کاندہلوی صاحب اور فاتحہ خلف الإمام
جب مسلمانوں کا کسی مسئلہ میں اختلاف ہو جائے تو اللہ تعالیٰ نے کتاب و سنت کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے۔ ارشاد ہے:
فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ
(4-النساء:59)
پس اگر تمہارے درمیان کسی چیز میں نزاع (اختلاف) ہو تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹا دو، اگر تم واقعی اللہ اور یومِ آخر پر ایمان رکھتے ہو۔
اللہ کی طرف پھیرنے کا مطلب اس کی کتاب کی طرف رجوع کرنا ہے اور رسول اللہ صلى اللہ عليه وآله وسلم کی طرف پھیرنے سے مراد آپ صلى اللہ عليه وآله وسلم کی سنت کی طرف رجوع کرنا ہے۔
(دیکھئے زاد المسير في علم التفسير لابن الجوزي: 117/2 نقلہ عن الجمہور)
اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازیں دن اور رات میں ہر مسلمان پر فرض کی ہیں اور نبی کریم صلى اللہ عليه وآله وسلم نے ان کا پورا پورا طریقہ بھی بیان فرما دیا ہے تاکہ جو زندہ رہے دلیل دیکھ کر عمل کرے اور جو مرے دلیل دیکھ کر مرے۔ نماز میں سورۃ فاتحہ خلف الإمام کا مسئلہ اختلافی ہے، اس موضوع پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے، راقم الحروف نے اس موضوع پر صحیح احادیث عند الجمہور کی روشنی میں ایک مختصر رسالہ لکھا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ امام کے پیچھے جہری اور سری دونوں نمازوں میں فاتحہ اپنے دل میں خفیہ ضرور پڑھنی چاہیے۔ یہ مختصر رسالہ ابھی تک غیر مطبوعہ ہے تاہم اس کا اکثر حصہ اس کتاب (الکواکب الدریہ) میں ضم کر دیا گیا ہے۔ والحمد لله
امام ترمذی رحمہ اللہ فاتحہ خلف الإمام کی ایک حدیث روایت کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
والعمل على هذا الحديث فى القراءة خلف الإمام عند أكثر أهل العلم من أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم والتابعين وهو قول مالك بن أنس وابن المبارك وأحمد وإسحاق يرون القراءة خلف الإمام
(فاتحہ خلف الامام کی)اس حدیث پر امام کے پیچھے قراءت کرنے میں اکثر صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین کا عمل ہے اور یہی قول امام مالک، ابن مبارک، شافعی، احمد بن حنبل اور اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ کا ہے۔ یہ قراءت خلف الإمام کے قائل تھے۔
(70/1، 71 مع العرف الشذي تحت ح 311)
اس کے برعکس ایک غیر اہلِ حدیث حبیب الرحمٰن کاندہلوی صاحب لکھتے ہیں:
یہ مسئلہ کہ امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ کی قراءت کی جائے یا نہیں، دورِ صحابہ سے مختلف فیہ رہا ہے جہاں کچھ صحابہ سری نمازوں میں قراءتِ فاتحہ کے قائل تھے، وہاں ان کی اکثریت اس کی قطعاً منکر ہے، یہی صورت حال تابعین اور تبع تابعین کے دور میں بھی رہی، ائمہ فقہاء میں سے امام شافعی کے علاوہ کوئی بھی جہری نمازوں میں فاتحہ خلف الإمام کا قائل نہیں اور امام شافعی کے بارے میں بھی اختلاف ہے، ایسی صورت میں ان لوگوں کی نمازوں کو باطل قرار دینا جو امام کے پیچھے قراءت کے قائل نہیں ہیں ایک بدترین جہالت ہے۔ اس سے صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کی نمازوں کا بطلان لازم آتا ہے اور اگر خدانخواستہ صحابہ کی نمازوں کو باطل قرار دیا جائے تو صحابہ کرام دین کے لیے قطعاً نمونہ باقی نہ رہیں گے جس سے تمام دین کا وجود ہی باطل ہو جائے گا اور یہ محال ہے ۔
(فاتحہ خلف الإمام، ص 3)
کاندہلوی صاحب اس عبارت میں متعدد جہالتوں، خیانتوں اور کذب بیانیوں کے مرتکب ہوئے ہیں:
➊ ان کا کہنا ”کچھ سری نمازوں میں وہاں ان کی اکثریت منکر ہے“ امام ترمذی کے اس قول کے خلاف ہے جو اوپر ذکر ہوا ہے کہ اکثر صحابہ (فاتحہ کی) قراءت خلف الإمام کے قائل تھے، امام ترمذی کے اس قول کی تائید آگے آرہی ہے جہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ثابت شدہ آثار فاتحہ خلف الإمام کے بارے میں پیش کیے گئے ہیں امیر المؤمنین عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ جہری نمازوں میں سورۃ فاتحہ پڑھنے کے قائل و فاعل تھے۔ (دیکھئے نمبر 2، 6) اور کسی صحابی رضی اللہ عنہ سے بھی فاتحہ خلف الإمام کی ممانعت ثابت نہیں ہے، حافظ ابن عبد البر نے اس پر علماء کا اجماع نقل کیا ہے کہ جس شخص نے امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھی اس کی نماز مکمل ہے اسے دوبارہ لوٹانے کی کوئی ضرورت نہیں (فتاوٰی السکبی: ص 1348 بحوالہ توضیح الکلام: 55/1) حافظ ابن حبان نے بھی اسی اجماع کا دعویٰ کیا ہے۔ (المجرو حین : 3/2)
❀ امام بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت سری اور جہری نمازوں میں فاتحہ خلف الإمام کی فرضیت کی قائل ہے۔ یہی قول سیدنا عمر، عثمان، علی، ابن عباس، معاذ اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہم سے منقول ہے۔
(شرح السنة: ج 3 ص 850-84)
➋ امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا:
حسن بصری، سعید بن جبیر، میمون بن مہران رحمہم اللہ اور بے شمار تابعین اور دیگر اہلِ علم حضرات قراءت خلف الإمام کے قائل تھے، خواہ نماز جہری ہی کیوں نہ ہو۔
(جزء القراءت ص 15 توضیح الکلام: 53/1)
محدث ارشاد الحق اثری صاحب فرماتے ہیں:
”تابعین کرام رحمہم اللہ میں حضرت مکحول، عروہ بن الزبیر شامی، مجاہد، قاسم بن محمد، ابو الصباح، عبید اللہ بن عبد اللہ، زہری، سعید بن المسیب، حکم بن عتیبہ رحمہم اللہ بھی فاتحہ خلف الإمام کے قائل تھے، بعض ان میں سے سری اور جہری دونوں نمازوں میں اور بعض صرف سری میں جس کی تفصیل ان شاء اللہ اپنے مقام پر آئے گی“
(توضیح الکلام، ص 53، نیز دیکھئے: 529/1 تا ص 559)
لہٰذا ثابت ہوا کہ کاندہلوی صاحب اپنے قول ”یہی صورت حال تابعین اور تبع تابعین کے دور میں بھی رہی“ میں صادق نہیں ہیں، ان کا یہی ایک مغالطہ ان کی عدالت ساقط کرنے کے لیے کافی ہے۔
امام اوزاعی، ابو ثور، لیث بن سعد اور ایوب السختیانی وغیرہ فاتحہ خلف الإمام کے قائل تھے۔ (الاعتبار للحازمي ص 99، احسن الکلام: ص 30، شرح السنة ح 853، تفسیر قرطبی: ج 1 ص 119، بحوالہ توضیح الکلام: 53/1) اور یہ اتباع التابعین میں سے تھے (رحمهم الله أجمعين)
➌ کاندہلوی صاحب نے کہا:
ائمہ فقہاء میں سے امام شافعی کے علاوہ کوئی بھی جہری نمازوں میں فاتحہ خلف الإمام کا قائل نہیں۔
(فاتحہ خلف الإمام ص 3)
جبکہ مشہور مفسر قرطبی لکھتے ہیں:
”امام شافعی جیسا کہ ان سے بویطی رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے اور احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ فاتحہ کے بغیر کسی کی نماز جائز نہیں، یہاں تک کہ اسے ہر رکعت میں پڑھے۔ امام ہو یا مقتدی، امام بلند آواز سے پڑھے یا آہستہ.“
(تفسیر قرطبی: 1/19 بحوالہ توضیح الکلام: ج 1 ص 27 نیز دیکھئے الفتاوٰی الکبرٰی شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ 143/2 مجموع فتاوی: 327/23 مغني ابن قدامہ 605/1)
سنن ترمذی میں ہے:
إمام أحمد يرى القراءة خلف الإمام (وهو) أن يدع الرجل سورة الفاتحة وإن كان خلف الإمام
”امام احمد رحمہ اللہ نے اس کے باوجود قراءت خلف الإمام کو پسند کیا ہے (اور یہ) کہ آدمی سورۃ فاتحہ نہ چھوڑے اگرچہ امام کے پیچھے ہی کیوں نہ ہو“
(مع العرف الشذي ح 313، و توضیح الکلام: 95/1)
لہٰذا ثابت ہوا کہ کاندہلوی صاحب کا دعویٰ حقیقت کے خلاف ہے۔
➍ کاندہلوی صاحب لکھتے ہیں:
”ایسی صورت میں ان لوگوں کی نمازوں کو باطل بدترین جہالت ہے“
(فاتحہ خلف الإمام: 3)
تو عرض یہ ہے کہ اہلِ حدیث علماء میں سے کوئی بھی صحابہ رضی اللہ عنہم أجمعین، تابعین رحمہم اللہ اور تبع تابعین رحمہم اللہ وغیرہم کی نمازوں کو باطل نہیں کہتا۔ یہ دوسری بات ہے کہ اہلِ حدیث کے نزدیک فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی کیونکہ ان کے امام محمد رسول اللہ صلى اللہ عليه وآله وسلم نے فرمایا:
لا صلاة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب
جبکہ متعدد غیر اہلِ حدیث اشخاص نے فاتحہ خلف الإمام پڑھنے والوں کی نمازوں کو باطل قرار دیا ہے۔
فرقہ حنفیہ کے امام سرخسی کذب و افتراء کا مظاہرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ خلف الإمام فاتحہ پڑھنے والوں کی نماز متعدد صحابہ (دعویٰ بلا دلیل) کے اقوال کے مطابق فاسد ہو جاتی ہے۔ عبد اللہ النبی نے کہا: اس کا منہ مٹی سے بھر دینا چاہیے اور یہ بھی کہا کہ اس کے دانت توڑ دینا مستحب ہے۔
(احسن الکلام ص 20 بحوالہ توضیح الکلام41/1: آرام باختلاف یسیر)
اسی طرح حصکفی حنفی لکھتا ہے:
در البحار میں مبسوط خواہر زادہ سے منقول ہے کہ اس کی نماز باطل ہے اور وہ فاسق ہے۔
(در مختار ج 1 ص 544، 555 بحوالہ توضیح الکلام: ص 41 باختلاف یسیر)
تقریباً ایسا ہی السروجی سے منقول ہے۔
(مغني شرح ہدایہ: 712/1)
ہم پوچھتے ہیں کہ کیا ان فتووں کی زد میں اکثر صحابہ (عمر اور ابو ہریرہ وغیرہما رضی اللہ عنہم أجمعین) اور تابعین ومن بعدہم نہیں آ جاتے؟ کیا آپ ان صحابہ رضی اللہ عنہم أجمعین و تابعین رحمہم اللہ کی نمازوں کو باطل و فاسد قرار دیں گے؟
عرض ہے کہ راقم الحروف نے اس مختصر مضمون میں فاتحہ خلف الإمام کے مسئلہ میں صحابہ کے صرف وہی آثار نقل کیے ہیں جو جمہور کے نزدیک صحیح یا حسن لذاتہ ہیں اور جن کا ہر راوی یا تو ثقہ بالاجماع ہے اور یا جمہور کے نزدیک ثقہ و صدوق ہے۔ جرح و تعدیل اور تصحیح و تضعیف میں جمہور ائمہ حدیث کا دامن قطعاً نہیں چھوڑا گیا اور یہ ثابت کر دیا ہے کہ فاتحہ خلف الإمام پر جمہور صحابہ رضی اللہ عنہم أجمعین کا عمل تھا بلکہ کسی صحابی نے بھی فاتحہ خلف الإمام سے منع نہیں کیا اور نہ کسی مجوزِ فاتحہ کی نماز کو باطل کہا، لہٰذا تقلید پرستوں کی وہ پارٹی جو ہر وقت سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ ثابت کرنے میں مصروف ہے، اپنے اس دعوے میں، کہ یہ مسئلہ آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم أجمعین کے خلاف ہے، قطعاً جھوٹی ہے لہٰذا عامۃ المسلمین کو اس پارٹی کی کذب بیانیوں اور مغالطہ دہیوں سے اپنے آپ کو بچانا چاہیے۔
اس مختصر مضمون میں صحابہ کرام کے وہ اقوال و افعال پیش کیے جاتے ہیں جو بلحاظ سند بالکل صحیح یا حسن لذاتہ ہیں۔
❀ علامہ محی الدین یحییٰ بن شرف النووی رحمہ اللہ (متوفیٰ 677ھ) لکھتے ہیں:
ثم الحسن كالصحيح فى الإحتجاج به وإن كان دونه فى القوة ولهذا أدرجته طائفة فى نوع الصحيح
یعنی: حجت پکڑنے میں حدیثِ حسن لذاتہ حدیثِ صحیح کی طرح ہے اگرچہ قوت میں اس سے کم ہوتی ہے اور اسی لیے ایک گروہ نے اسے صحیح کی قسم میں شمار کیا ہے۔
(التقریب فی أصول الحدیث ص 74، واللفظ لہ، تدریب الراوی: 190/1، نیز دیکھئے قواعد التحدیث فی علوم الحدیث: ص 49)
اس مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ خلفائے راشدین اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم أجمعین سے نماز میں چاہے سری ہو یا جہری امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنے کی ممانعت قطعاً ثابت نہیں ہے بلکہ امت کی یہ سب سے بہترین جماعت فاتحہ خلف الإمام کی قائل و فاعل تھی۔ لہٰذا خواہ مخواہ کی منطقی موشگافیوں، مغالطوں اور کذب بیانیوں سے حق چھپایا نہیں جا سکتا۔ سب سے پہلے خلیفہ ثانی، امیر المؤمنین سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کا فاروقی حکم ملاحظہ فرمائیں۔
خلیفہ راشد امیر المؤمنین عمر الفاروق رضی اللہ عنہ
❀ امام ابو عبد اللہ الحاکم النیسابوری (متوفیٰ 405ھ) نے کہا:
أما حديث عمر فحدثنا أبو العباس محمد بن يعقوب: ثنا أحمد بن عبد الجبار: ثنا حفص بن غياث وأخبرنا أبو بكر بن إسحاق: أنبأ إبراهيم بن أبى طالب: ثنا أبو كريب: ثنا حفص عن أبى إسحاق الشيباني عن جواب التيمي (و) إبراهيم بن محمد بن المنتشر عن الحارث بن سويد عن يزيد بن شريك أنه سأل عمر عن القراءة خلف الإمام فقال: اقرأ بفاتحة الكتاب، قلت: وإن كنت أنت؟ قال: فإن كنت أنا، قلت: وإن جهرت؟ قال: وإن جهرت
یزید بن شریک (تابعی) سے روایت ہے کہ انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے قراءت خلف الإمام کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا: فاتحہ پڑھ، تو میں (یزید) نے کہا: اور اگر آپ ہوں تو؟ فرمایا: اور اگر میں ہوں (تو بھی پڑھ) میں (یزید) نے پوچھا: اگر آپ قراءت بالجہر کر رہے ہوں؟ تو فرمایا: اور اگر میں جہر سے پڑھوں (تو بھی پڑھ)
(المستدرک علی الصحیحسین: 230/1، ح 873، وعنہ للبیہقی فی السنن الکبری: 167/2، وفی كتاب القراءت خلف الإمام: ص 91 حدیث 188-189)
یہ روایت درج ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے:
جزء القراءت للبخاری(ص 15 ح 49 و فی تسخیص 33)، التاريخ الكبير للبخاري (340/8) مصنف عبد الرزاق (131/2، 2776)، (مصنف ابن أبي شيبة: 373/1 ح 3748)، سنن دار قطنی: (317/1 ح 1197-1198)، السنن الكبرى للبيهقي وكتاب القراءت له معاني الآثار للطحاوي (218/1، 219)
❀ امام ابو الحسن الدارقطنی (متوفیٰ 385ھ) نے کہا:
هذا إسناده صحيح
اور کہا: ”رواته كلهم ثقات“ اس کے سارے راوی ثقہ ہیں۔
امام حاکم نے صحیح قرار دیا (المستدرک) اور امام شمس الدین الذہبی (متوفیٰ 748ھ) نے کہا: صحيح (تلخيص المستدرک)
علماء کی اس واضح تصحیح کے بعد اس سند کے راویوں کا مختصر تعارف پیشِ خدمت ہے:
1 : یزید بن شریک التیمی الکوفی
ابن معین نے کہا: ثقة (الجرح والتعديل: 271/9)
کتب ستہ کا راوی ہے، ذہبی نے کہا:ثقة (الكاشف: 245/3)
2 : الحارث بن سوید التیمی
امام یحییٰ بن معین نے کہا: ثقة (الجرح والتعديل: 75/3)
کتب ستہ کا راوی ہے، ذہبی نے کہا: ثقة رفيع الذكر (الكاشف: 1387)
3 : إبراهیم بن محمد بن المنتشر الهمدانی الکوفی
امام احمد بن حنبل نے کہا: ثقة صدوق، ابو حاتم نے کہا: ثقة صالح (الجرح والتعديل: 124/2)
کتب ستہ کا راوی ہے اور حافظ ذہبی نے کہا: ثقة قانت لله، نبيل (الكاشف: 461)
اس کی متابعت جواب التیمی نے کی ہے۔ جواب التیمی امام ابو حنیفہ وغیرہ کا استاد اور جمہور محدثین کے نزدیک ثقہ و صدوق ہے۔
حافظ ابن حجر نے کہا: صدوق، رمي بالإرجاء (تقريب التهذيب: 984)
جواب اس روایت میں تنہا نہیں ہے بلکہ إبراهیم بن محمد اس کا متابع ہے، لہٰذا اس روایت میں جواب التیمی پر ہر قسم کا اعتراض مردود ہے۔
4 : أبو إسحاق سلیمان بن أبي سلیمان الشیبانی
ابن معین نے کہا: ثقة، ابو حاتم نے کہا: صدوق ثقة صالح الحديث (الجرح والتعديل: ج 3 ص 135)
کتب ستہ کا راوی ہے اور حافظ ابن حجر نے کہا: ثقة (التقريب: 2568)
5 : حفص بن غیاث النخعی
ابن معین نے کہا: ثقة (الجرح والتعديل: ج 3 ص 185)
کتب ستہ کا راوی اور جمہور کے نزدیک ثقہ اور مدلس ہے، ہشیم وغیرہ نے اس کی متابعت کر رکھی ہے۔
انور خورشید دیوبندی صاحب اپنی کتاب کے ”سخنِ گفتگی“ میں شرط لگاتے ہوئے لکھتے ہیں:
”جو صاحب جواب لکھیں وہ تدلیس، ارسال، جہالت، ستارۃ جیسی جرائم نہ کریں کیونکہ اس قسم کی جرائم متابعت اور شواہد سے ختم ہو جاتی ہیں۔“
(حدیث اور اہلِ حدیث: ص 4)
یعنی دیوبندیوں کے نزدیک اگر مدلس کی (معتبر) متابعت مل جائے تو تدلیس کا الزام اس روایت میں ختم ہو جاتا ہے، لہٰذا ہشیم کی مصرّح بالسماع متابعت کے بعد حفص بن غیاث کی اس روایت پر تدلیس کا الزام لگانا غلط ہے۔ یاد رہے کہ انور خورشید دیوبندی صاحب کی پیش کردہ اکثر روایات میں نہ متابعت ہے اور نہ معتبر شواہد ہیں۔ مثلاً:
انور خورشید دیوبندی نے ترکِ رفعِ یدین کی دلیل کے طور پر آٹھ دفعہ سفيان الثوري عن عاصم بن كليب عن عبد الرحمٰن بن الأسود عن علقمه: قال قال عبد الله بن مسعود الخ والی روایت پیش کی ہے۔
(حدیث اور اہلِ حدیث: ص 394 ح 7 تا ص 397/2 ح 14)
سفیان ثوری مدلس ہیں اور ان کی متابعت دنیا کی کسی کتاب میں نہیں ہے۔
تنبیہ (1):
کتاب العلل للدارقطنی (172/5 مسئلہ: 804) میں بغیر کسی سند کے ابو بکر النہشلی اور ابن ادریس کی مجمل (بغیر ذکرِ متن کے) متابعت مذکور ہے، لیکن یہ دونوں حوالے بے سند و بے متن ہونے کی وجہ سے مردود ہیں۔
تنبیہ (2):
جامع المسانید الخوارزمی (355/1) کی موضوع روایت ابو حنيفه عن حماد عن ابراهيم عن الأسود إلخ کی سند علیحدہ سند ہے، اس علیحدہ سند کا بنیادی راوی ابو محمد عبد اللہ بن محمد بن یعقوب الحارثی البخاری کذاب ہے۔ دیکھئے میزان الاعتدال (496/2) و لسان المیزان (348/3، 349) حفص سے یہ روایت ابو کریب محمد بن العلاء وغیرہ نے بیان کی ہے، حفص سے ابو کریب کی روایت صحیح مسلم میں ہے۔
(تہذیب الکمال للحافظ المزی: ج 2 ص 59)
لہٰذا یہ ثابت ہوا کہ یہ روایت حفص کے تغیر و اختلاط سے پہلے کی ہے، اسی وجہ سے معتدل امام دارقطنی وغیرہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے، ہشیم اور سفیان ثوری نے ان کی متابعت کر رکھی ہے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ 373/1 ح 3748، جزء القراءۃ للبخاری: ح 51)
6 : ابو کریب محمد بن العلاء الہمدانی
امام ابو حاتم نے کہا: صدوق (الجرح والتعدیل: ج 8 ص 52) کتبِ ستہ کا راوی ہے۔
حافظ ابن حجر نے کہا: ثقه، حافظ (تقریب التہذیب: 6204)
7 : ابراہیم بن ابی طالب النیسابوری
امام ابن ناصر الدین نے کہا: هو ثقه (شذرات الذہب: ج 2 ص 218)
❀ حافظ ذہبی نے کہا:
”الإمام الحافظ المجود، الزاهد شيخ نيسابور وإمام المحدثين فى زمانه“
(سیر أعلام النبلاء: 13/547)
اور کہا: أحد أركان الحديث (أمر فی خبر من غیر: ج ص 428)
الحاکم والذہبی کا اس حدیث کو صحیح کہنا اس کی توثیق ہے۔
8 : ابو بکر احمد بن إسحاق الفقیہ
امام ابو عبد اللہ الحاکم نے کہا:
كان عالما بالحديث والرجال والجرح والتعديل وفي الفقه كان المشار إليه فى وقته ثقه مأمون
(الإرشاد تعلیلی: 840/3)
ہو سکتا ہے یہ قول امام خللیلی کا ہو، واللہ أعلم، حافظ ذہبی نے کہا:
الإمام العلامه المفتي المحدث شيخ الإسلام (النبلاء: 483/15)
9 : امام ابو عبد اللہ الحاکم
امام ابو عبد اللہ الحاکم صاحب المستدرک کا ثقہ وصدوق ہونا کسی صاحبِ علم پر مخفی نہیں ہے، اہلِ سنت کے مشہور امام حافظ ذہبی نے کہا:
الإمام الحافظ الناقد العلامه شيخ المحدثين
(النبلاء: 163/17)
اور کہا:
الإمام صدوق لكنه يصحح فى مستدركه أحاديث ساقطة ويكثر من ذلك فما أدري هل خفيت عليه فما هو ممن يجهل ذلك وإن علم فهذه خيانة عظيمة ثم هو شيعي مشهور بذلك من غير تعرض للشيخين
امام صدوق ہے لیکن اپنی کتاب مستدرک میں کثرت سے (درجہِ صحت سے) گری ہوئی احادیث کو صحیح کہتا ہے، مجھے یہ علم نہیں کہ یہ روایات اس پر مخفی رہیں، ورنہ وہ ایسا تو نہیں کہ اسے یہ روایات معلوم نہ ہوں، اور اگر اسے علم تھا تو یہ عظیم خیانت ہے، پھر وہ مشہور شیعہ ہے لیکن شیخین (ابو بکر وعمر رضی اللہ عنہما) کو برا نہیں کہتا۔
(میزان الاعتدال: 608/3)
مستدرک والی احادیث میں امام حاکم کا عذر یہ ہے کہ انھوں نے اختلاط کے بعد ان احادیث پر صحت کا حکم لگایا ہے، لہٰذا یہاں علم یا عدمِ علم والی بات نہیں ہے بلکہ مسئلہ صرف اختلاط کا ہے، پس امام حاکم معذور ہیں، ان پر شیعہ ہونے کا الزام بھی حلِ نظر ہے، امام حاکم نے اپنی کتاب المستدرک میں ابو بکر صدیق، عمر فاروق، ذو النورین عثمان (61/3 – 107) ابو سفیان (254/3) مغیرہ بن شعبہ (447/3) عمرو بن العاص (452/3) اور ابو ہریرہ (507/3) رضی اللہ عنہم کے مناقب بیان کیے ہیں، کیا دنیا میں کوئی ایک شیعہ بھی ان صحابہ کرام کے مناقب کا قائل ہے؟ حافظ ذہبی نے امام حاکم کے ساتھ: ”صح“ (ایضاً) کا اشارہ لکھا ہے، یعنی عمل اس کی توثیق پر ہے اور اس پر ہر قسم کی جرح مردود ہے۔
(دیکھئے لسان المیزان: 159/2 ترجمہ الحارث بن محمد بن ابی أسامہ، اور 167/7 بعد ترجمۃ الولید القرطبی فی الألقاب رقم: 2151)
مستدرک کی دوسری سند میں احمد بن عبد الجبار ضعیف ہے لیکن یہ ہمیں بالکل مضر نہیں کیونکہ ابو کریب (ثقه) عبد اللہ بن نوفل (وثقه الدارقطني) اور عبد اللہ بن سعید الأصبح وغیرہم نے اس کی متابعت کر رکھی ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ خلیفہ راشد کا یہ فتویٰ صحیح ثابت ہے اور اس کے خلاف ان سے کچھ بھی ثابت نہیں ہے، خلیفہ رابع امیر المؤمنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی ظہر وعصر کی نمازوں میں فاتحہ خلف الإمام کا حکم مروی ہے جسے امام دارقطنی، امام حاکم، امام بیہقی اور حافظ ذہبی رحمہم اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔
(دیکھئے سنن دارقطنی: 3221،ح: 1219، المستدرک: 339/1، 873، سنن کبریٰ للبیہقی: 168/2 ح 199-195، جزء القراءۃ للبخاری جس 9492)
اگرچہ اس کے تمام راوی صحیحین کے راوی ہیں مگر یہ سند امام زہری رحمہ اللہ کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف ہے کیونکہ ان پر تدلیس کا الزام ثابت ہے لہٰذا اس اثر کے ذکر کرنے سے اجتناب کر رہا ہوں کیونکہ یہ میری شرط پر نہیں ہے۔ واللہ أعلم
1 :سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ
مشهور جليل القدر، فوق الثقه، المفتي المجتهد الفقهيه
اور حافظ صحابی ہیں، ان سے محبت ایمان کی علامت ہے۔
صحیح مسلم میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
من صلى صلوة لم يقرأ فيها بأم القرآن فهي خداج ثلاثا غير تمام فقيل لأبي هريرة: إنا نكون وراء الإمام؟ فقال: اقرأ بها فى نفسك إلخ
جس نے کوئی ایک نماز پڑھی جس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی تو وہ ناقص ہے پوری نہیں ہے، یہ بات آپ نے تین دفعہ دہرائی تو سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ ہم امام کے پیچھے ہوتے ہیں تو انھوں نے کہا: اپنے دل میں (خفیہ، سراً) پڑھ۔ الخ
(169/1 ح 395)
چونکہ صحیح مسلم کی صحت پر محدثین کا اجماع ہے لہٰذا راویوں کی توثیق نقل کرنا ضروری نہیں ہے۔
❀ مسند الحمیدی (ح 980) میں ہے:
ثنا سفيان وعبد العزيز الدراوردي وابن أبى حازم عن العلاء عن أبيه عن أبى هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: كل صلوة لا يقرأ فيها بفاتحة الكتاب فهي خداج فهي خداج قال عبد الرحمن: فقلت لأبي هريرة فإني أسمع قراءة الإمام فغمزني بيده فقال: يا فارسي أو قال: يا ابن الفارسي اقرأ بها فى نفسك
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر نماز جس میں سورۃ فاتحہ نہ پڑھی جائے پس وہ ناقص ہے، پس وہ ناقص ہے۔ عبد الرحمن کہتے ہیں میں نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا: میں امام کی قراءت سن رہا ہوتا ہوں؟ تو انھوں نے مجھے اپنے ہاتھ سے جھٹکا اور فرمایا: اے فارسی (یا فارسی زادے) اپنے جی میں پڑھ ۔
(اس کے سارے راوی صحیح مسلم کے ہیں اور اسے ابو عوانہ الإسفراینی نے استخرج علی صحیح مسلم 1386 میں ابو إسماعیل الترمذی قال: ثنا الحمیدی کی سند سے روایت کیا ہے)
❀ امام بخاری (متوفی 256ھ) نے جزء القراءۃ میں کہا:
وحدثنيہ محمد بن عبيد الله قال: حدثنا ابن أبى حازم عن العلاء عن أبيه عن أبى هريره قال: إذا قرأ الإمام بأم القرآن فاقرأ بها واسبقه فإنه إذا قال ولا الضالين قالت الملائكة آمين، من وافق ذلك قمن أن يستجاب لهم
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جب امام سورۃ فاتحہ پڑھے تو تم بھی پڑھو اور اسے امام سے پہلے ختم کر لو، پس بے شک وہ جب ”ولا الضالین“ کہتا ہے تو فرشتے آمین کہتے ہیں جس کی آمین اس کے موافق ہو گئی تو وہ اس کے لائق ہے کہ اسے قبول کر لیا جائے۔ (ص 56، ج 237 ص 16 ح 283)
اس سند کے تمام راوی صحیح مسلم کے راوی ہیں، سوائے ابو ثابت محمد بن عبید اللہ المدنی کے، وہ صحیح بخاری کے راوی اور ثقہ حافظ ہیں، دیکھئے تہذیب التہذیب وغیرہ، لہٰذا یہ سند صحیح ہے۔ مشہور حنفی محقق محمد بن علی النیموی (متوفی 1322ھ) اس اثر کے بارے میں لکھتے ہیں: ”وإسناده حسن“(آثار السنن ص 107 ح 358)
محدث ارشاد الحق اثری صاحب لکھتے ہیں:
یہ اثر اس بات کی صریح دلیل ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ جہری میں بھی مقتدی کو فاتحہ پڑھنے کا حکم دیتے تھے جس سے فی نفسہٖ کی وہ تمام تأویلیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں جنھیں سرفراز صاحب نے پیش کیا ہے ۔
(توضیح الکلام: 49/1)
2 : سیدنا ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ
آپ کی بیان کردہ احادیث کی تعداد ایک ہزار ایک سو ستر (1170) ہے، حافظ ذہبی نے آپ کے بارے میں کہا:
”الإمام المجاهد، مفتي المدينة وكان أحد الفقهاء المجتهدين“
(سیر أعلام النبلاء: 168/3، 199)
❀ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا:
حدثنا مسدد قال: حدثنا يحيى عن العوام بن حمزة المازني قال: حدثنا أبو نضرة قال: سألت أبا سعيد الخدري عن القراءة خلف الإمام؟ فقال: بفاتحة الكتاب
ابو نضرہ رحمہ اللہ کہتے ہیں میں نے ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے امام کے پیچھے قراءت کا پوچھا؟ تو انھوں نے فرمایا: سورۃ فاتحہ (جزء القراءۃ ص 30، 31، ح 57، روسا ح 105)
یہ روایت الکامل لابن عدی: ج 2 ص 1437، کتاب القراءات للبیہقی، ص 100 ح 224 ص 110 میں بھی موجود ہے۔
اس سند کے تمام راوی صحیح مسلم کے راوی ہیں سوائے العوام بن حمزہ المازنی کے،العوام مختلف فیہ راوی ہیں مگر جمہور نے ان کی توثیق کی ہے۔
حافظ ابن حجر نے کہا: ”صدوق ربما وهم“ (التقریب 5210) حافظ ابن حجر لسان المیزان میں ایک راوی پر امام ابن عدی کی گواہی نقل کرتے ہیں:
لم أر له متنا منكرا، ربما يهم وهو حسن الحديث
(69/3 ح 3865، نیز دیکھئے میزان الاعتدال: 1902 ح 3404 ترجمہ سلمہ بن صالح الأحمر)
لہٰذا معلوم ہوا کہ یہ شخص حسن الحدیث ہے، اس سے یحییٰ بن سعید القطان نے یہ روایت بیان کی ہے ایک راوی سالم بن ہلال کے بارے میں حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:
روى عنه يحيى بن سعيد القطان قلت وتكفيه روايته فى توثيقه
(لسان المیزان: 3 تحت رقم الترجمہ: 3627)
محمد بن علی النیموی اس اثر کے بارے میں لکھتے ہیں: اسناده حسن
(آثار السنن ص 108 تحت ح: 358 قاله فی التعلیق الحسن)
3 : سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ
مشہور جلیل القدر صحابی ہیں، حافظ ذہبی نے کہا:
الإمام أبو عبد الله الأنصاري الفقيه مفتي المدينة فى عصره
(تذكرة الحفاظ: 23/1)
آپ کی عدالت پر پوری امت کا اجماع ہے۔
❀ امام ابن ماجہ قزوینی (متوفی 273ھ) نے کہا:
”حدثنا محمد بن يحيى: ثنا سعيد بن عامر: ثنا شعبة عن مسعر عن يزيد الفقير عن جابر بن عبد الله قال: كنا نقرأ فى الظهر والعصر خلف الإمام فى الركعتين الأوليين بفاتحة الكتاب وسورة وفي الأخريين بفاتحة الكتاب“
(سنن ابن ماجہ: 61/1 ح 843)
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم ظہر وعصر کی نمازوں میں امام کے پیچھے پہلے دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ اور ایک (ایک) سورۃ اور آخری دو رکعتوں میں (صرف) سورۃ فاتحہ پڑھتے تھے۔
علامہ سندھی حنفی علامہ البوصیری سے نقل کرتے ہیں: ”هذا إسناد صحيح رجاله ثقات“ (حاشیہ ابن ماجہ ص 278 جلد بحوالہ توضیح الکلام: 501/1)
یہ روایت سنن الکبریٰ (170/2) اور کتاب القراءۃ للبیہقی (ص 100: 228) میں بھی موجود ہے، اس کے کچھ شواہد بھی ہیں۔ اس سند کے تمام راوی صحیح بخاری و صحیح مسلم کے ہیں سوائے محمد بن یحییٰ (الذہلی) کے وہ صحیح بخاری اور سنن أربعہ کے راوی اور ثقہ حافظ جلیل ہیں۔
( دیکھئے تقریب التہذیب 1387)
لہٰذا یہ سند امام بخاری کی شرط پر صحیح ہے۔ سعید بن عامر جمہور کے نزدیک ثقہ ہیں، امام یحییٰ بن معین (متوفی 233ھ) نے کہا: ”ثقة“
(تاريخ ابن معين برواية عثمان بن سعيد الدارمي: 395 ص 127)
جابر رضی اللہ عنہ سے فاتحہ خلف الإمام کی ممانعت کہیں ثابت نہیں ہے۔
4: سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ
مشہور فقیہ صحابی ہیں۔ ترجمان القرآن اور حبر الأمۃ کے لقب سے ملقب ہیں۔
حافظ ذہبی نے کہا: ”الإمام عالم العصر“ (تذکرۃ الحفاظ 401)
❀ امام ابو بکر بن ابی شیبہ (متوفی 235ھ) نے کہا:
حدثنا وكيع عن إسماعيل بن أبى خالد عن العيزار بن حريث العبدي عن ابن عباس قال: اقرأ خلف الإمام بفاتحة الكتاب
(المصنف: 375/1 ح 3773)
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھ۔
یہ روایت درجِ ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے:
شرح معانی الآثار للطحاوی (206/1)، السنن الکبریٰ (169/2)، کتاب القراءۃ للبیہقی (ص 96 ح 209 ص 198 ح 436)
❀ امام بیہقی (متوفی 458ھ) نے فرمایا:
”وهذا إسناد صحيح لا غبار عليه“
یعنی یہ سند صحیح ہے اس پر کوئی غبار نہیں ہے۔
(کتاب القراءۃ ص 198 ح 436)
اس سند کے سارے راوی صحیح مسلم کے راوی ہیں۔ اسماعیل بن ابی خالد نے سماع کی تصریح کر رکھی ہے لہٰذا یہ سند امام مسلم کی شرط پر صحیح ہے، عیزار بن حریث الکندی الکوفی، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے شاگرد ہیں (دیکھئے الجرح والتعدیل: 367) اور ابن معین نے کہا ثقہ (حوالہ مذکورہ) اس روایت کے شواہد بھی ہیں اور میچ میں کفایت ہے۔
5: سیدنا عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ
مشہور صحابی ہیں، آپ تمام مواقع و غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے۔ ابن مخلد کی مسند میں آپ کی ایک سو اکاسی (181) احادیث ہیں۔ حافظ ذہبی نے کہا:
الإمام القدوة أبو الوليد الأنصاري أحد النقباء ليلة العقبة ومن أعيان البدريين (سیر أعلام النبلاء: 5/3)
جنادہ فرماتے ہیں:
میں عبادہ کے پاس گیا اور آپ اللہ کے دین میں سوجھ بوجھ (تفقہ) رکھتے تھے ۔ (رواه السراج فی تاریخه وقال الحافظ بهذا إسناد صحیح، الإصابۃ: 269/2) یعنی آپ علی الإطلاق زبردست فقیہ تھے۔
امام ابو بکر بن ابی شیبہ نے کہا:
حدثنا وكيع عن ابن عون عن رجاء بن حيوة عن محمود بن ربيع قال: صليت صلوة وإلى جنبي عبادة بن الصامت قال: فقرأ بفاتحة الكتاب قال: فقلت له: يا أبا الوليد ألم أسمعك تقرأ بفاتحة الكتاب؟ قال: أجل أنه لا صلوة إلا بها
سیدنا محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے (امام کے پیچھے) ایک نماز پڑھی اور میرے ساتھ عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ تھے، انھوں نے سورۃ فاتحہ پڑھی، میں نے ان سے کہا، اے ابو الولید! کیا میں نے آپ کو سورۃ فاتحہ پڑھتے ہوئے نہیں سنا؟ تو انھوں نے فرمایا:جی ہاں اور اس کے بغیر کوئی نماز نہیں ہوتی۔
(المصنف: 375/1 ح 3770)
یہ سند بالکل صحیح ہے اور اس کے تمام راوی صحیح مسلم کے راوی ہیں۔ یہ روایت درجِ ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے:
السنن الکبریٰ (168/2)، کتاب القراءۃ (ص 94، 95 ح 201)، السنن الکبریٰ وغیرہ میں ”يقرأ خلف الإمام“ کی بھی صراحت ہے، یعنی امام کے پیچھے پڑھ رہے تھے، اس کے اور بھی کئی شواہد ہیں، سرفراز خان صفدر دیوبندی صاحب لکھتے ہیں:
”بہر حال یہ بالکل صحیح بات ہے کہ حضرت عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ امام کے پیچھے پڑھنے کے قائل تھے اور ان کی یہی تحقیق اور یہی مسلک و مذہب تھا مگر فہم صحابی اور موقوف صحابی حجت نہیں۔ خصوصاً قرآن کریم صحیح احادیث اور جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی أمی کے آثار کے مقابلے میں“
(أحسن الکلام: 2/42 ط دوم)
میں کہتا ہوں کہ سیدنا عبادہ البدری رضی اللہ عنہ کا یہ عمل اور مذہب نہ تو قرآن کریم کی کسی صریح آیت کے خلاف ہے اور نہ کسی صحیح حدیث کے بلکہ عموم قرآن اور احادیثِ صحیحہ کی موید ہیں۔ عبادہ رضی اللہ عنہ حدیث: لا صلوة لمن لم يقرأ بفاتحة الكتاب کے راوی ہیں اور سرفراز صفدر صاحب کو یہ تسلیم ہے کہ راوی اپنی روایت کو سب سے زیادہ جانتا ہے، دوسرے یہ کہ ان کی یہ تحقیق و مذہب کسی ایک صحابی کے خلاف نہیں ہے کجا یہ کہ جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم؟ بلکہ جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تو فاتحہ خلف الإمام کے قائل و فاعل تھے اور ان کا کوئی مخالف معلوم نہیں ہے، لہٰذا فاتحہ خلف الإمام کے جواز پر گویا اجماع سکوتی ہے۔ سیدنا عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ سری اور جہری نمازوں میں بھی سورۃ فاتحہ خلف الإمام پڑھتے تھے۔
(سنن ابی داود: 1/126 ح 823 وقال: الدارقطنی: هذا إسناد حسن سنن دارقطنی: 320/1 ح 1207)
6: سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ
آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خادم اور مشہور جلیل القدر فقیہ صحابی ہیں۔ حافظ ذہبی نے فرمایا:
الإمام المفتي المقري المحدث، راوية الإسلام أبو حمزة الأنصاري الخزرجي النجاري المدني خادم رسول الله صلى الله عليه وسلم وقرابته من النساء وتلميذه وتبعه وآخر أصحابه موتا
( النبلاء: 396/3)
آپ سے دو ہزار دو سو چھیاسی (2286) احادیث مروی ہیں۔
❀ امام بیہقی نے کہا:
أخبرنا أبو عبد الله الحافظ: حدثني محمد بن يعقوب: أنا محمد بن إسحاق: نا أحمد بن سعيد الدارمي، ثنا النضر يعني ابن شميل ثنا العوام وهو ابن حمزة عن ثابت عن أنس قال: كان يأمرنا بالقراءة خلف الإمام قال: وكنت أقوم إلى جنب أنس فيقرأ بفاتحة الكتاب وسورة من المفصل ويسمعنا قراءته لنأخذ عنه
(کتاب القراءۃ: ص 101 ح 231، السنن الکبریٰ 70/2 مختصراً)
ثابت البنانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ انس رضی اللہ عنہ ہمیں امام کے پیچھے قراءت کا حکم دیتے تھے اور میں انس رضی اللہ عنہ کے ساتھ کھڑا ہوتا، آپ سورۃ فاتحہ اور مفصل میں سے کوئی سورۃ پڑھتے تھے، اور اپنی قراءت ہمیں سناتے تھے تا کہ ہم ان سے (یہ طریقہ) لے لیں (سبحان اللہ کیا جذبہِ تبلیغِ سنت ہے) اس اثر کی سند حسن ہے، راویوں کا علی الترتیب مختصر تعارف پیشِ خدمت ہے:
1 : ابو عبد اللہ الحاکم النیسابوری رحمہ اللہ
آپ ثقہ و صدوق ہیں۔( دیکھئے یہی مضمون نمبر 1 جز نمبر ص 89)
2 :محمد بن یعقوب (الأصم)
آپ بالا جماع ثقہ ہیں، حافظ ذہبی نے کہا: ”الإمام (المفيد) الثقة محدث المشرق“(تذكرة الحفاظ: 860/3 ت 835)
3 :محمد بن إسحاق الصغاني
آپ صحیح مسلم کے راوی ہیں، حافظ ابن حجر نے فرمایا: ثقه ثبت (تقریب 5721)
4 :أحمد بن سعید الدارمی
آپ صحیح بخاری و صحیح مسلم کے راوی ہیں، حافظ العسقلانی نے کہا: ثقه حافظ (تقریب 39)
5 :النضر بن شميل
آپ کتبِ ستہ کے راوی ہیں، حافظ ذہبی نے کہا: ”ثقة إمام صاحب سنة“ (الکاشف 179/3)
6 :العوام بن حمزہ
آپ حسن الحدیث ہیں،( دیکھئے یہی مضمون نمبر 3)
7 :ثابت البنانی
آپ کتبِ ستہ کے راوی ہیں، حافظ ابو الفضل بن حجر العسقلانی نے فرمایا: ثقه عابد (تقریب: 810)
8: سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما
مشہور جلیل القدر صحابی ہیں، حافظ ذہبی نے کہا:
العالم الرباني وقد كان من أيام النبى صلى الله عليه وسلم صواما قواما تاليا لكتاب الله طالبا للعلم
آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو احادیث سنی تھیں ان کا ایک مجموعہ (الصحيفة الصادقة) تیار کیا تھا، یہ صحیفہ ان سے ان کے پوتے عمرو بن شعیب بیان کرتے ہیں، آپ سے تقریباً سات سو احادیث مروی ہیں۔
(تذكرة الحفاظ: 41، 42/1)
❀ ابو جعفر الطحاوی (متوفی 321ھ) نے کہا:
حدثنا أبو بكرة قال: ثنا أبو داود قال: ثنا شعبة عن حصين قال سمعت مجاهدا يقول: صليت مع عبد الله بن عمرو الظهر والعصر فكان يقرأ خلف الإمام
مجاہد تابعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کے ساتھ ظہر و عصر کی نماز پڑھی پس آپ امام کے پیچھے قراءت فرماتے تھے۔
(شرح معانی الآثار: 219/1)
یہ سند بالکل صحیح ہے۔
یہ حدیث درجِ ذیل کتابوں میں بعض معمولی اختلاف کے ساتھ موجود ہے:
مصنف عبد الرزاق (131/2 ح 2774، 2775)، مصنف ابن ابی شیبہ (373/1 ح 3750، 3749)، جزء القراءۃ للبخاری (ص 78 تحت ح: 23 وفی نسخته: 27) السنن الکبریٰ (199/1)، کتاب القراءۃ (ص 97 ح 215)
امام بیہقی رحمہ اللہ نے کہا: ”هذا إسناد صحيح“
محمد بن علی النیموی الحنفی نے کہا: ”سناده حسن“ اور کہا: ”إسناده صحيح“
(آثار السنن ص: 108 تحت: 358، قاله فی التعلیق الحسن)
اب اس سند کا مختصر تعارف پیشِ خدمت ہے:
➊ أبو بكرة بكار بن قتيبة البكراوي:
امام حاکم نے کہا: ثقه مأمون (المستدرک: 160/1 ح 579)
حافظ ذہبی نے کہا: لم ينفرد به أبو بكرة مع ثقته(تلخيص المستدرک)
اور کہا:
العلامة المحدث الفقيه الحنفي حدث عنه أبو عوانة فى صحيحه وابن خزيمة
(سیر أعلام النبلاء: 599/13)
حافظ ابن حبان نے اسے کتاب الثقات میں ذکر کیا (152/8) نیز دیکھئے کشف الاستار عن رجال معانی الآثار (ص 16)
➋ ابو داود الطیالسی:
صحیح مسلم کے راویوں میں سے ہیں۔ حافظ ذہبی نے کہا:
”الحافظ الكبير صاحب المسند“ (سیر أعلام النبلاء: 378/9)
جمہور نے ان کی توثیق کی ہے، اور حافظ ابن حجر نے کہا: ”ثقة حافظ غلط فى أحاديث“ (تقریب: 2550)
غلط فى أحاديث والی مجمل جرح مردود ہے۔ النضر بن شمیل نے آپ کی متابعت کی ہے، النضر ثقہ امام ہیں۔ (دیکھئے یہی مضمون، اثرے، راوی نمبر 5)
➌ شعبہ:
آپ مشہور امام ہیں اور کتبِ ستہ کے مرکزی راوی ہیں، حافظ ابن حجر نے فرمایا: ”ثقة حافظ متقن“ (تقریب: 3790)
حصین سے ان کا سماع قبل از اختلاط ہے۔ (اتقان والإيضاح للعراقی ص 457)
➍ حصین بن عبد الرحمن:
کتبِ ستہ کے راوی ہیں، حافظ ابن حجر نے کہا: ”ثقة تغير حفظه فى الآخر“ (تقریب: 1369)
اور یہ چنداں مضر نہیں ہے کیونکہ یہ روایت آپ نے حالتِ صحت میں بیان کی ہے۔
➎ مجاہد:
مشہور امام مفسر اور کتبِ ستہ کے راوی ہیں، حافظ ابو الفضل ابن حجر نے کہا:
ثقة إمام في التفسير وفي العلم
(تقریب 1381)
8 :سیدنا أبی بن کعب رضی اللہ عنہ
مشہور بدری صحابی ہیں رضی اللہ عنہ، حافظ ذہبی نے کہا:
سيد القراء الأنصاري المدني المقري البدري شهد العقبة وبدرا وجمع القرآن فى حياة النبى صلى الله عليه وسلم وعرض على النبى صلى الله عليه وسلم وحفظ عنه علما مباركا وكان رأسا فى العلم رضي الله عنه
(سیر أعلام النبلاء: 390/1)
بقی بن مخلد کی کتاب (المسند) میں ان سے ایک سو چونسٹھ (164) احادیث مروی ہیں، فقہائے صحابہ میں ان کا شمار ہوتا ہے۔
امام بخاری نے کہا:
حدثنا مالك بن إسماعيل قال: حدثنا زياد البكائي عن أبى فروة عن أبى المغيرة عن أبى بن كعب رضى الله عنه أنه كان يقرأ خلف الإمام
ابو المغیرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ أبی بن کعب رضی اللہ عنہ امام کے پیچھے قراءت کرتے تھے۔
(جزء القراءۃ ص 15، 52، وفی نسخہ 340، کتاب القراءۃ للبیہقی ص 94 تحت ح 194)
(یہ سند حسن ہے) اس سند کے راویوں کا مختصر تعارف درجِ ذیل ہے:
➊ مالک بن إسماعیل:
کتبِ ستہ کے راوی اور ثقه متقن، صحيح الكتاب عابد تھے۔ (تقریب التہذیب: 6424)
➋ زیاد بن عبد اللہ البکائی:
صحیحین کا راوی اور جمہور کے نزدیک ثقہ و صدوق ہے، مورخ ابن خلکان نے کہا:
”وكان صدوقا ثقة“ (وفیات الأعیان: 338/2)
حافظ ذہبی نے میزان الاعتدال (91/2 ح 2949) میں ”صح“ لکھ کر اس طرف اشارہ کیا کہ وہ صحیح الحدیث ہے اور اس پر جرح مردود ہے، دیکھئے لسان المیزان (159/2 ح 2234) ترجمہ الحارث بن محمد بن ابی أسامہ اور (1977)
➌ أبو فروہ (مسلم بن سالم النہدی):
صحیحین کے راوی ہیں، ابن معین نے کہا: ثقہ، ابو حاتم نے کہا: ”صالح الحديث ليس به بأس“ (الجرح والتعدیل: 185/8)
ابن حبان نے انھیں کتاب الثقات میں ذکر کیا ہے۔ (395/5)
❀ أبو المغیرہ (عبد اللہ بن أبی الہذیل الکوفی):
صحیح مسلم کے راوی اور ثقہ ہیں۔ (تقریب 3679)
مختصر یہ کہ جزء القراءۃ کی یہ سند حسن لذاتہٖ ہے، اس کے دو شواہد بھی ہیں۔
(دیکھئے توضیح الکلام 479، 481/1)
لہٰذا یہ اثر بلحاظِ سند قابلِ احتجاج ہے۔ واللہ أعلم
9: سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ
مشہور فقیہ اور بدری صحابی ہیں رضی اللہ عنہ، حافظ ذہبی نے کہا:
الإمام الرباني صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم وخادمه وأحد السابقين الأولين ومن كبار البدريين ومن نبلاء الفقهاء والمقريين كان ممن يتحرى فى الأداء ويشدد فى الرواية ويزجر تلامذته عن التهاون فى ضبط الألفاظ
(تذكرة الحفاظ: 14/1 ج 13)
طحاوی نے کہا:
حدثنا أبو بكرة وابن مرزوق قالا: ثنا أبو داود قال: ثنا شعبة عن أشعث بن أبى الشعثاء قال: سمعت أبا مريم الأسدي يقول: سمعت ابن مسعود رضى الله عنه يقرأ فى الظهر
ابو مریم فرماتے ہیں کہ میں نے ظہر میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو (امام کے پیچھے) قراءت کرتے ہوئے سنا۔ (معانی الآثار: 210/1)
ابو مریم عبد اللہ بن زیاد الأسدی صحیح بخاری کے راوی اور ثقہ ہیں۔ (تقریب: 3327)
اشعث بن ابی الشعثاء المحاربی کتبِ ستہ کے راوی اور ثقہ ہیں۔ (تقریب: 526)
شعبہ، ابو داود اور ابو بکرہ تینوں ثقہ ہیں۔
(دیکھئے یہی مضمون: 8 سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما: ص 1009)
شریک بن عبد اللہ القاضی نے یہی حدیث اشعث بن سلیم ابی الشعثاء سے روایت کی ہے۔
(کتاب الثقات لابن حبان: ج 5 ص 58، کتاب الکنیٰ والألقاب: 11/2، السنن الکبریٰ للبیہقی: 179/2، واللفظ لہ، کتاب القراءۃ للبیہقی ص 95 ح 207)
شریک کی روایت کے الفاظ یہ ہیں:
صليت إلى جنب عبد الله بن مسعود رضى الله عنه خلف الإمام فسمعته يقرأ فى الظهر والعصر
میں نے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پہلو میں امام کے پیچھے نماز پڑھی، پس میں نے آپ کو ظہر و عصر میں قراءت کرتے ہوئے سنا۔
شریک مختلف فیہ راوی ہیں، جمہور نے ان کی توثیق کی ہے، وہ صحیح مسلم وغیرہ کے راوی ہیں، حافظ ذہبی نے کہا: ”وحديثه من أقسام الحسن“
یعنی ان کی حدیث حسن کی اقسام میں سے ہے۔ (تذكرة الحفاظ: 232)
حافظ ہیثمی نے کہا: ”وهو حسن الحديث“
(مجمع الزوائد: 123/9، نیز دیکھئے أحسن الکلام: ج 1 ص 357 و توضیح الکلام: 484، 485/1)
اس حدیث کے دیگر شواہد بھی ہیں۔
ان آثار کے علاوہ کتبِ احادیث میں دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم کے آثار بھی مروی ہیں، تاہم جو ذکر کیے گئے ہیں ان میں ہی کفایت ہے اور یہ آثار اس معاند کی تردید کے لیے کافی ہیں جو فاتحہ خلف الإمام پڑھنے والوں کی نمازوں کو باطل یا فاسد کہتا ہے۔