مرد و عورت کی نماز کا طریقہ: کیا دونوں میں فرق ہے؟
ماخوذ : فتاویٰ راشدیہ، صفحہ نمبر 321

سوال

مرد اور عورت کی نماز میں کوئی فرق ہے یا نہیں؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نبی کریم ﷺ کی حدیث مبارکہ ہے کہ:

((انما النساء شقائق الرجال))
سنن ابى داود، كتاب الطهارة، باب المراة ترى ما يرى الرجل، رقم الحديث: 236
’’عورتیں شرعی احکامات میں مردوں کی ہم پلہ ہیں۔‘‘

وضاحت

◄ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ عورتیں بھی ان ہی احکامات کی پابند ہیں جن کی مردوں کو پابندی ہے۔
◄ البتہ ان معاملات میں جہاں اللہ سبحانہ وتعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے مردوں اور عورتوں کے احکام الگ بیان کیے ہیں، وہاں فرق موجود ہے۔
◄ باقی تمام امور اور معمولات میں عورتیں بھی ویسے ہی عمل کریں گی جیسے مرد عمل کرتے ہیں۔

نماز کے بارے میں

◄ دورانِ حیض اور نفاس کے علاوہ عورتوں پر بھی نماز اسی طرح فرض ہے جس طرح مردوں پر فرض ہے۔
◄ عورتیں بھی بالکل اسی طریقے سے نماز ادا کریں گی جیسے مرد نماز پڑھتے ہیں۔
◄ رسول اللہ ﷺ نے نماز کے طریقے میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق بیان نہیں فرمایا۔
◄ لہٰذا اپنی رائے اور خیال سے نماز میں فرق پیدا کرنا جائز نہیں ہے۔

غلط روش کی نشاندہی

◄ عورتوں کو بھی عین اسی طریقے سے نماز پڑھنی ہے جیسے مرد پڑھتے ہیں، اس کے خلاف کسی قسم کی تفریق کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے۔
◄ احناف حضرات کے لیے تو تعجب کی بات نہیں کیونکہ وہ مقلد ہیں۔
◄ لیکن نہایت افسوس اور تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض اہل حدیث خواتین بھی ایسی نماز پڑھتی ہیں جس کا ثبوت کتاب و سنت سے نہیں ملتا۔
◄ کتاب و سنت کی رو سے یہی درست ہے کہ عورتیں بھی مردوں کی طرح نماز پڑھیں۔
◄ نماز کے طریقہ میں تفریق محض انسان کی ایجاد ہے، جس کی کوئی شرعی بنیاد نہیں۔

ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے