مذی کے نکلنے پر ذکر اور خصیتین دھونے کا حکم
سوال:
کیا مذی نکلنے کی صورت میں صرف ذکر دھونا کافی ہے یا خصیتین کو بھی دھونا ضروری ہے؟
جواب :
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
درج ذیل احادیث اور آثار کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ مذی نکلنے کی صورت میں نہ صرف ذکر بلکہ خصیتین کو بھی دھونا شرعی طور پر ثابت ہے:
➊ حدیث مقداد رضی اللہ عنہ
مقداد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے اپنا ذکر اور خصیتین دھونے چاہئیں۔‘‘
(سنن ابی داؤد: 1/43)
یہ حدیث صحیح ہے اور واضح طور پر خصیتین دھونے کا حکم دیتی ہے۔
➋ حدیث عبد اللہ بن سعد الانصاری رضی اللہ عنہ
عبد اللہ بن سعد الانصاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ غسل کس چیز سے فرض ہوتا ہے؟ اور مذی کے نکلنے کے بعد پانی کے استعمال (یعنی غسل) کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا:
یہ مذی ہے، اور ہر مرد کی مذی نکلتی ہے، تو اس سے صرف اپنی شرمگاہ اور خصیے دھو۔ اور پھر وضو کرو، جس طرح نماز کے لیے وضو کیا جاتا ہے۔‘‘
(صحیح سنن ابی داؤد: 1/42)
➌ اثر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ
سلیمان بن ربیعہ باہلی فرماتے ہیں کہ:
’’انہوں نے بنی عقیل کی ایک عورت سے شادی کی، اور جب وہ اس سے ملاعبت کرتے تو ان کی مذی نکلتی تھی۔ اس پر انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا، تو انہوں نے فرمایا:
جب آپ دیکھیں کہ پانی (یعنی مذی) نکلا ہے، تو اپنی شرمگاہ اور خصیے دھو، اور نماز کے وضو جیسا وضو کر۔‘‘
(شرح معانی الآثار للطحاوی: 1/39، مصنف عبد الرزاق: 1/157)
➍ اثر علی رضی اللہ عنہ
اسی طرح کا قول حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے، جو اس مسئلے پر مزید تقویت فراہم کرتا ہے۔
➎ شرعی دلیل کی اہمیت
صحیح روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جیسے مذی کے نکلنے پر ذکر دھونا واجب ہے، ویسے ہی خصیتین دھونا بھی ضروری ہے۔
جو لوگ یہ تاویل کرتے ہیں کہ خصیتین کا دھونا صرف مذی کے رکنے کے لیے ہے اور یہ شرعی حکم نہیں ہے، ان کے لیے عرض ہے:
اگر کسی نے اس حکم کی حکمت بیان کی ہے، تو اس حکمت کو بنیاد بنا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح حکم کو رد کرنا جائز نہیں۔
اگر ہم خصیتین دھونے کو صرف مذی کے رکنے کے لیے کہیں، تو کیا یہ حکم صرف صحابہ کے دور سے مخصوص ہو جائے گا؟
ہرگز نہیں، بلکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی مخالفت اس وجہ سے کی جا رہی ہے کہ ان کے امام نے اس کا حکم نہیں دیا۔
مگر یاد رکھیں! سب سے بڑے امام تو خود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
تقلیدِ جامد کا یہ نتیجہ ہے کہ انسان بہت سی دینی بھلائیوں سے محروم ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی اس بات کو نہیں مانتا، تو خود تجربہ کرکے دیکھ لے۔
➏ ڈھیلوں سے استنجاء کرنے کا مسئلہ
اب یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ:
کیا مذی کے نکلنے پر صرف ڈھیلوں سے صفائی کی جا سکتی ہے، یا پانی کا استعمال ضروری ہے؟
جواباً عرض ہے:
صرف پانی ہی سے استنجاء کرنا واجب ہے۔
یہاں ڈھیلوں کے استعمال کی اجازت نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر ذکر اور خصیتین دھونے کا حکم دیا ہے۔
نتیجہ
صحیح احادیث کی روشنی میں یہ بات قطعی طور پر ثابت ہے کہ:
مذی کے نکلنے پر ذکر اور خصیتین دونوں کو دھونا واجب ہے۔
صرف ڈھیلوں کا استعمال اس صورت میں کافی نہیں، بلکہ پانی سے دھونا ضروری ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب