قیام کرنے پر قادر نہ ہونا:
عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے بواسیر کی شکایت تھی۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا کہ نماز کیسے پڑھوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
صل قائما فان لم تستطع فقاعدا فان لم تستطع فعلى جنب
”کھڑے ہو کر نماز ادا کرو اگر اس کی طاقت نہیں رکھتے تو بیٹھ کر نماز پڑھو اور اگر اس کی بھی طاقت نہیں رکھتے تو اپنے پہلو پر نماز پڑھو (ان میں سے کسی پر بھی عمل نہ کر سکو تو اشارے سے ہی پڑھ لو)۔“
(بخاری، کتاب الصلوة: 7، ابوداؤد: 952، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ: 1223، مسند احمد: 426/4)
معلوم ہوا کہ اگر قیام پر قادر نہ ہوں تو بیٹھ کر نماز ادا کی جا سکتی ہے۔
بیٹھ کر نماز ادا کرنے کا طریقہ:
تشہد کی طرح بیٹھ کر اس طرح بیٹھے جس طرح تشہد کے لیے بیٹھا جاتا ہے۔
تکبیر تحریمہ کہ کر ہاتھ کانوں تک لے جا کر سینے پر باندھ لے۔
ہاتھ کو زمین پر بچھا دے اور سجدہ کرے، پھر جلسہ اور پھر سجدہ کرے اور اپنی نماز پوری کر لے۔
اگر کوئی مریض تشہد کی طرح نہیں بیٹھ سکتا تو جس طرح چاہے بیٹھ جائے۔
(فقہ علی المذاہب الاربعہ)
کچھ بیٹھ کر اور کچھ کھڑے ہو کر قرآت کرنا:
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رات کی نماز (تہجد) کبھی بیٹھ کر پڑھتے نہیں دیکھا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر زیادہ ہو گئی تو (تہجد کی) بیٹھ کر قرآت کیا کرتے جب رکوع کرنا چاہتے تو کھڑے ہو کر تیس چالیس آیتیں پڑھتے، پھر رکوع کرتے۔
(بخاری، کتاب الصلوة: 118، مسلم: 1702، ابو داؤد: 1954، ترمذی: 374، نسائی: 1647)
ثابت ہوا کہ بیمار، کمزور یا بوڑھا آدمی اگر پورا قیام نہ کر سکتا ہو تو وہ کچھ قیام کا حصہ بیٹھ کر بھی ادا کر سکتا ہے۔
قیام کرنا فرض ہے اس لیے کوشش یہی ہونا چاہیے کہ کچھ نہ کچھ اور کسی نہ کسی طرح قیام ضرور کیا جائے۔
اگر کسی چیز کا سہارا لے کر قیام کر سکتے ہیں تو سہارا لے کر قیام کر لے۔
(فتاوی برائے خواتین اسلام ص:22)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بوڑھے ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ستون کی ٹیک لگا کر رات کی نماز میں قیام کرتے۔
(ابوداؤد: 938، السلسلة الاحادیث الصحیحہ: 319)
حسن بصری کا قول ہے کہ بیمار آدمی فرض نماز کی دو رکعت بیٹھ کر اور دو رکعت قیام کر کے ادا کر سکتا ہے۔
(بخاری، ادب باب از اصلی قاعد اثم صح: 1118)
بیٹھ کر پڑھنے میں اجر کی کمی:
عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا! بیٹھ کر نماز پڑھنا کیسا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
من صلى قائما فهو افضل ومن صلى قاعدا فله نصف اجر القائم ومن صلى نائما فله نصف اجر القاعد
”جو شخص کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو وہ افضل ہے اور جو بیٹھ کر نماز پڑھے اس کو کھڑے ہو کر پڑھنے والے کا آدھا ثواب ملے گا اور جو لیٹ کر نماز پڑھے اس کو بیٹھ کر پڑھنے والے کا آدھا ثواب ملے گا۔“
(بخاری، کتاب الصلوة، ح: 1916، ابو داؤد: 951، ابن ماجہ: 1231، مسند احمد: 426/4)
معلوم ہوا کہ بیمار کو جیسے بھی نماز ادا کر سکے اجازت ہے لیکن بیٹھ کر پڑھنے میں اجر کم ہو جاتا ہے لہذا کوشش یہی ہونا چاہیے کہ جیسے بھی ہو کھڑے ہو کر نماز ادا کی جائے۔ حقیقی عذر کی صورت میں اللہ تعالیٰ خوب جانتا اور معاف کرنے والا ہے۔
بیماری کی حالت میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی بیٹھ کر نماز پڑھائی ہے۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیمار تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے گھر میں بیٹھ کر نماز پڑھائی۔ بعض لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو اشارہ کیا کہ بیٹھ جاؤ۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا:
انما جعل الامام ليوتم به فاذا ركع فاركعوا واذا رفع فارفعوا
”امام اس لیے مقرر ہوا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ۔“
(بخاری، کتاب الصلوة: 1113)
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کو بہت دیر تک کھڑے ہو کر نماز پڑھتے اور رات کا بہت سا حصہ بیٹھ کر نماز پڑھتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہو کر نماز پڑھتے تو رکوع بھی کھڑے ہو کر کرتے اور جب بیٹھ کر نماز پڑھتے تو رکوع بھی بیٹھ کر کرتے۔
(ابوداؤد: 955، مسلم: 730، ابن ماجہ: 1328)
رکوع کرنے پر قادر نہ ہونا:
اگر کوئی شخص قیام بھی کر سکتا ہے اور سجدہ بھی کر سکتا ہے لیکن رکوع نہیں کر سکتا تو کھڑے کھڑے قیام مکمل کر لے جس قدر جھک سکتا ہے جھک کر رکوع کا اشارہ کر لے اور پھر سجدے کے لیے چلا جائے۔ (بحوالہ سابق)
سجدہ کرنے پر قادر نہ ہونا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مریض کو دیکھا کہ وہ تکیہ (سامنے رکھے) اس پر نماز پڑھ رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا تکیہ پھینک دیا پھر اس نے لکڑی کے تختے پر نماز ادا کرنا چاہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو بھی ہٹا دیا اور فرمایا:
صل على الارض ان استطعت والا فاوم الى الارض واجعل سجودك اخفض من ركوعك
”اگر زمین پر نماز پڑھ سکتے ہو تو زمین پر بیٹھ کر نماز پڑھو ورنہ اشارے سے نماز پڑھو البتہ اپنے سجدے کو رکوع سے ذرا سے نیچے کرو۔“
(السلسلة الاحادیث الصحیحہ: 323، صفة صلوة النبی)
معلوم ہوا کہ اگر بیمار زمین پر سجدہ نہ کر سکتا ہو تو کسی تکیے، میز یا اونچی چیز پر سر ٹکا کر سجدہ کرنا درست نہیں۔
اگر کوئی شخص قیام اور رکوع تو کر سکتا ہے لیکن سجدہ نہیں کر سکتا تو وہ تشہد کی صورت بیٹھ کر سر کو سجدے کے لیے قدرے جھکا دے گا۔ (فقہ علی المذاہب الاربعہ)
اگر رکوع بھی اشارے سے کرے اور سجدہ بھی اشارے سے کرے تو رکوع کے اشارے میں سر کو سجدے کے اشارے کی نسبت کم جھکائے گا۔
(مسند احمد: 74/4، اتر مذی نے اسے صحیح کہا، صفة صلوة النبی)
چار زانو بیٹھ کر نماز پڑھنا:
چار زانو بیٹھ کر بھی نماز پڑھی جا سکتی ہے لیکن سجدہ، قومہ اور جلسہ کرتے ہوئے اسی طرح بیٹھنا ہو گا جس طرح تشہد کے لیے بیٹھتے ہیں۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (جب وہ بوڑھے ہو گئے) چار زانو ہو کر نماز پڑھتے دیکھا۔
(نسائی، حاکم نے اسے صحیح کہا، ابن خزیمہ 1/2/107، صفة صلوة النبی)
چار زانو سے مراد یہ ہے کہ اپنا دایاں پاؤں اپنی بائیں ران کے نیچے اور اپنا بائیں پاؤں اپنی دائیں ران کے نیچے رکھ کر مقعد پر بیٹھنا۔
رکوع اور سجدے پر قادر نہ ہونا:
جو شخص قیام کر سکتا ہو لیکن رکوع اور سجدہ نہیں کر سکتا مگر بیٹھ سکتا ہو تو ایسا شخص قیام کے بعد رکوع کے لیے جتنا سر جھکا سکتا ہے، جھکا کر اشارہ کرے گا۔ اس کے بعد سیدھا ہو جائے گا اور زمین پر بیٹھ کر سجدے کے لیے جتنا جھک سکتا ہے جھک کر اشارہ کرے گا۔
(فقہ علی المذاہب الاربعہ)
قیام، رکوع اور سجدے پر قادر نہ ہونا:
جو شخص قیام، رکوع اور سجدہ پر قادر نہ ہو تو وہ جس طرح بھی بیٹھ سکتا ہے، بیٹھ کر نماز ادا کرے گا۔ رکوع اور سجدے کے لیے جس قدر جھک سکتا ہے جھک کر اشارہ کرے گا۔ البتہ یہ خیال رکھنا ہو گا کہ رکوع کی نسبت سجدے کے اشارے میں زیادہ جھکے۔
(بحوالہ سابق)
جو شخص صرف کھڑا ہو سکتا ہو:
اگر کوئی شخص نہ بیٹھ سکتا ہے نہ رکوع اور سجدہ کر سکتا ہے لیکن کھڑا ہو سکتا ہے تو وہ کھڑے ہو کر اپنی نماز ادا کرے۔ کیونکہ قیام کرنا واجب ہے جب کہ وہ شخص قیام پر قدرت بھی رکھتا ہے۔ قیام کے بعد کھڑے کھڑے رکوع اور سجدے کا اشارہ کرے۔ یہ خیال رکھے کہ رکوع کی نسبت سجدے کے اشارے میں زیادہ جھکے۔ (بحوالہ سابق)
جو شخص کھڑے ہونے اور بیٹھنے پر قادر نہ ہو:
اگر کھڑے ہونے اور بیٹھنے کی قدرت نہ ہو تو دائیں پہلو پر لیٹ کر قبلہ رخ منہ کر کے اشارے سے نماز کے تمام ارکان ادا کر لے۔ دائیں کروٹ پر نماز ادا کرنا افضل ہے۔
(دیکھیے بخاری: 1116، ابوداؤد: 951، فتاوی برائے خواتین اسلام ص: 122)
اگر دائیں طرف کروٹ نہ لے سکتا ہو تو پھر بائیں طرف کروٹ لے کر قبلہ رخ منہ کر کے اشارے سے نماز کے تمام ارکان ادا کرے۔ (نقد النه)
اگر دائیں بائیں کروٹ نہ لے سکتا ہو تو پھر چت لیٹ کر سر کو تکیے کے سہارے سے کچھ اونچا کر لے تا کہ رخ قبلہ کی جانب ہو جائے۔ پیروں کے تلوے بھی قبلہ کی جانب ہوں اور گھٹنے اونچے کر لے۔ رکوع و سجود کے لیے سر سے اشارہ کرے۔
(فقہ علی المذاہب الاربعہ، حاشیہ ص: 614)
اگر سر سے رکوع و سجود کا اشارہ نہ کر سکے:
جو شخص سر کو جھکا کر رکوع اور سجدے کے اشارہ کرنے پر قادر نہ ہو وہ پلکوں کو جھکا کر اشارہ کرے اور رکوع کی نسبت سجدے کے اشارے کے لیے پلکوں کو زیادہ جھکائے۔
(فقہ علی المذاہب الاربعہ، حاشیہ ص: 614)
کوئی رکن بھی ادا کرنے پر قادر نہ ہو:
اگر ہوش قائم ہوں لیکن کوئی بھی رکن ادا کرنے پر قادر نہ ہو تو پھر دل ہی میں نماز کے ارکان اور الفاظ کا تصور کر لے یا ہونٹ ہلا کر الفاظ ادا کر لے۔
الفاظ ادا کرنے پر قادر نہ ہونا:
اگر کوئی شخص زبان، گلے، ہونٹ، چہرے وغیرہ کی تکلیف کی وجہ سے ہونٹ ہلا کر الفاظ ادا نہیں کر سکتا تو دل ہی میں لفظ دہرا لے۔
نماز کی جگہ:
اگر زمین پر کھڑے ہو کر نماز پڑھ سکتے ہیں تو زمین ہی بہتر ہے۔ (فتاوی برائے خواتین اسلام ص:122)
اگر بیٹھ سکتے ہیں تو زمین پر تشہد کی طرح بیٹھ کر نماز ادا کریں۔
اگر زمین پر نہیں بیٹھ سکتے تو پھر قیام زمین پر کھڑے ہو کر کریں اور سجدے کے اشارے کے لیے کرسی، چارپائی وغیرہ پر بیٹھ سکتے ہیں۔
اگر قبلہ رخ نہ ہو سکے:
عطاء بن ابی رباح کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص قبلہ کی طرف رخ نہ کر سکے تو جدھر رخ ہو ادھر ہی نماز ادا کر لے۔
(بخاری، کتاب الصلوة، باب اذا لم يعلم قائد اصلی علی جب اوائل حدیث: 1117)
تھوک، کھانسی، چھینک، زکام:
اگر دوران نماز چھینک آ جائے تو الحمد لله نہیں کہہ سکتے۔ نماز کے دوران ایک آدمی نے چھینک ماری، اس نے الحمد لله کہہ دیا، اس کے جواب میں معاویہ بن حکم رضی اللہ عنہ نے نماز ہی میں يرحمك الله کہہ دیا، نماز سے فارغ ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ان هذه الصلوة لا يصلح فيها شيء من كلام الناس انما هي التسبيح والتكبير وقراءة القرآن
”نماز میں انسانی گفتگو کی کوئی گنجائش نہیں، نماز میں تو صرف تسبیح، تکبیر اور تلاوت قرآن ہی ہونی چاہیے۔“
(مسلم)
اگر کھانسی آ جائے اور آواز بھی نکلے تو نماز نہیں ٹوٹتی۔
کھانسی قرات کے دوران آ جائے تو جتنی قرآت کر لی ہے اس پر اکتفا کرتے ہوئے رکوع میں بھی جا سکتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فجر کی نماز پڑھاتے ہوئے سورہ مومنون تلاوت کر رہے تھے جب عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کھانسی آ گئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رکوع میں چلے گئے۔
(ابن ماجہ: 820، مسلم: 455، بخاری قبل حدیث 220)
اگر زکام کی شدت ہو تو کپڑے کے پلو سے ناک صاف کر کے مسل دیں۔
اگر بلغم یا تھوک آئے تو اپنے کپڑے پر تھوک کر اسے مسل دیں یا اپنے بائیں قدم کے نیچے تھوک دیں۔
رومال اور ٹشو وغیرہ بھی استعمال کر سکتے ہیں۔
بائیں طرف اگال دان رکھ لیں اور بوقت ضرورت بائیں ہاتھ سے اگال دان اٹھا کر سامنے لا کر تھوک کر پھر بائیں طرف رکھ دیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اذا كان احدكم فى الصلاة فان الله تعالى بين يديه فلا يبصقن بين يديه ولا عن يمينه ولكن عن يساره او تحت قدميه
”جب تم میں سے کوئی نماز میں ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے سامنے ہوتا ہے لہذا (ایسی حالت میں) اپنے سامنے اور دائیں طرف نہ تھوکے بائیں طرف یا بائیں پاؤں کے نیچے تھوکے۔“
(بخاری: 611، 107، 394)
آنکھوں کی تکلیف:
نماز کے دوران آنکھیں کھلی اور سجدہ گاہ پر رکھنا چاہییں، تکلیف یا درد کی وجہ سے آنکھیں بند بھی کر سکتے ہیں۔
اگر آنکھوں سے میل یا پانی نماز کے دوران نکلے تو اسے صاف کیا جا سکتا ہے۔ ٹشو پیپر یا رومال بھی استعمال کر سکتے ہیں۔
آنکھوں میں تکلیف کی وجہ سے سر نہیں جھکا سکتے تو رکوع اور سجدہ اشارے سے کریں لیکن کسی اونچی چیز پر سجدہ نہ کریں مثلاً تکیہ، میز وغیرہ۔
ہاتھ اور بازو کی تکلیف:
ہاتھ یا بازو کی تکلیف کی وجہ سے تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ کو جہاں تک لے جا سکتے ہیں وہیں تک لے جائیں۔
اگر ہاتھ اوپر لے جانا ناممکن ہو تو دل میں اس ہیئت کا تصور کر لیں جو تکبیر تحریمہ کے وقت اختیار کی جاتی ہے۔
اگر تکلیف کی وجہ سے سینے پر ایک ہاتھ باندھنا ممکن نہیں تو جو ہاتھ باندھ سکتے ہیں صرف اسے باندھ لیں۔
اگر دونوں ہاتھ نہیں باندھ سکتے تو جہاں تک سینے یا پیٹ کی طرف لے جا سکتے ہیں لے جائیں۔
اگر سینے یا پیٹ کی طرف ہاتھ یا بازو کا جھکاؤ کرنا بھی دشوار ہے تو پھر جیسے بھی ہاتھ رکھے جا سکتے ہیں رکھ کر قیام کر لیں۔
اگر سجدہ کرتے ہوئے مسنون طریقے سے بازوؤں کو اٹھا کر اور جسم سے الگ کر کے رکھنا ممکن نہیں تو جس طرح رکھ سکتے ہیں ویسے ہی رکھ لیں۔
اگر رکوع میں گھٹنے نہیں پکڑ سکتے تو جہاں بھی اور جیسے بھی ہاتھ رکھ سکتے ہیں رکھ لیں اگر رکوع کی طرح جھک سکتے ہیں تو جھکنا ضروری ہے۔
قعدے میں بھی ہاتھ جہاں اور جیسے بھی رکھے جا سکتے ہیں رکھ لیں۔
سلام پھیرنا:
اگر گردن کے درد یا اکڑاؤ کی وجہ سے گردن گھما کر سلام نہیں پھیر سکتے تو سر کی جنبش سے دائیں بائیں اشارہ کر کے سلام پھیر لیں۔
اگر سر کو بھی جنبش نہیں دے سکتے تو پھر آنکھوں کا اشارہ کافی ہے۔
زچگی کی تکلیف:
زچگی کا درد شروع ہو چکا ہے لیکن خون نہیں آرہا تو نماز ادا کرنا ہو گی۔
اگر بچہ کا کچھ حصہ نکل چکا ہے لیکن ابھی پورا نہیں نکلا تو بھی نماز ادا کرنا ہو گی۔
اگر بچہ پیدا نہیں ہوا لیکن خون نکل رہا ہے تو نماز ادا نہیں کی جائے گی۔
اگر حمل کے 80 دن گزرنے سے پہلے خون آنا شروع ہو جائے تو نماز ادا کی جائے گی۔ اسے حیض یا نفاس کا خون نہیں کہا جائے گا بلکہ یہ فساد خون کی حالت کہلائے گی۔
زچگی کی تکلیف زیادہ ہو تو جس طرح بیٹھے، کھڑے، لیٹے نماز ادا کر سکتے ہیں ادا کر لیں۔
اگر حمل کو 80 ایام سے زیادہ گزر چکے ہوں اور اسقاط ہو جائے تو یہ حالت نفاس یعنی ناپاکی کی حالت کہلائے گی۔ خون بند ہونے تک نماز ادا نہیں کی جائے گی۔
(تفصیل کے لیے دیکھیے، بدنی طہارت کے مسائل)
زہریلے جانور کا دوران نماز کاٹ لینا:
دوران نماز اگر کسی زہریلے کیڑے نے کاٹ لیا اور اس کا فوری علاج کرنا ضروری ہے تاخیر کرنے سے زہر جسم میں پھیل جائے گا تو اس صورت نماز توڑی جا سکتی ہے۔
دوران نماز کسی زہریلے کیڑے، سانپ وغیرہ اور درندہ موذی جانور جیسے شیر وغیرہ کو دیکھیں تو انہیں مارنے یا ان کے شر سے کسی دوسرے کو بچانے کی سکت اپنے اندر رکھتے ہیں تو نماز توڑ سکتے ہیں۔ بعد میں قضا کریں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اقتلوا الاسودين فى الصلاة الحية والعقرب
”نماز میں دو سیاہ چیزوں کو مار دیا کرو سانپ اور بچھو۔“
(ابوداؤد: 921، ترمذی: 390، ابن ماجہ: 1345)
اگر کسی ایسے کیڑے نے کاٹ لیا کہ اس کے زہر کے پھیلنے کا اندیشہ یا تکلیف بڑھنے کا اندیشہ نہیں تو نماز پوری کر لیں۔
کسی دوا کی وجہ سے بے ہوش ہونا:
اگر کوئی شخص ایسی دوا کھاتا یا ایسا انجیکشن لگواتا ہے جس کے اثر کی وجہ سے غنودگی طاری ہو جاتی ہے یا شدت سے بخار چڑھ جاتا ہے تو ایسے شخص کو چاہیے کہ نماز کا وقت قریب آنے ہوتو نماز ادا کرنے کے بعد دوا اور انجیکشن استعمال کرے۔
اگر زیادہ دیر حالت خراب رہتی ہے تو دو نمازوں کو جمع بھی کیا جا سکتا ہے۔
آپریشن تھیٹر میں جانا یا ایسی مخصوص ورزش کرنا یا ٹیسٹ کروانا ہو جس سے نماز کا وقت نکل جائے گا تو کوشش کی جائے کہ اول وقت پر نماز پڑھ کر فارغ ہو جائیں۔
عام بے ہوشی:
بے ہوش ہونے والے شخص کا وضو ٹوٹ جاتا ہے لہذا وہ ہوش میں آنے پر نماز کے لیے نیا وضو کرے گا۔
بے ہوش شخص ہوش آنے کے بعد اور یادداشت بحال ہونے پر اپنی چھوٹی ہوئی نمازوں کی بالترتیب قضا دے گا خواہ اس کی ایک یا دو دن کی نمازیں اکٹھی ہو جائیں اس پر کفارہ یا گناہ نہیں۔ یہ سوئے ہوئے شخص کے حکم میں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
من نسي صلاة او نام عنها فكفارتها ان يصليها اذا ذكرها
(مسلم، کتاب المساجد، باب قضاء الصلاة الفائتة: 684)
”جو شخص نماز سے سو جائے یا بھول جائے تو وہ یاد آنے پر پڑھ لے۔“
(فقہ السنہ از عاصم الحداد)
طویل بے ہوشی:
جب لمبی بے ہوشی ہو بیماری کی وجہ سے یا علاج کی وجہ سے تو اس کا حکم نیند والے شخص جیسا ہے۔ اگر تین دن سے زیادہ وقت گزر جائیں تو اس کے ذمہ کوئی قضا دینا نہیں، وہ پاگل کے حکم میں ہو گا۔ وہ عقل صحیح ہونے پر نئے سرے سے نماز پڑھنی شروع کرے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
رفع القلم عن ثلاثة عن النائم حتى يستيقظ وعن المجنون حتى يفيق وعن الصبي حتى يبلغ
”تین آدمیوں سے قلم اٹھا لیا گیا ہے ان کا مواخذہ نہیں ہو گا۔ سویا ہوا یہاں تک کہ بیدار ہو جائے۔ دیوانہ یہاں تک کہ ہوش میں آ جائے اور بچہ یہاں تک کہ بالغ ہو جائے۔“
(ابو داؤد: 4398، فقہ المذاہب الاربعہ)
دو نمازوں کو اکٹھا کر کے پڑھنا:
جس شخص کے لیے مرض کی شدت کی وجہ سے بار بار وضو کرنا یا نماز ادا کرنے کے لیے خاص وضع پر بیٹھنا یا کھڑے ہونا مشکل ہو تو وہ دو نمازوں کو ایک ہی وضو سے اکٹھے ادا کر سکتا ہے۔ اور اس کی صورت یہ ہے۔ ظہر کا آخری وقت اور عصر کا اول وقت وہ دونوں نمازیں ایک وضو سے ملا کر پڑھ لے۔
مغرب کا آخری وقت ہو اور عشاء کا اول وقت تو مغرب اور عشاء ملا کر ایک ہی وضو سے پڑھ لے۔ حدیث میں مرض کی وجہ سے دو نمازوں کو اکٹھے ملا کر پڑھنے کا ذکر نہیں ہے لیکن امام احمد اور امام مالک کے نزدیک ایسا کرنا جائز ہے کیونکہ مریض کو ہر نماز اپنے وقت پر ادا کرنے کی وجہ سے جو دقت پیش آتی ہے وہ بارش میں نماز کو اپنے وقت پر ادا کرنے سے زیادہ ہے۔ امام نووی نے بھی یہی کہا ہے۔
(فقہ علی المذاہب الاربعہ)
نمازوں کی قضا:
اگر بیماری کی وجہ سے نمازیں چھوٹ گئیں تو ترتیب وار جتنی ممکن ہو روزانہ نمازیں ادا کر کے قضا پوری کرے۔
(فتاوی برائے خواتین اسلام، ص: 138)
قضا نمازیں ترتیب سے ادا کی جائیں۔ (فتاوی برائے خواتین اسلام)
اگر کم نمازیں قضا ہوئی ہیں تو عذر دور ہوتے ہی ترتیب سے ساری نمازیں ادا کر کے پھر موجودہ وقت کی نماز ادا کریں۔
(تفصیل کے لیے دیکھیے: قضا نماز اور قضا عمری)
بھول جانا:
بعض لوگوں کو بھول جانے کا مرض لاحق ہوتا ہے خصوصاً بڑھاپے میں۔ ایسے لوگ ذہن پر زور دے کر سوچیں کہ کتنی رکعتیں پڑھی ہیں اور جتنی رکعتیں پڑھنے کا غالب گمان ہو ان کے مطابق بقیہ نماز پوری کر لیں اور نماز پوری کر کے آخری تشہد کے آخر میں سلام پھیرنے سے پہلے نماز کے سجدوں کی طرح دو سجدے کر کے بغیر تشہد پڑھے دائیں بائیں سلام پھیر دیں۔ اگر سلام پھیرنے سے پہلے سجدہ سہو کرنا یاد نہ رہے تو سلام پھیرنے کے بعد بھی کر سکتے ہیں۔ جس کا طریقہ یہ ہے کہ الله اكبر کہہ کر سجدے میں جائیں گے اور سجدے سے اٹھ کر جلسہ استراحت کے بعد پھر سجدے میں جا کر سر اٹھا کر دائیں بائیں سلام پھیر لیں۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے سجدہ سہو)
بھولنے میں شدت آ جانا:
بعض لوگ دماغی طور پر اس قدر کمزور ہو جاتے ہیں کہ ان کی عقل ہی درست نہیں رہتی، وہ نماز میں بھی اور دیگر معاملات میں بھی کئی قسم کی ایسی باتیں اور حرکتیں کر جاتے ہیں جن سے ان کے دماغی نقص کا پتا چلتا ہے۔ نماز کے حوالے سے کئی طرح کی باتیں سامنے آتی ہیں مثلاً وقت کا اندازہ نہ رہنا، طہارت کا پتا نہ چلنا، غلط طریقے سے وضو کرنا، نماز کے ارکان ادل بدل ہو جانا، جو تسبیحات یا الفاظ جس رکن میں پڑھے جاتے ہیں انہیں کسی دوسری جگہ پڑھ دینا، قبلے کا پتا نہ چلنا۔
ایسے لوگ شرعاً معذور ہیں۔ ان کے ہوش و حواس ہی درست نہیں لہذا ان پر کوئی گناہ بھی نہیں ہو گا۔ ان شاء اللہ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمایا ہے:
لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا
(2-البقرة:286)
اللہ نہیں تکلیف دیتا کسی بھی نفس کو مگر اس کی وسعت کے مطابق ہی۔
بیمار اور با جماعت نماز:
اللہ تعالیٰ نے جمعہ کی نماز ہر مسلمان پر واجب قرار دی ہے لیکن چار قسم کے لوگ مستثنیٰ ہیں، غلام، عورت، بچے، مریض۔ (ابو داؤد)
مردوں پر باجماعت نماز ادا کرنا فرض ہے۔ گو بیماری کی حالت میں باجماعت ادا کرنا فرض نہیں لیکن ہو سکے تو باجماعت ہی نماز ادا کی جائے، بیٹھ کر ہو سکے یا جیسے بھی ہو سکے۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ بیماری کے آخری دنوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو آدمیوں پر ٹیک دیے ہوئے (مسجد کی طرف) نماز کے لیے نکلے۔ (بیماری کی وجہ سے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاؤں زمین پر لکیر بنا رہے تھے۔ (بخاری، کتاب الصلوة، باب حد المريض ان يشهد الجماعة: 198، 199، مسلم: 940، ابن ماجہ: 1332)
ابن مکتوم رضی اللہ عنہ نابینا تھے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا: میں نابینا آدمی ہوں، میرا گھر بھی دور ہے۔ مجھے مسجد تک پہنچانے والا بھی کوئی نہیں۔ مجھے اپنے گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
هل تسمع النداء بالصلاة؟ قال: نعم، قال: لا اجد لك رخصة
”کیا تمہیں اذان کی آواز سنائی دیتی ہے؟ عرض کیا! جی ہاں۔ فرمایا: میں تمہارے لیے کوئی رخصت نہیں پاتا۔“
(ابوداؤد: 552)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ باجماعت نماز سے (عہد نبوی میں) صرف منافق ہی جماعت سے پیچھے رہتے تھے، ہم نے یہ بھی دیکھا کہ ایک (بیمار) آدمی کو دو آدمی سہارا دے کر لاتے اور اسے صف میں لا کر کھڑا کر دیتے۔ طویل حدیث کا ایک حصہ
(سنن ابی داؤد: 550)
ان احادیث سے پتا چلتا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو سکے بیمار کو بھی مسجد میں جا کر نماز ادا کرنا چاہیے، اگر وہ کھڑے ہو کر نہ پڑھ سکتا ہو تو بیٹھ کر نماز ادا کر لے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام کو بھی تاکید کی وہ لمبی نماز نہ پڑھایا کریں کیونکہ ان کے پیچھے، کمزور، بیمار، ضرورت مند اور عورتیں بچے سبھی قسم کے لوگ کھڑے ہوتے ہیں۔
(دیکھیے سنن ابن ماجہ: 984، بخاری: 702، 704، 715، 90، مسلم: 466)