مسئلہ رفع یدین اور سعودی علماء کا موقف: ایک علمی و تحقیقی جائزہ

۱- مسئلہ رفع یدین کی وضاحت

نماز میں رفع یدین (یعنی تکبیر تحریمہ، رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت ہاتھوں کو بلند کرنا) ایک ایسا موضوع ہے جس پر مسلمانوں کے مختلف طبقات کے درمیان کئی بحثیں پائی جاتی ہیں۔ بعض حضرات کا کہنا ہے کہ یہ عمل صرف تکبیر تحریمہ تک محدود ہے، جبکہ دوسرے اسے پوری نماز کے دوران (رکوع سے پہلے اور بعد) سنت قرار دیتے ہیں۔ ذیل میں اس مسئلے کا ایک جامع جائزہ پیش کیا جارہا ہے، جس میں خصوصاً سعودی علماء کے فتاویٰ اور دلائل کا تذکرہ ہوگا۔

۲۔ رفع الیدین کا ثبوت صحیح بخاری میں

بعض افراد یہ خیال کرتے ہیں کہ ’’رفع یدین کا ذکر صحیح بخاری میں نہیں‘‘، حالانکہ صحیح بخاری میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث موجود ہے جس میں وہ فرماتے ہیں:

"رَأَیْتُ النَّبِیَّ ﷺ اِذَا قَامَ إِلَی الصَّلٰوۃِ رَفَعَ یَدَیْہِ حَتَّی یَحْذُوْا بِہِمَا مَنْکِبَیْہِ ثُمَّ کَبَّرَ … وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَہٗ مِنَ الرُّکُوْعِ رَفَعَہُمَا کَذٰلِکَ…”

(صحیح بخاری، حدیث نمبر: 735)

اس حدیث میں واضح ہے کہ نبی کریم ﷺ نے تکبیر تحریمہ کے ساتھ اور رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے اپنے دونوں ہاتھوں کو اُتنے ہی انداز سے اٹھایا جتنا کہ تکبیر تحریمہ میں کیا جاتا ہے۔ اسی طرح وائل بن حجرؓ کی روایت میں بھی نبی ﷺ کو رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھ اٹھاتے دیکھا گیا:

"اَنَّ وَائِلَ بْنَ حُجْرٍ رَأَى النَّبِیَّ ﷺ رَفَعَ یَدَیْہِ حِیْنَ دَخَلَ فِی الصَّلٰوۃِ ثُمَّ رَفَعَھُمَا حِیْنَ رَکَعَ وَحِیْنَ رَفَعَ رَأْسَہٗ مِنَ الرُّکُوْعِ…”

(سنن ابی داود، حدیث نمبر: 722؛ مسند احمد، 4/316)

یہ تمام روایات صحیح اسناد کے ساتھ کتبِ حدیث میں موجود ہیں اور اسی وجہ سے جلیل القدر محدثین نے ان کو قابلِ عمل سنت قرار دیا ہے۔

۳۔ کیا صحیح بخاری یا کسی حدیث میں ’’بعد میں رفع یدین نہ کرنے‘‘ کا ذکر ہے؟

بعض روایات میں وارد ہوا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے نماز میں ہاتھوں کو بار بار لہرانے سے منع فرمایا۔ ان میں سرِفہرست صحیح مسلم کی حدیث ہے جس میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

"کیا وجہ ہے کہ بعض لوگ نماز میں اپنے ہاتھوں کو اس طرح اٹھاتے ہیں جیسے سرکش گھوڑوں کی دُمیں اُٹھائی جاتی ہیں؟”
(صحیح مسلم، حدیث نمبر: 430)

اس حدیث کا مفہوم سعودی فتاویٰ میں صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ یہ ممانعت اس حرکت کے بارے میں ہے جس سے خشوع میں خلل پیدا ہو، یعنی بلا وجہ بار بار ہاتھوں کو اوپر نیچے کرنا، نہ کہ رکوع کے وقت یا اس سے اٹھتے وقت سنت کے مطابق ہاتھ اٹھانے سے (اللجنة الدائمة للفتواء، فتویٰ نمبر: 209)۔ چنانچہ ’’رفع یدین ترک کرنے‘‘ یا ’’بعد میں اس سے منع کرنے‘‘ کا کوئی بھی ثبوت نہ صحیح بخاری میں ملتا ہے، نہ دیگر قابلِ اعتماد کتبِ حدیث میں۔

۴۔ ایک مرتبہ ہاتھ اٹھانے والی روایات اور ان کی اسنادی حیثیت

بعض حضرات حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، براء بن عازبؓ یا دیگر صحابہ کرامؓ کی طرف منسوب روایات پیش کرتے ہیں جن میں بیان ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صرف تکبیر تحریمہ میں ہاتھ اٹھائے، بعد میں نہیں۔ لیکن محدثین نے واضح کیا ہے کہ یہ روایات یا تو سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں، یا وہ شاذ (یعنی دیگر مستند روایات کے مقابلے میں کمزور) ہیں، یا ان روایات کی تعبیر میں فرق ہے۔

سعودی عالم شیخ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن مسعودؓ سے رفع الیدین کے ترک کی روایت کے اکثر طرق ناقابلِ احتجاج ثابت ہوئے ہیں، جبکہ ابن عمرؓ، وائل بن حجرؓ اور دیگر صحابہؓ کی صحیح روایات سے رفع الیدین کا عمل بہ تکرار ثابت ہے (دیکھئے: بن باز ڈاٹ آرگ ڈاٹ ایساے، فتویٰ نمبر: 7195)۔

اسی طرح علامہ البانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "صفة صلاة النبي ﷺ” میں ان روایات کو مفصل انداز سے کمزور قرار دے کر اس بات کی وضاحت کی ہے کہ رفع الیدین کرنا بالکل صحیح اور ثابت شدہ سنت ہے (صفۃ صلاۃ النبی ﷺ، ص 130، مکتبہ المعارف ریاض)۔

۵۔ کیا رفع الیدین منسوخ ہے؟

بعض روایات میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ رفع الیدین "منسوخ” ہوگیا۔ لیکن جب تک کوئی مستند اور صریح نص نہ ہو، کسی بھی حکم کو منسوخ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ابن عمرؓ خود رفع الیدین کے راوی ہیں اور ان سے کئی صحابہؓ و تابعینؒ نے اس عمل کو جاری رکھے دیکھا۔

مشہور سعودی عالم شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"جو شخص رفع الیدین کے منسوخ ہونے کا دعویٰ کرے، ہم اس سے دلیل طلب کرتے ہیں۔ اس کے پاس کوئی صحیح دلیل موجود نہیں۔”
(مجموع فتاوى ابن عثیمین، ج 13، ص 260)

اسی طرح امام نووی رحمہ اللہ اور دیگر ائمہ نے بھی اسی مؤقف کا اعادہ کیا ہے کہ کسی عمل کی منسوخی کے لیے واضح دلیل درکار ہوتی ہے، جو یہاں موجود نہیں (شرح صحیح مسلم للنووی)۔

۶۔ حدیثِ جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کا سیاق و سباق

جابر بن سمرہؓ سے مروی روایت میں نبی کریم ﷺ نے صحابہؓ کو گھوڑوں کی دموں کی طرح بار بار ہاتھ اٹھانے سے منع فرمایا۔ محدثین اور سعودی علماء کی تشریحات کے مطابق اس کا مطلب یہ ہے کہ بلا وجہ ہاتھوں کو ادھر اُدھر مسلسل ہلانا منع ہے، نہ کہ رکوع میں جاتے اور اٹھتے وقت ایک بار ہاتھ بلند کرنے کا سنت عمل (فتاویٰ ابن باز؛ اللجنة الدائمة، فتویٰ نمبر: 3462)۔

۷۔ سلف صالحین اور ائمہ کا عمومی عمل

قرونِ اولیٰ کے بے شمار علماء و ائمہ کرام نے رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع الیدین کے عمل کو سنت قرار دیا:

  1. امام شافعی رحمہ اللہ پوری شدت کے ساتھ اس کے قائل ہیں۔
  2. امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا بھی فتویٰ ہے کہ ہر رکوع اور اس سے اٹھتے وقت ہاتھ ضرور اٹھائے جائیں۔
  3. امام مالک رحمہ اللہ سے اگرچہ دونوں طرح کی روایات ملتی ہیں، لیکن ان کے بہت سے شاگردوں نے رفع الیدین کو راجح قرار دیا۔
  4. موجودہ سعودی علماء (جیسے ابن بازؒ، ابن عثیمینؒ، صالح الفوزان، آل شیخ وغیرہ) سب اس عمل کو سنتِ نبوی کہتے ہیں۔

سعودی عرب کی مشترکہ کاوش "الفقہ المیسر” میں لکھا گیا ہے کہ نماز میں رکوع کے وقت اور اٹھتے وقت ہاتھ اٹھانا سنتِ نبوی ہے اور اسے ترک کرنا غیر راجح ہے (الفقہ المیسر، ج 1، ص 190)۔

۸۔ خلاصہ و نتیجہ

  1. رفع الیدین کا ذکر نہ صرف صحیح بخاری بلکہ کتبِ حدیث کی متعدد مستند روایات میں پایا جاتا ہے۔
  2. اس کے منسوخ ہونے یا ’’بعد میں منع ہونے‘‘ کا دعویٰ کسی پختہ دلیل سے ثابت نہیں۔
  3. جن روایات میں صرف تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اٹھانے کا ذکر ہے، وہ یا تو ضعیف ہیں یا دیگر مضبوط احادیث کے مقابلے میں مرجوح ہیں۔
  4. سعودی علماء اور جمہور محدثین کا متفقہ مؤقف ہے کہ رکوع میں جاتے اور اس سے سر اٹھاتے وقت رفع الیدین کرنا سنت ہے۔
  5. نماز میں غیرضروری طور پر بار بار ہاتھ ہلانا منع ہے، لیکن سنت کے مطابق مخصوص مقامات پر ہاتھ اٹھانے کی ممانعت ہرگز ثابت نہیں۔

الغرض، رفع الیدین ایک ثابت شدہ سنت ہے جس پر بڑے پیمانے پر اہل علم نے اعتماد کیا ہے۔ اس سلسلے میں صحابہ کرامؓ کی مشاہداتی روایات اور سعودی فقہی فتاویٰ ہر دو سطح پر متفق ہیں کہ اس عمل کو ترک کرنا درست نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نبی کریم ﷺ کی سنت پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

حوالہ جات میں مذکورہ عربی ویب سائٹس اور کتب

  • صحیح بخاری، حدیث نمبر: 735
  • سنن ابی داود، حدیث نمبر: 722؛ مسند احمد، 4/316
  • صحیح مسلم، حدیث نمبر: 430
  • فتاویٰ ابن باز، binbaz.org.sa
  • اللجنة الدائمة للفتواء، alifta.gov.sa
  • صفۃ صلاۃ النبی ﷺ، البانی، ص 130، مکتبہ المعارف
  • مجموع فتاوى ابن عثیمین، ج 13، ص 260، sh-ibn-uthaymeen.com
  • الفقہ المیسر، ج 1، ص 190

و اللہ اعلم بالصواب۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1