مسئلہ علم الغیب پر قرآنی دلائل

اس تحریر کا پی ڈی ایف لنک

کیا اللہ تعالٰی نے اپنے علاوہ کسی اور کو بھی کہا ہے کہ وہ غیب جانتا ہے؟

کچھ مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ انبیاء کرام، اولیاء کرام اور جنات غیب جانتے ہیں تو آئیے دیکھتے ہیں کہ اللہ پاک نے اس بارے میں کیا ارشاد فرمایا ہے:

➊ ’’تو کہہ کہ جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہے غیب نہیں جانتا مگر اللہ، اور ان کو خبر نہیں کہ کب زندہ کئے جاویں گئے‘‘

( النمل 65)

➋ ’’اور جب کہا تیرے رب نے فرشتوں کو مجھ کو بنانا ہے زمین میں ایک نائب ، بولے کیا تو رکھے گا اس میں جو شخص فساد کرے وہاں اور کرے خون، اور ہم پڑھتے ہیں تیری خوبیاں اور یاد کرتے ہیں تیری پاک ذات کو، کہا مجھ کو معلوم ہے جو تم نہیں جانتے اور بتائے آدم کو نام سارے پھر وہ دکھائے فرشتوں کو ، کہا بتاؤ مجھ کو نام ان کے اگر ہوتم سچے . بولے تو سب سے نرالا ہے ہم کو معلوم نہیں مگر جتنا تو نے سکھایا تو ہی ہے اصل دا نا پختہ کار کہا اے آدم بتا دے ان کو نام انکے، پھر جب اس نے بتا دیئے نام ان کے ، کہا میں نے نہ کہا تھا تم کو کہ میں آسمانوں اور زمین کے غیب جانتا ہوں، اور جو تم ظاہر کرتے ہو اور جو چھپاتے ہو وہ جانتا ہوں“

(البقرہ 30 تا 33)

➌ وہی غیب کی بات جانے والا ہے ، اور کسی پر اپنے غیب کو ظاہر نہیں کرتا۔ ہاں جس رسول کو پسند فرمائے تو اس کو غیب کی باتیں بتا دیتا ہے اور اس کے آگے پیچھے نگہبان مقرر کر دیتا ہے‘‘۔

(جن 26-27 )

➍ ’’اور اللہ یوں نہیں ، کہ تم کو خبر دے غیب کی لیکن اللہ چھانٹ لیتا ہے اپنے رسولوں میں ، جس کو چاہے‘‘۔

(ال عمران 179)

➎ ’’جس دن اللہ جمع کرے گا رسولوں کو پھر کہے گا تم کو کیا جواب دیا، بولیں گے ہم کو علم نہیں ، بیشک تو ہی غیبوں کو جانتا ہے‘‘۔

(المائدہ 109)

➏ ’’تارے کی قسم جب غائب ہونے لگے کہ تمہارا رفیق نہ رستہ بھولا نہ بھٹکا ہے اور نہ خواہش نفس سے منہ سے بات نکالتا ہے، یہ تو اللہ کا حکم ہے جو بھیجا جاتا ہے‘‘۔ٖ

(النجم 1تا4)

➐ ’’کہو کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں ، اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں، میں تو صرف اسی حکم پر چلتا ہوں جو میری طرف وحی ہوتا ہے، کہو کہ بھلا اندھا اور آنکھ والا برا بر ہوتے ہیں، بھلا تم غور کیوں نہیں کرتے‘‘

(الانعام 50)

➑ اور بعضے تمہارے گرد کے گنوار منافق ہیں، اور بعضے دینے والے اڑ رہے ہیں نفاق پر تو ان کو نہیں جانتا، ہم کو معلوم ہیں، ان کو ہم عذاب کریں گے دوبارہ پھر پھیرے جاویں گے بڑے عذاب میں‘‘

(توبہ 101)

➒ ’’پھر جب تقدیر کی ہم نے اس پر موت نہ جتایا ان کو اس کا مرنا مگر کیڑے نے گھن کے کھاتا رہا اس کا عصا، پھر جب وہ گھر پڑا معلوم کیا جنوں نے کہ اگر خبر رکھتے ہوتے غیب کی نہ رہتے ذلت کی تکلیف میں‘‘

(سبا 14)

➓ ’’اللہ جو ہے اس پاس ہے قیامت کی خبر ، اور اتا رتا ہے مینہ ، اور جانتا ہے جو ہے ماں کے پیٹ میں ، اور کوئی ہی نہیں جانتا ، کیا کرے گا گل ، اور کوئی ہی نہیں جانتا ، کس زمین میں مرے گا ، تحقیق اللہ ہی سب جانتا ہے خبر دار‘‘

( لقمٰن 34)

⓫ ’’یہ بعضی خبریں ہیں غیب کی کہ ہم بھیجتے ہیں تیری طرف ، ان کو جانتا نہ تھا تو اور نہ تیری قوم اس سے پہلے سو تو ٹھہرارہ، البتہ آخر بھلا ہے ڈروالوں کا‘‘

(ہود 49)

⓬ ’’اور جب چھپا کر کہی نبی نے اپنی کسی عورت سے ایک بات ، پھر جب اس نے خبر کر دی اس کی اور اللہ نے جتا دیا نبی کو یہ جتائی نبی نے اس میں سے کچھ اور ملا دی کچھ، پھر جب وہ جتا یا عورت کو ، بولی تجھ کو کس نے بتا یا یہ ؟ کہا مجھ کو بتا یا اس خبر والے واقف نے ‘‘

(التحریم 3)

⓭ ’’اللہ اس پر چھپی نہیں کوئی چیز زمین میں اور نہ آسمان میں ‘‘

(آل عمران 5 )

⓮ ’’ اور آسمانوں زمین کے غیب اللہ کے پاس ہیں، اور قیامت کا آنا ایسا ہے جیسے آنکھ کا جھپکنا یا اس سے بھی پہلے ، بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے‘‘

(النحل 77)

⓯ ’’اور اگر نہ ہوتے کہتے مرد ایمان والے ، اور کئی عورتیں ایمان والیاں ، جو تم کو معلوم نہیں، یہ خطرہ کہ ان کو میں ڈالتے ، پھر تم پر خرابی پڑاتی بے خبری سے‘‘

(الفتح 25)

⓰ ’’تو کہہ‘ اللہ خوب جانتا ہے جتنی مدت وہ ر ہے ، اسی پاس ہیں چھپے بھید آسمان اور زمین کے جب دیکھا سنتا ہے، کوئی نہیں بندوں پر اس کے سوامختار ، اور نہیں شریک کرتا اپنے حکم میں کسی کو ‘‘

(الکہف 26)

⓱ ’’بہانے لاویں گے تمہارے پاس ، جب پھر کر جاؤ گے ان کی طرف ، تو کہہ بہانے مت بناؤ، ہم ہر گز نہ مانیں گے تمہاری بات ، ہم کو بتا چکا ہے اللہ تمہارے احوال ، اور ابھی دیکھے گا اللہ تمہارے کام ، اور اس کا رسول ، پھر پھیرے جاؤ گے طرف اس جاننے والے چھپے اور کھلے کے ہو وہ بتادے گا تم کو جو کر رہے تھے‘‘

(التوبہ 94)

مزید ثبوت کے لئے یہ آیات اور ان کا صحیح ترجمہ قرآن مجید سے سمجھ کر پڑھ لیجئے

النساء 113 المائده 109 ، 116 الانعام 59 الاعراف 188 التوبه 78 ‘ 94 تا 96 ‘ 107-108 ھود 31 . 123 يوسف 67 تا 86 ‘ 93 تا 96 ‘ 102 الكهف 26 ‘ 65 تا 82 الشمل 16 تا 22 سبا 48 الحجرات 18 جن 8 تا 10 التحريم 3

اس سے یہ معلوم ہوا کہ غیب کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا اللہ پاک انبیاء کرام کو غیب کی باتیں بتا دیتا تھا رسول اللہ ﷺ نے قیامت کے آنے کے بارے میں یا اور جو غیب کی باتیں صحابہ کرام کو بتائیں وہ سب اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتادی تھیں کیونکہ ہمارے محبوب آقا ﷺ اپنی مرضی سے نہیں بولتے تھے بلکہ اللہ کے حکم سے بولتے تھے اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو بھی خواب، القاء الہام کے ذریعے بھی غیب کی باتیں بتا دیتا ہے کسی کا فر کو بھی اللہ تعالیٰ سچا خواب دکھا سکتا ہے جیسے سورہ یوسف میں ہے کہ دوقید یوں اور عزیز مصر کے خوابوں کی تعبیر بالکل وہی نکلی جو حضرت یوسف علیہ السلام نے انھیں بتائی تھی جو جادو گر کسی کو گزرے ہوئے دنوں کی خبر دے دیتے ہیں تو وہ غیب نہیں ہوتا بلکہ وہ جنات کے ذریعے یہ کام کرتے ہیں، چونکہ ہر انسان کے ساتھ ایک شیطان جن ہوتا ہے تو جادو گر اسلام کے منافی جادو کے عمل سے جنات سے پوچھ کر گزرے ہوئے واقعات لوگوں کو بتا دیتے ہیں، انھوں نے اپنا ایمان تو بر باد کرہی دیا ہے ایسی باتیں ہو چھنے والوں کے ایمان کو بھی برباد کر دیتے ہیں. رسول اللہ ﷺ صحابہ کرام اور تابعین بھی صرف اللہ ہی کو علام الغیوب سمجھتے تھے کتنا اچھا ہو کہ ہم ان بہترین زمانے والوں کے پیچھے چلیں جن کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ سب سے بہترین زمانہ میرا زمانہ ہے اور اس کے بعد مجھے دیکھنے والوں کا اور اس کے بعد مجھے دیکھنے والوں کے دیکھنے والوں کا
( صحیح بخاری )

کیا ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ ساتھ انبیاء کرام اور فوت شدہ اللہ کے نیک بندوں سے مدد مانگ سکتے ہیں

آج کل سب مسلمہ کا ایک گروہ یہ کھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ساتھ انبیاء اولیاء، جنات وغیرہ بھی انسان کو فائدہ بھی دے سکتے ہیں اور نقصان بھی لہٰذا وہ ان سے مدد مانگتے ہیں اور ان کی پناہ ڈھونڈتے ہیں بعض مسلمان جب کسی بیماری یا تکلیف میں ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کہ فلاں پیر کی قبر کا پھیر اور اسلام مانو پھر اگر وہ مصیبت اللہ پاک دور کر دیتا ہے تو وہ اس بزرگ کے نام کی نیاز دیتے ہیں ، ان کی قبر پر جا کر ان کا شکر یہ ادا کرتے ہیں ، ان کے مزار پر بکرا یا اس سے ملتی جلتی چیز جو ان کے لئے مالی تھی دیتے ہیں حقیقت میں یہ انسان اس وقت کرتا ہے جب وہ اللہ کے ساتھ ساتھ کسی اور ہستی کو بھی نفع و نقصان ، صحت و مرض دینے ، زندگی و موت دینے ، عزت وذلت دینے کا مالک ، بگڑی بنانے اور دعا قبول کرنے کا مالک سمجھ لیتا ہے اس سلسلے میں اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات دیکھتے ہیں:

اللہ پاک فرماتا ہے۔

➊ ’’اور اگر اللہ تمہیں کوئی تکلیف پہنچائے تو اسے اس کے سوا کوئی دور کرنے والا نہیں۔ اور اگر بھلائی کرنا چاہے تو اسے کوئی روکنے والا نہیں، اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے پہنچائے۔ اور دو گھنٹے والا مہربان ہے

(یونس 107)

➋ ’’اگر اللہ تم کو مدد کرے گا تو کوئی تم پر غالب نہ ہو گا۔ اور جو وہ تم کو چھوڑ دے پھر کون ہے کہ اس کے بعد تمہاری مدد کرے گا، اور مومنوں کو اللہ پر بھروسہ رکھنا چائیے‘‘

(آل عمران 160)

➌ ’’تو کہہ میں اپنی جان کے فائدے اور نقصان کا مالک نہیں گر جو اللہ چا ہے، اور اگر میں غیب کی بات جانتا تو بہت خو بیاں لیتا، اور مجھ کو برائی کبھی نہ پاتی، میں تو یہی ہوں ڈر اور خوشی منائے والا ایمان والوں کو ‘‘

(الاعراف 188)

➍ ’’کہو کہ میں تو اپنے نقصان اور فا ئدے کا کچھ اختیار نہیں رکھتا مگر جو اللہ چاہے‘‘۔

(یونس 48)

➎ ’’تو کہہ میرے ہاتھ نہیں تمہارا ہے اور نہ راوی لانا تو کہہ‘ مجھ کو نہ بچاوے گا اللہ کے ہاتھ سے کوئی ، اور نہ بچائے گا اس کے سوا کہیں سرک رہنے کی جگہ ‘‘

( جن 21-22 )

➏ ’’اور اگر ان کی روگردانی تم پر شاق گزرتی ہے تو اگر طاقت ہو تو زمین میں کوئی سرنگ ڈھونڈ نکالو یا آسمان میں سیڑھی ، پھر ان کے پاس کوئی معجزه لا ؤ ، اور اگر اللہ چاہتا تو سب کو ہدایت پر جمع کر دیتا ، پس تم ہرگز نادانوں میں نہ ہونا‘‘۔

(الانعام 35)

➐’’اور جب میں بیمار ہوں تو وہی شفا دیتا ہے‘‘

(الشعراء 80)

➑ سو جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو ہمیں پکارتا ہے، پھر جب ہم اسے اپنی طرف سے کوئی نعمت بخشیں تو کہتا ہے یہ تو مجھے میرے علم سے ملی‘ نہیں بلکہ یہ تو آزمائش ہے ، اور لیکن بہت سے لوگ نہیں سمجھتے‘‘

(الزمر 49)

➒ ’’تجھ ہی کو بندگی کریں اور تجھ ہی سے مدد چاہیں‘‘

(الفاتحہ 4)

➓ ’’تو کہہ کس کا کچھ چلتا ہے اللہ سے تمہارے واسطے ؟ اگر وہ چاہے تم پر تکلیف یا چاہے تمہارا فائدہ ، بلکہ اللہ ہے تمہارے کام سے خبر دار ‘‘

(الفتح 11)

⓫ ’’ اور ایوب کو جس وقت پکارا اپنے رب کو، کہ مجھ کو پڑی ہے تکلیف ، اور تو ہے سب رحم والوں سے رحم والا پھر ہم نے سن لی اس کی پکار ہواٹھا دی جو اس پر تھی تکلیف، اور دیے اس کو اس کے گھر والے، اور ان کے برابر ساتھ ان کے اپنے پاس کی مہر سے اور نصیحت بندگی والوں کو “

(الانبیاء 83-84)

فرعون کے اذیتیں دینے پر موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا:

⓬ ’’موسیٰ نے کہا اپنی قوم کو مدد مانگو اللہ سے ، اور ثابت رہو ، زمین ہے اللہ کی ، اس کا وارث کرے جس کو چاہے اپنے بندوں میں، اور آخر بھلا ہے ڈروالوں کا‘‘

( الاعراف 128)

جب نوح علیہ السلام کی قوم نے آپ کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے لائی ہوئی تعلیمات کو ٹھکرا دیا تو انھوں نے اللہ پاک سے یوں مدد مانگی :

⓭ ’’بولا اے رب ! تو مدد کر میری کہ انھوں نے مجھ کو جھٹلایا‘‘

(المومنون 26)

جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ نفع و نقصان کا مالک تو اللہ ہے لیکن فوت شدہ نیک لوگ بھی ایسا کر سکتے ہیں:

جولوگ یہ عقید در رکھتے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ساتھ اللہ کے نیک فوت شدہ بندے بھی کسی کو تکلیف دینے ، فائدہ پہنچانے ، حفاظت کرنے وغیرہ کے مالک ہیں، ایسے لوگ اللہ پاک کے ان واضح احکامات کا کیا جواب دیں گے۔

➊ ’’تو کہہ، دیکھو تو ، اگر آوے تم پر عذاب اللہ کا ، یا آوے تم پر قیامت ، کیا اللہ کے سوا کس کو پکارو گے ؟ بتاؤ اگر تم بچے ہو بلکہ اس کو پکارتے ہو ، پھر کھول دیتا ہے جس پر پکارتے تھے ، اگر چاہتا ن مقدور ہے، اور بھول جاتے ہو جن کو شریک کرتے تھے‘‘

(الانعام 40-41)

➋ ’’تو کہہ‘ کون تم کو بچا لاتا ہے ، جنگل کے اندھیروں سے اور دریا کے ، جس کو پکارتے ہو گرد گڑاتے اور چپکے، اور اگر ہم کو بچا لیوے اس بلا سے، تو البتہ ہم احسان مانیں تو کہ اللہ تم کو بچاتا ہے ان سے، اور ہر گھبراہٹ سے، پھر تم شریک ٹھہراتے ہو‘‘

(الانعام 63-64 )

➌ ’’بھلا کون پہنچتا ہے پھسنے کی پکار کو ؟ جب اس کو پکارتا ہے، اور اٹھا دیتا ہے برائی ، اور کرتا ہے تم کو نائب زمین پر ، اب کوئی حاکم ہے اللہ کے ساتھ ؟ تم سوچ کم کرتے ہو‘‘

(النمل 62)

➍ ’’پھر جب سوار ہوئے کشتی میں، پکارنے لگے اللہ کو ، نرے اسی پر رکھ کر نیت ، پھر جب بچا لایا ان کو زمین کی طرف اسی وقت لگے شریک پکڑنے“

(العنکبوت 65 )

➎ ’’اور اسی کا ہے جو کچھ ہے آسمانوں میں اور زمین میں ، اور اسی کا انصاف ہے ہمیشہ، سو کیا اللہ کے سوا کسی سے خطرہ رکھتے ہو اور جو تمہارے پاس ہے کوئی نعمت ہو اللہ کی طرف سے، پھر جب لگتی ہے تم کوختی ، تو اسی کی طرف چلاتے ہو پھر جب کھول دی تختی تم سے ، تب ہی ایک فرقہ تم میں ، اپنے رب کے ساتھ لگتا ہے شریک بتانے تا منکر ہو جا وہیں اس چیز سے جو ہم نے دی سو برت لو، آخر معلوم کرو گے اور ٹھہراتے ہیں ایسوں کو ، جن کی خبر نہیں رکھتے ایک حصہ ہماری دی روزی میں سے ، ہم اللہ کی ! تم سے پوچھنا ہے جو جھوٹ باندھتے تھے‘‘

(النحل 52 تا 56)

➏ ’’اور جب لگے لوگوں کو کچھ سختی ، پکار رہیں اپنے رب کو اس کی طرف رجوع ہو کر پھر جہاں چکھائی ان کو اپنی طرف سے کچھ مہر‘ تبھی ایک لوگ ان میں اپنے رب کا شریک لگے بتانے، کہ منکر ہو جاویں ہمارے دیئے سے سو کام چلا لو اب ، آگے جان لو گے کیا ہم نے ان پر اتاری ہے کوئی سند؟ سو وہ بولتی ہے جو یہ شریک بتاتے ہیں. اور جب چکھا دیں ہم لوگوں کو کچھ مہر ، اس پر ریجھنے لگیں ، اور اگر آپڑے ان پر کوئی برائی، اپنے ہاتھوں کے بھیجے پر بھی آس تو ڑ دیویں‘‘

(الروم 33 تا 36 )

➐ ’’اور پوجتے ہیں اللہ کے سوا ایسوں کو ، جو مختار نہیں ان کی روزی کے آسمان و زمین سے کچھ ، اور نہ مقدور رکھتے ہیں سومت بٹھاؤ اللہ پر کہاوتیں، اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے‘‘

(النحل 73-74)

➑ ’’تو کہہ کس کی ہے زمین اور جو کوئی اس کے بیج ہے، بتاؤ اگر تم جانتے ہو ؟ اب کہیں گے اللہ کو‘ تو کہہ، پھر تم سوچ نہیں کرتے ؟ تو کہہ کون ہے مالک سات آسمانوں کا ، اور مالک اس بڑے تخت کا ؟

اب بتا دیں گے اللہ کو، تو کہ پھر تم ڈر نہیں رکھتے ؟ تو کہہ کس کے ہاتھ ہے حکومت ہر چیز کی ؟ اور وہ بچالیتا ہے، اور اس سے کوئی نہیں بچا سکتا ، بتاؤ اگر تم جانتے ہو ۔ اب بتا دیں گے اللہ کو‘ تو کہہ پھر کہاں سے تم پر جادو پڑ جاتا ہے‘‘
(المومنون 84تا89)

ویسے تو اللہ کے مختار کل ہونے کی بیشمار مثالیں ہیں مگر قرآن مجید سے چند مثالیں سنیے :

’’یا جیسے وہ شخص کہ گزرا ایک شہر پر اور وہ گھر اپڑا تھا اپنی چھتوں پر ، بولا کہاں جلا دے گا اس کو اللہ مر گئے پیچھے ، پھر مار رکھا اس شخص کو اللہ نے سو برس پھر اٹھایا، کہا تو کتنی دیر رہا، بولا میں رہا ایک دن یا دن سے کچھ کم ، کہا بلکہ تو رہا سو برس اب دیکھ اپنا کھانا اور پینا سڑ نہیں گیا، اور دیکھ اپنے گدھے کو اور تجھ کو ہم نمونہ کیا چاہیں لوگوں کے واسطے اور دیکھ اللہ کے سوا ہڈیاں کس طرح ان کو ابھارتے ہیں پھر ان پر پہناتے ہیں گوشت ، پھر جب اس پر ظاہر ہوا بولا میں جانتا ہوں کہ ، تو اسی کی اللہ ہر چیز پر قادر ہے اور جب کہا ابراہیم نے اے رب ! دکھا مجھ کو کیوں کر جلا وے گا تو مردے، فرمایا کیا تو نے یقین نہیں کیا، کہا کیوں نہیں لیکن اس واسطے کہ تسکین ہو میرے دل کو فرمایا تو پکڑ چار جانور اڑتے پھر ان کو ہلا اپنے ساتھ سے پھر ڈال ہر پہاڑ پر ان کا ایک ایک ٹکڑا پھر ان کو پکار کہ آدیں تیرے پاس دوڑتے ، اور جان لے کہ اللہ زبر دست ہے حکمت والا‘‘

( البقرہ 259-260)

مزید ثبوت کے لئے یہ آیات اور ان کا صحیح ترجمہ قرآن مجید سے سمجھ کر پڑھ لیجئے ـ

الانعام 17 ، 46 الـرعد 16 ، الفر قان ،3 الروم 33 تا 35‘ الـزمر 8‘ 38‘ التغابن۔

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص صبح و شام سات مرتبہ یہ پڑھے :

(حَسْبِیَ اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَؕ-عَلَیْهِ تَوَكَّلْتُ وَ هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ)

مجھ کو اللہ کافی ہے، اس کے سوا کسی کی بندگی نہیں ، اس پر میں نے بھروسہ کیا ، اور وہ عرش عظیم کا رب ہے

تو دنیا و آخرت کے تمام اہم کاموں میں اللہ اس کے لئے کافی ہوگا
(ابو داؤد )

اب درود تاج کے یہ ابتدائی الفاظ دیکھئے:

(اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى سَيِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ صَاحِبِ النَّاجِ وَالْمِعْرَاجِ وَالْبَرَاقِ وَالْعَلَم دَافِعِ الْبَلَاءِ وَالْوَبَاءِ وَالْفَحْطِ وَالْمَرَضِ وَالألم ط )

(یا اللہ ہمارے سردار اور مولا محمد ﷺ پر درود بھیج جو صاحب تاج و معراج اور براق والے اور جھنڈے والے ہیں، جو کہ بلا اور دبا اور قحط اور مرض اور دکھ دور کرنے والے ہیں)

ایک کتاب میں اس حصے کا ترجمہ اس طرح کیا گیا ہے

(یا اللہ ہمارے سردار اور مولا محمد ﷺ پر درود بھیج جو صاحب تاج و معراج اور براق والے اور جھنڈے والے ہیں ، جن کے وسیلے سے بلا اور وہا اور قحط اور مرض اور دکھ دور ہوتے ہیں ).

آپ عربی متن پر غور کیجئے لفظ (وسیلہ) تو استعمال ہی نہیں ہوا تو جن کے وسیلے سے ترجمہ کیسے کیا گیا۔ اس کے علاوہ درود تاج کا یہ حصہ اللہ اور رسول اللہ ان کے کئی ارشادات کے خلاف ہے مثلاً :

➊ ’’اور جب میں بیمار ہوں تو وہی شفا دیتا ہے‘‘۔

(الشعراء 80)

➋ ’’تو کہہ میں اپنی جان کے فائدے اور نقصان کا مالک نہیں مگر جواللہ چاہے، اور اگر میں غیب کی بات جاتا تو بہت خو بیاں لیتا، اور مجھ کو برائی کبھی نہ پہنچتی، میں تو یہی ہوں ڈر اور خوشی سنانے والا ایمان والوں کو‘‘۔

( الاعراف 188 )

➌ ’’کہو کہ میں تو اپنے نقصان اور فائدے کا کچھ اختیار نہیں رکھتا مگر جو اللہ چاہے‘‘۔

(یونس 49)

➍ ’’تو کہہ میرے ہاتھ نہیں تمہارا برا اور نہ راہ پر لانا تو کہہ‘ مجھ کو نہ بچادے گا اللہ کے ہاتھ سے کوئی ، اور نہ پاؤں گا اس کے سوا کہیں سرک رہنے کی جگہ ‘‘

( جن 21-22 )

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب نمرود نے ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھینکا تو آپ نے یہ کلمہ فرمایا

حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ

( میرے لئے اللہ کافی ہے اور وہ میرا بہترین دوست ہے )
( صحیح بخاری)

رسول اللہ صلى الله عليه وسلمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب کسی کو کسی چیز سے خوف آئے تو یہ کلمہ کہے:

حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ

( میرے لئے اللہ کافی ہے اور وہ میرا بہترین دوست ہے)

تو اللہ اسے گھبراہٹ سے نجات دیتا ہے
(طبرانی)

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو جب کوئی غم لگتا تو آپ ﷺ بار بار

حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ

(میرے لئے اللہ کافی ہے اور وہ میرا بہترین دوست ہے) پڑھتے تھے۔

رسول اللہ ﷺ نے ابن عباس سے فرمایا کہ یہ کلمات یا درکھو تو اللہ تمہیں محفوظ رکھے گا:

اللہ کو یا درکھو اسے اپنے سامنے پاؤ گے، جو کچھ مانگتا ہے اللہ سے مانگو، اگر مدد مانگتی ہو تو اسی سے مانگو، اگر تمام جہان والے تجھے نفع پہنچانا چاہیں تو اتنا ہی نفع پہنچا ئیں گے جتنا اللہ چاہے، اور اگر تمام جہان والے تجھے نقصان پہنچانا چاہیں تو اتنا ہی نقصان پہنچا ئیں گے جتنا اللہ چاہے ،اور قلم اٹھالی گئی کاغذ خشک ہو گئے. نبی ﷺ نے فرمایا اور میں تو بانٹنے والا ہوں اور دینے والا اللہ ہے۔
( صحیح بخاری)

رسول اللہ ﷺ سو تے وقت مختلف دعائیں پڑھ کر سوتے ان میں سے ایک دعا کے چند جملے یہ ہیں:

’’ (وفوضت أمري إليك وألجأت ظهري إليك رغبة ورهبة إليك لا ملجأ ولا منجا منك إلا إليك) ‘‘

اور تجھ ہی کو اپنا کام سونپا اور میں نے تیرا ہی سہارا لیا، تیری نعمتوں کی رغبت رکھتے ہوئے اور تجھ سے ڈرتے ہوئے، تیرے علاوہ کوئی پناہ کی جگہ نہیں اور جائے نجات نہیں ‘‘
(مشکوۃ)

اللہ تعالٰی اور رسول اللہ ﷺ کے ان ارشادات مبارکہ سے یہ ثابت ہوا کہ ہمیں فائدہ یا نقصان صرف اللہ دے سکتا ہے اللہ کی مرضی کے بغیر کوئی زندہ یا مردہ چیز میں رائی کے دانے کے برابر بھی نہ فائدہ دے سکتی ہے نہ نقصان لہٰذا صرف زبر دست قوت والے رب سے ڈریئے اللہ کی مخلوق سے ہرگز نہ ڈریئے اور نہ ہی ہو ہمیں اللہ کے حکم کے بغیر نفع و نقصان پہنچا سکتی ہیں صرف اور صرف اللہ ہی کو مشکل کشا، ہر حال میں مدد کرنے والا مختار کل ، عزت وذلت دینے والا ، مرادیں پوری کرنے والا ، بگڑی بنانے والا ، سہارا دینے والا ، نجات دینے والاء فریاد سنے اور اس کا حل نکالنے والا اور سب کو عطا فرمانے والا سمجھئے.

جو لوگ پتھروں کو نفع و نقصان کا مالک سمجھتے ہیں تو انھیں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے:

حضرت عمر حجر اسود پاس آئے اس کو چوما پھر کہنے لگے میں جانتا ہوں کہ توں ایک پتھر ہے نہ کسی کو نقصان دے سکتا ہے نہ فائدہ ، اور اگر میں نے نبی ﷺ کو نہ دیکھا ہوتا تجھ کو چومتے ہوئے تو میں کبھی تم کو نہ چومتا۔
( صحیح بخاری )

کیا ہم ’’ یا رسول اللہ ﷺ مدد‘‘ ‘ ’’یا علی مدد‘‘ یا شیخ عبد القادر جیلانی مدد کہہ سکتے ہیں:

جو لوگ رسول اللہ ﷺ یا کسی بھی اور ہستی جو زندہ موجود نہیں ہے سے مدد مانگتے ہیں وہ لوگ اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے اوپر والے ارشادات غور سے پڑھنے کے بعد اب نیچے والی تحریر بھی پڑھ لیں کچھ مسلمانوں کو مولا علی مشکل کشا، یاعلی مدد، یا شیخ عبد القادر جیلانی مدد یا پیر مدد کہتے ہوئے سنا جاتا ہے. ایسے مسلمانوں کا یہ عمل قرآن وسنت کے خلاف ہے۔ اس سلسلے میں کچھ اور مثالیں دیکھئے:

نہج البلاغہ میں حضرت علیؓ کے مختلف خطبوں کے مختلف حصوں کے ترجمے دیکھئے

’’ تمام حمد اس اللہ کے لئے ہے جو جمہ کا پیوند نعمتوں سے اور نعمتوں کا سلسلہ شکر سے ملانے والا ہے ہم اس کی نعمتوں پر اسی طرح حمد کرتے ہیں جس طرح اس کی آزمائشوں پر ثناہ شکر بجا لاتے ہیں اور ان نفسوں کے خلاف اس سے مدد مانگتے ہیں کہ جو احکام کے بجالانے میں سست قدم اور ممنوع چیزوں کی طرف بڑھنے میں تیز گام ہیں ‘‘

( خطبہ 112)

’’ میں اللہ کی حمد و ثناء کرتا ہوں اور ان چیزوں کے لئے اس سے مدد مانگتا ہوں کہ جو شیطان کو راندہ اور دور کرنے والی اور اس کے پھندوں اور ہتھکنڈوں سے اپنی پناہ میں رکھنے والی ہیں‘‘

(خطبہ 149)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
لنکڈان
ٹیلی گرام
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: