمه الله
➋ دار قطنی رحمہ اللہ
➌ ابن حجررحمہ اللہ ، وغیرہم
اس حدیث کے ایک راوی محمد بن اسحاق بن یسار مختلف فیہ ہیں ، امام مالک رحمہ اللہ وغیرہ نے انھیں شدید جروح کا نشانہ بنایا ہے اور بعض لوگوں نے ان جروح کے بل بوتے پر محمد بن اسحاق التابعی رحمہ اللہ کو کذاب و دجال وغیرہ قرار دینے کی ناکام کوشش کی ہے، حالانکہ یہ سب جروح مردود ہیں۔
محمد بن اسحاق رحمہ اللہ : جمہور محدثین ، فقہا ، اور علماء کے نزدیک ثقہ صدوق، حسن الحدیث اور صحیح الحدیث وغیرہ ہیں ۔
حافظ زیلعی فرماتے ہیں:
وابن إسحاق الأكثر على توثيقه وممن وثقه البخاري
اور امام بخاری سمیت اکثر (علماء) نے محمد بن اسحاق کو ثقہ قرار دیا ہے۔
( نصب الراية : 7/4)
علامہ عینی فرماتے ہیں:
وتعليل ابن الجوزي بابن إسحاق ليس بشيء لأن ابن إسحاق من الثقات الكبار عند الجمهور
ابن جوزی کا ابن اسحاق پر جرح کرنا کچھ چیز نہیں ہے، کیونکہ ابن اسحاق جمہور کے نزدیک بڑے ثقہ لوگوں میں سے تھے۔
(عمدۃ القاری: 270/7)
امام سہیلی لکھتے ہیں :
ثبت فى الحديث عند أكثر العلماء
اکثر علماء کے نزدیک وہ حدیث میں ثبت ہیں ۔
(الروض الانف :4/1)
یہی بات امام ابن خلکان نے وفیات الاعیان (612،276/4 ) میں لکھی ہے ۔
ابن ہمام حنفی صاف اعلان کرتے ہیں:
و ابن إسحاق ثقة على ما هو الحق
اور حق یہ ہے کہ ابن اسحاق ثقہ ہیں ۔
(فتح القدیر: 411/1)
اور فرماتے ہیں:
أما ابن إسحاق فثقة ثقة لا شبهة عندنا فى ذلك ولا عند محققى المحدثين
ابن اسحاق ثقہ ہیں اس میں ہمارے اور محقق محد ثین کے نزدیک کوئی شبہ نہیں ہے۔
(فتح القدیر: 424/1 دوسرا نسختہ 1301/1 توضیح الکلام : 283/1)
محمد ادریس کاندہلوی صاحب لکھتے ہیں :
جمہور علماء نے اس کی توثیق کی ہے۔ (سیرت المصطفی76) مزید تفصیل کے لئے توضیح الکلام (225/1 تا 294) وغیرہ کا مطالعہ کریں۔
دیوبندی علماء میں سے انور شاہ کشمیری، محمد یوسف بنوری محمد ادریس کاندہلوی ، ظفر احمد عثمانی، تبلیغی نصاب والے زکریا صاحب اور سرفراز صفدر دیو بندی و غیر ہم نے بھی محمد بن اسحاق کی توثیق کی ہے، بریلوی مسلک کے مسلم رہنما احمد رضا خان بریلوی لکھتے ہیں:
ہمارے علماء کے نزدیک بھی محمد بن اسحاق رحمہ اللہ کی توثیق ہی راجح ہے ۔
(منير العين في حكم تقبيل الا بہامین ص 116)
قارئین فیصلہ فرمائیں کہ ایسے ثقہ عندالجمہور راوی کو چند لوگوں کی جرح کی بنیاد پر کذاب وغیرہ باور کرانا کہاں کا انصاف ہے؟
اس سند کے ساتھ ایک راوی امام مکحول رحمہ اللہ پر بعض لوگوں نے اعتراض کیا ہے۔

امام مکحول کا تعارف

آپ سرزمین شام کے نامور تابعی ،صحیح مسلم کے مرکزی راوی اور جمہور علماء کے نزدیک ثقہ و صدوق ہیں ۔
(دیکھئے تہذیب التہذیب: 208/1)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا : ثقة فقيه ، كثير الإرسال
( تقريب التهذيب ص 506 ت : 6875)
امام ابن یونس مصری فرماتے ہیں : اتفقوا على توثيقه ، مکحول کے ثقہ ہونے پر اتفاق ہے۔
(تہذیب الاسماء واللغات للنودی : 114/2)
امام ترندی، امام دار قطنی ، امام ابن خزیمہ ، حافظ ابن حبان اور امام ابو داود وغیرہم نے امام مکحول کی حدیث کی تصحیح یا تحسین کی ہے ۔ جو کہ صریح توثیق ہے، ان کے مقابلے میں امام ابو حاتم سے ” ليس بالمتين “ کی جرح مروی ہے۔
اولاً : یہ جرح امام ابو حاتم رحمہ اللہ سے ثابت نہیں ہے۔
ثانیا: اگر ثابت بھی ہو تو غیر مفسر ہے۔
ثالثا : یہ جرح جمہور کی توثیق کے مقابلے میں مردود ہے۔
امام ابن سعد : کاتب الواقدی فرماتے ہیں:
وقال غيره من أهل العلم : كان مكحول من أهل كابل وكانت فيه لكنة وكان يقول بالقدر وكان ضعيفا فى حديثه وروايته
اور اہل علم میں سے دوسرے نے کہا: مکحول کا بلی تھا اور اس کی زبان میں لکنت تھی اور قدر یہ فرقہ سے تعلق رکھتا تھا اور اپنی حدیث اور روایت میں ضعیف تھا۔
(طبقات ابن سعد : 454/7)
یہ جرح کئی لحاظ سے مردود ہے:
غيره من أهل العلم مجہول ہے۔
➋ ابن سعد رحمہ اللہ اگر جمہور کے خلاف جرح میں منفرد ہوں تو ان کی جرح غیر مقبول ہوتی ہے۔ دیکھئے (ص20،19)
➌ یہ جرح جمہور کی توثیق کے خلاف ہے۔
مکحول رحمہ اللہ ، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے استاد بھی تھے ۔ (کتاب الآثار 350)
بعض لوگوں نے امام مکحول رحمہ اللہ پر یہ اعتراض کیا ہے کہ آپ مدلس ہیں ، اس کے جواب میں حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
مکحول اصطلاحی معنی میں مدلس نہیں کیونکہ اصطلاحی مدلس وہ ہوتا ہے جو ایسے لوگوں سے ارسال کرے جن سے اس کا سماع ثابت ہو اور یہاں اس کا ارسال کبار صحابہ سے مقید ہے اور کبار صحابہ سے اس کا سماع ثابت نہیں پس ارسال کو اصطلاحی طور پر تدلیس نہیں کہہ سکتے ۔
(خیر الکلام ص 232، 233)
مکحول رحمہ اللہ معنعن روایات کی متعدد علماء نے تصحیح یا تحسین کی ہے۔ مثلاً :
➊ امام ترمذی رحمہ اللہ
➋ امام دارقطنی رحمہ اللہ
➌ امام بیہقی رحمہ اللہ
➍ امام ابن خزیمه رحمہ اللہ
➎ امام مسلم رحمہ اللہ
➏ حافظ ابن حبان رحمہ اللہ
➐ امام ابو داود رحمہ اللہ
➑ امام خطابی رحمہ اللہ
➒ امام بخاری رحمہ اللہ
➓ امام حاکم رحمہ اللہ و غیره (توضیح الکلام : 222/1، 223)
میری تحقیق میں مکحول رحمہ اللہ مدلس نہیں ہیں ، ان پر تدلیس کا الزام حافظ ابن حبان اور حافظ ذہبی نے لگایا ہے۔ حافظ ذہبی کے بارے میں صفحہ (23) پر گزر چکا ہے کہ تدلیس اور ارسال ان کے نزدیک ایک ہی چیز ہے لہذا وہ جس راوی کو مدلس کہیں تو دیگر قرائن کے بغیر اس حکم کا کوئی اعتبار نہیں ہے ۔ حافظ ابن حبان ایک راوی بشیر بن المہاجر کے بارے میں فرماتے ہیں:
قد روى عن أنس ولم يره : دلس عنه
( كتاب الثقات: 98/6)
معلوم ہوا کہ ابن حبان کے نزدیک بھی تدلیس اور ارسال ایک ہی چیز ہے لہذا ابن حبان اور ذہبی اگر دونوں کسی راوی کو مدلس کہیں اور دوسرے محدثین اس کا انکار کریں یا اس راوی کی حدیث کو صحیح و حسن کہیں تو ایسے راوی کو غیر مدلس ہی سمجھا جائے گا جیسا کہ ابو قلابہ کے ذکر میں گزر چکا ہے۔ دوسرے یہ کہ ہم (صفحہ 12،15 ) پر عرض کر آئے ہیں کہ حنفیہ کے نزدیک تدلیس چنداں مضر نہیں ہے، لہذا اپنے مسلم اصول کے خلاف مدلس کی رٹ لگانا انصاف کا خون کر دینے کے مترادف ہے۔

(6) حدیث ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ

❀ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
حدثنا مسدد قال : حدثنا يحيى بن سعيد عن عبيدالله قال : حدثني سعيد المقبري عن أبيه عن أبى هريرة رضى الله عنه عن النبى صلى الله عليه وسلم : إذا أقيمت الصلوة فكبر ثم اقرأ ثم اركع
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے (مسئی الصلوۃ سے ) فرمایا : جب (فرض ) نماز کی اقامت ہو جائے تو تکبیر کہ پھر قراءت کر پھر رکوع کر ۔ (جزء القراءة اللبخاری: 1136وسندہ صحیح)
اس روایت میں مسئی الصلوۃ کو حکم دیا گیا ہے کہ فرض نماز کی اقامت ہو جانے کے بعد (جب امام تکبیر کہہ دے) تو تم تکبیر (اللہ اکبر ) کہو پھر قراءت کرو، دوسرے دلائل کو مد نظر رکھتے ہوئے ، یہاں قراءت سے مراد سورہ فاتحہ کی قراءت ہے، لہذا معلوم ہوا کہ مقتدی پر ( سورہ فاتحہ کی ) قراءت فرض ہے۔
یہ روایت بلحاظ سند بالکل صحیح ہے ، مسدد: ثقہ حافظ ہیں ۔
( تقریب التہذیب: 6598)
یحی بن سعید القطان: ثقہ متقن حافظ امام قدوۃ ہیں ۔
( تقریب التہذیب: 7557)
عبید اللہ بن عمر بن حفص : ثقہ ثبت ہیں ۔
( تقریب التہذیب: 4324)
سعید المقبری : ثقہ ہیں ۔
(تقريب التهذيب: 2321 ملخصاً)
ان پر موت سے پہلے تغیر کا الزام ہے، جو یہاں مردود ہے، عبید اللہ بن عمر کا ان سے سماع تغیر سے پہلے کا ہے، دیکھئے مقدمہ ابن الصلاح مع التقیید والا یضاح ( ص466 نوع: 63) کیسان ابوسعید المقبری: ثقہ ثبت ہیں۔
( تقریب:5676)
ابو ہریرہ مشہور جلیل القدر صحابی ہیں رضی اللہ عنہ ، لہذا یہ سند بالکل صحیح ہے۔

(7) حدیث رفاعة الزرقى رضی اللہ عنہ

رفاعہ بن رافع الزرقی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : رسول اللہ نے مسئی الصلوۃ کو حکم دیا کہ
إذا أقيمت الصلوة فكبر ثم اقرأ بفاتحة الكتاب وما تيسر ثم اركع
جب ( فرض) نماز کی اقامت ہو جائے تو تکبیر کہ پھر سورہ فاتحہ پڑھ اور (سری نماز میں ) جو میسر ہو پڑھ، پھر رکوع کر۔
( شرح السنتہ اللبغوی : 3 /10 ح 554 وقال: ھذ احدیث حسن)
اس روایت کی سند حسن ہے۔
قال البغوي : أخبرنا أبو طاهر محمد بن على بن بويه الزراد أنا أبو القاسم على بن أحمد الخزاعي : نا أبو سعيد الهيثم بن كليب : نا عيسى بن أحمد العسقلاني أبو أحمد : أنا يزيد بن هارون : أنا محمد بن عمرو عن على بن يحيى بن خلاد عن رفاعة بن رافع الزرقي إلخ
رفاعہ بن رافع بن مالک بن العجلان الانصاری رضی اللہ عنہ بدری صحابی ہیں۔
(دیکھئے تقریب التہذیب: 1946)
علی بن یحیی بن خلاد : ثقہ ہیں ۔
( تقریب التہذیب: 3814)
محمد بن عمرو بن علقمہ اللیثی : صدوق لہ اوہام ہیں ۔
( تقریب التہذیب: 6188)
یہ حسن الحدیث راوی ہیں جمہور نے انھیں ثقہ و صدوق قرار دیا ہے، یزید بن ہارون ثقه متقن عابد ہیں ۔
( تقریب التہذیب : 7789 )
عیسی بن احمد العقلانی: ثقة يغرب ہیں ۔
( تقریب التہذیب: 5282)
راوی اگر ثقه یا صدوق ہو تو يــغــرب (وہ غریب روایتیں بیان کرتا ہے ) کوئی جرح نہیں ہے، یادر ہے کہ صحیح بخاری کی پہلی روایت بھی غریب ہی ہے۔
ہیثم بن کلیب الشاشی: الامام الحافظ الثقہ ہیں۔
(سیر اعلام النبلاء : 359/15)
علی بن احمد الخزاعی : الشيخ الصدوق العالم المحدث ہیں ۔
(سیر اعلام النبلاء: 199/17)
محمد بن علی بن بو یہ الزراد کا ذکر تاریخ دمشق (296/5/7) اور الاسانید للسمعانی (143/3) میں ہے۔ سمعانی نے کہا : كتب الحديث ، يكثر بالشام امام بغوی نے اس کی حدیث کو حسن کہہ کر اس کی توثیق کر دی ہے لہذا یہ سند حسن ہے۔
اس روایت کے مفہوم میں دو باتیں اہم ہیں :
➊ اس میں مقتدی کو سورۂ فاتحہ پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے۔
➋اور جو میسر ہو کی تخصیص ، دوسرے دلائل کو مد نظر رکھتے ہوئے سری نماز سے کی گئی۔
ہے ، یاد رہے کہ امام ہو یا مقتدی یا منفرد ، سورہ فاتحہ کے علاوہ باقی قراءت فرض (واجب) نہیں بلکہ (جہری نمازوں میں مقتدی کی تخصیص کے بعد ) سنت اور مستحب ہے ۔
(دیکھئے نصر الباری فی تحقیق جزء القراءة للبخاری ص26)

(8) حدیث محمد بن ابی السرى العسقلانی

❀ امام بیہقی رحمہ اللہ نے فرمایا:
أخبرنا أبو عبد الله الحافظ : أنبا أبو على الحسين بن على الحافظ : نا أحمد بن عمير الدمشقي : ناموسي بن سهل الرملي نا محمد بن أبى السري نا يحيى بن حسان : نا يحي بن حمزة عن العلاء بن الحارث عن مكحول عن محمود بن الربيع عن عبادة بن الصامت قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : لا صلوة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب ، إمام وغير إمام
عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو سورہ فاتحہ نہ پڑھے امام ہو یا غیر امام ۔
(کتاب القراءت ص 438 وفی نسختہ ص 62 ح 115)
اس حدیث کے سارے راوی ثقہ ہیں ۔
➊ ابو عبد الله الحافظ ( امام حاکم صاحب المستدرک ) آپ ثقہ تھے ۔ ( تاریخ بغداد 473/5)
نیز دیکھئے احسن الکلام (104/1)، تذکرة الحفاظ (1049/3ت : 962 ) وغیرہما ۔
➋ ابوعلی الحافظ : آپ الحافظ الإمام العلامة الثبت تھے۔
( نیز دیکھئے احسن الکلام 104/1)
➌ احمد بن عمیر : آپ ثقات المسلمین میں سے تھے ۔
(المعجم الصغیر للطبرانی 1/16)
جمہور نے آپ کی توثیق و تعریف کی ہے، آپ پر امام دارقطنی رحمہ اللہ کی جرح ثابت نہیں ہے، اس جرح کا راوی ابو عبد الرحمن السلمی ہے۔
(سیراعلام النبلاء 17/15)
اور یہ شخص کذاب تھا۔
(دیکھئے احسن الکلام 89/2 توضیح الکام 331/1)
➍ موسیٰ بن سہل الر ملی صدوق ثقہ تھے ۔
( الجرح والتعدیل لا بن ابی حاتم : 146/8)
➎ محمد بن متوکل العسقلانی ، آپ جمہور کے نزدیک ثقہ و صدوق تھے ، امام ابن معین نے کہا: ثقة ، اور کسی محدث نے بھی ان کی اس روایت کو وہم یا منکر نہیں کہا تفصیل کے لئے
(دیکھئے تہذیب التہذیب 376/9 و توضیح الکلام 314)
➏ یحیی بن حسان ثقہ تھے ۔
( تقریب التہذیب ص:7580 )
➐ یحیی بن حمزہ ثقہ تھے۔
(الکاشف للذہبی : 223/3)
➑ العلاء بن الحارث جمہور کے نزدیک ثقہ ہیں ، آپ کی روایات صحیح مسلم (147/2ح1931) وغیرہ میں موجود ہیں بلکہ الكواكب النيرات فى معرفة من اختلط من الرواة الثقات کے محشی عبدالقیوم بن عبدرب النبی صاحب لکھتے ہیں :
ثقة لم يضعفه أحد من الحفاظ
آپ ثقہ تھے آپ کو کسی محدث نے بھی ضعیف نہیں کہا۔
(ص ، 340 نیز دیکھئے تو ضیح الکام: 313/1)
آپ پر تغیر عقل کا الزام ہے، امام ابو داود سے اس جرح کا راوی آجری ہے۔
(تہذیب التہذیب: 158/8)
آجری مذکور مجہول الحال ہے۔
➒ مکحول رحمہ اللہ پر تفصیلی بحث ص (61) پر گزر چکی ہے ، اور باقی سند صحیحین کی شرط پر بالکل صحیح ہے۔

(9) حدیث عبدالحمید بن جعفر

❀ امام بیہقی نے کہا:
أخبرنا الإمام أبو عثمان رضى الله عنه : أنا أبو طاهر محمد بن الفضل بن محمد بن إسحاق بن خزيمة: أنا جدي : نا محمد بن أبى صفوان الثقفي : نا أبو بكر يعنى الحنفي : نا عبدالحميد بن جعفر عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أنه كان يقرأ خلف رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم إذا أنصت فإذا قرأ لم يقرأ فإذا أنصت قرأ وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : كل صلوة لا يقرأ فيها بفاتحة الكتاب فهي خداج وأنبأني أبو عبدالله الحافظ إجازة أن أبا على الحسين بن على الحافظ أخبرهم نا محمد بن إسحاق بن خزيمة فذكره بإسناده نحوه
عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے قراءت کرتے تھے ، جب آپ خاموش ہوتے اور جب آپ پڑھتے تو قراءت نہ کرتے اور جب آپ خاموش ہوتے تو آپ قراءت کرتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ ہر نماز جس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ ناقص ہے۔
(کتاب القراءت ص 105 و فی نسختہ ص 126 ح 302، 301)
اس سند کے تمام راوی ثقہ ہیں ۔ عمرو بن شعيب عن ابيه عن جده کے لئے (دیکھئے ص 24، 26) عبدالحمید بن جعفر جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ ہیں۔
( نصب الرایۃ: 1381 نیز دیکھئے راقم الحروف کی کتاب نور العینین فی مسئلہ رفع الیدین ص 75 )
ابوبکر عبد الكبير بن عبدالمجید الحنفی ثقہ ہیں ۔
(التقریب: 4175)
محمد بن ابی صفوان الثقفی بھی ثقہ ہیں ۔
(التقریب 6171)
اور امام ابن خزیمہ کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں، وہ ثقہ سے اوپر تھے، ابوعلی الحافظ اور امام حاکم کا تذکرہ (ص 45) پر گزر چکا ہے، ابو طاہر بن الفضل صحیح ابن خزیمہ کے راوی ہیں ۔ ابوعلی النیسابوری رحمہ اللہ نے ان کی متابعت کر رکھی ہے ، ابو عثمان اسماعیل بن عبدالرحمن الصابونی بہت بڑے ثقہ امام تھے ۔
( دیکھئے سیر اعلام النبلاء 40/18)

(10) حدیث معاویہ بن الحکم اسلام السلمى رضی اللہ عنہ

معاویہ بن الحکم رضی اللہ عنہ کی ایک طویل حدیث کا خلاصہ ہے کہ انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی اور نماز میں باتیں کرتے رہے، فرماتے ہیں:
فلما صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فأبي وأمي مارأيت معلما قبله ولا بعده أحسن تعليما منه فو الله ما كهرني ولا ضربني ولا شتمني ثم قال : إن هذه الصلوة لا يصلح فيها شي من كلام الناس إنما هو التسبيح والتكبير وقراءة القرآن
پس جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی تو میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، آپ سے بہترین استاد میں نے نہ پہلے دیکھا اور نہ بعد میں ۔ آپ نے نہ تو مجھے جھڑ کا اور نہ مارا نہ بُرا بھلا کہا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس نماز میں انسانوں کے کلام کی کوئی چیز جائز نہیں ہے، یہ نماز تو تسبیح وتکبیر اور قرآن کا پڑھنا ہے۔
( صحیح مسلم : 203/1 ح 537 )
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مقتدی جس طرح تسبیح اور تکبیر کہے گا، اُسی طرح قرآن ( سورہ فاتحہ ) بھی پڑھے گا، کیونکہ یہ حدیث خاص طور پر مقتدی کے بارے میں ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ وغیرہ نے بھی اس سے قراءت خلف الامام کے مسئلہ پر استدلال کیا ہے۔
(جزء القراءت: ح 69، 70 بیہقی ص 27 ح 177)
امام کے لئے سکوت کا ثبوت کئی مرفوع اور موقوف روایات سے ثابت ہے ۔
( دیکھئے صحیح بخاری (103/1 ح 744 ) ابوداود (120/1 ح 777-781 ) آثار السنن للنیموی (191/283) کتاب القراء للبیہقی (ص 103 ح 237-239) وجزء القراءت للبخاری (ص 65، 66 ح 273-281)
قارئین کرام! ان کے علاوہ بھی بہت سی حدیثیں ہیں جن میں مقتدی کو فاتحہ ( یا قراءت ) خلف الامام کا حکم دیا گیا ہے۔ مثلا:
① رجاء بن حيوہ عن عبادة
( كتاب القراءت ص 53، 15 دوسر نسختہ ص 67، 18 ح 129)
اس کے تمام راوی ثقہ ہیں سوائے احمد بن عبید اللہ الانطاقی کے ، اس کی توثیق نا معلوم ہے۔
(دیکھئے تاریخ بغداد 252/4ت : 1981)
② عبد اللہ بن عمر و بن العاص عن عبادة
(كتاب القراءت ص 54، 18، دوسرا نسختہ ص 69،68 ح 132)
اس کے تمام راوی ثقہ ہیں سوائے الحسن بن علی بن عیاش الحمصی کے ، اس کی توثیق نامعلوم ہے۔
(دیکھئے تاریخ دمشق لابن عساکر 164/15)
③ مرسل سلیمان التیمی
(مسند احمد : 308/5ح23001)
اس کے سارے راوی ثقہ ہیں مگر سند منقطع ہے۔
(دیکھئے ص 7 )
④ عبدالرحمن بن سوار بسنده آن مہران
(کتاب القرار للبیہقى ص 62 ح161)
اس کے سارے راوی ثقہ ہیں، بجز عبد الرحمن کے ، اس کے حالات نامعلوم ہیں۔
(دیکھئے تو ضیح الکلام: 456/1)
رجل من أهل البادية عن أبيه
(کتاب القراءات: ص 63 162)
اس کی سند رجل تک صحیح ہے اور رجل نامعلوم ہے، حنفیہ، دیوبندیہ کے نزدیک خیر القرون کے نامعلوم شخص کی روایت حجت ہوتی ہے۔
(دیکھئے ص33، 23)
⑥ حدیث عبد اللہ بن عمر و بن العاص
(کتاب القراءت للبیہقی : ص 64 ، 65ح170)
اس کی سند کے تمام راوی ثقہ میں صرف ابن لہیعہ اختلاط کی وجہ سے ضعیف ہے۔
ظفر احمد تھانوی دیوبندی صاحب بار بار فرماتے ہیں کہ ابن لہیعہ حسن الحدیث ہے۔
(دیکھئے اعلاء السنن 430/1، 426 ، وص 445 ح 438، ص 448، 444)
مثنی بن الصباح نے اس کی متابعت کر رکھی ہے۔
(مصنف عبد الرزاق : ج 2 ص 133)
مثنی ابن الصباح: ضعيف ، اختلط بآخرة وكان عابدا ہے۔
(تقریب التہذیب: 6471)
سید مہدی حسن شاہجہانپوری دیوبندی لکھتے ہیں:
” اس روایت میں کوئی خرابی نہیں تھی جو ابن لہیعہ کے عدم احتجاج کو پیش کر کے چاند پر خاک ڈالی گئی ہے۔ اول تو ابن لہیعہ کی توثیق امام احمد نے کی ہے“
(التطهير في نجاسة البيئر، در مجموعه رسائل: 3221)
⑦ مرسل ابی قلابہ (کتاب القراءت ص 74 ح 138)
اس کی سند ابو قلابہ تک بالکل صحیح ہے لیکن مرسل ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے ، مگر حنفیہ کے نزدیک مرسل حجت ہے ۔
(دیکھئے احسن الکلام: 114/1، 115)
لہذا انھیں چاہئے کہ بغیر کسی چون و چرا کے اس ضعیف روایت کو تسلیم کریں۔
⑧ حدیث ابی امامه رضی اللہ عنہ
( تاریخ یعقوب بن سفیان الفارسی 432/2)
اس روایت کی سند کے دوراویوں (1) مؤمل بن عمر ابو قعنب العتبی اور (2) یوسف ابو عنبسہ خادم ابی امامہ کے حالات مجھے معلوم نہیں۔
⑨ محمد بن عبد اللہ بن عبید اللہ بن عمیر عن عطاء عن ابی ہریرہ الخ
(دار قطنی : 1/ 317 ح 1192)
اس کا راوی محمد بن عبد اللہ ضعیف ہے، امام ابن معین اور امام بخاری و غیر ہما نے اس پر سخت جرح کی ہے لہذا یہ روایت مردود ہے۔
⑩ مرسل محمد بن ابی عائشہ
( التاريخ الكبير للبخاری: 1/ 207)
اس کی سند محمد بن ابی عائشہ تک صحیح ہے لیکن یہ روایت ارسال کی وجہ سے ضعیف ہے، مختصر یہ کہ یہ روایت ضعیف و مردود ہے۔ لہذا میں نے علمی امانت کی وجہ سے ان ضعیف روایات سے بالکل استدلال نہیں کیا اور نہ انھیں شواہد میں پیش کیا ہے اصل حجت ان روایات میں ہے جنھیں میں نے( صفحہ 8 تا 38) پر پیش کیا ہے۔ حدیث انس بن مالک تا حدیث معاویہ بن الحکم رضی اللہ عنہ

خلفائے راشدین اور فاتحہ خلف الامام

امیر المومنین عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے جہری اور سری دونوں نمازوں میں فاتحہ خلف الامام کا حکم ثابت ہے جیسا کہ تفصیل آگے آرہی ہے۔
(صححه الدارقطني والحاكم والذہبی )
سید نا علی رضی اللہ عنہ سے فاتحہ خلف الامام کا حکم مروی ہے، لیکن اس کی سند امام زہری کے عنعنہ کی وجہ سے معلول ہے لہذا میں اس ضعیف روایت سے استدلال نہیں کرتا ، حالانکہ امام حاکم اور ذہبی وغیرہما نے اس اثر کی بھی تصحیح کی ہے۔

خلاصة الكلام في الفاتحۃ خلف الامام

قارئین کرام! راقم الحروف نے اس مختصر کتاب میں کتاب وسنت کے عام اور خاص دلائل سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ مقتدی کا وظیفہ یہ ہے کہ وہ ہر نماز میں چاہے سری ہو یا جہری سورۃ فاتحہ ضرور پڑھے، کیونکہ سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی آیات قرآنیہ صحیح وحسن احادیث کا یہی مفہوم ہے، خلفائے راشدین کا بھی یہی عمل ہے اور جمہور صحابہ کا بھی یہی طریقہ ہے جیسا کہ آگے آرہا ہے۔ یادر ہے کہ مقتدی کو فاتحہ سرا پڑھنی چاہئے ، جہر کر کے امام پر تشویش کرنا ممنوع ہے۔
ان صحیح احادیث کے مقابلے میں قرآن پاک کی نہ تو کوئی آیت ہے جس میں مقتدی کو امام کے پیچھے سورۂ فاتحہ پڑھنے سے منع کیا گیا ہو اور نہ کوئی صحیح حسن حدیث جو اپنے مدلول پر صریح ہو اور نہ کسی صحابی سے با سند صحیح صاف طور پر فاتحہ کی ممانعت ثابت ہے۔
بلکہ حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وقد أجمع العلماء على أن من قرأ خلف الإمام فصلاته تامة ولا إعادة عليه
اور علماء کا اجماع ہے کہ جو شخص امام کے پیچھے (سورۂ فاتحہ ) پڑھتا ہے، اس کی نماز مکمل ہے ، اس پر کوئی اعادہ نہیں۔
(الاستند کار :193/2)
عبد الحی لکھنوی ( جو کہ مشہور تقلیدی عالم تھے ) فرماتے ہیں:
لم يرد فى حديث مرفوع صحيح النهي عن قراءة الفاتحة خلف الإمام وكل ما ذكروه مرفوعا فيه إمالا أصل له وإما لا يصح
کسی مرفوع صحیح حدیث میں فاتحہ خلف الامام کی ممانعت ثابت نہیں اور وہ ( تقلیدی حضرات ) جو بھی مرفوع احادیث کا ذکر کرتے ہیں یا تو وہ صحیح نہیں یا اس ( روایت) کی کوئی اصل نہیں ۔
(التعلیق الممجد : ص 101 حاشیہ نمبر 1)
لکھنوی صاحب کا یہ بیان انتہائی ذمہ دارانہ ہے، اس کے خلاف آج تک کوئی بھی کچھ پیش نہیں کر سکا۔ مانعین فاتحہ خلف الامام اس مسئلہ پر بہت سے عام دلائل پیش کرتے ہیں، حالانکہ اصولاً خاص کے مقابلے میں عام پیش کرنا غلط ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے