مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کی روشنی میں
حفیظ الرحمن قادری بریلوی صاحب لکھتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام رحمہ اللہ زندہ ہیں۔( شرک کیا ہے صفحہ 87)
قارئین محترم مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم بلا وجہ باعث نزاع وشقاق بنا ہوا ہے بریلوی اس بات پر بضد ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ، اولیا، شہدا اور دیگر انبیاء علیہم السلام اب بھی بقید حیات دنیویہ ہیں۔
دوسری طرف جماعت اہل حدیث کا کہنا ہے کہ ایسا سمجھنا نصوص صریحہ قرآن وحدیث اور اہل سنت کے مسلمات کے خلاف ہے سب سے پہلے مسئلہ حیات انبیاء علیہم السلام کو میں قرآن وحدیث سے پیش کروں گا جو اہل حدیث کا عقیدہ ہے باب کے آخر میں بریلوی حضرات کے شبہات کے جوابات دیئے جائیں گے۔ قارئین سے میری گزارش ہے کہ وہ فریقین کے دلائل کو کشادہ نظری سے پڑھیں ضد اور تعصب کی عینک اتار کر غور فرمائیں حق کیا ہے فیصلہ خود فرمائیں۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ :
كُل نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ(سورۃ الانبیاء: 35)
ہر ایک نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔
دوسرے مقام پر ہے :
إِنَّكَ مَيِّتٌ وَإِنَّهُم مَّيِّتُونَ(سورۃ الزمر : 30)
(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم) بیشک آپ کو بھی مرنا ہے اور ان لوگوں کو بھی موت آنی ہے۔
تیسرے مقام پر فرمایا :
وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّن قَبْلِكَ الْخُلْدَ أَفَإِن مِّتَّ فَهُمُ الْخَالِدُونَ(سورۃ الانبیاء : 34)
ہمیشگی تو ہم نے تم سے پہلے بھی کسی انسان کے لیے نہیں رکھی (اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم) اگر آپ فوت ہو گئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ زندہ رہیں گے؟
چوتھے مقام پر فرمایا :
وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ(سورۃ آل عمران:144)
اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو صرف رسول ہیں ان سے پہلے بھی رسول گزر چکے ہیں اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو موت آجائے یا قتل ( کر کے) شہید کر دئیے جائیں تو کیا تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے؟
محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف رسول ہیں یعنی ان کا امتیاز بھی وصف رسالت ہی ہے یہ نہیں کہ وہ بشری خصائص سے بالاتر اور خدائی صفات سے متصف ہوں کہ انہیں موت سے دوچار نہ ہونا پڑے۔ جنگ احد میں شکست کے اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کافروں نے یہ افواہ اڑا دی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم قتل کر دیئے گئے مسلمانوں میں جب خبر پھیلی تو بعض مسلمانوں کے حوصلے پست ہو گئے اور لڑائی سے پیچھے ہٹ گئے جس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کافروں کے ہاتھوں قتل ہو جانا یا اس پر موت کا وار ہو جانا کوئی نئی بات تو نہیں ہے۔ پچھلے انبیاء علیہم السلام بھی قتل اور موت سے ہم کنار ہو چکے ہیں اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی (بالفرض) اس سے دو چار ہو جائیں تو کیا تم اس دین سے پھر جاؤ گے۔(تفسیر احسن البیان صفحه : 177)
پانچویں مقام پر فرمایا :
قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ(سورۃ الانعام: 162)
(اے نبی) آپ کہہ دیجئے کہ میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت سب رب العالمین کے لیے ہی ہے۔
اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو موت آنی ہی نہ تھی تو پھر میری موت کہنے کے کیا معنی ہیں خود غور فرمائیں۔
چھٹے مقام پر فرمایا :
وَمَا أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ إِلَّا رِجَالًا نُّوحِي إِلَيْهِمْ فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ(سورۃ الانبیاء : 7)
اور ہم نے تم سے پہلے مرد ہی پیغمبر بنا کر بھیجے جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے اگر تم نہیں جانتے جو یاد کرتے ہیں ان سے پوچھ لو۔
مزید فرمایا :
وَمَا جَعَلْنَاهُمْ جَسَدًا لَّا يَأْكُلُونَ الطَّعَامَ وَمَا كَانُوا خَالِدِينَ(سورۃ الانبیاء : 8)
اور ہم نے ان کے ایسے جسم نہیں بنائے تھے کہ کھانا نہ کھائیں اور نہ ہمیشہ رہنے والے تھے۔
ایک اور جگہ ارشاد ہے :
كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَيَبْقَىٰ وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ(سورۃ الرحمن : 26-27)
جو کوئی ہے سب کچھ فنا ہونے والا ہے اور باقی رہے گی تیرے رب کی ذات جو صاحب جلال واکرام ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
كُلُّ شَيْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ(سورۃ القصص : 88)
اس کی ذات کے سوا ہر چیز فنا ہونے والی ہے۔
نیز فرمایا :
وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاءٍ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ(سورۃ النحل : 20-21)
اور جن کو یہ اللہ کے سوا پکارتے ہیں وہ کوئی چیز بھی نہیں بنا سکتے اور وہ خود مخلوق ہیں۔ وہ مردے ہیں زندہ نہیں اور ان کو خبر نہیں کہ وہ (مردے) کب اٹھائے جائیں گے۔
ان آیات سے ثابت ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام انسانوں پر موت طاری ہونا حق ہے اسی طرح دوسرے انبیاء علیہم السلام پر بھی اللہ تعالیٰ نے موت کا فیصلہ کیا۔
چنانچہ سیدنا یعقوب علیہ السلام کے بارے میں ارشاد فرمایا :
أَمْ كُنتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ(سورۃ البقرہ : 133)
کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوب علیہ السلام کو موت آئی۔
اگر لفظ موت انبیاء علیہم السلام کی توہین ہوتا تو اللہ انبیاء علیہم السلام کے لیے قرآن میں لفظ موت استعمال نہ کرتا۔
اسی طرح سیدنا سلیمان علیہ السلام کے بارے میں فرمایا :
فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلَىٰ مَوْتِهِ إِلَّا دَابَّةُ الْأَرْضِ(سورۃ سبا : 14)
پھر جب ہم نے ان کے لیے موت کا حکم صادر کیا تو کسی چیز سے ان کا مرنا معلوم نہ ہوا مگر زمینی کیڑے سے۔
تمام انسانوں کو موت ضرور آئے گی چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
اللَّهُ الَّذِي خَلَقَكُمْ ثُمَّ رَزَقَكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ(سورۃ الروم : 40)
اللہ ہی تو ہے جس نے تم کو پیدا کیا پھر تم کو رزق دیا پھر تمہیں موت دے گا پھر زندہ کرے گا۔
موت ایک اٹل حقیقت ہے اس سے کوئی اللہ کا دشمن بچ سکے گا نہ نافرمان نہ کوئی فرمانبردار سوائے رحمن کے کوئی چیز لا يموت نہیں سب کو ایک نہ ایک دن ضرور موت کا پیالہ پینا ہے موت کسی کے لیے موجب توہین نہیں ہے وگرنہ انبیاء علیہم السلام اور نیک و کاروں کو موت کبھی نہ آتی۔
وفات النبی صلی اللہ علیہ وسلم حدیث کی روشنی میں :۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنے عقیدے کا یوں اظہار فرمایا :
وقال الا من كان يعبد محمدا فان محمدا قد مات (صحیح بخاری شریف کتاب فضائل اصحاب النبي حديث 3668)
سن لو جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا تو بیشک محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں۔
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا خطبہ سن کر تسلیم کر لیا تھا۔(بخاری شریف حدیث 4454 غزوات کے بیان میں)
معلوم ہوا کہ اس بات پر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں چنانچہ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں۔(صحیح بخاری حدیث : 4446)
دوسرے مقام پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں جو بھی نبی علیہ السلام بیمار ہوتا ہے تو اسے دنیا اور آخرت کے درمیان اختیار دیا جاتا ہے۔ (بخاری شریف حدیث 4586 مسلم 2444)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے بدلے میں آخرت کو اختیار کر لیا یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اخروی یا برزخی زندگی ہے۔
ایک اور مقام پر ام المومنین رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
لقد مات رسول الله(مسلم ترقيم : 7453)
یقینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں۔
اس مسئلہ پر کثیر دلائل موجود ہیں ان صحیح ومتواتر احادیث سے معلوم ہوا کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اپنی نماز کے بارے میں فرماتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز یہی تھی حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے چلے گئے۔ (صحیح بخاری شریف : 803)
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم من الدنيا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے چلے گئے۔ (صحیح بخاری حدیث : 5414)
غور فرمائیں اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوت نہیں ہوئے تھے بلکہ بقول کچھ حضرات کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں تو پھر کچھ لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال ضرور پیدا ہوگا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ تھے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے زندہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے قبر کھود کر دفن کر دیا کسی کو زندہ دفن کر دینا اس سے بڑی گستاخی اور کیا ہوگی یہ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دشمنوں کے ہاتھوں میں ہتھیار دینا ہے وہ کہیں گے کہ زندہ درگور کرنے والے کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے ساتھی تھے؟
مسئلہ حیات النبیﷺ اور احمد رضا خان بریلوی
احمد رضا خان صاحب بریلوی بیان کرتے ہیں کہ انبیائے کرام علیہم السلام کی حیات حقیقی حسی دنیاوی ہے ان پر موت انہی کے لیے محض ایک آن موت طاری ہوتی ہے پھر فورا ان کو ویسے ہی حیات عطا فرمادی جاتی ہے۔ (ملفوظات احمد رضا خان بریلوی حصہ سوم صفحہ : 310)
معلوم نہیں کہ احمد رضا خان صاحب کی آن کتنی طویل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال سوموار کو ہوا اور دفن بدھ کو فرمایا گیا گھر والوں نے کفن دفن کے انتظامات کیسے کئے دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سقیفہ بنی ساعدہ میں آئندہ خلافت اسلامی کے متعلق دانش مندانہ فیصلہ فرما دیا ایک لاکھ سے زائد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ پڑھی انفرادی طور پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیوی زندگی کا احساس نہ ہوا تیسرے دن اشک بار آنکھوں کے ساتھ جیتے زندہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو دفن کر دیا اس زندگی کو نہ بیویاں رضی اللہ عنہم ، بچے سمجھ سکیں نہ بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا جان سکیں۔
تین دنوں میں آن ختم ہی نہ ہو سکی۔ تم ایک ادنی آدمی کو بھی زندہ درگور نہیں کر سکتے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و اہل بیت رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوزندہ درگور کرنا کیسے گوارہ سمجھا؟
بقول خان صاحب کے انبیاء کرام علیہم السلام کی حیات دنیوی زندگی ہے تو زمین میں دفن کرنے کی بجائے عادت کے مطابق زمین کے اوپر رہنا چاہیے تھا۔
دنیاوی زندگی ماننے کی صورت میں اس قسم کے سینکڑوں سوال عائد ہوں گے اور اسلامی تاریخ ایک معمہ بن کر رہ جائے گی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی صلح مختار ثقفی کی عیاریاں حجاج بن یوسف کے مظالم عباسی انقلاب سقوط بغداد اور ترکوں کے مظالم قادیانی نبوت جیسے حوادث لیکن کہیں بھی ضرورت محسوس نہ ہوئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مداخلت فرمائیں مسجد کے ایک خادم کی موت پر حضرت بے قرار ہوں اور قبر پر نماز جنازہ ادا فرمائیں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت پر تعزیت کے لیے بھی تشریف نہ لائیں عقل مند باشعور لوگ آپ سے پوچھیں گے کہ آخر یہ کیوں ہے؟
حقیقت میں انبیاء کرام علیہم السلام و شہداء کرام رضی اللہ عنہم کی زندگی دنیاوی نہیں بلکہ برزخی اخروی زندگی ہے یہی سچ ہے۔ مولوی بھی عجیب ہے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اور روضہ مانتا ہے لیکن وفات نہیں مانتا۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ شدت مرض کے زمانے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بے چینی بہت بڑھ گئی تھی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا آہ ابا جان کو کتنی بے چینی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا آج کے بعد تمہارے ابا جان کی یہ بے چینی نہیں رہے گی پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی تو فاطمہ رضی اللہ عنہا کہتی تھی ہائے ابا جان آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کے بلاوے پر چلے گئے۔ ہائے ابا جان آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنت الفردوس میں اپنے مقام پر چلے گئے ہم جبریل علیہ السلام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر سناتے ہیں پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دفن کر دیے گئے فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا : انس رضی اللہ عنہ تمہارے دل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مٹی ڈالنے کے لیے کس طرح آمادہ ہو گئے تھے۔ (صحیح بخاری کتاب المغازی باب مرض النبي وفاته حديث 4462)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری ہنسلی اور تھوڑی کے درمیان سر رکھے ہوئے تھے۔(صحیح بخاری شریف کتاب المغازی باب مرض النبي حدیث 4446)
قرآن وحدیث کی نصوص صریحہ سے ثابت ہو چکا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے ہیں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ رہے تو اور کون ہمیشہ زندہ رہے گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیاوی زندگی 63 سال تھی اس پر سب کا اتفاق ہے۔
لباس حضر میں یہاں سینکڑوں راہزن بھی پھرتے ہیں
اگر دنیا میں رہنا ہے تو کچھ پہچان پیدا کر
حفیظ الرحمن قادری کے شبہات کے جوابات
پہلی دلیل اور اس کا جواب :
وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ(سورۃ البقرہ : 154)
جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبر نہیں۔
الجواب :
قارئین محترم ! جب کوئی جہاد کے لیے ٹریننگ کرتا ہے تو اس کو مجاہد کہتے ہیں میدان جہاد سے اگر زندہ بچ جائے تو اس کو غازی کہتے ہیں شہید ہونے کے لیے اللہ کی راہ میں مرنا شرط ہے مارا جائے گا قتل کیا جائے گا پھر شہید ہوگا وگرنہ شہید نہیں کہلا سکتا کفار موت کو عدم محض یا کلی فقدان سمجھتے تھے۔ قرآن نے موت کے اس اصطلاحی مفہوم کا شہداء کے حق میں انکار کیا یہ درست ہے لیکن قتل کے عنوان سے جسم اور روح کے انفصال کا اعتراف فرمایا یا ان کا خیال تھا کہ موت کے بعد داعی فنا میں ان اعمال پر کوئی جزاء مرتب نہ ہوگی۔ قرآن نے اس معنی سے نفی فرمادی اور اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد رزق اور نئی زندگی کا اعلان فرمایا جو دنیوی زندگی سے مختلف ہوگی ، اتنی مختلف کہ دنیا والے اس کا شعور بھی نہیں رکھ سکتے یہ بالکل درست ہے لیکن موت بمعنی انفصال روح سے انکار قطعاً غلط ہے پھر اگر یہ زندگی دنیاوی ہی تھی تو
لا تشعرون کیوں فرمایا گیا؟ قرآن مجید نے شہید کے لیے لفظ قتل استعمال کیا ہے۔
ہم کہتے ہیں کہ قتل کے مفہوم میں موت شامل ہے تخلیق انسانیت سے لے کر آج تک کبھی بھی کسی آدمی نے یہ نہیں سنا ہوگا کہ فلاں آدمی قتل ہو گیا لیکن مرا نہیں وہ قتل بھی ہو گیا مگر جیتا جاگتا کھاتا پیتا ہے آپ روزانہ اخبار یقیناً پڑھتے ہوں گے مگر آپ نے یہ مضحکہ خیز خبر نہیں پڑھی ہوگی کہ فلاں ملک یا شہر میں تین آدمی قتل ہو گئے مگر مرے نہیں جب ہم دنیاوی لحاظ سے اس قسم کی خبر کو مضحکہ خیز اور فضول سمجھتے ہیں تو اللہ سے یہ توقع کریں کہ وہ ہمیں اس قسم کی باتیں بتائے کہ میری راہ میں جو قتل ہو جائے اس کو موت نہیں آتی در حقیقت اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتل ہو کر مر جانے والے کو مردہ کہنے کی ممانعت اس مفہوم میں ہے جو کفار کہتے تھے۔ اس آیت میں اللہ کی راہ میں مارے جانے والوں کی عظمت کو بیان کیا گیا ہے۔ حالانکہ سب کے سامنے شہید ہونے والا بھی بے جان ہی ہو جاتا ہے آپ نے کئی شہداء کے جنازے دیکھے ہوں گے۔ اگر شہید کی زندگی دنیاوی ہے تو پھر ایک شوہر کے ہوتے ہوئے شہید کی زوجہ نکاح کیوں کرتی ہے؟ شہید کے بچوں کو یتیم کیوں کہا جاتا ہے؟ شہید کی وارثت کیوں تقسیم ہوتی ہے؟ شہید کو دفن کیوں کیا جاتا ہے کیا کسی کا عزیز زندہ ہو تو وہ اسے غسل دے کر کفن پہنا کر زمین میں زندہ درگور کر دے گا؟
اگر شہید دنیوی حیات کے ساتھ زندہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہید ہونے کے بعد زندگی کی تمنا کیوں کی۔
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کی طویل حدیث کا آخری حصہ یوں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
والذي نفسي بيده لوددت ان اقتل فى سبيل الله ثم احيا ثم اقتل ثم احيا ثم اقتل ثم احيا ثم اقتل(صحیح مسلم کتاب الامارة مع شرح نووی ج 5 صفحه 156)
مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں ضرور یہ خواہش کرتا ہوں کہ میں اللہ کی راہ میں شہید کیا جاؤں پھر میں زندہ کیا جاؤں پھر شہید کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر شہید کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر شہید کیا جاؤں۔
قارئین محترم ! اس حدیث کو پڑھیئے اور بار بار غور کیجئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دنیوی زندگی میں خود اپنی ذات کے لیے حلفیہ طور پر شہید ہو جانے کی تمنا کی تکمیل کے لیے اللہ تعالیٰ سے اس بات کی بار بار آرزو کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی راہ میں شہادت کی موت حاصل ہو یعنی ایک دفعہ شہید ہو جانے کے بعد پھر دنیاوی زندگی مل جائے۔ پھر شہادت کی موت پائیں معلوم ہوا کہ شہید پر بھی موت ضرور طاری ہوتی ہے۔
اس کی مثال یوں سمجھیں کہ آپ نے دو جانور خریدے ایک جانور کو آپ نے اللہ کا نام لے کر ذبح کر دیا اور دوسرا جانور اپنی طبعی موت مر گیا دونوں ایک جگہ پڑے ہیں دونوں حرکت بھی نہیں کر سکتے بولتے بھی نہیں چارہ وغیرہ بھی نہیں کھاتے لیکن آپ ایک جانور کو مردہ کہتے ہیں کیوں کہ قرآن کریم میں ہے مردہ جانور تم پر حرام ہے اور دوسرے کو مردہ نہیں کہتے حالانکہ مرے ہوئے دونوں ہی ہوتے ہیں لیکن جو اللہ کے نام پر مارا گیا اس کو مردہ نہیں کہتے اس کی فضیلت ہے اسی طرح شہید کو بھی مرنے کے باوجود مردہ کہنے کی ممانعت ہے یہ اس کی فضلیت ہے۔
رہا یہ مسئلہ کہ وہ زندہ ہیں اور ہماری مدد ومشکل کشائی کرتے ہیں اس کی کوئی دلیل قرآن وسنت سے نہیں ملتی شہید ہونے والے اپنی زندگی دنیاوی میں بھی کسی کے مشکل کشا نہیں تھے حتی کہ شہید جام شہادت نوش کرنے کے بعد اپنے جنازے سے کبھی نہیں اٹھ سکتے نہ ہی خود غسل کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ یہ مشاہدے کی بات ہے کہ وہ استنجا کرنے میں بھی لوگوں کے محتاج ہوتے ہیں خود اپنے کپڑے بھی نہیں اتار سکتے خود کفن بھی نہیں پہن سکتے بلکہ زندہ لوگوں کے محتاج ہوتے ہیں۔ قبرستان چل کر جانے کی طاقت بھی نہیں رکھتے قبرستان تک جانے میں بھی لوگوں کے محتاج ہوتے ہیں۔ قبر میں دفن ہونے کے بعد وہ لوگوں کے مشکل کشا اور حاجت روا کیسے بن جاتے ہیں؟
یہ وہ باتیں ہیں جن کا انکار ممکن نہیں ہے بہت سے لوگ جو دنیوی زندگی پر زور دیتے ہیں کہ وہ زندہ ہیں حقیقت میں وہ اپنے کاروبار زندہ رکھنا چاہتے ہیں اور حقیقت یہ بھی ہے کہ شہداء کی روحیں اس دنیا کے فوائد اور تکلیفات سے تو بہت دور جا چکی ہیں لیکن عالم برزخ میں ان کو دوسرے اجسام سبز پرندے وغیرہ کے عطا ہوتے ہیں ان سے وہ بے تکلف مستفید ہوتے ہیں۔ یہی ان کی برزخی زندگی ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے۔
جو بات نبیﷺ فرماتے ہیں معیار صداقت ہوتی ہے
خود لفظ شکل بن جاتے ہیں اور سچی ثابت ہوتی ہے
حفیظ الرحمن قادری کی دوسری دلیل اور اس کا جواب :
وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ(سورۃ آل عمران : 169)
جو اللہ کی راہ میں مارے گئے ہرگز انہیں مردہ خیال نہ کرنا بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں روزی پاتے ہیں۔
الجواب :
دراصل شہداء کی زندگی جب عند اللہ ہے تو دنیوی رزق وہاں کیسے جا سکتا ہے اگر یقین نہیں آتا تو کسی شہید ہونے والے کے سامنے کھانے کی کوئی چیز پیش کر کے دیکھ لینا وہ کھاتے ہیں کہ نہیں اگر اس سے مراد برزخی حیات ہے دنیوی کے لیے یہ رزق دلیل نہیں بن سکے گا۔ رزق سے حیات دنیوی پر استدلال بے معنی ہے۔
ایسے رزق سے زندگی پر استدلال بالکل غلط ہے رزق تو انبیاء علیہم السلام شہداء کرام رضی اللہ عنہم کے علاوہ برزخ میں باقی ایمان دار مرنے والوں کو بھی ملتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے غور فرمائیں :
وَالَّذِينَ هَاجَرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ قُتِلُوا أَوْ مَاتُوا لَيَرْزُقَنَّهُمُ اللَّهُ رِزْقًا حَسَنًا وَإِنَّ اللَّهَ لَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ(سورۃ الحج : 58)
اور جن لوگوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی پھر قتل ہو گئے یا طبعی موت مر گئے ان کو اللہ اچھی روزی دے گا اور بیشک اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔
اس آیت مبارکہ میں موت اور قتل دونوں پر رزق کا وعدہ فرمایا گیا ہے پس رزق طبعی موت سے مرنے والوں کو بھی ملتا ہے تو رزق سے زندگی پر استدلال صحیح نہ رہا وگرنہ آپ حضرات کے نظریات سے لازم آتا ہے کہ کوئی بھی مرتا ہی نہیں یوں ہی موت کا لفظ لغت میں رکھ دیا گیا ہے۔ دراصل شہداء کی یہ زندگی حقیقی ہے یا مجازی یقینا حقیقی ہے لیکن اس کا شعور اہل دنیا کو نہیں کیونکہ یہ دنیاوی زندگی نہیں بلکہ برزخی زندگی ہے۔ شہداء کو مردہ نہکہنا ان کے اعزاز و تکریم کے لیے ہے، یہ زندگی اخروی زندگی ہے جسے ہم سمجھنے سے قاصر ہیں یہ زندگی مومنین حتی کہ کفار کو بھی حاصل ہے شہید کی روح اور بعض روایات میں مومن کی روح بھی ایک پرندے کے جوف یا سینہ میں جنت میں جہاں چاہتی ہے گھومتی پھرتی ہیں۔ (صحیح مسلم کتاب الامارة تفسير احسن البیان صفحه : 188)
شہیدوں کی روحیں جنت میں ہیں اور یہ وہ اپنے رب کے نزدیک زندہ ہیں رزق دیے جاتے ہیں حضرت مسروق رحمہ اللہ سے روایت ہے ہم نے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھا مذکورہ آیت سورۃ آل عمران کے بارے میں تو عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا ہم نے اس آیت کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شہیدوں کی روحیں سبز پرندوں کے قالب میں قندیلوں کے اندر ہیں جو عرش مبارک سے لٹک رہی ہیں اور جہاں چاہتی ہیں جنت میں کھاتی پھرتی ہیں پھر وہی قندیلوں میں آکر رہتی ہیں ایک بار ان کے پروردگار نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ تم کچھ چاہتی ہو تو انہوں نے کہا اب ہم کیا چاہیں گی ہم تو جنت میں کھاتی پھرتی ہیں جہاں چاہتی ہیں پروردگار نے پھر پوچھا حتی کہ تیسری بار پھر پوچھا تو انہوں نے دیکھا کہ بغیر سوال کے ہماری رہائی نہیں تو انہوں نے کہا اے ہمارے پروردگار ہم یہ چاہتی ہیں کہ ہماری روحوں کو لوٹا دے ہمارے جسموں میں تا کہ ہم مارے جائیں دوبارہ تیری راہ میں جب پروردگار نے دیکھا کہ اب ان کی کوئی خواہش نہیں تو ان کو چھوڑ دیا۔ (صحیح مسلم شریف كتاب الامارة مع شرح نووی صفحه : 162 ج پنجم)
اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ شہیدوں کی روحیں اصل جسموں میں نہیں ہوتیں بلکہ دوسرے قالب میں ہوتی ہیں اگر روح کو اصل جسم میں لوٹا دیا جائے تو بندہ دنیاوی حیات میں زندہ ہو جائے۔ لیکن اللہ نے شہیدوں کی اس خواہش کو پورا نہیں کیا ان کی ارواح کو جنت میں پرندوں کے قالب میں ہی رکھا ہے دنیا میں ان کی زندگی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
معلوم ہوا کہ شہیدوں کی حیات کا تعلق عالم برزخ کے ساتھ ہے دنیا والوں کو اس زندگی کا شعور تک نہیں پتہ نہیں قادری صاحب کو یہ کس نے بتا دیا کہ زندوں سے مافوق الاسباب مانگنا جائز ہے۔
ان سے یہ پوچھا جائے کہ شہیدوں کی قبر سے مانگنا ان کے نام کی نذر و نیاز دینا ان کی قبروں پر چادریں چڑھانا ان کے نام کا عرس میلہ لگانا یہ قرآن کی کس آیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کس حدیث سے ثابت ہے کیا یہ کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں ہوتے تھے تو براہ مہربانی اس کی دلیل شرعی پیش کریں محض الفاظ کے ساتھ کھیلنے سے دینی مسائل اور عقائد ثابت نہیں ہوتے کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ فلسفہ معلوم نہ تھا دراصل اس وقت شہیدوں کی قبروں کو کاروباری اڈے بنادیا گیا ہے۔
جہاد اکبر کے انوکھے شہید قادری صاحب ایک روایت کا ٹکڑا تحریر کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف پلٹنے لگے ہیں یعنی نفس کے خلاف جہاد کرنا بڑا جہاد ہے جہاد اصغر میں مارا جائے تو زندہ ہے اور جہاد اکبر میں مارا جائے یعنی پوری زندگی نفس کے خلاف جہاد میں مصروف رہا اور مارا گیا اس کی حیات تو شہداء کرام رضی اللہ عنہم کی حیات سے بھی بلند ہے۔ (شرک کیا ہے صفحہ : 87)
الجواب:
پہلی بات تو انہوں نے روایت نقل کرنے کے بعد حوالہ مولانا روم کا دیا ہے جو حدیث کی کتاب ہی نہیں بلکہ تصوف و حکایات کی کتاب ہے جو بے سند ہے۔
مولانا حسین احمد مدنی کہتے ہیں کہ صوفیاء اس کو حدیث کہتے ہیں لیکن امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ امام نسائی رحمہ اللہ نے اسے ابراہیم بن عیلہ کا کلام بتایا ہے الفاظ کی رکاکت زبردست قرینہ ہے کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قول نہیں ہوسکتا اور نہ حدیث کی کتابوں میں شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ نے یہ جیسا لکھا ہے پس حدیث کا فیصلہ محدثین کے اصول وقواعد کی رو سے کیا جائے گا بے چارے صوفیاء جن پر حسن ظن کا غلبہ ہوتا ہے ان حضرات کو تنقید تفتیش کی فرصت کہاں ان کے حسن ظن سے کسی قول کا حدیث رسول ہونا ثابت نہیں ہو جائے گا۔ (اسلامی تصوف یوسف سلیم چشتی ص 123 بحوالہ شریعت و طریقت صفحه 210)
اصل میں اس نظریے نے دبے الفاظ میں جہاد اسلامی کا زبردست نقصان کیا لوگوں کے دلوں سے اصل جہاد کا تصور مٹا دیا اور خود ساختہ اذکار وظائف کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ یہ یہ لوگ جہاد سے بالکل ہی غافل ہو گئے کسی کو ٹھڑی میں بیٹھ کر ضربیں لگانے کو ہی جہاد قرار دے دیا بلکہ اس کے لیے روایات بھی گھڑیں جن میں کفار سے قتال کو جہاد اصغر اور نفس سے جہاد کو جہاد اکبر قرار دیا۔
حالانکہ کفار سے لڑائی نفس کے جہاد کے بغیر ہو ہی نہیں سکتی اگر یہ جہاد صوفیوں والا اکبر ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ساری زندگی اصغر جہاد ہی میں کیوں مشغول رہے پورے ذخیرہ حدیث اور پورے قرآن مجید میں ایک آیت یا حدیث بھی موجود نہیں ہے کہ ضربیں لگانے والے چلے کاٹنے والے درویش و ملنگ لوگوں کو شہید کہا گیا ہو۔
اب مسلمانوں کا کام صرف یہ رہ گیا ہے کہ وہ نفس سے جہاد میں مصروف رہیں غرض کہ ان حضرات کی اس پالیسی کی وجہ سے تمام دنیا کے کفار بہت خوش ہیں بلکہ امریکہ بدمعاش جیسا اسلام دشمن ملک بھی پاکستان کو کہتا ہے کہ صوفی ازم کو عام کریں ہم امداد کے لیے تیار ہیں۔ کیوں کہ یہ جہاد ان کی مرضی کا ہے جس میں لڑنا پڑے نہ مرنا پڑے نہ زخموں سے چور ہونا پڑے اپنے گھروں آستانوں درگاہوں میں سکون سے بیٹھ کر مجاہد اپنے جہادی کھیل میں مصروف ہوں وہاں پر نذرانے بھی ملتے رہیں نذرونیاز کے بکرے بھی آتے رہیں اور مجاہد بھر پور مزے اڑاتے رہیں۔
ایسا جہاد تو تقریباً سب کو قابل قبول ہوگا لیکن کفار کے خلاف جہاد جو کرے گا وہ ان چیزوں سے محروم ہوگا لہذا قادری کا فلسفہ الفاظ کا کھیل ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
حیات انبیاء علیہم السلام اور اولیاء کرام رحمہ اللہ عنہم کی دوسری دلیل اور اس کا جواب :۔
سورۃ فاتحہ میں ہم اللہ عز وجل کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں۔
ہم کو سیدھے راستہ پر چلا راستہ ان لوگوں کا جن پر تو نے احسان کیا انعام یافتہ کون افراد ہیں اللہ عزوجل نے خود نشاندہی فرمادی :
وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَٰئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَٰئِكَ رَفِيقًا(سورۃ النساء : 69)
اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے تو اسے ان کا ساتھ ملے گا جن پر اللہ نے فضل کیا یعنی انبیاء صدیق اور شہدا اور نیک لوگ یہ کیا ہی اچھے ساتھی ہیں۔
مندرجہ بالا آیات میں انعام یافتہ افراد کا ذکر خیر ہوا اس میں پہلے نمبر پر انبیاء علیہم السلام اور دوسرے نمبر پر صدیقین یعنی اولیاء اللہ اور تیسرے نمبر پر شہداء اور چوتھے نمبر پر صالحین آپ خود ہی اندازہ لگائیں اگر تیسرے نمبر والا زندہ ہے تو پہلے اور دوسرے نمبر والے کی حیات کا کیا مقام ہوگا۔
الجواب :
قارئیں محترم ! اس آیت مبارکہ کا حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم یا ولی رحمہ اللہ سے دور کا بھی واسطہ نہیں قادری صاحب نے جو نتیجہ نکالا ہے اس کی کوئی دلیل ہی نہیں بلکہ نفس مسئلہ سے دور کا بھی واسطہ نہیں پتہ نہیں یہ لوگ عوام کو کیوں دھوکہ دیتے ہیں۔ اس میں دنیا کی رفاقت کا تو ذکر ہی نہیں بلکہ جنت کی رفاقت کا ذکر ہے جیسا کہ حدیث مبارکہ میں آتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ بلکہ عین ایمان ہے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی آدمی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اپنی اولاد، والدین اور باقی تمام لوگوں کے مقابلے میں مجھ سے زیادہ محبت نہ کرتا ہو۔ (بخاری شریف حدیث : 15 مسلم شریف : 44)
ایک صحابی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی جان و مال اور اہل عیال سے زیادہ محبوب رکھتا ہوں جب گھر میں اپنے اہل عیال کے ساتھ ہوتا ہوں اور شوق زیارت بے قرار کرتا ہے تو دوڑا دوڑا آتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کر کے سکون حاصل کر لیتا ہوں۔ لیکن جب میں اپنی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کو یاد کرتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو جنت میں انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ اعلی ترین درجات میں ہوں گے میں جنت میں گیا بھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک نہیں پہنچ سکوں گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار سے محروم رہوں گا تو میں بے چین ہو جاتا ہوں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی جس کو قادری صاحب نے حیات کی دلیل بنانے کی ناکام کوشش کی ہے۔ (طبرانی صغیر)
صحابی رضی اللہ عنہ کے اظہار محبت کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت بارے آیت نازل فرما کر یہ بات واضح فرما دی کہ اگر تمہاری محبت سچی ہے اور تم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مستقل رفاقت حاصل کرنا چاہتے ہو تو اس کا طریقہ صرف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری اختیار کرو اس بات کا تعلق جنت کی رفاقت ہے اس سے اولیاء کرام رحمہ اللہ عنہم انبیاء علیہم السلام کی حیات کیسے ثابت ہوئی ؟
قادری صاحب لکھتے ہیں جسمانی طاقت اور روحانی طاقت
یاد رکھیں کہ انبیاء علیہم السلام اور اولیاء اللہ کرام رحمہ اللہ عنہم اجمعین کو اللہ عز وجل روحانی طاقت عطا فرماتا ہے وہ روحانی طور پر مدد فرماتے ہیں جس طرح سلیمان علیہ السلام نے اپنے درباریوں سے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے کون ہے جو بلقیس شہزادی کا تخت اس کے یہاں آنے سے پہلے لے آئے تو حضرت آصف بن برخیا رحمہ اللہ نے عرض کیا میں ایک پلک جھپکنے سے پہلے لے آؤں گا اور پھر اس نے لا کر دکھا بھی دیا اور کہا یہ میرے اللہ کا مجھ پر فضل تھا جس کی وجہ سے میں نے یہ تخت لا کر دکھا دیا۔ (کتاب شرک کیا ہے مع بدعت کی حقیقت صفحہ : 89)
یہ کون شخص تھا جس نے تخت کو حضرت سلیمان علیہ السلام کے سامنے پیش کیا؟ یہ کتاب کونسی تھی؟ یہ علم کیا تھا جس کے زور پر یہ دعویٰ کیا گیا تھا اس میں مفسرین کے مختلف اقوال ہیں نام میں بھی اختلاف ہے جیسا کہ تفسیر ابن کثیر میں ہے امام مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں اس کا نام اسطوم تھا لیکن بلیخ بھی مروی ہے انکا لقب ذوالنور تھا۔ (تفسیر ابن کثیر ج 2 ص70)
الجواب :
علامہ نسفی رحمہ اللہ یہ اپنی مشہور تفسیر نیشاپوری میں لکھتے ہیں کہ آصف بن برخیا رحمہ اللہ نے دعا مانگی پس غیب ہوا عرش اپنی جگہ میں پھر ظاہر ہوا حضرت سلیمان علیہ السلام کی مجلس ملک شام میں محض اللہ تعالیٰ کی قدرت سے پہلے پھرنے اس کی دید کے اسی طرح کم زیادہ عبارت کے ساتھ ۔ (تفسیر جلالین ص : 320)
یہ محض آصف بن برخیا رحمہ اللہ کی کرامت تھی قدرت اور طاقت اللہ تعالیٰ کی تھی معجزہ اور کرامت پر کسی کا اختیار نہیں ہوتا۔
جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے :
قُلْ إِنَّمَا الْآيَاتُ عِندَ اللَّهِ وَإِنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ مُّبِينٌ(سورۃ العنکبوت : 50)
کہہ دیجئے کہ نشانیاں تو اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہیں بیشک نہیں ہوں میں مگر ڈرانے والا ظاہر۔
دوسرے مقام پر فرمایا :
وَمَا كَانَ لِرَسُولٍ أَن يَأْتِيَ بِآيَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ(سورۃ غافر : 78)
اور نہ تھا کسی رسول کے بس میں یہ کہ لے آتا کوئی نشانی مگر اللہ کے حکم سے۔
مشرکین نے سوال کیا پس لے آؤ ہمارے پاس معجزہ ظاہر۔ (سورۃ ابراہیم : 10)
انبیاء علیہم السلام نے جواب دیا :
وَمَا كَانَ لَنَا أَن نَّأْتِيَكُم بِسُلْطَانٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ(سورۃ ابراہیم : 11)
اور نہیں ہے ہمارے بس میں کے لے آئیں ہم تمہارے پاس کوئی معجزہ مگر ساتھ حکم اللہ کے۔
قادری صاحب نے آصف بن برخیا رحمہ اللہ کا واقعہ پیش کر کے اولیاء اللہ کرام رحمہ اللہ عنہم کے صاحب اختیار ہونے کا تاثر دیا ہے۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ انڈیا پاکستان یا پوری دنیا میں جہاں کہیں بڑے بڑے پیر صاحب موجود ہیں ان کے پاس لے جاؤ ہم اس بزرگ کو ایک مہینے کا وقت دیتے ہیں کہ وہ واجپائی کا تخت پاکستان لے آئیں یا امریکہ کا تخت پاکستان لے آئیں تو ہم اپنا مسلک چھوڑ کر دوبارہ اُس پیر کے مرید ہو جائیں گے اگر نہیں کر سکتے اور یقینا کوئی بھی نہیں کر سکتا تو اس واقعہ کو پیروں کے لیے پیش کرنا چھوڑ دیں۔
کشمیر میں مسلمانوں کے ساتھ اتنا ظلم ہورہا ہے سارے سجادہ نشین مل کر بھارت کا تخت ایک سال میں پاکستان لے آئیں تا کہ کشمیر کے مسلمان بچوں اور عورتوں کو ظلم سے بچایا جائے لیکن یہ کام کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں۔
دراصل کرامت اور معجزہ نام ہی ایسے کاموں کا ہے جو ظاہر اسباب اور امور عادیہ کے یکسر خلاف ہوں اور وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت و مشیت سے ہی ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ اس لیے نہ شخصی قوت قابل تعجب ہے اور نہ اس کے علم کا سراغ لگانے کی ضرورت جس کا ذکر یہاں ہے کیوں کہ یہ تو اس شخص کا تعارف ہے جس کے ذریعے یہ کام ظاہر طور پر انجام پایا ورنہ حقیقت میں تو یہ مشیت الہی ہی کی کارفرمائی ہے سلیمان علیہ السلام بھی حقیقت سے آگاہ تھے اس لیے جب انہوں نے دیکھا کہ تخت موجود ہے تو اسےفضل ربي سے تعبیر کیا یعنی یہ سب کام میرے اللہ کے فضل سے ہی انجام پایا۔
قادری صاحب کی تیسری دلیل اور اس کا جواب :
لکھتے ہیں جب بندے کو موت آتی ہے تو جسم کو موت آتی ہے روح کو موت نہیں آتی جب جسم کو موت آگئی تو جسمانی طاقت ختم ہو جاتی ہے جبکہ روح کو موت نہیں تو روحانی طاقت کس طرح ختم ہو جائے گی۔
ایک عام انسان کی طاقت مرنے کے بعد بڑھ جاتی ہے حدیث مبارکہ میں ہے کہ جب میت کو دفن کر کے واپس پلٹتے ہیں تو وہ میت جوتوں کی آہٹ بھی سنتی ہے۔( بخاری ، شرک کیا ہے صفحہ : 90)
الجواب :
یہ اللہ کی طرف سے میت کو بطور عبرت صرف جوتوں کی آواز سنائی جاتی ہے کہ اس واقعہ سے حسرت وافسوس کا احساس دلانے کا پہلو نکلتا ہے یعنی جب عزیز واقارب میت کو دفن کر کے چلے جاتے ہیں تو اسے یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ جن عزیز واقارب کی وجہ سے تو مارا مارا پھرتا تھا۔
حتی کہ حرام و حلال جائز و نا جائز کی تمیز بھی نہیں کرتا تھا دیکھ وہ اب تجھے تنہا چھوڑ کر جارہے ہیں لہذا اُسے صرف جانے والوں کی آہٹ سنائی دی جاتی ہے آنے والوں کی نہیں اور نہ ہی قبر پر موجود لوگوں کی گفتگو اُسے سنائی جاتی ہے اور نہ ہی وہ سن سکتا ہے حدیث میں جتنی بات ہے اتنی پر ایمان رکھنا چاہیے نہ کہ اپنی طرف سے قصے کہانیاں ساتھ ملا کر اپنے خود ساختہ مذہب کو سہارا دینے کی کوشش کرنی چاہیے یہ آہٹ کا سننا کسی خاص پیر بزرگ کے لیے نہیں بلکہ ہر نیک و بد عام و خاص کے لیے ہے اور یہ کسی حدیث میں نہیں ہے کہ وہ تمہاری دعائیں سنتا ہے اور قبول کرتا ہے تمہاری مشکل کشائی کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں واضح فرما دیا کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم :
وَمَا أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِي الْقُبُورِ(سورۃ فاطر : 22)
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبر والوں کو اپنی بات نہیں سنا سکتے۔
غور فرمائیں اگر قرآن کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم قبر والوں کو تو سنا نہیں سکتے لیکن لوگ کہتے ہیں ہم اپنی بات مردوں کو سناتے ہیں اور وہ سنتے ہیں۔
قرآن کہتا ہے تم نہیں سنا سکتے اب ہم قرآن کو مانیں یا لوگوں کی؟