مسئلہ علم غیب پر 46 قرآنی دلائل، 20 صحیح احادیث مع جوابات بریلوی شبہات
یہ اقتباس شیخ ابو حذیفہ محمد جاوید سلفی کی کتاب آئینہ توحید و سنت بجواب شرک کیا ہے مع بدعت کی حقیقت سے ماخوذ ہے۔

علم الغیب قرآن و حدیث کی روشنی

اہل حدیث کا یہ عقیدہ ہے کہ تمام اشیاء کا علم فقط ذات الہی کے لیے خاص ہے ۔ عالم الغیب صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے انبیائے کرام علیہم السلام کو بھی کسی شے کا علم مافوق الاسباب اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک کہ ان پر وحی نازل نہ ہو جائے۔
بریلوی حضرات کا یہ عقیدہ ہے کہ انبیاء اور اولیاء کو ہر اس واقعہ کا علم ہے جو ہو چکا ہے یا ہونے والا ہے، ان کی نظر سے کوئی چیز مخفی نہیں سارا علم ان کی نظر کی سامنے ہے۔ وہ دلوں کے حالات کو بھی جانتے ہیں ہر راز سے باخبر اور تمام مخلوقات سے واقف ہیں انہیں تمام چیزوں کا علم اور آنے والے دن کے حالات کی اطلاع ہوتی ہے۔
ماں کے پیٹ میں جو کچھ ہے اس سے آشنا ہوتے ہیں ہر حاضر و غائب پر ان کی نظر ہوتی ہے اور مرنے کے بعد بھی لوگوں کے حالات سے آگاہ ہوتے ہیں۔
غرض کہ دنیا میں جو کچھ ہو چکا ہے اور جو کچھ ہو رہا ہے اور جو کچھ ہونے والا ہے اولیاء سے کوئی چیز بھی پوشیدہ نہیں ہے۔
پہلے میں عقیدہ اہل حدیث کے دلائل قرآن مجید سے پیش کروں گا پھر اس مضمون کے آخر میں حفیظ الرحمن قادری کے شبہات کے جوابات دیئے جائیں گے۔ انشاء الله
اصل میں ان مسائل کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے کی نفرت کا طوفان برپا ہوتا ہے اس مسئلے کو پہلے قرآن کی آیات کی روشنی میں پڑھیں کہ حق پر کون ہے اس کے بعد حدیث کی روشنی میں مطالعہ فرمائیں ذہن سے تعصب کی غلاظت کو دور کر دیں اللہ سے ڈرتےہوئے انصاف کریں۔

دلیل نمبر : 1

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے زمین و آسمان میں اللہ کے سوا کوئی علم غیب نہیں جانتا:
قُلْ لا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ ۚ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ(سورۃ النمل: 65)
تم کہہ دو کہ جولوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں اللہ کے سوا غیب کی باتیں نہیں جانتے اور نہ یہ جانتے ہیں کہ کب ( زندہ کر کے) اٹھائے جائیں گے۔
اللہ کے لشکروں کو اس کے سوا پوری طرح کوئی نہیں جانتا۔

دلیل نمبر : 2

وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ ۚ وَمَا هِيَ إِلَّا ذِكْرَىٰ لِلْبَشَرِ(سورۃ المدثر: 31)
تمہارے پروردگار کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور یہ تو بنی آدم کے لیے نصیحت ہے۔

دلیل نمبر : 3

قیامت کا علم اللہ کے سوا کسی کے پاس نہیں چنانچہ ارشاد فرمایا:
يَسْأَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَاهَا ۖ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّي(سورۃ الاعراف: 187)
(لوگ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ اس کے واقع ہونے کا وقت کب ہے کہہ اس کا علم تو میرے پروردگار ہی کو ہے۔

دلیل نمبر : 4

دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
يَسْأَلُونَكَ كَأَنَّكَ حَفِيٌّ عَنْهَا ۖ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللَّهِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ(سورۃ الاعراف: 187)
یہ تم سے اسی طرح دریافت کرتے ہیں کہ گویا تم اس سے بخوبی واقف ہو کہو کہ اس کا علم تو اللہ ہی کو ہے لیکن اکثر لوگ یہ نہیں جانتے۔

دلیل نمبر : 5

يَسْأَلُكَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَةِ ۖ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللَّهِ (سورۃ الاحزاب: 63)
لوگ تم سے قیامت کی نسبت دریافت کرتے ہیں کہہ دو کہ اس کا علم اللہ ہی کو ہے۔
ان آیات سے ثابت ہوا کہ اللہ کے سوا کوئی بھی غیب کا علم نہیں جانتا اور نہ ہی قیامت کے بارے میں کہ قیامت کب آئے گی اس کے واقع ہونے کا وقت کیا ہے۔

دلیل نمبر : 6

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً(سورۃ البقرۃ: 30)
جب تمہارے پروردگار نے فرشتوں سے فرمایا میں زمین میں خلیفہ بنانے والاہوں ۔
فرشتوں نے عرض کی:
قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ(سورۃ البقرۃ: 30)
فرشتوں نے کہا کیا تو اس میں ایسے شخص کو خلیفہ بنانا چاہتا ہے جو خرابیاں کرے گا اور خون بہائے گا اور ہم تیری تعریف کے ساتھ تسبیح و تقدیس کرتے رہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں جو باتیں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔

سوال :

اگر فرشتوں کو علم نہیں تھا تو انہوں نے یہ کیوں کہا کہ انسان کو نہ بنائیں یہ زمین میں خون ریزی کرے گا فساد پھیلائے گا ابھی یہ کام ہوا نہیں تھا بعد میں ہونے والا تھا۔

پہلا جواب :

یہ ہے عالم الغیب نہیں تھے بلکہ انہوں نے جنات پر قیاس کیا کہ جنات شرارتی اور فسادی ہیں ۔

دوسرا جواب :

یہ ہے کہ اگر فرشتے غیب جانتے تھے تو پھر اللہ تعالیٰ نے یہ کیوں فرمایا کہ : اني اعلم ما تعلمون جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔
اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو نام سکھائے پھر آدم اور فرشتوں سے سوال کیا کہ ان چیزوں کے نام بتائیں اگر تم اپنی بات میں سچے ہو فرشتوں نے جواب دیا۔

دلیل نمبر : 7

قَالُوا سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا ۖ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ(سورۃ البقرۃ: 32)
انہوں نے کہا تو پاک ہے جتنا علم تو نے ہمیں بخشا ہے اس کے سوا ہمیں کچھ معلوم نہیں بیشک تو دانا حکمت والا ہے۔

دلیل نمبر : 8

قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا كُنْتُمْ تَكْتُمُونَ(سورۃ البقرۃ: 33)
فرمایا کیا میں نے تم سے کہا نہیں تھا کہ میں ہی آسمانوں اور زمین کی غیب کی باتیں جانتا ہوں اور جوتم ظاہر کرتے ہو اور جو چھپاتے ہو سب مجھ کو معلوم ہے۔
ان آیات سے ثابت ہوا کہ فرشتے بھی غیب کی بات کا علم نہیں رکھتے : بعض لوگوں میں یہ بھی مشہور ہے کہ فلاں شخص پر جن آتے ہیں اور وہ سارے حالات بتاتے ہیں بہت سے مرد اور عورتیں اس شخص کے پاس جا کر غیب کی باتیں پوچھتے ہیں فلاں کی چوری ہوگئی وہ کس نے کی وغیرہ وغیرہ۔

دلیل نمبر : 9

قرآن مجید میں موجود ہے کہ جنوں کو بھی غیب کا علم نہیں تھا۔
فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَىٰ مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ تَأْكُلُ مِنْسَأَتَهُ ۖ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ أَنْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوا فِي الْعَذَابِ الْمُهِينِ(سورۃ سبا: 14)
پھر جب ہم نے ان کے لیے موت کا حکم صادر کیا تو کسی چیز سے ان کا مرنا معلوم نہ ہوا مگر گھن کے کیڑے سے جو ان (سیدنا سلیمان علیہ السلام ) کے عصا کو کھاتا رہا جب عصا گر پڑا تب جنوں کو معلوم ہوا کہ اگر وہ غیب جانتے ہوتے تو ذلت کی تکلیف میں نہ رہتے۔

دلیل نمبر : 10

حضرت آدم علیہ السلام کو بھی غیب کا علم نہیں تھا۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّيْطَانُ لِيُبْدِيَ لَهُمَا مَا وُورِيَ عَنْهُمَا مِنْ سَوْآتِهِمَا وَقَالَ مَا نَهَاكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هَٰذِهِ الشَّجَرَةِ إِلَّا أَنْ تَكُونَا مَلَكَيْنِ أَوْ تَكُونَا مِنَ الْخَالِدِينَ وَقَاسَمَهُمَا إِنِّي لَكُمَا لَمِنَ النَّاصِحِينَ(سورۃ الاعراف: 20-21)
تو شیطان نے ان دونوں کو وسوسہ دیا تاکہ ان کے ستر کی چیزیں جو ان سے پوشیدہ تھیں کھول دے اور کہنے لگا کہ تم کو تمہارے پروردگار نے اس درخت سے صرف اس لیے منع کیا ہے کہ تم فرشتے نہ بن جاؤ یا ہمیشہ جیتے نہ رہو اور ان سے قسم کھا کر کہا کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔
غرض مردود نے دھوکہ دیکر ان کو کھینچ ہی لیا جب انہوں نے اس درخت کے پھل کو کھا ہی لیا تو ان کے ستر کی چیزیں کھل گئیں اور وہ جنت کے درختوں کے پتے اپنے اوپر چپکانے لگے تب ان کے پروردگار نے ان کو فرمایا کہ میں نے تم کو اس درخت سے منع نہیں کیا تھا اور فرمایا نہیں تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے دونوں عرض کرنے لگے کہ اے پروردگار ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اگر تو ہمیں نہیں بخشے گا اور ہم پر رحم نہیں کرے گا تو ہم خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے ۔ (سورۃ اعراف آیت 22-23)
اگر آدم علیہ السلام غیب کا علم جانتے ہوتے تو شیطان مردود کی قسموں کا اعتبار نہ کرتے اگر آدم علیہ السلام غیب دان ہوتے تو فرشتے بننے اور ہمیشہ رہنے کے چکر میں نہ آتے۔
اگر عالم الغیب ہوتے تو شیطان مردود کو پہچان جاتے اور کہتے تو وہی ہے جس نے مجھ پر اعتراض کیا تھا اور پھل کھانے کے بعد والے انجام سے باخبر ہوتے کہ اگر ہم نے پھل کھا لیا تو اس کی پاداش میں ہمیں جنت سے نکال دیا جائے گا اور ہم سے جنتی لباس چھن جائے گا۔ اور ہمارا پروردگار ہم سے ناراض ہو جائے گا اور ہمیں عرصہ دراز تک رونا پڑے گا۔ حقیقت ہی ہے کہ آپ کو بعد والے انجام کا علم نہیں تھا اس لیے اس مردود کے چکر میں آئے۔
سیدنا یعقوب علیہ السلام بھی غیب کا علم نہیں جانتے تھے۔
إِذْ قَالُوا لَيُوسُفُ وَأَخُوهُ أَحَبُّ إِلَىٰ أَبِينَا مِنَّا وَنَحْنُ عُصْبَةٌ إِنَّ أَبَانَا لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ ‎﴿٨﴾‏ اقْتُلُوا يُوسُفَ أَوِ اطْرَحُوهُ أَرْضًا يَخْلُ لَكُمْ وَجْهُ أَبِيكُمْ وَتَكُونُوا مِن بَعْدِهِ قَوْمًا صَالِحِينَ ‎﴿٩﴾‏ قَالَ قَائِلٌ مِّنْهُمْ لَا تَقْتُلُوا يُوسُفَ وَأَلْقُوهُ فِي غَيَابَتِ الْجُبِّ يَلْتَقِطْهُ بَعْضُ السَّيَّارَةِ إِن كُنتُمْ فَاعِلِينَ(سورۃ یوسف: 8-10)
جب انہوں نے آپس میں تذکرہ کیا کہ یوسف علیہ السلام اور اس کا بھائی ابا جان کو ہم سے زیادہ پیارے ہیں حالانکہ ہم ایک جماعت ہیں کچھ شک نہیں کہ ابا جان صریح غلطی پر ہیں یوسف کو مار ڈالو یا کسی جگہ پھینک آؤ پھر ابا جان کی توجہ صرف تمہاری طرف ہو جائے گی اور اس کے بعد تم نیک ہو جانا ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا کہ یوسف علیہ السلام کو قتل نہ کرو کسی گہرے کنوئیں میں ڈال دو کہ کوئی راہ گیر نکال لے جائے گا اگر تم کو کرنا ہے تو یوں کرو۔
الغرض حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے یہ خفیہ میٹنگ کی اور سارے بھائیوں میں یہ طے ہوا کہ یوسف علیہ السلام کو کسی کنوئیں میں پھینک دیا جائے تاکہ ابو کی نگاہوں سے دور ہو جائے چنانچہ یہ مشورہ کرنے کے بعد اپنے باپ سیدنا یعقوب علیہ السلام کے پاس جا کر کہا:

دلیل نمبر : 11

قَالُوا يَا أَبَانَا مَا لَكَ لَا تَأْمَنَّا عَلَىٰ يُوسُفَ وَإِنَّا لَهُ لَنَاصِحُونَ ‎﴿١١﴾‏ أَرْسِلْهُ مَعَنَا غَدًا يَرْتَعْ وَيَلْعَبْ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ‎﴿١٢﴾‏ قَالَ إِنِّي لَيَحْزُنُنِي أَن تَذْهَبُوا بِهِ وَأَخَافُ أَن يَأْكُلَهُ الذِّئْبُ وَأَنتُمْ عَنْهُ غَافِلُونَ ‎﴿١٣﴾‏ قَالُوا لَئِنْ أَكَلَهُ الذِّئْبُ وَنَحْنُ عُصْبَةٌ إِنَّا إِذًا لَّخَاسِرُونَ ‎﴿١۴﴾‏ فَلَمَّا ذَهَبُوا بِهِ وَأَجْمَعُوا أَن يَجْعَلُوهُ فِي غَيَابَتِ الْجُبِّ ۚ وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِ لَتُنَبِّئَنَّهُم بِأَمْرِهِمْ هَٰذَا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ ‎﴿١٥﴾‏ وَجَاءُوا أَبَاهُمْ عِشَاءً يَبْكُونَ ‎﴿١٦﴾‏ قَالُوا يَا أَبَانَا إِنَّا ذَهَبْنَا نَسْتَبِقُ وَتَرَكْنَا يُوسُفَ عِندَ مَتَاعِنَا فَأَكَلَهُ الذِّئْبُ ۖ وَمَا أَنتَ بِمُؤْمِنٍ لَّنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ(سورۃ یوسف: 11-17)
کہنے لگے ابا جان کیا سبب ہے کہ آپ یوسف علیہ السلام کے بارے میں ہمارا اعتبار نہیں کرتے حالانکہ ہم اس کے خیر خواہ ہیں کل اسے ہمارے ساتھ بھیج دیجئے کہ خوب میوے کھائے اور کھیلے ہم اس کے نگہبان ہیں فرمایا یہ بات مجھے غمناک کئے دیتی ہے کہ تم اسے لے جاؤ اور مجھے یہ بھی خوف ہے کہ تم اس سے غافل ہو جاؤ اور اسے بھیڑیا کھا جائے وہ کہنے لگے کہ اگر ہماری موجودگی میں کہ ہم ایک طاقتور جماعت ہیں اسے بھیڑیا کھا گیا تو ہم بڑے نقصان میں پڑ گئے غرض جب وہ اس کو لے گئے اور اس بات پر اتفاق کر لیا کہ اس کو گہرے کنوئیں میں ڈال دیں تو ہم نے یوسف کی طرف وحی بھیجی کہ تم ان کو اس سکون سے آگاہ کرو گے اور ان کو کچھ خبر نہ ہوگی۔ باپ کے پاس رات کے وقت روتے ہوئے آئے اور کہنے لگے کہ ابا جان ہم تو دوڑنے اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے میں مصروف ہو گئے اور یوسف کو اپنے سامان کے پاس چھوڑ گئے تو اسے بھیڑیا کھا گیا اور آپ ہماری بات کا یقین نہیں کریں گے گو ہم سچ ہی کہتے ہوں۔
اگر یعقوب علیہ السلام کو علم ہوتا کہ یہ میرے بیٹے کو قتل کرنا چاہتے ہیں یا کسی کنوئیں میں پھینکنا چاہتے ہیں تو وہ بھی یوسف علیہ السلام کو ان کے سپرد نہ کرتے اور بھیڑیے کے کھا جانے کا نہ کہتے صاف فرمادیتے کہ تم نے فلاں جگہ پر میرے بیٹے کے خلاف یہ یہ مشورے کیے ہیں۔
میرے فلاں بیٹے نے قتل کے بارے میں کہا اور فلاں نے کنوئیں میں گرانے کےبارے میں کہا:
جب لے گئے اور کنوئیں میں ڈال دیا کسی جانور کا خون قمیض کے ساتھ لگا کر لے آئے تو فرما دیتے پہلے مجھے ساری بات کا علم تھا جان بوجھ کر نہیں بتایا اب تم عمل کر چکے ہو۔ میرا بیٹا یوسف فلاں کنوئیں میں ہے چلو اس کو نکال کر لے آتے ہیں جناب یوسف علیہ السلام کو قافلے والے کیوں لے جاتے اور بازار میں کیوں فروخت کرتے عزیز مصر کی بیوی کیوں قید میں ڈلواتی چالیس سال یا اسی سال اللہ کے نبی یعقوب علیہ السلام رو رو کر اپنی بینائی کیوں ختم کرتے کنعان کا کنواں چند میلوں کے فاصلے پر تھا کیا وجہ ہے؟
جناب یعقوب علیہ السلام اتنا عرصہ ویسے ہی خوشی سے ہی روتے رہے یہ قابل غور باتیں ہیں۔ قرآن مجید کی آیات میں یہ واقعہ پڑھنے کے بعد بھی کوئی شخص کہے کہ آپ عالم الغیب ہیں تو ایسے شخص کے لیے ہدایت کی دعا ہی کرنی چاہیے ۔ ساری بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ آپ عالم الغیب نہیں تھے۔ اس سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ حضرت یوسف علیہ السلام جو کہ ہونے والے نبی تھے وہ بھی غیب نہیں جانتے تھے اگر جانتے ہوتے تو خود بھی نہ جاتے اور کہتے کہ آپ مجھے کنوئیں میں گرانا چاہتے ہیں میں تمہارے ساتھ کبھی نہیں جاؤں گا۔

دلیل نمبر : 12

حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی غیب کا علم نہ جانتے تھے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے:
وَلَمَّا جَاءَ مُوسَىٰ لِمِيقَاتِنَا وَكَلَّمَهُ رَبُّهُ قَالَ رَبِّ أَرِنِي أَنظُرْ إِلَيْكَ ۚ قَالَ لَن تَرَانِي وَلَٰكِنِ انظُرْ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَانِي ۚ فَلَمَّا تَجَلَّىٰ رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَخَرَّ مُوسَىٰ صَعِقًا ۚ فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ(سورۃ الاعراف: 143)
اور جب موسیٰ علیہ السلام ہمارے مقرر کئے ہوئے وقت پر کوہ طور پر پہنچے اور ان کے پروردگار نے ان سے کلام کیا تو کہنے لگے اے پروردگار مجھے دکھا کہ میں تجھے دیکھوں فرمایا تو مجھے ہرگز نہیں دیکھ سکے گا ہاں پہاڑ کی طرف دیکھ سو اگر وہ اپنی جگہ برقرار رہا تو عنقریب تو مجھے دیکھ لے گا تو اس کا رب جب پہاڑ کے سامنے ظاہر ہوا تو اسے ریزہ ریزہ کر دیا اور موسیٰ بے ہوش ہو کر گر پڑے پھر جب ہوش آیا تو اُس نے کہا تو پاک ہے میں نے تیری طرف تو بہ کی اور میں ایمان لانے والوں میں سے پہلا ہوں۔
اگر موسیٰ علیہ السلام عالم الغیب ہوتے تو پہلے سے جان لیتے کہ میں اللہ تعالیٰ کو نہیں دیکھ سکوں گا تو دیکھنے کا سوال ہی نہ کرتے جس کی پاداش میں انہیں توبہ کرنے کی ضرورت پڑی۔

دلیل نمبر : 13

حضرت نوح علیہ السلام بھی عالم الغیب نہ تھے۔
چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہے۔
وَلَا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ إِنِّي مَلَكٌ وَلَا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ لَن يُؤْتِيَهُمُ اللَّهُ خَيْرًا ۖ اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا فِي أَنفُسِهِمْ ۖ إِنِّي إِذًا لَّمِنَ الظَّالِمِينَ(سورۃ ہود: 31)
اور میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ ہی میں غیب جانتا ہوں اور نہ میں یہ کہتا ہوں کہ میں ایک فرشتہ ہوں اور نہ میں ان لوگوں کے بارے میں جنہیں تمہاری آنکھیں حقیر سمجھتی ہیں یہ کہتا ہوں کہ اللہ انہیں ہرگز کوئی بھلائی نہیں دے گا اللہ اسے زیادہ جاننے والا ہے جو ان کے دلوں میں ہے ایسا کروں تو ضرور میں ظالموں میں سے ہوں۔
اس آیت مبارکہ میں روز روشن کی طرح واضح ہے اور نوح علیہ السلام کا اپنا اقرار ہے کہ میں غیب نہیں جانتا لیکن پھر بھی اگر کوئی شخص اپنے خود ساختہ مذہب کو قائم رکھنے کے لیے ضد کرے کہ نہیں جی وہ غیب جانتے تھے تو ایسے شخص کے لیے ہدایت کی دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ اللہ ہم سب کو حق پر قائم ودائم رکھے۔ آمین

دلیل نمبر : 14

قرآن مجید کے دوسرے مقام پر بھی وضاحت موجود ہے:
وَنَادَىٰ نُوحٌ رَّبَّهُ فَقَالَ رَبِّ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي وَإِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَأَنتَ أَحْكَمُ الْحَاكِمِينَ ‎﴿٤٥﴾‏ قَالَ يَا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ ۖ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ ۖ فَلَا تَسْأَلْنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۖ إِنِّي أَعِظُكَ أَن تَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ ‎﴿٤٦﴾‏ قَالَ رَبِّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ أَسْأَلَكَ مَا لَيْسَ لِي بِهِ عِلْمٌ ۖ وَإِلَّا تَغْفِرْ لِي وَتَرْحَمْنِي أَكُن مِّنَ الْخَاسِرِينَ(سورۃ ہود: 45-47)
نوح علیہ السلام نے اپنے رب کو پکارا پس کہا اے میرے رب بیشک میرا بیٹا میرے گھر والوں سے ہے بیشک تیرا وعدہ سچا ہے اور تو سب فیصلہ کرنے والوں سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے فرمایا اے نوح علیہ السلام بیشک وہ تیرے گھر والوں سے نہیں اس کے عمل اچھے نہیں پس نہ سوال کر جس کا تجھے علم نہیں بے شک میں تجھے اس سے نصیحت کرتا ہوں کہ تو جاہلوں میں سے ہو جائے ۔اس نے کہا اے میرے رب بیشک میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں کہ تجھ سے اس بات کا سوال کروں جس کا مجھے کچھ علم نہیں اور تو نے اگر مجھے نہ بخشا اور مجھ پر رحم نہ کیا تو میں خسارہ پانے والوں میں ہو جاؤں گا۔
ان آیات مبارکہ سے ثابت ہوا کہ آپ علیہ السلام عالم الغیب نہ تھے اگر نوح علیہ السلام غیب جانتے ہوتے تو اپنے کافر بیٹے کنعان کے لیے دعا نہ فرماتے اور نہ ہی اپنے رب سے ڈانت ڈپٹ سنتے اگر ان کو اس بات کا علم ہوتا کہ اللہ میری اس دعا کو بیٹے کے حق میں قبول نہیں کرے گا بلکہ دعا کرنے سے ناراض ہوگا۔

دلیل نمبر : 15

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں قرآن مجید میں تیسرے مقام پر اسی سورہ میں وضاحت ہے۔
تِلْكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ ۖ مَا كُنتَ تَعْلَمُهَا أَنتَ وَلَا قَوْمُكَ مِن قَبْلِ هَٰذَا (سورۃ ہود: 49)
یہ غیب کی خبروں سے ہے جنہیں ہم تیری طرف وحی کرتے ہیں اس سے پہلے نہ آپ جانتے تھے نہ آپ کی قوم۔
معلوم ہوا کہ غیب خبر کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا جب تک اللہ خبر غیب کو وحی کے ذریعے ظاہر نہ کرے۔

دلیل نمبر : 16

سیدنا ابراہیم علیہ السلام بھی غیب کا علم نہ جانتے تھے۔
وَلَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُنَا إِبْرَاهِيمَ بِالْبُشْرَىٰ قَالُوا سَلَامًا ۖ قَالَ سَلَامٌ ۖ فَمَا لَبِثَ أَن جَاءَ بِعِجْلٍ حَنِيذٍ ‎﴿٦٩﴾‏ فَلَمَّا رَأَىٰ أَيْدِيَهُمْ لَا تَصِلُ إِلَيْهِ نَكِرَهُمْ وَأَوْجَسَ مِنْهُمْ خِيفَةً ۚ قَالُوا لَا تَخَفْ إِنَّا أُرْسِلْنَا إِلَىٰ قَوْمِ لُوطٍ ‎﴿٧٠﴾‏ وَامْرَأَتُهُ قَائِمَةٌ فَضَحِكَتْ فَبَشَّرْنَاهَا بِإِسْحَاقَ وَمِن وَرَاءِ إِسْحَاقَ يَعْقُوبَ ‎﴿٧١﴾‏ قَالَتْ يَا وَيْلَتَىٰ أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ وَهَٰذَا بَعْلِي شَيْخًا ۖ إِنَّ هَٰذَا لَشَيْءٌ عَجِيبٌ (سورۃ ہود: 69-72)
بلاشبہ یقینا ہمارے بھیجے ہوئے ابراہیم کے پاس خوشخبری لے کر آئے انہوں نے سلام کہا اس نے کہا سلام ہو پھر دیر نہیں کی کہ ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آیا تو جب ان کے ہاتھوں کو دیکھا کہ اس کی طرف نہیں پہنچتے تو انہیں اوپر جانا اور ان سے ایک قسم کا خوف محسوس کیا انہوں نے کہا نہ ڈر بے شک ہم لوط کی قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں اور اس کی بیوی کھڑی تھی سو ہنس پڑی تو ہم اسے اسحاق علیہ السلام کی اور اسکے بعد یعقوب علیہ السلام کی خوش خبری دی اس نے کہا ہائے میری بربادی کیا میں جنوں گی جب کہ میں بوڑھی ہوں اور یہ میرا خاوند بھی بوڑھا ہے۔ یقیناً یہ عجیب چیز ہے۔ خود ابراہیم علیہ السلام اگر عالم الغیب ہوتے تو فرشتوں کو انسان سمجھ کر بچھڑے کا گوشت پیش نہ کرتے جو ان کے نہ کھانے سے ڈر گئے وہ نہ ڈرتے فرشتے تسلی نہ دیتے کہ ہم فرشتے ہیں قوم لوط علیہ السلام کی تباہی کا نہ بتاتے۔
اس سے ایک مسئلہ اور بھی ثابت ہوتا ہے کہ اگر فرشتے لبادہ بشریت میں آئیں پھر بھی کھانا نہیں کھاتے۔ اگر بی بی سارہ عالم الغیب ہوتی تو جب فرشتوں نے بیٹے اسحاق علیہ السلام اور اسکے بعد یعقوب علیہ السلام کی خوشخبری دی تو تعجب کا اظہار نہ کرتی کہ میرے ہاں بیٹا کیسے ہوگا۔ جس اللہ نے قربانی کا حکم دیا تو آپ علیہ السلام نے اپنے بیٹے کی قربانی کا ارادہ کر لیا ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے کو اللہ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے تیار ہو گئے بیٹا بھی تیار ہو گیا تو یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ابراہیم علیہ السلام کو علم تھا امتحان نہیں رہتا امتحان تب ہوتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کو یہی پتہ تھا کہ میرا بیٹا ذبح ہو جائے گا اور اسماعیل علیہ السلام کو یہی پتہ تھا کہ میں ذبح ہو جاؤں گا۔ قربانی تو پھر ہی بنتی ہے جبکہ دونوں باپ بیٹے کو غیب کا علم نہ ہو اور یہی بات تھی۔
بنتی نہیں ہے بات بناوٹ سے بال بھر
کھل جاتی ہے آخر کو رنگت خضاب کی

دلیل نمبر : 17

حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی غیب کا علم نہ جانتے تھے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
وَإِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَٰهَيْنِ مِن دُونِ اللَّهِ ۖ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ ۚ إِن كُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ ۚ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ ۚ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ(سورۃ المائدۃ: 116)
جب اللہ تعالٰی فرمائے گا کہ اے عیسی ابن مریم کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کے سوا مجھے اور میری ماں کو معبود مقرر کرو؟ وہ کہیں گے کہ تو پاک ہے مجھے کب شایاں تھا کہ میں ایسی بات کہتا جس کا مجھے کوئی حق نہیں اگر میں نے ایسا کہا ہوگا تو تجھ کو معلوم ہے کیونکہ جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے اسے میں نہیں جانتا بے شک تو ہی ہے سب غیبوں کا جانےوالا ہے۔
اگر سیدنا عیسی علیہ السلام عالم الغیب ہوتے تو یہ نہ فرماتے :
ولا اعلم مافي نفسك
تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء غیب کا علم نہیں جانتے تھے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:

دلیل نمبر : 18

يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ فَيَقُولُ مَاذَا أُجِبْتُمْ ۖ قَالُوا لَا عِلْمَ لَنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ(سورۃ المائدۃ: 109)
جس دن اللہ جمع فرمائے گا رسولوں کو پھر فرمائے گا تمہیں کیا جواب ملا عرض کریں گے ہمیں کچھ علم نہیں بیشک تو ہی ہے سب غیبوں کا جانے والا۔(ترجمہ احمد رضا خان صاحب بریلوی)
اس آیت مبارکہ سے ثابت ہوا کہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کو غیب کا علم نہیں تھا اگر کوئی اپنے خلاف قرآن مذہب خود ساختہ کو بچانے کے لیے الٹی سیدھی تاویلیں کرے تو یہ فکر باطل کی عادت ہے کہ جتنا بھی قرآن کریم و حدیث مبارکہ سنائیں وہ یقین نہیں کریں گے ۔
لباس خضر میں یہاں سینکڑوں راہزن بھی پھرتے ہیں
اگر دنیا میں رہنا ہے تو کچھ پہچان پیدا کر

دلیل نمبر : 19

حقیقت یہ ہے کہ علم غیب صرف اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے۔
وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ(سورۃ الانعام: 59)
اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جن کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔

دلیل نمبر : 20

دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا :
وَلِلَّهِ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ(سورۃ ہود: 123)
اور آسمان اور زمین کی چھپی چیزوں کا علم اللہ ہی کو ہے اور تمام امور کا رجوع اس کی طرف ہے۔

دلیل نمبر : 21

عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ۚ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْخَبِيرُ(سورۃ الانعام: 73)
وہی پوشیدہ اور ظاہر کو جاننے والا ہے اور وہی دانا اور خبر دار ہے۔

دلیل نمبر : 22

وَلِلَّهِ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا أَمْرُ السَّاعَةِ إِلَّا كَلَمْحِ الْبَصَرِ أَوْ هُوَ أَقْرَبُ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ(سورۃ النحل: 77)
اور آسمانوں اور زمین کا علم غیب اللہ ہی کو ہے اور قیامت کا آنا یوں ہے جیسے آنکھ کا جھپکنا بلکہ اس سے بھی جلد تر کچھ شک نہیں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

دلیل نمبر : 23

لَهُ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ أَبْصَرَ بِهِ وَأَسْمَعَ ۚ مَا لَهُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا يُشْرِكُ فِي حُكْمِهِ أَحَدًا(سورۃ الکہف: 26)
اُسی کے لیے ہے غیب آسمانوں اور زمین کا کیا خوب دیکھنے والا ہے ساتھ اس کے اور خوب سننے والا ہے اس کے سوا ان کا کوئی کارساز نہیں اور نہ وہ اپنے حکم میں کسی کو شریک کرتا ہے۔

دلیل نمبر : 24

حضرت عزیر علیہ السلام بھی غیب کا علم نہ جانتے تھے۔
أَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَىٰ قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَىٰ عُرُوشِهَا قَالَ أَنَّىٰ يُحْيِي هَٰذِهِ اللَّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا ۖ فَأَمَاتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ ۖ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ ۖ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ۖ قَالَ بَلْ لَبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ(سورۃ البقرۃ: 259)
یا اس شخص کی مانند جس کا گزر اس بستی پر ہوا جو چھت کے بل اوندھی پڑی ہوئی تھی کہنے لگا موت کے بعد اس کو کیسے زندہ کرے گا تو اللہ نے اسے ماردیا سو سال کے لیے پھر اسے اٹھایا پوچھا کتنی مدت تم پر گزری ہے تو کہنے لگا ایک دن یا دن کا کچھ حصہ فرمایا اللہ تعالٰی نے تو سو سال مردہ رہا۔
اگر حضرت عزیر علیہ السلام عالم الغیب ہوتے تو بتا دیتے کہ میں سو سال یہاں ٹھہرا ہوں سو سال کا ایک دن کہنا یا دن کا کچھ حصہ کہنا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ آپ غیب کا علم نہیں جانتے تھے ورنہ تو جھوٹ ہوگا جس کا صدور پیغمبر علیہ السلام سے ممکن نہیں کیونکہ ہر نبی علیہ السلام سچا ہوتا ہے اس سے یہی معلوم ہوا کہ آپ علیہ السلام کو علم نہیں تھا اس لیے سو سال کو ایک دن کہا یا دن کا کچھ حصہ اس سے ایک مسئلہ یہ بھی ثابت ہوا کہ وفات کے بعد کوئی نبی علیہ السلام بھی اپنے حالات سے باخبر نہیں ہوتا اور دوسروں کے حالات کی ان کو کیسے خبر ہوگی اور دوسرے فوت شدہ بزرگ اپنے مریدوں کے حالات سے کیسے واقف ہوتے ہیں کہ ان کی قبر پر کون دیگ لے کر آیا کون بکرا لے کر آیا اور لوگوں کے گھروں کے حالات سے وہ بزرگ کیسے واقف ہو سکتے ہیں جبکہ اللہ کے نبی حضرت عزیر علیہ السلام اپنے ذاتی حالات سے بھی بے خبر تھے۔
وہ شاید قفس ہی میں ہی عمر گنوائیں
گئی بھول صحرا کی جن کو فضائیں

دلیل نمبر : 25

وَلِلَّهِ غَيْبُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ (سورۃ ہود: 123)
اور اللہ ہی کے پاس آسمانوں اور زمین کا علم غیب ہے اور سب کے سب کام اس کی طرف لوٹائے جاتے ہیں۔

دلیل نمبر : 26

رسول اعظم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی غیب کا علم نہ جانتے تھے۔
قُلْ لَا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۚ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ ۗ أَفَلَا تَتَفَكَّرُونَ(سورۃ الانعام: 50)
کہہ دو کہ میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ ہی میں غیب جانتا ہوں اور نہ تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں میں تو صرف اس حکم پر چلتا ہوں جو مجھے وحی کی جاتی ہے۔
اس آیت مبارکہ میں تین چیزوں کی نفی بیان کی گئی۔
➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اللہ کے خزانوں کا اختیار نہیں کہ جس کو چاہیں عطا کریں۔
➋ میں غیب کا علم نہیں جانتا کیونکہ غیب جاننا خاصہ خداوندی ہے۔
➌ میں نوری فرشتہ نہیں ہوں بلکہ انسان ہوں۔
اللہ تعالیٰ کا کتنا واضح اور شفاف فرمان موجود ہے جس میں کسی قسم کے شک وشبہ کی گنجائش نہیں اس کے باوجود بھی لوگ خود ساختہ من گھڑت عقائد کو بچانے کی خاطر حق کے مخالف ہیں۔

دلیل نمبر : 27

دوسرے مقام پر ارشاد ہے:
قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۚ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ ۚ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ(سورۃ الاعراف: 188)
کہہ دو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ اختیار نہیں رکھتا مگر جو اللہ چاہے اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو بہت سے فائدے جمع کر لیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی میں تو مومنوں کو ڈر اور خوش خبری سنانے والا ہوں۔

دلیل نمبر : 28

ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
يَسْأَلُكَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَةِ ۖ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللَّهِ ۚ وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ تَكُونُ قَرِيبًا(سورۃ الاحزاب: 63)
لوگ تم سے قیامت کی نسبت دریافت کرتے ہیں کہ کب آئے گی تو کہہ اس کا علم اللہ ہی کو ہے اور تمہیں کیا معلوم شاید قیامت قریب آگئی ہو۔

دلیل نمبر : 29

اس طرح دوسری جگہ فرمایا:
وَيَقُولُونَ مَتَىٰ هَٰذَا الْوَعْدُ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ قُلْ إِنَّمَا الْعِلْمُ عِنْدَ اللَّهِ وَإِنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ مُبِينٌ (سورۃ الملک: 25-26)
اور کافر کہتے ہیں کہ اگر تم سچے ہو تو وعدہ کب پورا ہوگا۔ کہ دو اس کا علم اللہ ہی کو ہے اور میں تو کھول کھول کر ڈر سنانے والا ہوں۔
اس آیت مبارکہ سے ثابت ہوا کہ قیامت کے وقوع پذیر ہونے کا علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی پیغمبر علیہ السلام کو نہیں تھا ۔

دلیل نمبر : 30

ایک مقام پر مزید وضاحت فرمائی:
فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ آذَنْتُكُمْ عَلَىٰ سَوَاءٍ ۖ وَإِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ أَمْ بَعِيدٌ مَا تُوعَدُونَ (سورۃ الانبیاء: 109)
پس اگر پھر جائیں تو آپ فرمادیجئے کہ میں تمہیں نہایت صاف اطلاع کر چکا ہوں اور میں یہ نہیں جانتا کہ جس چیز کا تم سے وعدہ ہوا آیا وہ قریب ہے یا دور ۔

دلیل نمبر : 31

اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن میں پھر اعلان کروایا کہ :
قُلْ مَا كُنْتُ بِدْعًا مِنَ الرُّسُلِ ۖ وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي وَلَا بِكُمْ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ وَمَا أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ (سورۃ الاحقاف: 9)
تم فرماؤ میں کوئی انوکھا رسول نہیں اور میں نہیں جانتا میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا میں تو اسی کا تابع ہوں جو مجھے وحی ہوتی ہے اور میں نہیں مگر صاف ڈر سنانے والا ۔

(ترجمہ احمد رضا خان صاحب بریلوی)

دلیل نمبر : 32

ایک اور جگہ اس طرح ارشاد فرمایا:
وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ ۙ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُهُمْ ۖ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ(سورۃ التوبۃ: 101)
اور کچھ مدینے والے ان کی خو ہوگئی ہے نفاق تم انہیں نہیں جانتے ہم انہیں جانتے ہیں ۔ (ترجمہ احمد رضا خان بریلوی)

دلیل نمبر : 33

قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ ۚ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ(سورۃ النمل: 65)
کہہ دو کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں اللہ کے سوا غیب کی باتیں نہیں جانتے اور نہ یہ جانتے ہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے۔

دلیل نمبر : 34

لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِنْ قَبْلِكَ مِنْهُمْ مَنْ قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَمِنْهُمْ مَنْ لَمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ(سورۃ غافر: 78)
ہم نے تم سے پہلے بہت سے رسول بھیجے ان میں کچھ ایسے ہیں جن کے حالات تم سے بیان کر دیئے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جن کے حالات بیان نہیں کئے۔

دلیل نمبر : 35

ایک اور مقام پر فرمایا:
وَلَا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فَاعِلٌ ذَٰلِكَ غَدًا إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ ۚ وَاذْكُرْ رَبَّكَ إِذَا نَسِيتَ وَقُلْ عَسَىٰ أَنْ يَهْدِيَنِ رَبِّي لِأَقْرَبَ مِنْ هَٰذَا رَشْدًا(سورۃ الکہف: 23-24)
اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کرونگا مگر اللہ چاہے تو اور جب اللہ کا نام لینا بھول جاؤ تو یاد آنے پر لے لو اور کہہ دو کہ امید ہے کہ میرا پروردگار مجھے اس سے بھی زیادہ ہدایت کی باتیں بتائے۔
اس آیت مبارکہ کا شان نزول یہ ہے کہ قریشیوں نے نضر بن حارث اور عقبہ بن ابی معیط کو مدینے کے یہودی علماء کے پاس بھیجا کہ تم جا کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت کل حالات ان سے بیان کرو ان کے پاس ان کے انبیاء علیہم السلام کا علم ہے ان سے پوچھو ان کی آپ بارے کیا رائے ہے یہ دونوں مدینے گئے اور احبار مدینہ سے ملے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات اوصاف بیان کئے آپ کی تعلیم کا ذکر کیا اور کہا کہ تم ذی علم ہو بتلاؤ ان کی نسبت کیا خیال ہے انہوں نے کہا دیکھو ہم تمہیں ایک فیصلہ کن بات بتلاتے ہیں تم جا کر ان سے تین سوالات کرو اگر جواب دے دیں تو ان کے سچے ہونے میں کوئی شک نہیں بے شک اللہ کے نبی اور رسول ہیں اور اگر جواب نہ دے سکیں تو ان کے جھوٹا ہونے میں بھی کوئی شک نہیں پھر تم جو چاہو کرو ۔
اس سے پوچھو کہ اگلے زمانے میں جو نوجوان چلے گئے تھے ان کا واقعہ بیان کرو وہ ایک عجیب واقعہ ہے اور اس شخص کے حالات دریافت کرو جس نے تمام زمین کا گشت لگایا تھا۔ مشرق و مغرب ہو آیا تھا اور روح کی ماہیت دریافت کرو اگر بتلا دے تو اسے نبی مان کر اس کی اتباع کرو اگر نہ بتلا سکے تو وہ شخص جھوٹا ہے۔ جو چاہو کرو یہ دونوں وہاں سے واپس آئے اور قریشیوں سے کہا لو بھئی آخری اور انتہائی فیصلے کی بات انہوں نے بتلا دی ہے اب چلو حضرت سے سوالات کریں۔ چنانچہ یہ سب آپ کے پاس آئے اور تینوں سوالات کئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم کل آؤ میں تمہیں جواب دوں گا۔ لیکن انشاء اللہ کہنا بھول گئے 15 دن گزر گئے نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آئی نہ اللہ کی طرف سے ان باتوں کا جواب معلوم کرایا گیا۔ اہل مکہ کہنے لگے لیجئے صاحب کا کل وعدہ تھا۔ آج پندرھواں دن ہے لیکن وہ بتلا نہیں سکے ادھر آپ کو غم ستانے لگا۔ قریشیوں کو جواب نہ ملنے پر ان کی باتیں سننے کا اور وحی کے بند ہو جانے کا پھر جبریل علیہ السلام آئے سورۃ کہف نازل ہوئی اسی میں انشاء اللہ کہنے پر آپ کو ڈانٹا گیا اور ان نوجوانوں کا قصہ بیان کیا گیا اور سیاح کا ذکر کیا گیا يسئلونك عن الروح میں روح کی بابت جواب دیا گیا۔ (تفسیر ابن کثیر ج 3 ص 83)
اسی طرح بریلوی مفسر نعیم الدین مراد آبادی شان نزول بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اہل مکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب اصحاب کہف کا حال دریافت کیا تھا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میں کل بتاؤں گا اور انشاء اللہ نہیں فرمایا تھا تو کئی روز وحی نہیں آئی پھر یہ آیت نازل فرمائی۔ (خزائن العرفان تفسیر القرآن صفحه 533)
اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم غیب کا علم جانتے ہوتے تو اہل مکہ کے سوالات کا فوراً جواب دیتے دوسرے دن جواب دینے کا وعدہ نہ فرماتے 15 دن تک انتظار نہ فرماتے اور مکے والوں کی طرح طرح کی باتیں نہ سنتے اور وہ بھی فوراً ایمان لے آتے جو ان کی شرط تھی ۔ اگر آپ عطائی طور پر بھی عالم الغیب ہوتے تو پھر بھی ان کے سوالات کے جوابات دیتے۔ ان کی شرط یہ تو نہیں تھی کہ تم ذاتی علم سے جواب دو یا عطائی ان کو تو صرف سوالات کے جوابات مطلوب تھے جن کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم نہیں تھا۔

دلیل نمبر : 36

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شاعری کا علم بھی نہیں تھا۔
چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنْبَغِي لَهُ ۚ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرٌ وَقُرْآنٌ مُبِينٌ(سورۃ یٰسین: 69)
اور ہم نے ان کو شعر گوئی نہیں سکھائی اور نہ وہ ان کو شایاں ہے یہ تو محض نصیحت اور صاف صاف قرآن واضح حکمت پر ہے۔
اس نص قطعی سے یہ بات بالکل آشکارا ہو گئی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شعر کی تعلیم عطا ہی نہیں کی اور جب اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی تعلیم نہیں دی تو اور کہاں سے عطا ہوئی یا ہوسکتی ہے اس کے ساتھ اللہ تعالٰی نے اس بات کو بھی واضح کر دیا کہ شعر کی تعلیم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بلند اور رفیع شان کے لائق ہی نہیں ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حقیقت کے ترجمان تھے اور آپ کی بعثت کا مقصد دنیا کو اعلیٰ حقائق سے بدون ادنی ترین کذب و غلو کے روشناس کرنا تھا ظاہر ہے کہ یہ کام ایک شاعر کا نہیں ہوسکتا اس سے ثابت ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم
شاعری کا علم نہیں جانتے تھے۔

دلیل نمبر : 37

پانچ چیزوں کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ ۖ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۖ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ (سورۃ لقمان: 34)
اللہ ہی کو ہے قیامت کا علم اور وہی مینہ برساتا ہے اور جانتا ہے جو کچھ ماؤں کے پیٹ میں ہے اور کوئی نفس نہیں جانتا کہ کل کیا کمائے گا اور کوئی نہیں جانتا کہ کس سرزمین میں اسے موت آئے گی بیشک اللہ ہی جاننے والاخبر دار ہے۔

دلیل نمبر : 38

ایک اور مقام پر ارشاد ہے:
أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَبَأُ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَ وَالَّذِينَ مِنْ بَعْدِهِمْ ۛ لَا يَعْلَمُهُمْ إِلَّا اللَّهُ (سورۃ ابراہیم: 9)
کیا تمہارے پاس ان لوگوں کی خبر نہیں آئی جو تم سے پہلے تھے قوم نوح اور عاد و ثمود کی اور ان کی جو ان کے بعد تھے جنہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔

دلیل نمبر : 39

ایک اور مقام پر فرمایا:
وَيَقُولُونَ لَوْلَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِنْ رَبِّهِ ۖ فَقُلْ إِنَّمَا الْغَيْبُ لِلَّهِ فَانْتَظِرُوا إِنِّي مَعَكُمْ مِنَ الْمُنْتَظِرِينَ(سورۃ یونس: 20)
اور وہ کہتے ہیں کہ اس پر اس کے پروردگار کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہ اتاری گئی پس آپ کہہ دو کہ غیب تو صرف اللہ کے پاس ہے پس انتظار کرو بیشک میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں۔

دلیل نمبر : 40

اللہ تعالیٰ نے مزید ارشاد فرمایا:
قُلْ إِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ مَا تُوعَدُونَ أَمْ يَجْعَلُ لَهُ رَبِّي أَمَدًا(سورۃ الجن: 25)
تم فرماؤ میں نہیں جانتا آیا نزدیک ہے وہ جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے یا میرا رب اس کو کچھ وقفہ دے گا۔

دلیل نمبر : 41

ایک اور جگہ فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ عَالِمُ غَيْبِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ (سورۃ فاطر: 38)
بے شک اللہ ہی آسمانوں اور زمین کی غیب کی باتوں کا جاننے والا ہے اور وہ تو دل کے بھیدوں تک کا جاننے والا ہے۔
اس آیت مبارکہ سے ثابت ہوا کہ آسمانوں اور زمین کے غیبوں کا جاننے والا اور دلوں اور سینے کی باتوں کو جاننا صرف اللہ تعالیٰ کی صفت ہے جس میں نہ کسی نبی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو شریک کیا جاسکتا ہے اور نہ کسی ولی بزرگ جن یا فرشتے کو۔ اللہ شریک سے پاک ہے۔

دلیل نمبر : 42

إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۗ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (سورۃ الحجرات: 18)
بیشک اللہ تعالیٰ ہی آسمانوں اور زمین کا غیب جانتا ہے اور اللہ ہی تمہارے اعمال کو خوب دیکھنے والا ہے۔
اس سے ثابت ہوا کہ آسمان اور زمین کے سب غیبوں کو جاننے والا صرف ایک اللہ ہے اور اللہ تعالیٰ ہی سب کے تمام اعمال کو دیکھنے والا ہے نہ اللہ کے سوا کوئی غیب جانے والا ہے اور نہ ہی اللہ کے سوا کوئی سب کے سب اعمال کو دیکھنے والا ہے۔

دلیل نمبر : 43

تِلْكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ ۖ مَا كُنْتَ تَعْلَمُهَا أَنْتَ وَلَا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ هَٰذَا ۖ فَاصْبِرْ ۖ إِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِينَ(سورۃ ہود: 49)
یہ غیب کی خبروں سے ہے جنہیں ہم تمہاری طرف وحی کرتے ہیں اس سے پہلے نہ تو آپ انہیں جانتے تھے اور نہ تمہاری قوم پس صبر کریں بیشک اچھا انجام متقی لوگوں کے لیے ہے۔

دلیل نمبر : 44

اللہ تعالیٰ نے ایک اور مقام پر فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں:
وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِنْ أَمْرِنَا ۚ مَا كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ(سورۃ الشورٰی: 52)
اور اسی طرح ہم نے اپنے حکم سے ایک روح تیری طرف بھیجی تم نہ کتاب کو جانتے تھے اور نہ ایمان کو ۔

دلیل نمبر : 45

اصحاب کہف جو اللہ کے سچے حقیقی ولی تھے جن کی سچائی کو قرآن بیان کرتا ہے کہ وہ اللہ کے نیک بندے تھے غیب کا علم وہ بھی نہیں جانتے تھے چنانچہ ارشاد ہے اصحاب کہف غار کے اندر کتنا عرصہ ٹھہرے۔
لَبِثُوا فِي كَهْفِهِمْ ثَلَاثَ مِائَةٍ سِنِينَ وَازْدَادُوا تِسْعًا(سورۃ الکہف: 25)
وہ اپنے غار میں تین سو 9 سال رہے۔

دلیل نمبر : 46

پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو اٹھایا تا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے پوچھیں :
قَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ كَمْ لَبِثْتُمْ ۖ قَالُوا لَبِثْنَا يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ ۚ قَالُوا رَبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا لَبِثْتُمْ(سورۃ الکہف: 19)
ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا تم کتنی دیر ٹھہرے ہو انہوں نے کہا ہم ایک دن یا دن کا کچھ حصہ ٹھہرے ہیں اور دوسروں نے کہا تمہارا رب زیادہ جاننے والا ہے جتنی مدت تم رہے ہو۔
غور فرمائیں اللہ کے ولی ابھی زندہ سوئے ہوئے ہیں مگر اپنے حالات سے بھی بے خبر ہیں کہ 309 سال کے عرصہ کو ایک دن یا آدھا دن کہہ رہے ہیں بے خبری کا یہ حال تھا اور جو اللہ کے ولی نیک بزرگ فوت ہو جائیں زمین میں دفن ہو جائیں ۔ ان کو ہمارے حالات کی خبر کیسے ہوگی کہ قبر پر کون کیا نذرانہ لے کر آیا اور کیسے واپس گیا اللہ ہی غیب جانتا ہے۔
قرآن مجید کی نصوص صریحہ آیات بینات کے ساتھ اللہ کی مقدس کتاب قرآن مجید کی46 آیات سے ثابت ہوا کہ علم غیب خاصہ خداوندی ہے اس کے سوا کوئی غیب دان نہیں مخلوقات میں سب سے افضل انبیاء کرام علیہم السلام ہیں۔ لیکن قرآن مجید نے وضاحت کے ساتھ ان کے عالم الغیب ہونے کا رد کیا ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام بھی غیب کا علم نہیں جانتے تھے جب وہ نہیں جانتے تھے تو باقی مخلوق کی ان کے سامنے کیا حیثیت ہے پھر امام الانبیاء کرام علیہم السلام ، امام اعظم ، قائد اعظم رسول اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہی سب انبیاء کرام علیہم السلام سے افضل اعلیٰ تھی ۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بھی اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں بتا دیا کہ میرے آخری پیغمبر علیہ السلام کو بھی غیب کا علم نہ تھا۔ ہاں جو باتیں اللہ وحی کے ذریعے انبیاء کرام علیہم السلام کو اطلاع کرتے ہیں بتاتے ہیں وہ علم جو کسی کی وساطت سے حاصل ہو وہ علم غیب نہیں ہوتا وہ وحی کے ذریعے با قاعدہ جبریل علیہ السلام کے ذریعے پیغام دیا جاتا ہے اور پیغام کے ذریعے جس خبر کا علم ہو اس کو غیب جانتا نہیں کہتے تعصب کو چھوڑ کر اللہ سے ڈرتے ہوئے ہمارے دلائل پر غور کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ آپ کو مسئلہ سمجھ نہ آئے میں نے آپ کے سامنے اللہ کا قرآن بیان کیا ہے۔ ہمارا پوری جماعت اہل حدیث کا عقیدہ ہے کہ اللہ کے سوا کائنات کے اندر نہ کوئی نبی نہ کوئی صحابی نہ کوئی جن نہ کوئی فرشتہ نہ کوئی ولی نہ کوئی اور مخلوق غیب جانتی ہے غیب کا علم صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہے۔
یہ عقیدہ ہی قرآن کے مطابق اور حدیث رسول کے مطابق ہے اس کے بعد ہم اس عقیدہ پر حدیث مبارکہ کی روشنی میں بیان کریں گے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کو غیب کا علم نہ تھا اور نہ ہی انبیاء کرام علیہم السلام میں سے کسی نے عالم الغیب ہونے کا دعویٰ کیا کیوں کہ وہ سمجھتے تھے کہ یہ خاصہ خداوندی ہے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو حق سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمين
اس بات میں ہم کچھ احادیث مبارکہ پیش کریں گے تا کہ یہ بات مزید واضح ہو جائے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ تو علم غیب حاصل تھا اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جميع ما كان و ما يكون کے عالم تھے اور جب خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارکہ سے نفی فرمادی ہے تو کسی اور کی بات کو کیسے حجت مانا جاسکتا ہے۔ انشا اللہ تمام صحیح احادیث مبارکہ کو پیش کیا جائے گا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جب تمہیں کسی کام میں یا مسئلہ میں اختلاف ہو جائے تو اللہ اور رسول کی طرف لوٹاؤ کہ اللہ کا حکم کیا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم کیا ہے پہلے ہم نے قرآن کریم کی آیات بینات سے ثابت کیا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی عالم الغیب نہیں اب احادیث رسول اور اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت کیا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کا علم حاصل نہ تھا۔
معراج کی رات فرضیت نماز کا واقعہ فرماتے ہیں:

حدیث نمبر : 1

فرجعت الى موسى فقال راجع ربك فقلت استحيت من ربى ثم انطلق بي حتى انتهى بى إلى سدرة المنتهى وغشيها الوان لا ادري ما هي ثم ادخلت الجنة فاذا فيها حبائل اللؤلؤ وإن ترابها المسك
(صحیح بخاری ، ج 1 ، ص: 432)
میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انہوں نے پھر کہا کہ اپنے رب کے پاس جاؤ لیکن میں نے کہا مجھے اب اپنے رب سے شرم آتی ہے پھر جبریل سدرۃ المنتہی تک لے گئے جسے کئی طرح کے رنگوں سے ڈھانک رکھا تھا جن کے متعلق میں نہیں جانتا کہ وہ کیا ہیں ۔

حدیث نمبر : 2

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان فرمایا :
أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال مفاتح الغيب خمس إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث ويعلم ما فى الأرحام وما تدري نفس ماذا تكسب غدا وما تدري نفس ب أى أرض تموت إن الله عليم خبير
(صحیح بخاری شریف کتاب بالتفسیر مع شرح ، ج 6 ، ص 178 حدیث : 1627)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا غیب کی چابیاں پانچ ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے، بیشک اللہ ہی کو قیامت کی خبر ہے اور وہی جانتا ہے کہ رحموں میں کیا ہے اور کوئی بھی نہیں جان سکتا کہ وہ کل کیا عمل کرے گا یا کمائے گا اور نہ کوئی یہ جان سکتا ہے کہ وہ کس زمین پر مرے گا بیشک اللہ ہی علم والا اور خبر رکھنے والا ہے۔
اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ ان پانچ چیزوں کی خبر اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے حتی کہ کوئی نبی رسول بزرگ انہیں نہیں جانتا نہ آج کے سائنس دان کوئی حتمی خبر ان کے متعلق دے سکتے ہیں اگر کوئی ایسا دعوی کرے تو سراسر جھوٹا ہے۔

حدیث نمبر : 3

عن عبد الله بن أبى قتادة عن أبيه قال سرنا مع النبى صلى الله عليه وسلم ليلة فقال بعض القوم لو عرست بنا يا رسول الله قال أخاف أن تناموا عن الصلاة قال بلال أنا أوقظكم فاضطجعوا وأسند بلال ظهره إلى راحلته فغلبته عيناه فنام فاستيقظ النبى صلى الله عليه وسلم وقد طلع حاجب الشمس فقال يا بلال أين ما قلت قال ما ألقيت على نومة مثلها قط قال إن الله قبض أرواحكم حين شاء وردها عليكم حين شاء يا بلال قم فأذن بالناس بالصلاة فتوضأ فلما ارتفعت الشمس وابيضت قام فصلى
(صحیح بخاری ج 1 ص 577 حدیث 595)
عبداللہ بن ابی قتادہ سے انہوں نے اپنے باپ سے کہا ( ہم خیبر سے لوٹ کر ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رات کو سفر کر رہے تھے کسی نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ اب پڑاؤ ڈال دیتے تو بہتر تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے ڈر ہے کہیں نماز کے وقت بھی تم سوتے نہ رہ جاؤ اس پر حضرت بلال رضی اللہ عنہ بولے کہ میں آپ سب لوگوں کو جگادوں گا چنانچہ سب لوگ لیٹ گئے اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی پیٹھ کجاوے سے لگالی اور ان کی بھی آنکھ لگ گئی اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے تو سورج کے اوپر کا حصہ نکل چکا تھا آپ نے فرمایا بلال رضی اللہ عنہ تو نے کیا کہا تھا وہ بولے آج جیسی نیند مجھے کبھی نہیں آئی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تمہاری ارواح کو جب چاہتا ہے قبض کر لیتا ہے اور جس وقت چاہتا ہے واپس کر دیتا ہے اے بلال رضی اللہ عنہ اٹھے اور اذان دے پھر آپ نے وضو کیا اور جب سورج بلند ہو کر روشن ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور نماز پڑھائی۔
اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ عالم الغیب نہ تھے۔ اگر عالم الغیب ہوتے تو بلال رضی اللہ عنہ کو کہہ دیتے کہ صبح تم بھی سو جاؤ گے اور ہماری نماز کا وقت نکل جائے گا اگر بلال رضی اللہ عنہ یا دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عالم الغیب ہوتے تو ان کو نماز کے وقت کا علم ہوتا۔ لیکن نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وقت نماز کا علم ہوا اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو علم ہوا اس سے معلوم ہوا کہ عالم الغیب صرف اللہ کی ذات ہے مخلوق میں سے کوئی بھی عالم الغیب نہیں ہے۔
راہ طلب میں جذبہ کامل ہو جسے ساتھ
خود اس کو ڈھونڈ لیتی ہے منزل کبھی کبھی

حدیث نمبر : 4

عن عائشة أنها قالت واعد رسول الله صلى الله عليه وسلم جبريل عليه السلام فى ساعة يأتيه فيها فجاءت تلك الساعة ولم يأته وفي يده عصا فألقاها من يده وقال ما يخلف الله وعده ولا رسله ثم التفت فإذا جرو كلب تحت سريره فقال يا عائشة متى دخل هذا الكلب ها هنا فقالت والله ما دريت فأمر به فأخرج فجاء جبريل فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم واعدتني فجلست لك فلم تأت فقال منعني الكلب الذى كان فى بيتك إنا لا ندخل بيتا فيه كلب ولا صورة
(صحیح مسلم، کتاب اللباس، صفحه 230)
ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جبریل علیہ السلام نے وعدہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آنے کا ایک وقت میں پھر وہ وقت آگیا اور جبریل علیہ السلام نہ آئے اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ مبارک میں ایک لکڑی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پھینک دیا اور فرمایا اللہ تعالیٰ اپنا وعدہ خلاف نہیں کرتا نہ اس کے رسول وعدہ خلافی کرتے ہیں پھر آپ نے ادھر ادھر دیکھا تو ایک پلہ کتے کا تخت کے نیچے دکھلائی دیا آپ نے فرمایا اے عائشہ یہ پلہ کب آیا اس جگہ انہوں نے کہا قسم خدا کی مجھ کو خبر نہیں پھر آپ نے حکم دیا وہ باہر نکالا گیا اُسی وقت حضرت جبریل علیہ السلام آئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آپ علیہ السلام نے مجھے وعدہ کیا تھا اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتظار میں بیٹھا تھا لیکن آپ علیہ السلام نہیں آئے اور انہوں نے کہا یہ کتا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں تھا اس نے مجھے روک رکھا تھا ہم اس گھر میں نہیں جاتے جس کے اندر کتا یا مورت ہو۔
اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوتا کہ چار پائی کے نیچے کتا ہے اور اس بات کا بھی علم ہوتا کہ یہ کتا اس جگہ کب داخل ہوا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نہ پوچھتے کہ یہ یہاں کب داخل ہوا اور اگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا عالم الغیب ہوتی تو قسم اٹھا کر لا علمی کا اظہار نہ فرماتی بلکہ کتے کے داخل ہونے کا وقت بتاتی کہ کتا فلاں وقت داخل ہوا یہ کتا بھی مدینے کا کتا تھا۔ جس گھر میں داخل ہو وہاں اللہ کی رحمت کے فرشتے نہیں آتے ۔ اس سے بھی روز روشن کی طرح واضح ہو گیا کہ نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب تھے اور نہ حضرت ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ۔

حدیث نمبر : 5

عن أبى هريرة أنه قال صلى لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة العصر فسلم فى ركعتين فقام ذو اليدين فقال أقصرت الصلاة يا رسول الله أم نسيت فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم كل ذلك لم يكن فقال قد كان بعض ذلك يا رسول الله فأقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم على الناس فقال أصدق ذو اليدين فقالوا نعم يا رسول الله فأتم رسول الله صلى الله عليه وسلم ما بقي من الصلاة ثم سجد سجدتين وهو جالس بعد التسليم
(صحیح بخاری، کتاب الجنائز، صفحه: 623 ، ج 1، مسلم، ج 2، ص 390)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ایک سیاہ فام مرد یا عورت (راوی کو شک ہے) مسجد میں رہا کرتا تھا اور مسجد کی صفائی کیا کرتا تھا وہ مر گیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی موت کا علم نہ ہوا اتفاقاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے یاد فرمایا اور پوچھا اس آدمی کا کیا ہوا (کئی دنوں سے دیکھنے میں نہیں رہا) صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی وہ تو فوت ہو چکا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے مجھے خبر کیوں نہ دی۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کچھ ایسا ہی جواب دیا جس سے معلوم ہوتا تھا کہ انہوں نے اس معاملہ کو معمولی سمجھا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع نہ دی اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چلو مجھے اس کی قبر بتاؤ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی قبر پر تشریف لائے اور اس کی نماز جنازہ ادا فرمائی۔
اس حدیث مبارکہ سے بھی مسئلہ بالکل واضح ہے کہ مسجد کا خادم جو مسجد کی صفائی کیا کرتا تھا اور مسجد ہی میں رہا کرتا تھا مر گیا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی موت کا علم نہ ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے پوچھا کہ تم نے مجھے اس کی موت کی خبر کیوں نہ دی اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی قبر پر نماز جنازہ پڑھنے کے لیے تشریف لے گئے تو فرمایا مجھے بتاؤ اس کی قبر کہاں ہے کچھ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر امتی کی قبر میں سوالات کے وقت موجود ہوتے ہیں اس بات کا بھی اس حدیث میں واضح رد موجود ہے۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی قبر میں سوالات کے وقت تشریف لائے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پتا کیوں نہ چلا کہ وہ آدمی فوت ہو گیا پھر صحابہ رضی اللہ عنہم سے پوچھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟
اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی قبر میں تشریف لائے تھے تو پھر اس کی قبر کے بارے میں صحابہ رضی اللہ عنہم سے پوچھنے کی ضرورت کیوں پڑی یہ ساری باتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دعوئی علم الغیب کے باطل ہونے کی واضح دلیل ہے ۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب ہوتے تو خادم مسجد کی موت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوشیدہ نہ رہتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ نہ فرماتے : تم نے مجھے اطلاع کیوں نہ دی اس کی قبر کے بارے پوچھنے کی ضرورت نہ تھی ۔
انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں میری بات

حدیث نمبر : 6

عن أبى هريرة أنه قال صلى لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة العصر فسلم فى ركعتين فقام ذو اليدين فقال أقصرت الصلاة يا رسول الله أم نسيت فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم كل ذلك لم يكن فقال قد كان بعض ذلك يا رسول الله فأقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم على الناس فقال أصدق ذو اليدين فقالوا نعم يا رسول الله فأتم رسول الله صلى الله عليه وسلم ما بقي من الصلاة ثم سجد سجدتين وهو جالس بعد التسليم
(صحیح مسلم شرح نووی ، ج 2، کتاب المساجد، 138)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھائی اور دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیا تو ذوالیدین رضی اللہ عنہ اٹھا اور عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا نماز کم ہوگئی یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھول گئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی بات نہیں ہوئی ( نہ نماز کم ہوئی نہ میں بھولا ) وہ بولا کچھ تو ضرور ہوا ہے یا رسول اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی طرف رخ کیا اور پوچھا کیا ذوالیدین سچ کہتا ہے وہ لوگ بولے ہاں وہ سچ کہتا ہے یا رسول اللہ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنی نماز رہ گئی تھی وہ پوری کی پھر دو سجدے بیٹھے بیٹھے کیے سلام کے بعد۔
اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں بھول گئے اور اصل تعداد رکعات کی بجائے دو رکعتیں کم پڑھی اور یاد دلانے پر بھی یقین نہیں آیا جب تک دوسروں نے تصدیق نہ کی۔ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غیب دان نہ تھے اگر ہوتے تو بھولتے نہ اور ذوالیدین کی بات کی دوسروں سے تصدیق نہ کرتے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں ہوتا کہ میں نے دو رکعتیں پڑھی ہیں۔ ذوالیدین کو یہ نہ کہتے کہ نہ میں بھولا اور نہ نماز کم ہوئی ۔ بھولنا انسان کا خاصہ ہے۔ اللہ عالم الغیب ہے وہ کبھی نہیں بھولتا جیسا کہ قرآن مجید میں ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اعلان فرمایا:
لَا يَضِلُّ رَبِّي وَلَا يَنْسَى(سورۃ طہ: 52)
میرا رب نہ غلطی کرتا ہے نہ بھولتا ہے۔

حدیث نمبر : 7

عن عبد الله بن عمر عن النبى صلى الله عليه وسلم قال مفاتح الغيب خمس لا يعلمها إلا الله لا يعلم ما تغيض الأرحام إلا الله ولا يعلم ما فى غد إلا الله ولا يعلم متى يأتى المطر أحد إلا الله ولا تدري نفس ب أى أرض تموت إلا الله ولا يعلم متى تقوم الساعة إلا الله
(صحیح بخاری مع شرح كتاب التوحيد، صفحه 535 ، ج 8، حدیث 7379)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا غیب کی کنجیاں پانچ ہیں جنہیں اللہ کی سوا کوئی نہیں جانتا کہ رحم مادر میں کیا ہے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا ہوگا اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ بارش کب آئے گی اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ کس جگہ کوئی مرے گا اور اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ قیامت کب ہوگی ۔

حدیث نمبر : 8

ومن حدثك أنه يعلم الغيب فقد كذب وهو يقول لا يعلم غيب السماوات والأرض إلا الله
(صحیح بخارى كتاب التوحيد مع شرح ج 8 ص 525 حدیث 7380)
عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : کہ جو شخص تیرے سامنے بیان کرے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غیب جانتے ہیں وہ یقیناً جھوٹا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اللہ کے سوا کوئی غیب نہیں جانتا۔
جو لوگ کم علمی اور قلت تدبر کی وجہ سے اپنے خود ساختہ مذہب کی حمایت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے علم غیب ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ قرآن مجید میں تحریف کرتے ہیں اور از خود ایک عقیدہ گھڑتے ہیں جو کہ قرآن وحدیث کے مخالف ہوتا ہے۔
ایسے لوگوں سے دور رہ کر اپنے دین وایمان کی حفاظت کرنی چاہیے جو باتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی ہیں یہ سب بذریعہ وحی الہی ہیں کیوں کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے سورہ نجم میں فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ اپنی مرضی سے نہیں بولتے بلکہ وہی بات کرتے ہیں جو وحی کے ذریعہ سے بتائی جاتی ہے وحی کے ذریعے سے بتائی جانے والی باتوں کو جاننے کا نام علم غیب جاننا باور کروانا سراسر دھوکا ہے۔

حدیث نمبر : 9

عن أنس بن مالك رضى الله عنه أن رعلا وذكوان وعصية وبني لحيان استمدوا رسول الله صلى الله عليه وسلم على عدو فأمدهم بسبعين من الأنصار كنا نسميهم القراء فى زمانهم يخطبون بالنهار ويصلون بالليل حتى كانوا ببئر معونة قتلوهم وغدروا بهم فبلغ النبى صلى الله عليه وسلم ذلك فقنت شهرا يدعو فى الصبح على أحياء من أحياء العرب على رعل وذكوان وعصية وبني لحيان
(صحیح بخاری مع شرح ، ج 5 ، غزوة الرجيع ، ص: 415؛ حدیث: 4090)
انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رعل ذکوان عصیہ اور بنولحیان نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے دشمنوں کے مقابل مدد چاہی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ستر صحابہ رضی اللہ عنہم انصاری کو ان کی کمک کے لیے روانہ کیا ہم ان حضرات کو قاری کہا کرتے تھے اپنی زندگی معاش کے لیے دن میں لکڑیاں جمع کرتے تھے اور رات میں نماز پڑھا کرتے تھے جب یہ حضرات بئبر معونہ پر پہنچے تو ان قبیلے والوں نے انہیں دھوکا دیا اور انہیں شہید کر دیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی خبر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز میں ایک مہینے تک بددعا کی عرب کے انہیں چند قبائل رعل ذکوان عصیہ اور بنو لحیان کے لیے۔
آنحضرت نے ان ستر قاریوں کو اس لیے بھیجا تھا کہ قبائل رعل ذکوان اور عصیہ اور بنو لحیان کے لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہا تھا کہ ہم مسلمان ہو گئے ہیں ہماری مدد کے لیے کچھ مسلمان بھیجے ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ ابو براء عامر بن مالک نامی ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ چند مسلمانوں کو نجد کی طرف بھیجیں تو مجھے امید ہے کہ نجد والے مسلمان ہو جائیں گے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں ڈرتا ہوں کہ نجد والے انہیں ہلاک نہ کر دیں اور وہ شخص کہنے لگا میں ان کو اپنی پناہ میں رکھوں گا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ستر قاری روانہ کیے صرف ایک صحابی کعب بن زید رضی اللہ عنہ زخمی ہو کر بچ نکلے جنہوں نے مدینے آکر خبر دی تھی ۔(شرح صحیح بخاری صفحه 415 ج 5)
اس حدیث مبارکہ پر غور فرمائیں ہمارے بریلوی بھائی یہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب میں ما كان وما يكون کا کلی علم رکھتے ہیں ۔ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر کس قدر بہتان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ما كان وما يكون کا کلی اور تفصیلی علم تھا اور آپ کو یہ معلوم تھا کہ یہ منافقین ان ستر قاریوں کو ساتھ لے جا کر دھوکا سے قتل کر دیں گے اور یہ سب کچھ جاننے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ستر قاری اور قائم اللیل اصحاب رضی اللہ عنہم کو قتل کرانے کے لیے ان کے ساتھ بھیج دیا۔
معاذ الله یہ ایک بہتان عظیم ہے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا دامن اس سے پاک ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ اگر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم غیب کا علم جانتے ہوتے اور منافقوں کی قلبی سازش سے واقف ہوتے تو اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو کبھی ساتھ نہ بھیجتے کیوں کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم سے دھوکا کیا اور دھوکا وہی کھاتا ہے جس کو ان کی قلبی سازش کا علم نہ ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم انبیاء اکرام علیہم السلام کے بعد سب سے عظیم ترین جماعت ہے۔ اگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ان کی اس ناپاک جسارت کا علم ہوتا تو وہ کبھی ان کے ساتھ خالی ہاتھ نہ جاتے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی غیب کا علم حاصل نہ تھا وگرنہ ان کے چکر میں نہ آتے۔
لیکن یہاں پر ہمارے بھائیوں نے مختلف قسم کی اصطلاحیں ایجاد کی ہوئی ہیں فلاں کے چودہ طبق روشن ہیں فلاں بزرگ مرنے کے بعد مریدوں کے حالات کو جانتے ہیں وغیرہ۔

حدیث نمبر : 10

عن عائشة زوج النبى صلى الله عليه وسلم قالت خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فى بعض أسفاره حتى إذا كنا بالبيداء أو بذات الجيش انقطع عقد لي فأقام رسول الله صلى الله عليه وسلم على التماسه وأقام الناس معه وليسوا على ماء فأتى الناس إلى أبى بكر الصديق فقالوا ألا ترى ما صنعت عائشة أقامت برسول الله صلى الله عليه وسلم والناس وليسوا على ماء وليس معهم ماء فجاء أبو بكر ورسول الله صلى الله عليه وسلم واضع رأسه على فخذي قد نام فقال حبست رسول الله صلى الله عليه وسلم والناس وليسوا على ماء وليس معهم ماء فقالت عائشة فعاتبني أبو بكر وقال ما شاء الله أن يقول وجعل يطعنني بيده فى خاصرتي فلا يمنعني من التحرك إلا مكان رسول الله صلى الله عليه وسلم على فخذي فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم حين أصبح على غير ماء فأنزل الله آية التيمم
(صحیح بخاری مع شرح ، ج 1 ، ص 416،415 ، کتاب التيمم، حديث: 334)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بعض سفر (غزوہ بنی المطلق ) میں تھے جب ہم مقام بیداء یا ذات الجیش پر پہنچے تو میرا ہار گم ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تلاش میں وہیں ٹھہر گئے اور لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ٹھہر گئے لیکن پانی وہاں قریب کہیں نہیں تھا لوگ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نجانے کیا کام کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام لوگوں کو ٹھہرا دیا ہے اور پانی بھی کہیں قریب میں نہیں ہے اور نہ لوگوں کے ساتھ پانی ہے ۔ پھر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر مبارک میری ران پر رکھے ہوئے سو رہے تھے فرمانے لگے کہ تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام لوگوں کو روک لیا حالانکہ قریب میں پانی بھی موجود نہیں ہے اور نہ لوگوں کے پاس ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ والد ماجد مجھ پر بہت ناراض ہوئے اور اللہ نے جو چاہا انہوں نے کہا اور اپنے ہاتھ سے میری کوکھ میں کچوکے لگائے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک میری ران پر تھا اس وجہ سے میں حرکت بھی نہیں کر سکتی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب صبح کے وقت اٹھے تو پانی کا پتہ تک نہ تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت نازل فرمائی اور لوگوں نے تیمم کیا اس پر حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے کہا اے آل ابو بکر رضی اللہ عنہ یہ تمہاری کوئی پہلی برکت نہیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا پھر ہم نے اس اونٹ کو ہٹایا جس پر میں سوار تھی ہار اس کے نیچے سے مل گیا۔
غور فرمائیں کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم یا آپ کی زوجہ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا عالم الغیب ہوتے تو ایک ہار کی خاطر لوگوں میں اتنا اختلاف نہ ہوتا فورا علم ہو جاتا کہ ہار اونٹ کے نیچے پڑا ہے مگر اتنی بڑی اور عظیم ہستیاں ہار تلاش کرنے میں مصروف تھیں مگر کسی کو علم نہ ہوا کہ ہار اونٹ کے نیچے پڑا ہے کبھی لوگ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو شکایت کرتے ہیں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنی بیٹی رضی اللہ عنہا کو سخت ڈانٹ رہے تھے۔ اتنی دیر ہو چکی تھی کہ نماز کی بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو پریشانی تھی کہ پانی کے بغیر نماز کیسے پڑھیں گے۔
آج ہمارے معاشرے میں لوگ کہتے ہیں کہ فلاں بزرگ بصیرت ہیں ان کو سب علم ہوتا ہے حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بڑا صاحب بصیرت کون ہو سکتا ہے مگر ان کو بھی غیب کا علم نہیں تھا۔

حدیث نمبر : 11

عن جابر قال قال النبى صلى الله عليه وسلم من يأتيني بخبر القوم يوم الأحزاب قال الزبير أنا ثم قال من يأتيني بخبر القوم قال الزبير أنا فقال النبى صلى الله عليه وسلم إن لكل نبي حواريا وحواري الزبير
(صحیح بخاری مع شرح ، ج 4 ، ص: 299، حديث: 2846)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ خندق کے دن فرمایا دشمن کے لشکر کی خبر میرے پاس کون لاسکتا ہے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ پھر پوچھا حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا میں اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر نبی کے حواری ہوتے ہیں اور میرے حواری زبیر رضی اللہ عنہ ہیں۔
اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کا علم نہ تھا وگرنہ دشمن کے حالات معلوم کرنے کے لیے جاسوس بھیجنے کی ضرورت نہ پڑتی خبر معلوم کرنے کے لیے کسی کو بھیجنے سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غیب دان نہ تھے۔

حدیث نمبر : 12

فلما توفي وغسل وكفن فى أثوابه دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت رحمة الله عليك أبا السائب فشهادتي عليك لقد أكرمك الله فقال النبى صلى الله عليه وسلم وما يدريك أن الله أكرمه فقلت بأبي أنت يا رسول الله فمن يكرمه الله فقال أما هو فقد جاءه اليقين والله إني لأرجو له الخير والله ما أدري وأنا رسول الله ما يفعل بي قالت فوالله لا أزكي أحدا بعده أبدا
(صحیح بخاری ، ج 1، کتاب الجنائز، ص: 547 ، حدیث: 1243)
حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ جب فوت ہوئے وفات کے بعد ان کو غسل دیا گیا اور کفن پہنایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر تشریف لائے میں نے کہا اے ابو سائب اللہ تم پر رحم کرے میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ نے تم کو عزت دی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (ام العلاء رضی اللہ عنہا ) تجھ کو کیسے معلوم ہوا کہ اللہ نے اس کو عزت دی تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ پر میرے ماں باپ قربان پھر اللہ تعالیٰ کس کو عزت دے گا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عثمان رضی اللہ عنہ مر تو گیا بے شک اللہ کی قسم مجھے بھی امید ہے کہ اس کے لیے اچھا ہوگا لیکن اللہ کی قسم میں اللہ کا رسول ہوں اور اس پر بھی نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا۔ ام علاء رضی اللہ عنہا نے کہا اللہ کی قسم اب کبھی اس کے بعد کسی کے متعلق ایسی شہادت اس طرح نہیں دوں گی۔
اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بعد میں پیش آنے والے حالات کا علم نہیں تھا۔ صحابیہ رضی اللہ عنہا نے حسن ظن کی بنیاد پر یہ کہ دیا کہ اللہ نے اس کو عزت دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بھی منع فرمایا کہ مجھے اپنے بارے میں بھی علم نہیں کہ میرے ساتھ کیا ہوگا حالانکہ میں اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوں یہاں تو سب بزرگوں کو جنت کا سرٹیفکیٹ ہم نے دے رکھا ہے۔

حدیث نمبر : 13

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا پر لگائی گئی تہمت کا مکمل قصہ ایک طویل حدیث میں ہے میں نے طوالت کے خوف سے صرف واقعہ کا مختصر مرکزی خیال لکھ دیا ہے تفصیل کے لیے مکمل حوالہ پیش خدمت ہے آپ خود پڑھ سکتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تہمت کے بعد سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے یہ مشورہ کیا میں عائشہ رضی اللہ عنہا کو چھوڑ دوں آگے جا کر ذکر کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا مجھے تیری طرف سے ایسی خبر پہنچی ہے اگر تو پاک دامن ہے تو اللہ تعالیٰ تیری پاک دامنی کھول دے گا اور اگر تو پھنس گئی ہے تو اللہ سے بخشش مانگ توبہ کر یہ معاملہ چلتا رہا آخر اللہ تعالیٰ نے سورہ نور میں وحی اتار کر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو پاکدامن قرار دیا۔ (صحیح بخاری، کتاب المغازى مع شرح صفحه: 446 ، حدیث: 4141)
اس حدیث مبارکہ سے بھی معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب نہ تھے اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب ہوتے تو اتنے دن پریشان نہ ہوتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے سے ہی اس بات کا علم ہوتا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا پاک ہے۔ اس پر تہمت لگائی گئی ہے دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے عائشہ رضی اللہ عنہا کو چھوڑنے کا مشورہ نہ کرتے اور ام المومنین کو یہ نہ کہتے کہ اگر تو پاک دامن ہے تو اللہ تیری پاک دامنی کو ظاہر کر دے گا اگر تجھ سے غلطی ہو گئی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے ہی بخشش مانگیں اور توبہ کریں یہ بات اس کی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس واقعہ کی حقیقت سے واقف نہ تھے جب تلک اللہ تعالیٰ نے سورہ نور نازل کر کے وضاحت نہ کر دی۔

حدیث نمبر : 14

وكان لي صديقا فقال اعتكفنا مع النبى صلى الله عليه وسلم العشر الأوسط من رمضان فخرج صبيحة عشرين فخطبنا وقال إني أريت ليلة القدر ثم أنسيتها فالتمسوها فى العشر الأواخر فى الوتر
(بخارى، كتاب ليلة القدر ، ج 3، ص: 245، حديث: 2016)
میں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے پوچھا وہ میرے دوست تھے انہوں نے جواب دیا کہ ہم نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان کے دوسرے عشرہ میں اعتکاف بیٹھے پھر بیس تاریخ کی صبح کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے لیلۃ القدر دکھائی گئی لیکن بھلا دی گئی یا ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ) کہ میں خود بھول گیا اس لیے تم اسے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔
اس حدیث مبارکہ سے بھی واضح ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کا علم نہ تھا۔ کیونکہ لیلتہ القدر تو صرف ایک رات ہے امت کو پانچ راتوں میں تلاش کرنے کی ضرورت نہ تھی ایک رات کا ہی بتا دیتے مگر دکھانے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھول گئے اور وفات تک کسی صحابی یا امتی کو لیلۃ القدر کے بارے میں نہیں بتایا کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد ہی نہیں تھا اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں تھا۔ اس لیے کہ عالم الغیب صرف اللہ کی ذات ہے اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔

حدیث نمبر : 15

ومن زعم أنه يخبر بما يكون فى غد فقد أعظم على الله الفرية والله يقول قل لا يعلم من فى السماوات والأرض الغيب إلا الله
(صحیح مسلم مع شرح نووی، کتاب الایمان، ج1، ص: 297)
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ : جو کوئی یہ خیال کرے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کل ہونے والی بات جانتے تھے تو اس نے اللہ پر بڑا جھوٹ باندھا۔ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہہ دو کہ آسمانوں اور زمین میں کوئی غیب کی بات نہیں جانتا سوائے اللہ کے۔
اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں علم غیب کا عقیدہ رکھنا اللہ تعالی کی ذات پر جھوٹ باندھنا ہے کیونکہ اللہ تعالی نے خود فرما دیا کہ آسمانوں اور زمین میں اللہ کے علاوہ کوئی غیب نہیں جانتا۔

حدیث نمبر : 16

عن أنس أن رجلا كان يتهم بأم ولد رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لعلي اذهب فاضرب عنقه فأتاه على فإذا هو فى ركي يتبرد فيها فقال له على اخرج فناوله يده فأخرجه فإذا هو مجبوب ليس له ذكر فكف على عنه ثم أتى النبى صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله إنه لمجبوب ما له ذكر
(صحیح مسلم، كتاب التوبه، صفحه 352)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص پر لوگ تہمت لگاتے تھے آپ کی ام ولد لونڈی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا جا اُس شخص کی گردن مار اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اُس کے پاس گئے دیکھا تو وہ ٹھنڈک کے لیے ایک کنویں میں غسل کر رہا تھا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا باہر نکل اُس نے اپنا ہاتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں دیا انہوں نے اس کو باہر نکالا دیکھا تو اس کا عضو تناسل کٹا ہوا ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کو نہ مارا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ مجبوب ہے اس کا عضو تناسل ہی نہیں ہے۔
اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب ہوتے تو لوگوں کے جھوٹے الزام پر اس شخص کے قتل کا حکم نہ دیتے ان کے علم میں ہوتا کہ یہ شخص تو کسی عورت کے قابل ہی نہیں اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ غیب کا علم جانتے ہوتے تو وہ اُس شخص کی تلاش میں ہی نہ جاتے ۔ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اُس شخص کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تو قتل سے رک گئے وگرنہ وہ قتل کا پورا ارادہ لے کر گئے تھے ۔ انہوں نے خود دیکھا تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے ۔
اس سے معلوم ہوا کہ غیب کا علم اللہ کے سوا کسی کے پاس نہیں علم غیب صرف اللہ کا خاصہ ہے۔
قلب میں سوز نہیں روح میں احساس نہیں
دوستو کچھ بھی فرمان محمد کا تمہیں پاس نہیں
دوزخ کے آنکڑوں کی لمبائی اور چوڑائی کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں۔

حدیث نمبر : 17

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم فأكون أول من يجيز ودعاء الرسل يومئذ اللهم سلم سلم وبه كلاليب مثل شوك السعدان أما رأيتم شوك السعدان قالوا بلى يا رسول الله قال فإنها مثل شوك السعدان غير أنه لا يعلم قدر عظمها إلا الله
(صحیح بخاری، کتاب الرقاق، باب الصراط جسر جهنم، صفحه 4545 ، ج 8 مع شرح داود راز محدث دهلوی حدیث 6573)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں پہلا شخص ہوں گا جو اس پل کو پار کروں گا اور اس دن رسولوں کی دعا یہ ہوگی کہ اے اللہ مجھ کو سلامت رکھنا اے اللہ مجھ کو سلامت رکھنا اور وہاں سعدان کے کانٹوں کی طرح آنکڑے ہوں گے تم نے سعدان کے کانٹے دیکھے ہیں صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا ہاں دیکھے ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ پھر سعدان کے کانٹوں کی طرح ہوں گے البتہ اس کی لمبائی اور چوڑائی اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ دوزخ کے آنکڑے کی لمبائی اور چوڑائی کا علم مخلوق میں سے کسی کے پاس نہیں ہے۔ صرف اللہ کے پاس ہے۔

حدیث نمبر : 18

أنا فرطكم على الحوض وليرفعن رجال منكم ثم ليختلجن دوني فأقول يا رب أصحابي فيقال إنك لا تدري ما أحدثوا بعدك
(صحیح بخاری ، کتاب الرقاق ، ج 8، ص 50 ، حدیث 6576)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور حذیفہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں اپنے حوض پر تم سے پہلے ہی موجود رہوں گا اور تم میں کچھ لوگ میرے پاس لائے جائیں گے پھر انہیں میرے سامنے سے ہٹادیا جائے گا تو میں کہوں گا کہ اے میرے رب یہ میرے ساتھی ہیں لیکن مجھ سے کہا جائے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دین میں کیا نئی چیزیں ایجاد کر لی تھیں ۔
اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جاری ہونے والی نئی بدعات کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا علم نہیں ہوگا۔

حدیث نمبر : 19

أن أبا هريرة قال بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم عشرة رهط سرية عينا وأمر عليهم عاصم بن ثابت الأنصاري
(صحیح بخاری ، ج 4 ، كتاب الجهاد، صفحه: 429 ، حدیث: 3045)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کفار کی جاسوسی کے لیے بھیجی اس جماعت کا امیر عاصم بن ثابت رضی اللہ عنہ کو بنایا اور جماعت روانہ ہوگئی جب یہ لوگ مقام ھداۃ پر پہنچے جو عسفان اور مکہ کے درمیان ہے تو قبیلہ ھذیل کی ایک شاخ بنو لحیان کو کسی نے خبر دے دی تو اس قبیلہ کے دوسو تیر اندازوں کی ایک جماعت ان کی تلاش میں نکلی مختصر یہ کہ انہوں نے سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو شہید کر دیا۔
اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب نہ تھے وگرنہ دشمن کی خبر معلوم کرنے کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت کو بھیجنے کی ضرورت نہ ہوتی آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود دشمن کے حالات سے باخبر ہوتے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی معلوم ہوتا کہ مشرک لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اس جماعت کو قتل کر دیں گے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پھر بھی اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعت کو جاسوسی کے لیے نہ بھیجتے۔

حدیث نمبر : 20

إني لأنقلب إلى أهلي فأجد التمرة ساقطة على فراشي فأرفعها لآكلها ثم أخشى أن تكون صدقة فألقيها
(صحیح بخاری، کتاب اللقطہ ، ج 3، مع شرح صفحه: 660 ، حديث: 2432)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں اپنے گھر جاتا ہوں وہاں مجھے میرے بستر پر کھجور پڑی ہوئی ملتی ہے میں اسے کھانے کے لیے اٹھا لیتا ہوں لیکن پھر یہ ڈر ہوتا ہے کہ کہیں یہ صدقہ کی کھجور نہ ہو تو میں اسے پھینک دیتا ہوں۔
اس حدیث مبارکہ سے روز روشن کی طرح واضح ہوتا ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم متردد نہ ہوتے کہ وہ صدقہ کی کھجور ہے یا نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں ہوتا کہ صدقہ کی ہے یا نہیں کھجور تو اٹھاتے نہ پھینکتے۔
قارئین محترم : اس عنوان پر قرآن و حدیث میں سینکڑوں ایسے دلائل موجود ہیں مگر میں نے خوف طوالت سے صرف انہیں آیات اور احادیث مبارکہ پر اکتفا کیا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ زمین و آسمان میں اللہ کے علاوہ کوئی عالم الغیب نہیں غیب کی وہ خبریں جو اللہ اپنے رسولوں علیہم السلام کی طرف وحی کے ذریعے ظاہر فرماتا ہے اور پیغمبر علیہم السلام غیب کی ظاہر کی ہوئی خبر کو جانتے ہیں اور جس خبر کو وحی کے ذریعے سے ظاہر کیا جائے یا کسی دوسرے ذریعے سے ظاہر کیا جائے۔ یہ جاننا غیب جاننا نہیں بلکہ یہ جاننا ظاہر کو جاننا ہے جس خبر کو اللہ نے وحی کے ذریعے ظاہر کیا ہے پورے ذخیرہ احادیث میں ایک حدیث بھی ایسی موجود نہیں کہ جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ ارشاد فرمائے ہوں کہ میں غیب کا علم جانتا ہوں نہ پورے قرآن میں ایک آیت بھی ایسی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے کہا ہو کہ میرا رسول عالم الغیب ہے البتہ اس بات کی نفی کے دلائل گزشتہ صفحات پر گزر چکے ہیں۔
اکثر بریلوی مولوی حضرات ایک سوال کر کے لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اللہ کو عالم الغیب نہیں کہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے تو کوئی چیز غائب ہی نہیں تو وہ عالم الغیب کیسے ہوا عالم الغیب صفت مخلوق کی ہوسکتی ہے نہ کہ اللہ کی؟
اس بات کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز غیب نہیں ہر چیز عیاں و آشکار ہے۔ اللہ وہ جانتا ہے۔ جو مخلوق سے غائب ہے غیب کا لفظ مخلوق کے لیے ہے ہر غیب و ظاہر کو جاننا اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اس کے دلائل گزشتہ صفحات پر گزرچکے ہیں۔
آئندہ سطور میں حفیظ الرحمن اور دیگر بریلوی حضرات کی طرف سے پیش کیے گئے شبہات کا بھر پور ازالہ کیا جائے گا۔ ان شاء اللہ
حفیظ الرحمن قادری بریلوی کے پیش کردہ دلائل کے جوابات

پہلی دلیل :

وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَٰكِنَّ اللَّهَ يَجْتَبِي مِنْ رُسُلِهِ مَنْ يَشَاءُ(سورۃ آل عمران: 179)
اللہ کی شان یہ نہیں کہ اے عام لوگو تمہیں غیب کا علم دے دے ہاں اللہ چن لیتا ہے اپنے رسولوں میں سے جسے چاہے۔ (ترجمہ کنز الایمان)

الجواب :

اس آیت مبارکہ سے ثابت ہوا کہ اللہ کا خاص علم غیب پیغمبر پر ظاہر ہوتا ہے ایک سادہ یا معمولی عقل والا آدمی بھی بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ ایک بات جب تک کسی کو بتلائی نہ جائے وہ یقیناً غیب ہوتی ہے بتلا دینے کے بعد وہ غیب نہیں کہلا سکتی مثلاً آپ چند دوستوں میں سے ایک کو منتخب کر کے کوئی پرائیویٹ بات بتلا دیں وہ اس کے لیے غیب نہ رہے گی وہ شخص یہ ڈینگ مار کر نہیں کہہ سکتا میں عالم الغیب ہوں کیوں کہ وہ بات مجھے معلوم ہے جو تمہیں معلوم نہیں کیونکہ اسے وہ بات بتلا دی گئی ہے جو دوسروں کو نہیں بتلائی گئی اس آیت میں اطلاع علی الغیب کا تذکرہ ہے کیونکہ پیغمبر علیہ السلام کو وہ علم وحی کے ذریعے سے ہو وحی سے پہلے پیغمبر کو بھی دوسرے انسانوں کی طرح اس خبر کا علم نہیں ہوتا چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہے :
تِلْكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ ۖ مَا كُنْتَ تَعْلَمُهَا أَنْتَ وَلَا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ هَٰذَا(سورۃ ہود: 49)
یہ غیب کی خبریں ہم تمہاری طرف وحی کرتے ہیں انہیں نہ تم جانتے تھے اور نہ تمہاری قوم اس سے پہلے۔ (ترجمہ احمد رضا خان صاحب بریلوی)
دوسرے مقام پر یوں فرمایا :
وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِنْ أَمْرِنَا ۚ مَا كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ(سورۃ الشورٰی: 52)
اور یونہی ہم نے تمہیں وحی بھیجی ایک جان افزا چیز اپنے حکم سے اس سے پہلے نہ تم کتاب جانتے تھے اور نہ ایمان۔
نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ هَٰذَا الْقُرْآنَ وَإِنْ كُنْتَ مِنْ قَبْلِهِ لَمِنَ الْغَافِلِينَ (سورۃ یوسف: 3)
ہم تجھے سب سے اچھا بیان سناتے ہیں اس واسطے سے کہ ہم نے تیری طرف یہ قرآن وحی کیا ہے اور بیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے پہلے یقینا بے خبروں میں سے تھے۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ انبیاء کرام علیہم السلام غیب کا علم نہیں جانتے بلکہ وحی کے ذریعے انہیں اطلاع دی جاتی ہے ہمارا دعوی ہے کہ علم غیب ذاتی کلی، ما كان و ما يكون مخلوق نہیں جانتی جتنی بھی مقرب ہو لہذا اس آیت مبارکہ سے علم غیب خود بخود جاننا ثابت نہیں ہوا یہ غیب جاننے کی دلیل ہی نہیں ہے جو شخص کسی کے اطلاع کرنے پر خبر جانے اسے عالم الغیب نہیں کہا جاسکتا علم غیب وہ ہے جو بتائے بغیر جانے اس آیت سے علم غیب کا دعویٰ باطل ہے۔

دوسری دلیل :

عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَىٰ غَيْبِهِ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِنْ رَسُولٍ(سورۃ الجن: 26-27)
(وہی) غیب جاننے والا ہے اور کسی پر اپنے غیب کو ظاہر نہیں کرتا مگر کوئی رسول جسے وہ پسند کر لے۔

الجواب:

اس آیت مبارکہ سے مراد وحی کے ذریعے غیب کی خبر کو اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ظاہر کرنا ہے یہ بات عالم الغیب ہونے کی دلیل نہیں ہے اگر اس سے پہلی آیت پر غور فرمالیں تو مسئلہ اچھی طرح سمجھ آجاتا چنانچہ فرمایا :
قُلْ اِنْ اَدْرِیْۤ اَقَرِیْبٌ مَّا تُوْعَدُوْنَ اَمْ یَجْعَلُ لَهٗ رَبِّیْۤ اَمَدًا(سورۃ الجن: 25)
فرماؤ میں نہیں جانتا آیا نزدیک ہے وہ جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے یا میرا رب اسے کچھ وقفہ دے گا۔ (ترجمہ احمد رضا خان صاحب بریلوی)
اگر وحی کے ذریعے کسی خبر کو جانا عالم الغیب ہونے کی دلیل ہوتا تو اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں یہ ارشاد نہ فرماتا :
قُلْ لَا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ ۚ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ(سورۃ النمل: 65)
کہہ دو کہ جو لوگ آسمانوں اور زمین میں ہیں اللہ کے سوا غیب کی باتیں نہیں جانتے اور نہ یہ جانتے ہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے۔
علم غیب وہ ہوتا ہے جو عادی وسائل واسباب اور وساطت کے بغیر از خود ہو اور جو علم وسائل و ذرائع اور وساطت سے حاصل ہو وہ علم غیب نہیں خواہ وہ وسائل و ذرائع وحی ہوں یا ظاہری خواہ باطنی و معنوی وہ علم غیب نہیں ہوتا سطور بالا میں کافی دلائل گزرے ہیں مطالعہ فرمالیں۔

تیسری دلیل :

وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِينٍ (سورۃ التکویر: 24)
اور وہ پوشیدہ باتیں بتلانے میں بخیل نہیں۔

الجواب:

یہ آیت مبارکہ سورۃ التکویر کی ہے یہ سورہ بالاتفاق مکی ہے مکی سورتوں میں ساتویں نمبر پر نازل ہوئی ۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کلی غیب دان تھے تو اس کے بعد 107 سورتیں نازل ہوئیں یہ سورتیں نازل کرنے کی ضرورت نہ ہوتی جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام باتوں کا علم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے سے ہی ہو چکا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غیب دان تھے۔

دوسرا جواب :

یہ ہے کہ بعض مفسرین هو کا مرجع قرآن کو بتاتے ہیں جیسے شاہ عبد العزیز محدث دہلوی (تفسیر عزیزی صفحہ 90) پر لکھتے ہیں کہ قرآن مجید بیان کرنے میں بخل نہیں برتا اور نہ کوئی کمی کرتا ہے اس طرح تفسیر حقانی میں (صفحہ 54 ج 8) مشہور تابعی حضرت قتادہ رحمہ اللہ الغیب سے مراد قرآن کریم مراد لیتے ہیں۔
اگر اس آیت سے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مراد لیے جائیں تو بھی جو خبر اللہ اپنے رسول کو وحی کے ذریعے بتاتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہ خبر امت کو بتانے میں بخل نہیں کرتے کیوں کہ قرآن مجید میں واضح موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم علم غیب نہیں جانتے تھے مگر وحی کے تابع تھے چنانچہ ارشاد ہے :
قُلْ لَا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۚ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ ۗ أَفَلَا تَتَفَكَّرُونَ
(سورۃ الانعام: 50)
آپ فرمائیں تم کہہ دیجئے نہ تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ میں تم کو کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں میرے پاس جو وحی آتی ہے میں اُسی کی اتباع کرتا ہوں فرمائیے کیا اندھا اور دیکھنے والا برابر ہیں کیا تم غور نہیں کرتے۔
دوسرے مقام پر ارشاد ہے :
وَلَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ (سورۃ الاعراف: 188)
اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو میں بہت سے منافع حاصل کر لیتا۔
تیسرے مقام پر فرمایا :
قُلْ مَا كُنتُ بِدُعًا مِنَ الرُّسُلِ وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي وَلَا بِكُمْ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ وَمَا أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ(سورۃ الاحقاف: 9)
تم فرماؤ میں کوئی انوکھا رسول نہیں اور میں نہیں جانتا میرے ساتھ کیا کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا میں تو اُس کا تابع ہوں جو مجھے وحی ہوتی ہے اور میں نہیں مگر صاف ڈر سنانے والا۔ (ترجمہ احمد رضا خان صاحب بریلوی)
چھوتھے مقام پر ارشاد فرمایا :
وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النيفاقِ لَا تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ (سورۃ التوبه: 101)
اور کچھ مدینہ والے ان کی خو ہوگئی ہے نفاق تم انہیں نہیں جانتے ہم انہیں جانتے ہیں۔ (ترجمہ احمد رضا خان بریلوی)
اس کا ایک جواب یہ ہے کہ مشہور تابعی مفسر حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بضنین کی ایک قرآت بطنین بھی ہے اس کا معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ میں صلی اللہ علیہ وسلم وحی کو چھپانے کے مرتکب نہیں ۔ (جامع البيان عن تاويل اى القرآن 30/ 103)
علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ وحی کو چھپاتے نہیں بعض قراء نے اسے ضاد کے ساتھ پڑھا ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وحی کو آگے پہنچانے پر بخل سے کام نہیں لیتے بلکہ ہر چیز کو پہنچاتے ہیں۔ (تفسیر القرآن العظیم ج 6 ص 404)
ان واضح اور صریح آیات قرآن سے روز روشن کی طرح واضح ہوا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم غیب کا علم نہیں جانتے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نظم پر جو خبر وحی کے ذریعے نازل کی جاتی آپ ان خبروں کو بتانے میں بخیل نہ تھے اس بات کا ہر مسلمان قائل ہے لیکن قرآن وحدیث میں اتنی وضاحت آجانے کے بعد بھی جو لوگ ہٹ دھرمی کا شکار ہیں مجھے ان لوگوں کی سوچ پر ہمیشہ تعجب ہوتا ہے کہ وہ بات کو کیوں تسلیم نہیں کرتے؟
قرآنی آیات پکار پکار کر اس مسئلہ کی وضاحت فرما رہی ہیں کہ نبی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کو غیب کا علم نہ تھا۔ لیکن ہمارے کچھ بھائی اس پر اڑے ہوئے ہیں۔ اللہ حق بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ امين
حفیظ الرحمان قادری صاحب دلیل پیش کرتے ہیں : قرآن مجید فرقان حمید کی سورۃ کہف میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ جس میں حضرت خضر علیہ السلام نے کشتی کو ناکارہ بنا دیا ایک بچے کو قتل کر دیا اور ایک دیوار بنا دی۔ اس کی حکمت میں بتلایا کہ ایک ظالم درست کشتیوں کو اپنے قبضے میں لے رہا تھا۔ یہ کشتی یتیموں کی تھی میں نے عیب دار کر دی تا کہ وہ قبضے میں نہ لے یہ اس کی مرمت خود ہی کر لیں گے اور بچے کے بارے میں بتلایا کہ اس نے بڑے ہو کر گمراہ ہو جانا تھا اور اس کے والدین نے بھی اس کی محبت میں گرفتار ہو کر گمراہ ہو جانا تھا میں نے اس کو قتل کر دیا اللہ عز وجل اس کا نعم البدل عطا فرمائے گا اور دیوار کے نیچے یتیموں کا خزانہ تھا جو ان کے والد نے دفن کیا ہوا تھا تا کہ بچے بڑے ہو کر خزانہ حاصل کرلیں ۔ مگر وقت سے پہلے دیوار گرنے لگی تھی اگر گر جاتی تو لوگوں نے مال حاصل کر لینا تھا میں نے دیوار مرمت کر دی بچوں کے جوان ہونے تک ان کی دولت محفوظ
رہے گی۔
قادری صاحب نے پورے واقعہ سے یہ نتیجہ نکالا کہ خضر علیہ السلام کو بعد میں ہونے والے واقعات کا بخوبی علم تھا۔ اس کے عالم الغیب ہونے کی دلیل ہے۔

الجواب :

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے اندر خود ہی وضاحت فرمادی کہ یہ ساری باتیں اللہ تعالیٰ نے خضر علیہ السلام کو سکھا دی تھیں ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
فَوَجَدَا عَبْدًا مِنْ عِبَادِنَا آتَيْنَاهُ رَحْمَةً مِنْ عِنْدِنَا وَعَلَّمْنَاهُ مِنْ لَدُنَّا عِلْمًا قَالَ لَهُ مُوسَىٰ هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَىٰ أَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا(سورۃ الكهف: 65-66)
ان دونوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو پایا جسے ہم نے اپنے پاس سے ایک رحمت عطا کی اور اسے اپنے پاس سے علم سکھایا تھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اس سے کہا کیا میں تیرے پیچھے چلوں اس شرط پر کہ تجھے جو کچھ سکھایا گیا ہے اس سے کچھ بھلائی مجھے سکھا دے۔ ان آیات سے ثابت ہوا کہ حضرت خضر علیہ السلام کو اللہ تعالٰی نے ان باتوں کا علم پہلے سے سکھا دیا تھا اور تینوں واقعات کے اندر پائی جانے والی حکمت سے بھی آگاہ فرما دیا تھا۔ معلوم ہوا کہ خضر علیہ السلام کو غیب کا علم نہ تھا بلکہ اللہ تعالیٰ کے بتلانے سے ان کو علم ہوا کیونکہ ساری باتوں کے آخر میں فرما دیا کہ :
رَحْمَةٌ مِنْ رَبِّكَ وَمَا فَعَلْتُهُ عَنْ أَمْرِي ذَٰلِكَ تَأْوِيلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا(سورۃ الكهف: 82)
تیرے رب کی رحمت ہے اور یہ کام میں نے اپنی مرضی سے نہیں کیے حقیقت ان باتوں کی جن پر تو صبر نہ کر سکا۔
معلوم ہوا کہ حضرت خضر علیہ السلام نے تمام کام اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق کیے جیسے اللہ تعالیٰ نے ان کو سکھایا انہوں نے کوئی کام اپنی مرضی سے نہیں کیا اس سے قادری صاحب کا دعویٰ علم الغیب باطل ٹھہرتا ہے۔ اور اس پورے واقعہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عالم الغیب ہونے کی پوری نفی ہے جو قادری صاحب کو بالکل بھی نظر نہیں آئی کہ جناب موسیٰ علیہ السلام بار بار جھگڑتے اور حضرت خضر علیہ السلام کے ان کاموں پر اعتراض کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کیا جناب موسیٰ علیہ السلام ان کاموں کی اصل حقیقت سے آگاہ نہ تھے کیا ان کو ان باتوں کا علم تھا اگر تھا تو پھر حضرت خضر علیہ السلام سے علم سکھانے کی گزارش کیوں کی۔ اگر علم تھا تو انہوں نے ان اچھے کاموں پر بار بار اعتراض کیوں کیا؟ اس سے واضح معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام عالم الغیب نہ تھے۔ اس سے عالم الغیب کا عقیدہ کشید کرنا لغو اور باطل قرآن وحدیث کے خلاف ہے۔

چوتھی دلیل :

وَأُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ(سورۃ آل عمران: 49)
اور تمہیں بتاتا ہوں جو تم کھاتے اور جو تم گھروں میں جمع کر کے رکھتے ہو۔ (شرک کیا ہے صفحہ 53)

الجواب :

اس آیت مبارکہ سے حضرت عیسی علیہ السلام کا عالم الغیب ہونا ثابت نہیں ہوتا کیونکہ اس آیت کے شروع میں اس کی تصریح موجود ہے کہ یہ خطاب صرف بنی اسرائیل کو ہے کیونکہ حضرت عیسی علیہ السلام کی بعثت بھی صرف بنی اسرائیل کی طرف ہوئی اپنی قوم کے صرف چند لوگوں کے کھانے پینے کے حالات سے واقف ہونا علم غیب کلی ما كان و ما يكون کس طرح ثابت کیا جا سکتا ہے کہ ہر مذہب ہر ملک کے متعلق تفصیلی حالات معلوم تھے ۔ کچھ چیزیں ایسی تھیں کہ اللہ تعالیٰ نے بطور معجزہ حضرت عیسی علیہ السلام کو عطا فرمائی تھیں اور یہ چیزیں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کو وحی کے ذریعے بتا دیتا ہے اور یہ چیزیں عالم الغیب ما كان و ما يكون کی دلیل نہیں بن سکتی جبکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں تمام رسولوں کے عالم الغیب ہونے کی نفی فرمادی ہے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ فَيَقُولُ مَاذَا أُجِبْتُمْ قَالُوا لَا عِلْمَ لَنَا إِنَّكَ أَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ(سورۃ المائده: 109)
جس دن اللہ تعالیٰ رسولوں کو جمع فرمائے گا پھر فرمائے گا تمہیں کیا جواب ملا عرض کریں گے ہمیں کچھ علم نہیں بیشک تو ہی ہے سب غیبوں کا جاننے والا ۔ (ترجمہ احمد رضا خان صاحب بریلوی)
اس میں حضرت عیسی علیہ السلام بھی شامل ہیں لاعلمی کا اظہار کریں گے قرآن مجید کے دوسرے مقام پر حضرت عیسی علیہ السلام جو اقرار کریں گے وہ یہ ہے :
وَإِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَٰهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ إِنْ كُنْتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ إِنَّكَ أَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ(سورۃ المائده: 116)
جب اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے عیسی ابن مریم کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کے سوا مجھے اور میری والدہ کو معبود بنالو وہ کہیں گے کہ تو پاک ہے مجھے کب شایاں تھا کہ میں ایسی بات کہتا جس کا مجھے کچھ حق نہیں اگر میں نے ایسا کہا ہوگا تو تجھ کو معلوم ہوگا جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے میں نہیں جانتا بیشک تو ہی ہے سب غیبوں کا جانے والا۔
اس آیت مبارکہ سے واضح ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام غیب کا علم نہ جانتے تھے وگرنہ یہ نہ فرماتے ولا اعلم مافي نفسك لہذا قادری صاحب کا علم الغیب ما كان وما يكون كا دعوى باطل ٹھہرا۔

پانچویں دلیل :

حضرت سلیمان علیہ السلام چیونٹی کی آواز سن کر مسکرائے۔
(سورۃ النمل: 19)
یہ سب غیب کی خبریں ہیں حواس خمسہ ان کا ادراک نہیں کر سکتے اور ان کو خبر ہے۔ لہذا یہ عقیدہ رکھنا چاہیے کہ اللہ عزوجل کی عطا سے انبیاء کرام اور اولیاء کرام بھی غیب جانتے ہیں۔ (کتاب شرک کیا ہے صفحہ 53)

الجواب :

قارئین محترم چیونٹی کی زبان کو سمجھنا جناب سلیمان علیہ السلام کا معجزہ خاصہ تھا جو کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرمایا تھا جیسا کہ قرآن مجید میں ہے :
وَلَقَدْ آتَيْنَا دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ عِلْمًا وَقَالَا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي فَضَّلَنَا عَلَىٰ كَثِيرٍ مِنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِينَ (سورۃ النمل: 15)
اور بیشک ہم نے داود علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام کو بڑا علم عطا فرمایا اور دونوں نے کہا یہ سب خوبیاں اللہ کو جس نے ہمیں اپنے بہت سے ایمان والے بندوں پر فضیلت بخشی۔
یہ حضرت سلیمان علیہ السلام پر اللہ تعالیٰ کا خاص انعام تھا کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں تمام جن وانس اور پرندوں اور حیوانات پر حکومت عطا فرمائی اور انہیں پرندوں کی بولیاں بھی سکھائیں مگر اس کے با وجود عالم كان وما يكون كا علم عطانہ فرمایا۔
سیدنا سلیمان علیہ السلام نے ایک دفعہ پرندوں کی حاضری لی تو ھد ھد کو اپنی مجلس میں حاضر نہ پایا اس کے متعلق دوسرے حاضرین سے پوچھا کیا ھد ھد مجھے ہی صرف نظر نہیں آرہا یا واقعی وہ ہے ہی غیر حاضر۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس بات کو قرآن کریم میں یوں بیان کیا:
وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ فَقَالَ مَا لِي لَا أَرَى الْهُدْهُدَ أَمْ كَانَ مِنَ الْغَائِبِينَ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذَابًا شَدِيدًا أَوْ لَأَذْبَحَنَّهُ أَوْ لَيَأْتِيَنِّي بِسُلْطَانٍ مُبِينٍ فَمَكَثَ غَيْرَ بَعِيدٍ فَقَالَ أَحَطْتُ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهِ وَجِئْتُكَ مِنْ سَبَإٍ بِنَبَإٍ يَقِينٍ(سورۃ النمل: 20-22)
اور جب انہوں نے پرندوں کا جائزہ لیا تو کہنے لگے کیا سبب ہے کہ ھد ھد نظر نہیں آتا کیا کہیں غائب ہو گیا ہے میں اسے سخت سزا دوں گا یا ذبح کر ڈالوں گا یا میرے سامنے صریح دلیل پیش کرے ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ ھد ھد آموجود ہوا اور کہنے لگا مجھے ایک ایسی چیز معلوم ہوئی ہے جس کی آپ کو خبر نہیں اور میں آپ کے پاس شہر سبا سے ایک ایسی یقینی خبر لے کر آیا ہوں۔
ان آیات سے ثابت ہوا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو علم غیب نہ تھا اگر ان کو علم غیب ہوتا تو جانوروں کی حاضری لگانے کی ضرورت نہ ہوتی اور ھد ھد کو نہ پا کر پریشان نہ ہوتے غصہ نہ کرتے کیونکہ انہیں معلوم ہوتا کہ ھد ھد ایک بڑی مفید جاسوسی کرے گا جس کی وجہ سے ملک سبا کے لوگ ایمان لے آئیں گے اور وہ پورا ملک بھی ہمارے زیر اثر ہو جائے گا اور ھد ھد نے بھی بڑی بے باکی سے جواب دیا مجھے ایک خبر معلوم ہے مگر آپ کو اس کا علم نہیں کہ ملک سبا میں ایک عورت بادشاہی کرتی ہے اگر سلیمان علیہ السلام کو علم غیب ہوتا تو ان کو ضرور ملک سبا اور اس حکمران عورت کا علم ہوتا ۔ جب ھد ھد نے یہ ساری بات بتادی تو بھی حضرت سلیمان علیہ السلام کو یقین نہیں آرہا تھا۔ سیدنا سلیمان علیہ السلام فرمانے لگے ہمارا یہ خط لے جاؤ اور سبا والوں سے اس کا جواب لے آؤ تا کہ ہمیں معلوم ہو چنانچہ قرآن کریم میں الفاظ موجود ہیں :
قَالَ سَنَنْظُرُ أَصَدَقْتَ أَمْ كُنْتَ مِنَ الْكَاذِبِينَ(سورۃ النمل: 27)
تو نے سچ کہا ہے یا تو جھوٹا ہے۔
معلوم ہوا کہ سلیمان علیہ السلام کو تحقیق کے بغیر اس کا یقین نہیں آرہا تھا۔ اگر غیب جانتے ہوتے تو ھد ھد کی بات سے پہلے ہی انہیں ساری بات کا علم ہوتا پھر بتلانے کے بعد یقین کر لیتے کہ ھد ھد کی بات بالکل سچی ہے خط بھیج کر جھوٹ یا سچ کی تحقیق کی ضرورت نہ ہوتی ۔ اگر عدل وانصاف سے فیصلہ کیا جائے تو بات نصف النہار سورج کی طرح واضح ہے کہ جناب سلیمان علیہ السلام کا لشکر جب وادی میں آیا تو ایک چیونٹی نے کہا :
يَا أَيُّهَا النَّمْلُ ادْخُلُوا مَسَاكِنَكُمْ لَا يَحْطِمَنَّكُمْ سُلَيْمَانُ وَجُنُودُهُ وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ (سورۃ النمل: 18)
اے چیونٹیو! اپنے بلوں میں داخل ہو جاؤ ایسا نہ ہو کہ سلیمان اور اس کے لشکر تم کو کچل ڈالیں اور ان کو خبر بھی نہ ہو۔
چیونٹی کا سائز چھوٹا ہوتا ہے مگر پھر بھی اُس کو یہ سمجھ ہے کہ ہماری موجودگی کا علم نہ سلیمان کو ہے نہ ان کے فوجیوں کو رہی بات کہ جناب سلیمان علیہ السلام نے چیونٹی کی بات کو کیسے سمجھا اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ وَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّيْرِ وَأُوتِينَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ إِنَّ هَٰذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِينُ(سورۃ النمل: 16)
سلیمان علیہ السلام داود علیہ السلام کا وارث بنا اور اس نے کہا اے لوگو ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی اور ہمیں ہر چیز میں سے حصہ دیا گیا ہے بے شک یہ یقینا یہی واضح فضل ہے۔
یعنی اللہ تعالیٰ نے انہیں تمام جانوروں کی بولیاں سکھائی تھیں لیکن پرندوں کا ذکر خاص طور پر کیا گیا ہے اور ہر چیز سے مراد جس چیز کی ان کو ضرورت تھی جیسے علم نبوت حکمت مال جن وانس اور طیور وحیوانات کی تسخیر وغیرہ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام اتنی عظمت وفضیلت کے باوجود عالم الغیب نہیں تھے لیکن آپ علیہ السلام پرندوں کے علاوہ دیگر جانوروں کی بولیاں بھی سمجھتے تھے یہ علم بطور معجزہ اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرمایا تھا جس طرح جنات وغیرہ کی تسخیر معجزاتی شان تھی۔ چیونٹی جیسی حقیر مخلوق کی گفتگو سن کر سمجھ لینے سے حضرت سلیمان علیہ السلام کے دل میں شکر گزاری کا احساس پیدا ہوا کہ اللہ نے مجھ پر کتنا انعام فرمایا۔
اس آیت سے عالم الغیب کا عقیدہ رکھنا باطل ہے۔ اولیاء کے غیب جاننے کی دلیل تو پیش کرتے محض قصے کہانیوں سے عقاید ثابت نہیں ہوتے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کرام علیہم السلام اور امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے علم غیب کی نفی فرمائی اور جن کو ہمارے بھائی اولیاء اللہ کہتے ہیں ان کے تو اولیاء اللہ ہونے کی بھی دلیل قرآن وسنت سے ثابت نہیں اولیاء اللہ کس طرح غیب جانتے ہیں ہمارے وطن عزیز پاکستان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نعلین کو گم ہوئے پانچ سال سے تقریبا زائد عرصہ بیت چکا ہے مگر ابھی تک بازیاب نہ ہو سکے اور اولیاء اللہ کی محبت کے سب سے زیادہ دعوے دار جلوس نکال رہے ہیں یہ اولیاء لوگ کیوں نہیں بتاتے کہ نعلین کے چور کہاں ہیں چند دن پہلے میں اردو بازار گیا وہاں ایک بڑا اشتہار دوکان کے باہر چسپاں تھا ۔ جس پر یہ عبارت درج تھی کہ حکومت بتائے کہ نعلین پاک کے چور کہاں ہیں تو میں نے اس وقت سوچا کہ حکومت کوئی عالم الغیب ہے کہ اس کو پتہ ہو کہ چور کہاں یہ جو اتنے ہزار سجادہ نشین جو غیب دان ہیں ان کو پتہ کیوں نہیں چلتا کہ نعلین پاک کے چور کہاں ہیں اگر پتہ ہے تو بتاتے کیوں نہیں۔ ان ہستیوں سے پوچھا جائے حالانکہ ہمارے ملک میں بدقسمتی سے اتنے زیادہ بم دھماکے ہورہے ہیں اور یہ غیب دان حضرات پہلے ہی سے کیوں نہیں بتا دیتے کہ فلاں جگہ کل دھماکہ ہوگا وہاں کوئی نہ جائے تا کہ مسلمانوں کی قیمتی جانوں کو بچایا جائے۔ پھر دھماکہ ہو جانے کے بعد کیوں نہیں بتاتے کہ یہ دھماکہ کس نے کیا اور کرنے والا اس وقت کہاں ہے تا کہ اُسے فوری گرفتار کیا جائے اور اُس کو اس جرم کی سزا دی جائے روزانہ کتنے ہی اندھے قتل ہوتے ہیں مگر عرصہ بیت جاتا ہے قاتل کا پتہ نہیں چلتا یہ بتا کیوں نہیں دیتے کہ اس کا قاتل کون ہے؟ اتنے زیادہ اغوا برائے تاوان ہوتے ہیں مگر یہ اولیاء کرام جو غیب جانتے ہیں اغوا کاروں کا نام پتہ ٹھکانا کیوں نہیں بتاتے تاکہ ان ظالموں کا ملک سے صفایا کیا جائے روزانہ اتنی ڈکیتیاں اور ڈاکے ڈالے جاتے ہیں کہ چور لاکھوں کروڑوں کا سامان لے کر چلے جاتے ہیں مگر پتہ نہیں چلتا کہ ڈاکہ کس نے ڈالا اور ڈاکو کون اور کہاں ہیں میرے سامنے کئی واقعات آئے جب بھی کسی گدی نشین سے پوچھا تو نہ بتا سکے بلکہ آئیں بائیں شائیں میں وقت ٹال دیا تو پھر ہم کس طرح یقین کر لیں کہ اولیاء حضرات غیب کا علم جانتے ہیں۔ قرآن تو انبیاء کرام علیہم السلام کے علم غیب کی بھی نفی کرتا ہے اور اولیاء کیسے غیب کا علم جانتے ہیں جن بھائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ غیب کا علم جانتے ہیں براہ کرم جب کوئی ایسا واقعہ پیش آئے تو پیر صاحب سے ضرور پوچھیں ۔ اگر وہ صحیح بتا دے تو اپنے عقیدہ پر پکا ہو جائے اگر نہ بتا سکے اور یقینا بتا سکتا بھی نہیں تو پھر جو عقیدہ اللہ نے قرآن میں بتایا ہے کہ زمین و آسمان کے اندر اللہ کے علاوہ کوئی غیب نہیں جانتا اس بات پر یقین کرلے اور قرآن وحدیث کے مطابق اپنا عقیدہ درست کر لے کیوں کہ نجات اسی میں ہے۔

چھٹی دلیل :

وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا(سورۃ النساء: 113)
اور تمہیں سکھا دیا جو کچھ تم نہ جانتے تھے اور اللہ کا تم پر بڑا فضل ہے۔
اس آیت سے نتیجہ یہ نکالا کہ جو کچھ تو نہیں جانتا تھا سب کچھ سکھا دیا یہ نتیجہ درست نہیں کہتے ہیں ما عموم پر دلالت کرتا ہے اس میں کوئی قید نہیں۔ (شرک کیا ہے صفحہ54)

الجواب :

اس آیت مبارکہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ کچھ سکھایا ہے جن کا آپ کو پہلے سے علم نہیں تھا اس کا مطلب عالم ما كان وما يكون نہیں ہے۔ اگر اس کا مطلب یہی ہو تو پھر یہ الفاظ تو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دوسرے عام لوگوں کے لیے بھی استعمال کیے ہیں چنانچہ ارشاد فرمایا :
وَعَلَّمَكُمْ مَا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُوا أَنتُمْ وَلَا آبَاؤُكُمْ قُلِ اللَّهُ ثُمَّ ذَرْهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ(سورۃ الانعام: 91)
اور تم کو وہ باتیں سکھائی گئیں جن کو نہ تم جانتے تھے اور نہ تمہارے باپ دادا کہہ دو اللہ نے نازل فرمایا ہے پھر ان کو ان کے خرافات میں کھیلتے رہنے دیجئے۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
وَيُعَلِّمُكُمْ مَا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ(سورۃ البقره: 151)
اور وہ تمہیں سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے۔
کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو ما كان و ما يكون کا علم غیب سکھاتے تھے۔ اس سے پہلی آیت میں کیا یہ مخاطب اور ان کے آباؤ اجداد سب عالم الغیب ہی تھے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا :
وَأَتَاكُمْ مَا لَمْ يُؤْتِ أَحَدًا مِنَ الْعَالَمِينَ(سورۃ المائده: 20)
اور تمہیں وہ دیا جو تمام عالم میں کسی کو نہ دیا۔
تو کیا اللہ تعالیٰ نے انہیں کائنات کی ہر چیز دے دی تھی جو کسی کو نہ دی تھی بقول قادری صاحب ما کا عموم کا مطلب تو ان آیتوں میں یہی ہونا چاہیے۔
مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتَابِ مِنْ شَيْءٍ(سورۃ الانعام: 38)
ہم نے کتاب میں کوئی چیز نہیں چھوڑ دی۔
پھر ساری کی ساری چیزیں قرآن کے اندر موجود ہیں تو پھر فقہ کے مسائل کے حل کے لیے بنانے کی کیا ضرورت ہے خود ہی کہتے ہیں کہ قرآن وحدیث میں جو مسائل نہیں ملتے پھر فقہ حنفی میں حل تلاش کرتے ہیں قرآن نے تو کوئی مسئلہ چھوڑا ہی نہیں آیت میں عموم جو پایا جاتا ہے جس طرح قادری صاحب نے عالم ما كان وما يكون کو ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔
ایک اور مقام پر فرمایا :
عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ (سورۃ العلق: 5)
انسان کو وہ باتیں سکھائیں جو وہ نہ جانتا تھا۔ اگر ما کا لفظ عموم پر ہمیشہ دلالت کرتا ہے تو پھر ہر انسان عالم الغیب ہے چاہے انسان مسلم ہو یا غیر مسلم عورت ہو کہ مرد کیونکہ اس سے مراد جنس انسان ہے۔ (تفسیر جلالین ص 503)
اصل بات یہ ہے کہ ما اور من عموم اور خصوص دونوں کا احتمال رکھتے ہیں اگرچہ اصل دونوں کا عموم ہے۔
اصل اس سے مراد یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو کتاب شریعت اسلام اور ایمان کا علم نہ تھا پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی تعلیم دی جیسا کہ قرآن مجید میں ہے :
وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِنْ أَمْرِنَا مَا كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتَابُ وَلَا الْإِيمَانُ(سورۃ الشورى: 52)
اور اسی طرح ہم نے اپنے حکم سے تمہاری طرف روح القدس کے ذریعے سے قرآن بھیجا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ تو کتاب کو جانتے تھے اور نہ ایمان کو ۔ اگر اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب بنایا ہوتا تو پھر قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
قُلْ لَا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ (سورۃ الانعام: 50)
کہہ دو کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ ہی میں غیب جانتا ہوں اور نہ تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں میں تو صرف اس حکم پر چلتا ہوں جو مجھے وحی کی جاتی ہے۔
قُلْ مَا كُنْتُ بِدْعًا مِنَ الرُّسُلِ وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي وَلَا بِكُمْ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ(سورۃ الاحقاف: 9)
کہہ دو کہ میں کوئی نیا پیغمبر نہیں آیا اور میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا میں تو اس کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر وحی آتی ہے۔
میری گزارش ہے کہ قرآن مجید کے واضح دلائل کے آجانے کے بعد ہٹ دھرمی کو چھوڑ کر تعصب کی عینک کو اتار کر معرفت حق کا صحیح ادراک کرنا چاہیے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے قرآن وسنت کے مطابق عقیدہ رکھنا چاہیے۔
قارئین محترم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کوئی بھی خبر دی ہے وہ بذریعہ وحی تھی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود ہی فرما دیا :
وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ(سورۃ النجم: 3-4)
اور نہ وہ اپنی خواہش سے بولتا ہے مگر وہ تو صرف وحی ہے جو اتاری جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو قرآن وحدیث سے ثابت شدہ عقاید کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمين
میرے دل کو دیکھ کر میری وفا کو دیکھ کر
بندہ پرور منصفی ہے کرنا خدا کو دیکھ کر
دار دنیا سے کسی روز سفر ہے کہ نہیں
اور محشر کا کچھ خوف و خطر ہے کہ نہیں

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے