مسلمان کہلانے کے باوجود مرزائیوں سے رشتہ داری: شرعی حکم
سوال:
ہم مسلمان کہلاتے ہیں، لیکن بعض اوقات رشتہ داریاں مرزائیوں (قادیانی یا لاہوری گروہ) سے قائم کی جاتی ہیں۔ جیسے کہ ایک لڑکے اور لڑکی کا نکاح ربوہ میں پڑھایا گیا اور ایک نکاح مولانا شوق کی مسجد نور پارک میں ہوا۔ اب لڑکے کی شادی مرزائیوں کے گھر میں کی جا رہی ہے۔ کیا ایسی شادی میں برات کے ساتھ جانا اور وہاں کھانا پینا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟
(سائل: مین بازار، عبداللہ پور، نور پارک)
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر سوال درست ہے تو واضح ہو کہ قادیانی ہوں یا لاہوری، مرزائیوں کے دونوں گروہ کافر ہیں۔ ان کے کفر میں اب کسی وضاحت کی ضرورت نہیں رہی، کیونکہ علماء کرام نے تقسیم ملک سے بھی پہلے ان کے کفر پر مہر تصدیق ثبت کر دی تھی۔
شیخ الاسلام حضرت ابو الوفا ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کی تصنیف رسالہ فسخ نکاح مرزائیاں سے میں تمام اہل حدیث، حنفی، دیوبندی، بریلوی وغیرہ علماء نے ان کے کفر پر دستخط کر رکھے ہیں۔ اس رسالے میں دلائل قاطعہ کے ساتھ یہ ثابت کیا گیا ہے کہ:
◈ کسی مسلمان عورت کا نکاح کسی مرزائی مرد سے شرعاً جائز نہیں۔
◈ اسی طرح کسی مسلمان مرد کا نکاح کسی مرزائی عورت سے ناجائز ہے۔
◈ اگر کوئی مسلمان مرزائی ہو جائے اور اس کی بیوی مرزائی نہ ہو، تو ان دونوں کا نکاح از خود فسخ ہو جاتا ہے۔
قانونی و شرعی حیثیت
◈ بہاولپور اور راولپنڈی کے جج صاحبان نے بھی تقسیم ملک سے پہلے اور بعد مرزائیوں کو کافر قرار دیا اور ان کے فیصلے کتابی صورت میں شائع ہو چکے ہیں۔
◈ پاکستان کی قومی اسمبلی نے بھی 1974ء میں مرزائیوں کی دونوں شاخوں کو کافر اور غیر مسلم قرار دیا۔
◈ عالم اسلام نے بھی ان کو کافر تسلیم کیا۔
لہٰذا مرزائیوں کے کسی گروہ کے کفر پر بحث کرنا محض وقت کا ضیاع ہے۔ خلاصہ یہ کہ مرزائیوں کے دونوں گروہ شرعاً اور قانوناً کافر اور مرتد ہیں۔ ان کے ساتھ:
◈ نکاح جائز نہیں
◈ معاشرتی تعلقات رکھنا جائز نہیں
◈ دوستی و میل جول رکھنا بھی ناجائز ہے
قرآن مجید کی روشنی میں:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَلا تُمسِكوا بِعِصَمِ الكَوافِرِ
(سورۃ الممتحنہ: 10)
"کافر عورتوں کو نکاح میں نہ رکھو۔”
اسی طرح فرمایا:
وَلا تُنكِحُوا المُشرِكينَ حَتّىٰ يُؤمِنوا
(سورۃ البقرۃ: 221)
"مشرک (کافر) مردوں کو نکاح میں نہ دو جب تک وہ ایمان نہ لائیں۔”
ان دونوں آیات سے واضح ہوتا ہے کہ مرزائیوں سے نکاح بالکل ناجائز ہے۔ جو شخص ان کے ساتھ رشتہ داری کرتا ہے وہ خود کفر میں مبتلا ہو جاتا ہے، اور اس کا دعویٰ اسلام قابلِ قبول نہیں کیونکہ وہ قرآن کی صریح نصوص کا انکار کر رہا ہے۔
مرزائیوں کی شادی میں شرکت کا حکم:
مرزائی لڑکے کی شادی میں بارات کے ساتھ جانا اور کھانا پینا بھی جائز نہیں۔ کیونکہ یہ ان کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَتَّخِذُوا اليَهودَ وَالنَّصـٰرىٰ أَولِياءَ… وَمَن يَتَوَلَّهُم مِنكُم فَإِنَّهُ مِنهُم
(سورۃ المائدہ: 51)
"اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ… جو ان سے دوستی کرے گا، وہ انہی میں سے ہے۔”
امام شوکانی رحمہ اللہ کی تفسیر:
"…اللہ تعالیٰ نے مومنین کو کافروں کی دوستی سے منع کیا، کیونکہ یہ کام کافروں کا ہے نہ کہ مومنوں کا۔ اگر تم ان کے طور طریقے اختیار کرو گے تو انہی میں شمار کیے جاؤ گے۔”
(*فتح الباری ج2 ص49*)
مزید قرآنی دلائل:
يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَتَّخِذوا ءاباءَكُم وَإِخوٰنَكُم أَولِياءَ إِنِ استَحَبُّوا الكُفرَ عَلَى الإيمـٰنِ
’’اے اہل ایمان ! نہ دوست رکھو تم اپنے باپوں کو اور اپنے بھائیوں کو اگر وہ کفر کو ایمان کے مقابلے میں پسند کریں اور تم میں جو شخص ان کو دوست رکھے گا تو ایسے لوگ ظالم ہیں ۔‘‘
(سورۃ التوبہ: 23)
فَأَعرِضوا عَنهُم ۖ إِنَّهُم رِجسٌ ۖ وَمَأوىٰهُم جَهَنَّمُ
’’ پس تم ان سے منہ پھیر لو کہ وہ گندے اور پلید لوگ ہیں ۔ ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔‘‘
(سورۃ التوبہ: 95)
فَإِنَّ اللَّـهَ لا يَرضىٰ عَنِ القَومِ الفـٰسِقينَ
’’پس بے شک اللہ تعالیٰ ان فاسقوں (منافقوں ) سے راضی نہیں ہو گا۔‘‘
(سورۃ التوبہ: 96)
امام محمد بن علی سوکابیؒ:
"رسول اللہ ﷺ نے مومنین کو منافقین سے گفتگو کرنے، ان کے ساتھ بیٹھنے اور اٹھنے سے منع فرما دیا۔”
(*تفسیر فتح القدیر ج2 ص 97*)
امام ابن کثیر رحمہ اللہ (سورۃ آل عمران: 7):
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:
"جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو متشابہ آیات کے پیچھے لگے ہوں، تو ان سے بچو۔”
(*تفسیر ابن کثیر ج1 ص 345*)
امام شوکانی رحمہ اللہ:
"ایسے گمراہ لوگوں کے ساتھ بیٹھنا اٹھنا نہ رکھو۔”
(*فتح القدیر ج1 ص318،319*)
انتباہ و وعید:
مرزائیوں کے ساتھ:
◈ رشتہ داری قائم کرنا
◈ میل جول رکھنا
◈ ان کی تقاریب میں شریک ہونا
◈ ان کی اقتدا میں نماز پڑھنا
یہ سب قطعا ناجائز ہیں۔ یہ عمل اللہ تعالیٰ کے عذاب کا سبب بن سکتے ہیں۔
قرآن مجید فرماتا ہے:
قُل إِن كانَ آباؤُكُم… أَحَبَّ إِلَيكُم مِنَ اللَّـهِ وَرَسولِهِ وَجِهادٍ في سَبيلِهِ فَتَرَبَّصوا…
(سورۃ التوبہ: 24)
نتیجہ:
لہٰذا واضح ہے کہ مرزائیوں کے کسی بھی گروہ کی برات میں شمولیت، ان کے ساتھ کھانا پینا، یا میل جول رکھنا شرعاً ناجائز اور حرام ہے۔ اس سے بچنا ہر مسلمان پر واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب