مرض اور موت سے متعلق چالیس صحیح احادیث
تحریر: ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی، کتاب کا پی ڈی ایف لنک

إن الحمد لله نحمده، ونستعينه، من يهده الله فلا مضل له، ومن يضلل فلا هادي له ، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأن محمدا عبده ورسوله . أما بعد:

بَابُ عِبَادَةِ الْمَرِيضِ وَثوَابِ الْمَرْضِ

مریض کی بیمار پرسی اور بیماری کا ثواب

حدیث: 1

عن أبى هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: حق المسلم على المسلم ست. قيل: ما هن؟ يا رسول الله! قال: إذا لقيته فسلم عليه، وإذا دعاك فأجبه، وإذا استنصحك فانصح له، وإذا عطس فحمد الله فشمته، وإذا مرض فعده، وإذا مات فاتبعه.
صحیح مسلم، کتاب الآداب، رقم: 2162، سنن نسائی، رقم: 1938، سنن ابن ماجه، رقم: 1433
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”مسلمان کے مسلمان پر چھ حق ہیں۔“ دریافت کیا گیا: اے اللہ کے رسول! وہ کیا ہیں؟ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”جب تیری اس سے ملاقات ہو تو اسے السلام عليكم کہہ، اور جب وہ تجھے کھانے پر مدعو کرے تو اس کی دعوت قبول کر، اور جب وہ تجھ سے خیر خواہی کا مطالبہ کرے تو اس کی خیر خواہی کر، اور جب وہ چھینک لے اور الحمد لله کہے تو اس کے جواب میں يرحمك الله کہہ، اور جب وہ بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت کر، اور جب وہ فوت ہو جائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جا۔“

حدیث: 2

وعنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله عز وجل يقول يوم القيامة: يا ابن آدم مرضت فلم تعدني، قال: يا رب كيف أعودك؟ وأنت رب العالمين، قال: أما علمت أن عبدي فلانا مرض فلم تعه، أما علمت أنك لو عدته لوجدتني عنده؟ يا ابن آدم استطعمتك فلم تطعمني، قال: يا رب وكيف أطعمك؟ وأنت رب العالمين، قال: أما علمت أنه استطعمك عبدي فلان فلم تطعمه؟ أما علمت أنك لو أطعمته لوجدت ذلك عندي، يا ابن آدم استسقيتك فلم تسقني، قال: يا رب كيف أسقيك؟ وأنت رب العالمين، قال: استسقاك عبدي فلان فلم تسقه، أما إنك لو أسقيته وجدت ذلك عندي.
صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، رقم: 2569
اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے آدم کے بیٹے! میں بیمار ہوا تو نے میری عیادت نہ کی۔“ بندہ کہے گا: ”اے میرے رب! میں تیری عیادت کیسے کرتا جب کہ تو رب العالمین ہے۔“ اللہ فرمائے گا: ”تجھے معلوم نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا تو نے اس کی عیادت نہ کی، کیا تجھے معلوم نہیں کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا۔ اے آدم کے بیٹے! میں نے تجھ سے کھانا مانگا تو نے مجھے کھانا نہ کھلایا۔“ بندہ کہے گا: ”اے میرے رب! میں تجھے کیسے کھانا کھلاتا جب کہ تو رب العالمین ہے۔“ اللہ فرمائے گا: ”کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تو نے اسے کھانا نہ کھلایا، کیا تجھے معلوم نہیں کہ اگر تو اسے کھانا کھلاتا تو اس کا ثواب میرے پاس پاتا۔ اے آدم کے بیٹے! میں نے تجھ سے پانی مانگا تو نے مجھے پانی نہ پلایا۔“ بندہ کہے گا: ”اے میرے رب! میں تجھے کیسے پانی پلاتا جب کہ تو رب العالمین ہے۔“ اللہ فرمائے گا: ”میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تو نے اسے پانی نہ پلایا، کیا تجھے معلوم نہیں کہ اگر تو اسے پانی پلاتا تو اس کا ثواب میرے پاس پاتا۔“

حدیث: 3

وعن أنس بن مالك قال: سمعت النبى صلى الله عليه وسلم يقول: إن الله تعالى قال: إذا ابتليت عبدي بحبيبتيه فصبر عوضته منهما الجنة، يريد عينيه.
صحیح بخاری، کتاب المرض، رقم: 5653، مسند احمد، جلد: 3، صفحہ: 144، سنن ترمذی، ابواب الجنائز، رقم: 979
اور سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے سنا، آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتا ہے: جب میں اپنے بندے کی دو محبوب چیزوں میں آزمائش کروں اور وہ صبر کرے تو میں ان دونوں کے بدلے اسے جنت عطا کروں گا۔“ دو محبوب چیزوں سے مراد دونوں آنکھیں ہیں۔

حدیث: 4

وعن عائشة قالت: ما أغبط أحدا بهون موت بعد الذى رأيت من شدة موت رسول الله صلى الله عليه وسلم.
صحیح بخاری، کتاب المرض، رقم: 5653، مسند احمد، جلد: 3، صفحہ: 144، سنن ترمذی، ابواب الجنائز، رقم: 979، محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
اور ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ بیان کرتی ہیں کہ ”کسی شخص کے آرام کے ساتھ مرنے پر مجھے رشک نہیں ہوگا جب سے میں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی موت کی شدت کا مشاہدہ کیا ہے۔“

حدیث: 5

وعنها، أنها قالت: رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو بالموت وعنده قدح فيه ماء، وهو يدخل يده فى القدح، ثم يمسح وجهه بالماء، ثم يقول: اللهم أعني على غمرات الموت أو سكرات الموت.
صحیح بخاری، کتاب المرض، رقم: 6510، سنن ترمذی، ابواب الجنائز، رقم: 978
اور ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ بیان کرتی ہیں کہ ”میں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو فوت ہوتے ہوئے دیکھا۔ آپ صلى الله عليه وسلم کے قریب ایک پیالے میں پانی تھا، آپ صلى الله عليه وسلم اپنا ہاتھ پیالے میں ڈالتے، پھر اپنے چہرے پر پھیرتے اور فرماتے: ”اے اللہ ! موت کی ناگواریوں یا موت کی شدتوں پر میری مدد فرما۔ “

بَابُ تَمَنِّي الْمَوْتِ وَذِكْرِه

موت کی آرزو اور اسے یاد کرنا

حدیث: 6

وعن أبى هريرة قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: لا يتمنى أحدكم الموت، إما محسنا فلعله أن يزداد خيرا، وإما مسيئا فلعله أن يستعتب.
سنن ترمذی، ابواب الجنائز، رقم: 978، سنن ابن ماجه، رقم: 1623، مسند احمد، جلد: 6، صفحہ: 64
اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے سنا، آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی موت کی آرزو نہ کرے، کیونکہ اگر وہ نیکوکار ہے تو شاید وہ مزید نیک اعمال کر لے، اور اگر وہ بدکار ہے تو شاید وہ اللہ سے معافی مانگ کر اسے راضی کر لے۔“

حدیث: 7

وعن عبادة بن الصامت عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: من أحب لقاء الله أحب الله لقاءه، ومن كره لقاء الله كره الله لقاءه، قالت عائشة أو بعض أزواجه: إنا لنكره الموت، قال: ليس ذلك، ولكن المؤمن إذا حضره الموت بشر برضوان الله وكرامته، فليس شيء أحب إليه مما أمامه، فأحب لقاء الله وأحب الله لقاءه، وإن الكافر إذا حضر بشر بعذاب الله وعقوبته، فليس شيء أكره إليه مما أمامه، كره لقاء الله وكره الله لقاءه.
صحیح بخاری، کتاب المرض، رقم: 5673، سنن نسائی، رقم: 1818، سنن دارمی، رقم: 2758، مسند احمد، جلد: 2، صفحہ: 263، صحیح بخاری، کتاب الرقاق، رقم: 6507، صحیح مسلم، رقم: 2684، سنن ترمذی، رقم: 2309، سنن نسائی، رقم: 1838، سنن دارمی، جلد: 2، صفحہ: 402، الموطأ، جلد: 1، صفحہ: 240، رقم: 50
اور سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے، اللہ اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے، اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے، اللہ اس کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا یا آپ صلى الله عليه وسلم کی کسی دوسری زوجہ محترمہ نے عرض کیا: ”بلاشبہ ہم موت کو ناپسند کرتے ہیں۔“ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”معاملہ اس طرح نہیں ہے، البتہ حقیقت یہ ہے کہ جب مومن کی موت قریب ہوتی ہے تو اسے اللہ کی رضا اور اس کی جانب سے اکرام و احترام کی بشارت ملتی ہے، تو کوئی چیز اس کے سامنے موجود چیز سے زیادہ اسے محبوب نہیں ہوتی، اس لیے وہ اللہ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے اور اللہ اس کی ملاقات کی چاہت کرتا ہے۔ اور جب کافر کی موت کا وقت قریب آتا ہے تو اسے اللہ کے عذاب اور اس کی سزا کی خبر سنائی جاتی ہے، تو اس کے سامنے جو منظر ہوتا ہے اس سے زیادہ ناپسندیدہ کوئی چیز اس کے نزدیک نہیں ہوتی، چنانچہ وہ اللہ سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے اور اللہ بھی اس کے ملنے کو ناپسند کرتا ہے۔“

حديث: 8

وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أكثروا ذكر هاذم اللذات يعني الموت.
سنن ترمذی، ابواب الجنائز، رقم: 2307، سنن نسائی، رقم: 1824، سنن ابن ماجه، رقم: 4258
اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”لذتوں کو ختم کرنے والی موت کو کثرت سے یاد کیا کرو۔“

حدیث: 9

وعن عبد الله بن عمرو قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: تحفة المؤمن الموت.
سنن ترمذی، ابواب الزهد، رقم: 2307، سنن نسائی، رقم: 1824، سنن ابن ماجه، رقم: 4258، مسند احمد، جلد: 2، صفحہ: 293، محدث البانی نے اسے حسن صحیح کہا ہے، شعب الإیمان للبیھقی، جلد: 7، صفحہ: 171، رقم: 9884
اور سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”موت مومن کے لیے تحفہ ہے۔“

بَابُ مَا يُقَالُ عِنْدَ مَنْ حَضَرَهُ الْمَوْتُ الله

قریب الموت ہونے پر جو کلمات کہے جاتے ہیں

حدیث: 10

وعن أبى سعيد وأبي هريرة قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لقنوا موتاكم لا إله إلا الله.
صحیح مسلم، کتاب الجنائز، رقم: 916، سنن ابی داود، رقم: 3117
اور سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”اپنے فوت ہونے والوں کو لا إله إلا الله کی تلقین کیا کرو۔“

حدیث: 11

وعن أم سلمة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا حضرتم المريض أو الميت فقولوا خيرا، فإن الملائكة يؤمنون على ما تقولون.
صحیح مسلم، کتاب الجنائز، رقم: 919، سنن ابی داود، رقم: 3117، سنن ترمذی، رقم: 977
اور سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”جب تم کسی بیمار یا فوت ہونے والے کے پاس جاؤ تو اچھے کلمات کہو، کیونکہ فرشتے تمہاری باتوں پر آمین کہتے ہیں۔“

حدیث: 12

وعن معاذ بن جبل قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من كان آخر كلامه لا إله إلا الله دخل الجنة.
سنن ابی داود، کتاب الجنائز، رقم: 3116، محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے
اور سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کا آخری کلمہ لا إله إلا الله ہو وہ جنت میں داخل ہو گا۔“

حدیث: 13

وعن عائشة قالت: إن أبا بكر قبل النبى صلى الله عليه وسلم وهو ميت.
صحیح بخاری، کتاب الجنائز، رقم: 1242، سنن ترمذی، رقم: 989
اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ بیان کرتی ہیں کہ ”سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا بوسہ لیا جب کہ آپ صلى الله عليه وسلم فوت ہو چکے تھے۔“

حدیث: 14

وعن أبى هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الميت تحضره الملائكة فإذا كان الرجل صالحا قالوا: اخرجي أيتها النفس الطيبة، كانت فى الجسد الطيب، اخرجي حميدة، وأبشري بروح وريحان ورب غير غضبان، فلا يزال يقال لها ذلك حتى تخرج، ثم يعرج بها إلى السماء فيفتح لها، فيقال: من هذا؟ فيقولون: فلان، فيقال: مرحبا بالنفس الطيبة كانت فى الجسد الطيب، ادخلي حميدة، وأبشري بروح وريحان ورب غير غضبان، فلا يزال يقال لها ذلك حتى ينتهى بها إلى السماء التى فيها الله، وإذا كان الرجل السوء، قال: اخرجي أيتها النفس الخبيثة كانت فى الجسد الخبيث، اخرجي ذميمة، وأبشري بحميم وغساق، وآخر من شكله أزواج، فلا يزال يقال لها ذلك حتى تخرج، ثم يعرج بها إلى السماء، فلا يفتح لها فيقال: من هذا؟ فيقال: فلان فيقال: لا مرحبا بالنفس الخبيثة كانت فى الجسد الخبيث، ارجعي ذميمة، فإنها لا تفتح لك أبواب السماء، فيرسل بها من السماء ثم تصير إلى القبر.
سنن ابن ماجه، کتاب الزهد، رقم: 4262، مسند احمد، جلد: 2، صفحہ: 364، محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”جب کسی شخص کی موت قریب ہوتی ہے تو فرشتے اس کے قریب آتے ہیں۔ اگر فوت ہونے والا شخص صالح ہے تو فرشتے کہتے ہیں: اے پاک روح جو پاک جسم میں تھی، باہر آ، تو قابل تعریف ہے، اللہ کی رحمت، اس کے عطیات اور راضی ہونے والے پروردگار سے خوش ہو جا۔ مسلسل اسے یہ کلمات کہے جاتے ہیں یہاں تک کہ روح جسم سے باہر آ جاتی ہے۔ بعدازاں روح کو آسمان کی جانب لے جایا جاتا ہے، اس کے لیے آسمان کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔ دریافت کیا جاتا ہے کہ یہ کون روح ہے؟ فرشتے بتاتے ہیں: فلاں ہے۔ کہا جاتا ہے: پاکیزہ روح کے لیے خوش آمدید ہو جو پاک جسم میں رہی، جنت میں داخل ہو، تو تعریف کے لائق ہے اور اللہ کی رحمت، اس کے عطیات اور اس پروردگار سے ملاقات کے لیے خوش ہو جا جو تجھ پر ناراض نہیں۔ اسے مسلسل یہ کلمات کہے جاتے ہیں یہاں تک کہ روح اس آسمان تک پہنچ جاتی ہے جس میں اللہ ہے۔ لیکن جب بدکار شخص فوت ہوتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے: اے خبیث روح جو ناپاک جسم میں تھی، تو قابل مذمت ہے، باہر نکل آ۔ گرم پانی، پیپ اور اس کے دیگر عذابوں کی بشارت قبول کر۔ اسے مسلسل یہی کلمات کہے جاتے ہیں یہاں تک کہ روح باہر نکل آتی ہے، پھر اسے آسمان کی جانب چڑھایا جاتا ہے۔ اس کے لیے دروازے کھولنے کا مطالبہ ہوتا ہے۔ دریافت کیا جاتا ہے کہ یہ کون ہے؟ جواب میں بتایا جاتا ہے کہ فلاں ہے، تو پیغام ملتا ہے: خبیث روح کو خوش آمدید نہ ہو جو ناپاک جسم میں تھی، تو واپس چلی جا، تو قابل مذمت ہے، تیرے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھل سکتے۔ چنانچہ اسے آسمان سے واپس بھیج دیا جاتا ہے، پھر وہ قبر میں رہتی ہے۔“

حدیث: 15

وعنه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إذا خرجت روح المؤمن تلقاها ملكان يصعدانها. قال حماد: فذكر من طيب ريحها وذكر المسك، قال: ويقول أهل السماء: روح طيبة جاءت من قبل الأرض، صلى الله عليك وعلى جسد كنت تعمرينه، فينطلق به إلى ربه، ثم يقول: انطلقوا به إلى آخر الأجل. قال: وإن الكافر إذا خرجت روحه، قال حماد: وذكر من نتنها وذكر لعنا، ويقول أهل السماء: روح خبيثة جاءت من قبل الأرض، قال: فيقال: انطلقوا به إلى آخر الأجل. قال أبو هريرة: فرد رسول الله صلى الله عليه وسلم ريطة كانت عليه على أنفه هكذا.
صحیح مسلم، کتاب الجنة وصفة نعيمها، رقم: 2872
اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”جب مومن کی روح جسم سے نکلتی ہے تو دو فرشتے اسے اٹھا کر آسمان کی جانب لے جاتے ہیں۔“ حماد راوی کہتے ہیں کہ انہوں نے روح کی عمدہ خوشبو اور کستوری کا ذکر کیا۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”آسمان کے فرشتے کہتے ہیں: یہ پاکیزہ روح ہے جو زمین کی طرف سے آئی ہے، اللہ کی رحمتیں تجھ پر اور اس جسم پر ہوں جسے تو نے آباد کیا تھا۔“ چنانچہ روح کو اس کے پروردگار کی جانب لے جایا جاتا ہے۔ بعدازاں اللہ فرماتا ہے: ”اسے برزخ کے آخری وقت تک لے جاؤ۔“ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”اور جب کافر کی روح جسم سے نکلتی ہے۔“ حماد راوی نے بیان کیا کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے اس کی بدبو اور اس پر لعنت کا ذکر کیا۔ آسمان کے فرشتے کہتے ہیں: ”ناپاک روح زمین کی طرف سے آئی ہے۔“ کہا جاتا ہے: ”اسے برزخ کے آخری وقت تک لے جاؤ۔“ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ چنانچہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے اس چادر کو جو آپ صلى الله عليه وسلم کے جسم مبارک پر تھی اپنی ناک پر اس طرح ڈال لیا۔
وضاحت: حالت کشف میں جب رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے کافر کا مشاہدہ کیا اور اس کی بدبو کو آپ صلى الله عليه وسلم نے محسوس کیا تو ناک پر چادر ڈال لی۔ گویا کہ آپ صلى الله عليه وسلم کو اس کی بدبو آ رہی تھی، جیسا کہ آپ صلى الله عليه وسلم جب قوم ثمود کی بستیوں کے پاس سے گزرے اور ان کے عذاب کا مشاہدہ کیا تو آپ صلى الله عليه وسلم نے اپنا سر مبارک ڈھانپ لیا تھا۔

حدیث: 16

وعنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا حضر المؤمن، أتت ملائكة الرحمة بحريرة بيضاء، فيقولون: اخرجي راضية، مرضيا عنك، إلى روح الله وريحان، ورب غير غضبان، فتخرج كأطيب ريح المسك، حتى أنه ليناوله بعضهم بعضا، حتى يأتوا به باب السماء، فيقولون: ما أطيب هذه الريح التى جاءتكم من الأرض، فيأتون به أرواح المؤمنين، فلهم أشد فرحا به من أحدكم بغائبه يقدم عليه، فيسألونه: ماذا فعل فلان، ماذا فعل فلان؟ فيقولون: دعوه، فإنه كان فى غم الدنيا. فيقول: قد مات، أما أتاكم؟ فيقولون: قد ذهب به إلى أمه الهاوية. وإن الكافر إذا احتضر أتته ملائكة العذاب بمسح، فيقولون: اخرجي ساخطة، مسخوطا عليك إلى عذاب الله عز وجل، فتخرج كأنتن ريح جيفة، حتى يأتون به باب الأرض، فيقولون: ما أنتن هذه الريح، حتى يأتون به أرواح الكفار.
سنن نسائی، کتاب الجنائز، رقم: 1833، سلسلة الصحيحة، رقم: 1309
اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”جب مومن پر موت کا وقت آتا ہے تو رحمت کے فرشتے سفید ریشم کا لباس لے کر آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: اے روح! تو باہر نکل آ، تو اللہ سے خوش ہے اور وہ تجھ سے خوش ہے، اللہ کی رحمت، اس کی نعمتوں اور اپنے پروردگار کی جانب آ جو تجھ پر ناراض نہیں ہے۔ چنانچہ روح نہایت عمدہ کستوری جیسی خوشبو کی طرح باہر آتی ہے۔ رحمت کے فرشتے اسے ایک دوسرے کے حوالے کرتے ہیں یہاں تک کہ اسے آسمان کے دروازوں کے قریب لے آتے ہیں۔ آسمان کے فرشتے کہتے ہیں: کس قدر عمدہ خوشبو والی یہ روح ہے جو تمہارے پاس زمین کی طرف سے آئی ہے۔ چنانچہ اسے ایمانداروں کی ارواح کے مستقر میں لاتے ہیں۔ ایماندار لوگ اس روح کی ملاقات سے اس سے زیادہ خوشی کا اظہار کرتے ہیں جس قدر تم میں سے کوئی اپنے سفر پر گئے ہوئے ساتھی کی واپسی پر خوش ہوتا ہے۔ وہ اس سے دریافت کرتے ہیں کہ فلاں شخص کا کیا حال تھا؟ پھر وہ کہتے ہیں: ابھی اسے رہنے دو کیونکہ یہ دنیا کے غموں میں مبتلا تھا۔ مرنے والا شخص کہتا ہے: وہ تو فوت ہو گیا تھا، کیا وہ تمہارے ہاں نہیں آیا؟ وہ کہتے ہیں: اسے اس کے مقام ہاویہ (دوزخ) کی جانب لے جایا گیا ہے۔ اور جب کافر کی موت کا وقت قریب آتا ہے تو عذاب کے فرشتے اس کے ہاں ٹاٹ لے کر آتے ہیں اور کہتے ہیں: اے روح! تو اللہ کے عذاب کی طرف آ، تو ناخوش ہے اور تیرا رب تجھ پر ناراض ہے۔ چنانچہ وہ شدید بدبو دار مردار کی بو کی مانند نکلتی ہے یہاں تک کہ فرشتے اسے زمین کے دروازے تک لے آتے ہیں اور کہتے ہیں: یہ کس قدر بدبو دار ہے؟ یہاں تک کہ فرشتے اسے کفار کی روحوں کے مستقر میں پہنچا دیتے ہیں۔“

حدیث: 17

وعن عبد الرحمن بن كعب، عن أبيه، قال: لما حضرت كعبا الوفاة أنت أم بشر بنت البراء بن معرور، فقالت: يا أبا عبد الرحمن إن لقيت فلانا فاقرأ عليه مني السلام. قال: غفر الله لك يا أم بشر نحن أشغل من ذلك. قالت: يا أبا عبد الرحمن أما سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن أرواح المؤمنين فى طير خضر تعلق بشجر الجنة؟ قال: بلى. قالت: فهو ذاك.
سنن ابن ماجه، رقم: 1499، سلسلة الصحيحة، رقم: 995
اور سیدنا عبدالرحمن بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ جب کعب رضی اللہ عنہ کی موت کا وقت قریب آیا تو ان کے پاس ام بشر بنت براء بن معرور رضی اللہ عنہا آئیں۔ انہوں نے کہا: ”اے عبدالرحمن کے والد! اگر تیری فلاں شخص سے ملاقات ہو تو اسے میری جانب سے سلام کہنا۔“ کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: ”اے ام بشر! اللہ تجھے بخشے، ہم اس سے زیادہ مشغول ہوں گے کہ سلام پہنچائیں۔“ ام بشر رضی اللہ عنہا نے کہا: ”اے عبدالرحمن کے والد! کیا تو نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے نہیں سنا، آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ایمانداروں کی روحیں سبز پرندوں میں ہوں گی جو جنت کے درختوں سے کھائیں گی؟“ کعب رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: ”بالکل سنا ہے۔“ ام بشر رضی اللہ عنہا نے کہا: ”پس وہ یہی تو ہے۔“

بَابٌ غُسْلِ الْمَيِّتِ وَتَكْفِينه

میت کو غسل دینا اور اس کی تکفین کرنا

حدیث: 18

وعن أم عطية قالت: دخل علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم ونحن نغسل ابنته فقال: اغسلنها ثلاثا أو خمسا أو أكثر من ذلك بماء وسدر، واجعلن فى الآخرة كافورا، فإذا فرغتن فآذنني، فلما فرغنا آذناه فألقى إلينا حقوه فقال: أشعرنها إياه. وفي رواية: اغسلنها وترا ثلاثا أو خمسا أو سبعا، ابدأن بميامنها وبمواضع الوضوء منها، وقالت: فضفرنا شعرها ثلاثة قرون فألقيناها خلفها.
صحیح بخاری، کتاب الجنائز، رقم: 1254، صحیح مسلم، رقم: 939، سنن نسائی، رقم: 1881، سنن ابن ماجه، رقم: 1458
اور سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم ہمارے ہاں تشریف لائے جب کہ ہم آپ صلى الله عليه وسلم کی بیٹی کو غسل دے رہی تھیں۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”اسے تین یا پانچ یا اس سے زیادہ بار، اگر تم مناسب سمجھو، پانی میں بیری کے پتوں کی آمیزش کر کے غسل دو اور آخری بار میں کچھ کافور ڈالو۔ جب غسل دینے سے فارغ ہو جاؤ تو مجھے اطلاع دینا۔“ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب ہم فارغ ہوئیں تو ہم نے آپ صلى الله عليه وسلم کو مطلع کیا، آپ صلى الله عليه وسلم نے ہماری جانب اپنا تہبند بھیجا اور فرمایا: ”اسے بطور شعار استعمال کرو۔“ اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”اسے طاق، تین یا پانچ یا سات بار غسل دو اور اس کا آغاز میت کی دائیں جانب اور اس کے وضو کے اعضاء سے کرو۔“ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم نے اس کے بالوں کی تین چوٹیاں بنائیں اور انہیں اس کے پیچھے لٹکا دیا۔
وضاحت: سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا عام طور پر عورتوں کو غسل دیا کرتی تھیں۔ مذکورہ حدیث میں نبی صلى الله عليه وسلم کی بیٹی زینب رضی اللہ عنہا کو غسل دینے کا ذکر ہے۔ میت کے غسل میں سب سے پہلے غسل دینے والے کو میت کے پیٹ پر معمولی دباؤ ڈالنا چاہیے تاکہ جو فضلہ باہر آنا چاہتا ہے وہ آ جائے۔ بعدازاں اس کی شرمگاہ کی اچھی طرح صفائی کی جائے، پھر اسے وضو کرایا جائے اور اس کے تمام جسم پر پانی بہایا جائے۔ یہ عمل ایک بار ضروری ہے جب کہ تین بار مستحب ہے۔

حدیث: 19

وعن عائشة قالت: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كفن فى ثلاثة أثواب يمانية بيض سحولية من كرسف، ليس فيهن قميص ولا عمامة.
صحیح بخاری، کتاب الجنائز، رقم: 1264، صحیح مسلم، رقم: 941
اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ بیان کرتی ہیں کہ ”رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو یمن کی بنی ہوئی سفید رنگ کی سحولیہ کاٹن کی تین چادروں میں کفن دیا گیا، ان میں قمیص اور پگڑی نہ تھی۔“

حدیث: 20

وعن ابن عباس أن رجلا كان مع النبى صلى الله عليه وسلم فوقصته ناقته وهو محرم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اغسلوه بماء وسدر وكفنوه فى ثوبين، ولا تمسوه طيبا ولا تخمروا رأسه، فإن الله يبعثه يوم القيامة ملبيا.
صحیح بخاری، کتاب الجنائز، رقم: 1267، صحیح مسلم، رقم: 1206
اور سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی معیت میں احرام کی حالت میں تھا۔ اس کی اونٹنی نے اسے گرا کر اس کی گردن توڑ دی، چنانچہ وہ فوت ہو گیا۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”پانی میں بیری کے پتے ملا کر اسے غسل دو اور اس کی دونوں چادروں میں اسے کفن دو، اسے خوشبو نہ لگاؤ، نہ اس کے سر کو ڈھانپو، وہ قیامت کے دن لبیک پکارتا ہوا اٹھایا جائے گا۔“

بَابُ الْمَشْيِ بِالْجَنَازَةِ وَالصَّلَاةُ عَلَيْهَا

جنازے کے ساتھ چلنا اور اس پر نماز جنازہ ادا کرنا

حدیث: 21

وعن أبى هريرة عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: أسرعوا بالجنازة فإن تك صالحة فخير تقدمونها إليه، وإن تك سوى ذلك فشر تضعونه عن رقابكم.
صحیح بخاری، کتاب الجنائز، رقم: 1315، صحیح مسلم، رقم: 944، سنن ترمذی، رقم: 1015، سنن ابن ماجه، رقم: 1477، مسند احمد، جلد: 2، صفحہ: 240
اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”جنازے کو تیزی سے لے جاؤ، کیونکہ اگر میت نیک ہے تو تم اسے بھلائی کی جانب لے جا رہے ہو، اور اگر میت نیک نہیں ہے تو تم برائی کو اپنی گردنوں سے اتار رہے ہو۔“

حدیث: 22

وعن أبى سعيد الخدري عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: إذا رأيتم الجنازة فقوموا فمن تبعها فلا يقعد حتى توضع.
صحیح بخاری، کتاب الجنائز، رقم: 1310، صحیح مسلم، رقم: 959، سنن ابی داود، رقم: 3174، سنن ابن ماجه، رقم: 1544، موطأ مالک، جلد: 1، صفحہ: 232، رقم: 33
اور سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”جب تم جنازہ دیکھو تو اس کے احترام کے لیے کھڑے ہو جاؤ، اور جو شخص جنازے کے ساتھ چلے وہ اس وقت تک نہ بیٹھے جب تک جنازہ زمین پر نہ رکھا جائے۔“

حدیث: 23

وعن أبى هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من اتبع جنازة مسلم إيمانا واحتسابا، وكان معه حتى يصلى عليها ويفرغ من دفنها، فإنه يرجع من الأجر بقيراطين، كل قيراط مثل أحد، ومن صلى عليها ثم رجع قبل أن تدفن، فإنه يرجع بقيراط.
صحیح بخاری، کتاب الجنائز، رقم: 1325، صحیح مسلم، رقم: 945، سنن ابی داود، رقم: 3168، سنن نسائی، رقم: 1940، مسند احمد، جلد: 2، صفحہ: 2
اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کسی مسلمان کے جنازے کے پیچھے ایمان کے ساتھ اور ثواب طلب کرنے کے لیے جائے اور اس پر نماز جنازہ ادا کرے اور دفن کرنے سے فارغ ہونے تک اس کے ساتھ رہے تو اسے دو قیراط کے برابر ثواب ملے گا، ہر قیراط احد پہاڑ کے برابر ہے، اور جس شخص نے نماز جنازہ ادا کی لیکن دفن سے پہلے واپس آ گیا تو اسے ایک قیراط ثواب ملے گا۔“

حدیث: 24

وعنه، أن النبى صلى الله عليه وسلم نعى للناس النجاشي اليوم الذى مات فيه، وخرج بهم إلى المصلى، فصف بهم وكبر أربع تكبيرات.
صحیح بخاری، کتاب الجنائز، رقم: 1333، صحیح مسلم، رقم: 951
اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے نجاشی کی موت کی خبر اسی دن دی جس دن وہ فوت ہوا۔ آپ صلى الله عليه وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو عیدگاہ لے گئے، ان کی صفیں درست کیں اور آپ صلى الله عليه وسلم نے غائبانہ نماز جنازہ ادا کرتے ہوئے چار تکبیریں کہیں۔
وضاحت: معلوم ہوا کہ خبر بھیجوانا درست ہے، البتہ دور جاہلیت کے انداز پر موت کی خبر دینا درست نہیں۔ رشتہ داروں، دوست احباب اور نیک لوگوں کو خبر پہنچانا درست ہے، البتہ مفاخرت یا نوحہ خوانی کے مقصد سے بلانا جائز نہیں۔ خیال رہے کہ نجاشی رجب کی نو تاریخ کو فوت ہوا۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے اس کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی۔ اس سے مخصوص حالات میں غائبانہ نماز جنازہ کا جواز ثابت ہوتا ہے، نجاشی کی خصوصیت نہیں۔ واللہ اعلم

حدیث: 25

وعن سمرة بن جندب قال: صليت وراء النبى صلى الله عليه وسلم على امرأة ماتت فى نفاسها فقام عليها وسطها.
صحیح بخاری، کتاب الجنائز، رقم: 1331، صحیح مسلم، کتاب الجنائز، رقم: 964، سنن ابی داود، رقم: 3195، سنن ترمذی، رقم: 1035، سنن نسائی، رقم: 1976، سنن ابن ماجه، رقم: 1493، مسند احمد، جلد: 5، صفحہ: 14
اور سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ ”میں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی اقتداء میں ایک عورت کی نماز جنازہ ادا کی جو زچگی میں فوت ہو گئی تھی، آپ صلى الله عليه وسلم جنازہ پڑھانے کے لیے اس کے درمیان کھڑے ہوئے۔“
وضاحت: مرد کے جنازے میں سر کے برابر اور عورت کے جنازے میں اس کے درمیان کے برابر کھڑا ہوا جائے۔

حدیث: 26

وعن المغيرة بن شعبة، أن النبى صلى الله عليه وسلم قال: الراكب يسير خلف الجنازة، والماشي يمشي خلفها وأمامها، وعن يمينها وعن يسارها قريبا منها، والسقط يصلى عليه ويدعى لوالديه بالمغفرة والرحمة.
سنن ابی داود، کتاب الجنائز، رقم: 3180، سنن ترمذی، رقم: 1031، سنن نسائی، رقم: 1942، سنن ابن ماجه، رقم: 1481، مسند احمد، جلد: 4، صفحہ: 247، محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے
اور سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”سوار شخص جنازے کے پیچھے چلے اور پیدل چلنے والا جنازے کے پیچھے، اس کے آگے، اس کے دائیں، اس کے بائیں اور اس کے قریب چلے۔ نیز ناتمام بچے کی نماز جنازہ ادا کی جائے اور اس کے والدین کے حق میں مغفرت اور رحمت کی دعا کی جائے۔“

حدیث: 27

وعن أبى هريرة، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إذا صليتم على الميت فأخلصوا له الدعاء.
سنن ابی داود، کتاب الجنائز، رقم: 3199، سنن ابن ماجه، رقم: 1497، محدث البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے
اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”جب تم کسی میت کی نماز جنازہ ادا کرو تو اس کے حق میں اخلاص کے ساتھ دعا کرو۔“

حدیث: 28

وعنه، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا صلى على الجنازة، يقول: اللهم اغفر لحينا وميتنا، وشاهدنا وغائبنا، وصغيرنا وكبيرنا، وذكرنا وأنثانا، اللهم من أحييته منا فأحيه على الإسلام، ومن توفيته منا فتوفه على الإيمان، اللهم لا تحرمنا أجره، ولا تفتنا بعده.
سنن ابی داود، کتاب الجنائز، رقم: 3201، سنن ابن ماجه، رقم: 1498، مسند احمد، جلد: 2، صفحہ: 368، محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے
اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم جب کسی میت پر نماز جنازہ ادا کرتے تو فرماتے: ” اے اللہ ہمارے زندوں اور مردوں، حاضر اور غیر حاضر، چھوٹے اور بڑوں، مرد اور عورتوں (کے گناہوں ) کو معاف فرما۔ اے اللہ ! ہم میں سے تو جس شخص کو زندہ رکھے اس کو اسلام پر زندہ رکھنا، اور ہم میں سے تو جس کو فوت کرے اس کی وفات ایمان پر فرمانا۔ اے اللہ ! ہم کو اس کے ثواب سے محروم نہ کرنا اور اس کے بعد ہمیں فتنے میں مبتلا نہ کرنا۔ “

حدیث: 29

وعن مالك بن هبيرة قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ما من مسلم يموت فيصلى عليه ثلاثة صفوف من المسلمين إلا أوجب. فكان مالك إذا استقل أهل الجنازة جزأهم ثلاثة صفوف لهذا الحديث. وفي رواية الترمذي: قال: كان مالك بن هبيرة إذا صلى على جنازة فتقال الناس عليها جزأهم ثلاثة أجزاء، ثم قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من صلى عليه ثلاثة صفوف فقد أوجب.
سنن ابی داود، کتاب الجنائز، رقم: 3166، سنن ترمذی، رقم: 1028، سنن ابن ماجه، رقم: 1490، محدث البانی نے اسے حسن کہا ہے
اور سیدنا مالک بن ہبیرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے سنا، آپ صلى الله عليه وسلم فرما رہے تھے: ”جس فوت شدہ مسلمان کی نماز جنازہ پر مسلمانوں کی تین صفیں ہوں تو اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے۔“ چنانچہ جب مالک رضی اللہ عنہ جنازے میں شریک افراد کو کم سمجھتے تو اس حدیث کی وجہ سے وہ انہیں تین صفوں میں تقسیم کر دیتے تھے۔ اور ترمذی کی روایت میں ہے کہ مالک بن ہبیرہ رضی اللہ عنہ جب کسی شخص پر نماز جنازہ ادا کرتے اور لوگوں کی تعداد کم ہوتی تو وہ لوگوں کو تین صفوں میں تقسیم کر دیتے تھے۔ اس کے بعد بیان کرتے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کی نماز جنازہ میں تین صفیں ہو گئیں تو اللہ نے اس کے لیے جنت واجب کر دی۔“

بَابُ دَفِنِ الْمَيِّتِ

میت کو دفن کرنے کا بیان

حدیث: 30

وعن أبى مرثد الغنوي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا تجلسوا على القبور ولا تصلوا إليها.
سنن ابی داود، کتاب الجنائز، رقم: 3229، سنن ترمذی، رقم: 1050، سنن نسائی، رقم: 760
سیدنا ابو مرثد غنوی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”قبروں پر نہ بیٹھو اور نہ ان کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرو۔“
وضاحت: نماز ادا کرتے وقت اگر قبر قبلہ رخ سامنے ہو تو نماز درست نہیں، اور اگر دیوار حائل ہو تو کچھ حرج نہیں۔ واللہ اعلم

حدیث: 31

وعن ابن عمر أن النبى صلى الله عليه وسلم كان إذا أدخل الميت فى القبر قال: بسم الله وبالله وعلى ملة رسول الله، وفي رواية: وعلى سنة رسول الله.
سنن ابی داود، کتاب الجنائز، رقم: 3213، سنن ترمذی، رقم: 1046، سنن ابن ماجه، رقم: 1550، مسند احمد، جلد: 2، صفحہ: 27، محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ جب میت کو قبر میں داخل کیا جاتا تو نبی کریم صلى الله عليه وسلم فرماتے: اللہ کے نام کے ساتھ اور اللہ کی مدد کے ساتھ اور رسول اللہ صلی علیم کے طریقے پر تھا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ وہ اللہ کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی سنت پر تھا۔“

حدیث: 32

وعن أبى هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى على جنازة، ثم أتى قبر الميت فحثى عليه من قبل رأسه ثلاثا.
سنن ابی داود، کتاب الجنائز، رقم: 3213، سنن ابن ماجه، رقم: 1565، محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے
اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ایک میت کی نماز جنازہ ادا کی، بعدازاں اس کی قبر پر آئے اور اس کے سر کی جانب قبر میں مٹی کی تین مٹھیاں ڈالیں۔“

بَابُ الْبُكَاءِ عَلَى الْمَيِّتِ

میت پر آہ و بکا کرنے کا بیان

حدیث: 33

وعن أنس بن مالك قال: دخلنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم على أبى سيف القين، وكان ظئرا لإبراهيم عليه السلام، فأخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم إبراهيم فقبله وشمه، ثم دخلنا عليه بعد ذلك، وإبراهيم يجود بنفسه، فجعلت عينا رسول الله صلى الله عليه وسلم تدرفان. فقال له عبد الرحمن بن عوف: وأنت يا رسول الله؟ فقال: يا ابن عوف إنها رحمة، ثم أتبعها بأخرى، فقال: إن العين تدمع، والقلب يحزن، ولا نقول إلا ما يرضى ربنا، وإنا بفراقك يا إبراهيم لمحزونون.
صحیح بخاری، کتاب الجنائز، رقم: 1303، صحیح مسلم، رقم: 2315
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی معیت میں ابو سیف لوہار کے ہاں گئے، اور وہ آپ صلى الله عليه وسلم کے بیٹے ابراہیم کے لیے دودھ پلانے والی عورت کے خاوند تھے۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ابراہیم کو اٹھایا، اس کا بوسہ لیا اور اس کے ساتھ پیار کیا۔ اس کے بعد ہم وہاں گئے تو جناب ابراہیم نزع کے عالم میں تھے، اس پر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔ چنانچہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے آپ صلى الله عليه وسلم سے استفسار کیا: ”اے اللہ کے رسول! آپ بھی آنسو بہا رہے ہیں؟“ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”اے ابن عوف! آنسو بہانا رحمت ہے۔“ پھر آپ صلى الله عليه وسلم دوبارہ اشکبار ہوئے اور فرمایا: ”آنکھیں اشکبار ہیں، دل غمزدہ ہے، اور ہم وہی کلمات کہتے ہیں جنہیں ہمارا پروردگار پسند کرتا ہے، اور اے ابراہیم! بلاشبہ ہم تیری جدائی پر غمزدہ ہیں۔“

حدیث: 34

وعن عبد الله قال: قال النبى صلى الله عليه وسلم: ليس منا من لطم الخدود وشق الجيوب، ودعا بدعوى الجاهلية.
صحیح بخاری، کتاب الجنائز، رقم: 1294، صحیح مسلم، رقم: 103، سنن ترمذی، رقم: 999، سنن نسائی، رقم: 1862، سنن ابن ماجه، رقم: 1584، مسند احمد، جلد: 1، صفحہ: 432
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”وہ شخص ہم میں سے نہیں جو رخسار پیٹتا ہے، گریبان پھاڑتا ہے اور جاہلیت کے دور کے کلمات کہتا ہے۔“

حدیث: 35

وعن أبى موسى الأشعري قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا مات ولد العبد، قال الله لملائكته: قبضتم ولد عبدي؟ فيقولون: نعم، فيقول: قبضتم ثمرة فؤاده؟ فيقولون: نعم، فيقول: ماذا قال عبدي؟ فيقولون: حمدك واسترجع، فيقول الله: ابنوا لعبدي بيتا فى الجنة، وسومه بيت الحمد.
سنن ترمذی، ابواب الجنائز، رقم: 1021، مسند احمد، جلد: 4، صفحہ: 415، سلسلة الصحيحة، رقم: 1408
سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”جب کسی بندے کا بچہ فوت ہو جاتا ہے تو اللہ اپنے فرشتوں سے فرماتا ہے: کیا تم نے میرے بندے کے بچے کی روح قبض کی؟ وہ اثبات میں جواب دیتے ہیں۔ اللہ دریافت کرتا ہے: کیا تم نے اس کے دل کے پھل کو قبض کیا؟ وہ اقرار کرتے ہیں۔ اللہ دریافت کرتا ہے: میرے بندے نے کیا کہا؟ وہ جواب دیتے ہیں: اس نے تیری حمد و ثناء کی اور إنا لله وإنا إليه راجعون کے کلمات دہرائے۔ اللہ حکم دیتا ہے: میرے بندے کے لیے جنت میں گھر تعمیر کرو اور اس کا نام بیت الحمد رکھو۔“

حدیث: 36

وعن أم سلمة أنها قالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ما من مسلم تصيبه مصيبة فيقول ما أمره الله: إنا لله وإنا إليه راجعون، اللهم أجرني فى مصيبتي وأخلف لي خيرا منها، إلا أخلف الله له خيرا منها.
صحیح مسلم، کتاب الجنائز، رقم: 918
اور سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”جب کسی مسلمان کو مصیبت پہنچے اور وہ وہ دعا مانگے جس کا اللہ نے حکم دیا: إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ، اللَّهُمَّ أْجُرْنِي فِي مُصِيبَتِي وَأَخْلِفْ لِي خَيْرًا مِنْهَاا، تو اللہ اسے اس سے بہتر بدل عطا فرمائے گا۔“

حدیث: 37

وعن عبد الله بن جعفر قال: لما جاء نعي جعفر، قال النبى صلى الله عليه وسلم: اصنعوا لآل جعفر طعاما فإنه قد جاءهم ما يشغلهم.
سنن ابی داود، کتاب الجنائز، رقم: 3132، سنن ترمذی، رقم: 998، سنن ابن ماجه، رقم: 1610
اور سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ جب جعفر رضی اللہ عنہ کی موت کی خبر پہنچی تو نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”آل جعفر کے لیے کھانا تیار کرو، کیونکہ انہیں ایک حادثہ پیش آیا ہے جس نے انہیں مشغول کر رکھا ہے۔“

بَابُ زِيَارَةِ الْقُبُورِ

قبروں کی زیارت کرنے کا بیان

حدیث: 38

وعن أبى هريرة قال: زار النبى صلى الله عليه وسلم قبر أمه فبكى وأبكى من حوله، فقال: استأذنت ربي فى أن أستغفر لها فلم يؤذن لي، واستأذنته فى أن أزور قبرها فأذن لي، فزوروا القبور فإنها تذكركم الموت.
صحیح مسلم، کتاب الجنائز، رقم: 976، سنن ابی داود، رقم: 3234، سنن نسائی، رقم: 2034، سنن ابن ماجه، رقم: 1572، مسند احمد، جلد: 2، صفحہ: 441
اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے اپنی والدہ کی قبر کی زیارت کی۔ آپ صلى الله عليه وسلم خود بھی رونے لگے اور آپ کے گرد جو لوگ تھے انہوں نے بھی رونا شروع کر دیا۔ آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”میں نے اپنے پروردگار سے اجازت طلب کی کہ میں والدہ کے لیے استغفار کروں لیکن مجھے اجازت نہ دی گئی، پھر میں نے اجازت طلب کی کہ والدہ کی قبر کی زیارت کروں تو مجھے اجازت دی گئی، پس تم قبروں کی زیارت کرو کیونکہ قبروں کی زیارت موت کی یاد تازہ کرتی ہے۔“

حدیث: 39

وعنه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لعن زوارات القبور، وقال الترمذي: قد رأى بعض أهل العلم أن هذا كان قبل أن يرخص النبي صلى الله عليه وسلم في زيارة القبور، فلما رخص دخل في رخصته الرجال والنساء. وقال بعضهم: إنما كره زيارة القبور للنساء لقلة صبرهن وكثرة جزعهن.
سنن ترمذی، ابواب الجنائز، رقم: 1056، سنن ابن ماجه، رقم: 1576، مسند احمد، جلد: 5، صفحہ: 353، محدث البانی نے اسے صحیح کہا ہے
اور سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ان عورتوں پر لعنت فرمائی جو مبالغہ کے ساتھ قبروں کی زیارت کرتی ہیں۔ امام ترمذی نے بیان کیا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے اور بعض اہل علم کی رائے ہے کہ زیارت سے منع کرنا اس حکم سے پہلے تھا جب آپ صلى الله عليه وسلم نے قبروں کی زیارت کی اجازت فرمائی۔ جب آپ صلى الله عليه وسلم نے اجازت فرمائی تو اس اجازت میں مرد اور عورتیں سب شامل ہیں۔ اور بعض اہل علم کا قول ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے عورتوں کے لیے قبروں کی زیارت کو اس لیے مکروہ جانا کیونکہ ان میں صبر کم ہوتا ہے اور وہ کثرت سے جزع و فزع کرتی ہیں۔

حديث: 40

وعن بريدة قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعلمهم إذا خرجوا إلى المقابر: السلام على أهل الديار من المؤمنين والمسلمين، وإنا إن شاء الله بكم للاحقون، نسأل الله لنا ولكم العافية.
سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تعلیم دیتے کہ جب وہ قبروں کی زیارت کے لیے جائیں تو کہیں: ” اے مومنو! مسلمانو! (قبروں میں ) سکونت رکھنے والو! تم پر سلام ہو اور جب اللہ نے چاہا تو ہم ( بھی ) تمہارے ساتھ ملنے والے ہیں ہم اللہ سے اپنے اور تمہارے لیے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔“
صحيح مسلم، كتاب الجنائز، رقم: 975، سنن ابن ماجه، رقم: 1547، مسند احمد، جلد: 5، صفحه: 353
وصلى الله تعالى على خير خلقه محمد وآله وصحبه أجمعين

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1