مزارات کی زیارت اور مراقبہ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

مزارات کی زیارت اور مراقبہ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب:

قبروں کی تعظیم میں غلو بہت سے اعتقادی اور اخلاقی فتنے جنم دے چکا ہے۔
قبروں اور مزارات پر مشرکانہ عقائد و اعمال اور کافرانہ رسوم و رواج اس قدر رواج پا رہے ہیں کہ بعض لوگوں نے اولیاء و صالحین کی قبریں سجدہ گاہ بنا لی ہیں۔
لوگ طلب حاجات کے لیے ان پر مراقبہ اور مجاہدہ کرتے نظر آتے ہیں، مشکلات میں ان کی پکار کرتے ہیں اور ان سے فریادیں کرتے ہیں، ان سے ڈرتے ہیں اور انہی سے امیدیں وابستہ کرتے ہیں۔ ان پر چڑھاوے دیتے ہیں، منت اور نذرانے پیش کرتے ہیں۔ وہاں موجود مجاور زائرین کو صاحب قبر کے متعلق جھوٹی حکایات اور کرامات سناتے ہیں۔
اور لوگ جہالت کے باعث ان کی باتوں میں آ جاتے ہیں اور اپنا ایمان برباد کر بیٹھتے ہیں۔ شیطان نے قبر پرستی اور اولیاء پرستی کے حوالے سے وہ تمام وسائل و ذرائع مہیا کر رکھے ہیں، جن کی بنیاد پر شرک و بدعت کی گاڑی چلتی ہے اور ایمان کے سودے ہوتے ہیں۔ قبروں پر مجاور بن کر بیٹھنا بھی انہی وسائل میں سے ہے۔ یہ منکر اور بدعت ہے۔مشرکین اپنے بتوں کی دیکھ بھال اور نگرانی اسی طرح کرتے تھے، جیسا کہ
❀ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ مَا تَعْبُدُونَ * قَالُوا نَعْبُدُ أَصْنَامًا فَنَظَلُّ لَهَا عَاكِفِينَ﴾ (الشعراء : 70-71)
”ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے سوال کیا کہ جن کی تم عبادت کرتے ہو یہ کیا ہیں؟، کہنے لگے: ہم بتوں کے پجاری اور ان کے مجاور ہیں۔“
❀ نیز فرمایا:
﴿إِذْ قَالَ لِأَبِيهِ وَقَوْمِهِ مَا هَذِهِ التَّمَاثِيلَ الَّتِي أَنْتُمْ لَهَا عَاكِفُونَ﴾ (الأنبياء : 52)
”ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا: کیا ہیں یہ مورتیں، جن کے تم مجاور بنے بیٹھے ہو؟“
❀ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَجَاوَزْنَا بِبَنِي إِسْرَائِيلَ الْبَحْرَ فَأَتَوْا عَلَى قَوْمٍ يَعْكُفُونَ عَلَى أَصْنَامٍ لَهُمْ قَالُوا يَا مُوسَى اجْعَلْ لَنَا إِلَهًا كَمَا لَهُمْ آلِهَةٌ قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ﴾
(الأعراف : 138)
”ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر سے پار اتارا، تو ایک بتوں کی مجاور قوم پر جا اترے، بنی اسرائیل کہنے لگے: موسیٰ! ان کی طرح ہمیں بھی کوئی معبود بنا دیں، موسیٰ علیہ السلام فرمانے لگے: آپ بہت بڑے جاہل ہو!“
اس آیت کی تفسیر میں ایک حدیث ملاحظہ ہو:
❀ سنان بن ابی سنان دولی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
”میں نے صحابی رسول سیدنا ابو واقد رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیا، تو آپ ہمیں اپنے ساتھ قبیلہ ہوازن کی طرف لے گئے۔ ہم کفار کی ایک بیری کے درخت کے پاس سے گزرے، جس کے پاس وہ مجاوری کرتے تھے اور اسے "ذاتِ انواط” کا نام دیتے تھے۔ ہم نے کہا: اللہ کے رسول! جس طرح کفار کی ذات انواط ہے، اسی طرح ہمارے لیے بھی ایک ذاتِ انواط مقرر کر دیجیے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اکبر! یہ سابقہ امتوں کے طریقے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا کہ ہمارے لیے بھی معبود بنا دیں، جیسے کفار کے معبود ہیں اور اس پر موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا تھا:
آپ لا علم لوگ ہیں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آپ اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقے پر ضرور چلیں گے۔“
(صحیح ابن حبان : 6702، وسنده صحيح)
❀ علامہ شاطبی رحمہ اللہ (790ھ) لکھتے ہیں:
”اس تفسیر کے ساتھ فرقوں والی حدیث ان بدعات پر صادق آتی ہے جن کا ارتکاب یہود و نصاریٰ پہلے سے کرتے آ رہے ہیں، نیز معلوم ہوا کہ یہ امت بھی اللہ کے دین میں ایسی بدعات کا ارتکاب کرے گی بلکہ ایک زائد بدعات میں بھی مبتلا ہوگی، جن کا ارتکاب یہود و نصاریٰ نے نہیں کیا۔“
(الاعتصام : 245/2)
❀ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728ھ) فرماتے ہیں:
من المحرمات العكوف عند القبر، والمجاورة عنده، وسدانته، وتعليق الستور عليه، كأنه بيت الله الكعبة .
”قبر پر اعتکاف، اس کی مجاوری، اس کی خدمت، اس پر خانہ کعبہ بیت اللہ کی طرح چادریں چڑھانا، سب حرام ہے۔“
(اقتضاء الصراط المستقيم، ص 267)
❀ نیز فرماتے ہیں:
”کسی شجر وحجر یا مورتی وغیرہ کے پاس اعتکاف کرنا اور کسی نبی یا غیر نبی کی قبر یا نبی یا غیر نبی کے مقام پر مجاور بن کر بیٹھنا، ان کاموں کا مسلمانوں کے دین سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ یہ مشرکین کے دین سے تعلق رکھنے والی چیزیں ہیں۔“
(اقتضاء الصراط المستقيم، ص 365)
❀ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ (751ھ) فرماتے ہیں:
”قبر پرستی کی خرابیوں میں سے یہ بھی ہے کہ ان کی ایسی تعظیم کی جاتی ہے جو انسان کو شرک و بدعت میں مبتلا کر دیتی ہے۔ اسی طرح انہیں میلہ گاہ بنانا، ان کی طرف سفر کرنا، قبروں کے پاس وہ کام بھی کیے جاتے ہیں جو بت پرستی سے مشابہ ہیں، مثلاً ان پر اعتکاف کرنا، ان کے پاس مجاور بن کر بیٹھنا، ان پر پردے لٹکانا، ان کی خدمت کے لیے وقف ہونا وغیرہ۔ قبر پرست قبروں کی مجاوری کو بیت اللہ کی مجاوری پر ترجیح دیتے ہیں اور ان کا یہ نظریہ ہے کہ قبروں کی خدمت بیت اللہ کی خدمت سے افضل ہے۔“
(إغاثة اللهفان : 197/1)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے