معاشرتی تعلقات میں ایمان اور تقویٰ کی نفی
اگر مذہب کو محض ذاتی معاملہ سمجھا جائے، تو معاشرتی تعلقات میں ایمان اور تقویٰ کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا۔ کسی شخص کی نماز، روزہ، یا دیگر مذہبی اعمال یہ طے نہیں کریں گے کہ وہ کسی اہم عہدے پر فائز ہو سکتا ہے یا نہیں۔
اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ایک شخص چاہے شراب نوشی کرے، زنا کا مرتکب ہو، یا دیگر برائیوں میں ملوث ہو، وہ سی ایس پی افسر، فوجی جنرل یا یونیورسٹی کا ڈین بننے کا حق رکھتا ہے۔
یہ قرآن کے اصول (الحجرات: 13) سے کھلی بغاوت ہے، جس کے مطابق اللہ کے نزدیک معزز وہی ہے جو زیادہ پرہیزگار ہو۔
اسلامی ریاست میں کم از کم شرائط میں ادائیگی نماز جیسے اصول شامل ہیں۔ ایک بے نمازی فرد صدر تو دور، چپڑاسی بھی نہیں بن سکتا۔
مذہبی تعلیمات کی درجہ بندی اور جمہوری اصولوں کا تضاد
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ "تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے” (بخاری)۔
لیکن مذہب کو ذاتی مسئلہ ماننے کا مطلب یہ ہے کہ معاشرتی درج بندی میں مذہبی اقدار کی کوئی حیثیت نہ ہو، جو جمہوری اصولوں (مساوات اور آزادی) کے خلاف ہے۔
تعلقات میں مذہب کا کردار ختم کرنا
جب مذہب ذاتی مسئلہ ہو، تو تعلقات قائم کرتے وقت یہ دیکھنے کی ضرورت نہیں ہوگی کہ سامنے والا شخص مومن ہے یا فاسق، بدکار ہے یا پرہیزگار۔
قرآن کے مطابق مومن کی زندگی کا ہر پہلو اللہ کے لیے وقف ہونا چاہئے (سورہ انعام: 161-162)۔
نیز احادیث میں بھی واضح ارشاد موجود ہے کہ دوستی اور دشمنی کا معیار ایمان اور تقویٰ ہونا چاہئے (بخاری)۔
نیکی اور بدی برابر قرار پائیں گی
جمہوری معاشرت میں مذہبی احکام کو ایک ذاتی ترجیح کے طور پر دیکھا جائے گا، جیسے جمناسٹک یا باڈی بلڈنگ۔
قرآن اس بات کو مسترد کرتا ہے کہ نیکی اور بدی برابر ہوں (حم سجدہ: 34)۔
جمہوری اصولوں کے تحت فرد کی ذاتی زندگی کے معاملات، جیسے وہ نماز پڑھے یا نہ پڑھے، کسی ادارے یا معاشرتی ذمہ داری پر اثر انداز نہیں ہوں گے، جو اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔
ٹولیرنس (Tolerance) اور ایمان کا تضیع
جمہوری اقدار کے تحت، ہر شخص کی ذاتی آزادی کا احترام کیا جاتا ہے، اور کسی کو دوسرے کی برائی پر تنقید کا حق نہیں دیا جاتا۔
لیکن احادیث میں واضح ہدایت ہے کہ برائی دیکھنے پر اسے ہاتھ، زبان یا دل سے روکنا ایمان کا حصہ ہے (مسلم)۔
ٹولیرنس کا مطلب یہ ہوگا کہ برائی کو برائی نہ سمجھا جائے، بلکہ اسے برداشت کیا جائے۔ یہ رویہ ایمان کی نفی کے مترادف ہے۔
آخرت کا تصور بے معنی ہو جائے گا
اگر معاشرتی صف بندی میں مذہب کا کردار ختم ہو جائے، تو یہ سوال کہ مرنے کے بعد جنت یا جہنم میں جانا ہے، بے وقعت ہو جائے گا۔
اسلامی نقطۂ نظر سے معاشرتی صف بندی کا اہم ترین سوال یہی ہوتا ہے کہ لوگ نیکیاں زیادہ کماتے ہیں یا گناہ۔
بے شمار شرعی احکامات کا انکار
جب مذہب کو نجی مسئلہ سمجھا جائے تو ستر و حجاب، معاشی معاملات، جرم و سزا، اور خلافت و جہاد جیسے کئی احکامات کی خلاف ورزی لازم ہو جائے گی۔
قرآن میں واضح ہے کہ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلے نہ کرنے والے کافر، ظالم اور فاسق ہیں (المائدہ: 43-46)۔
نتیجہ: مذہب کو ذاتی مسئلہ قرار دینا گمراہی کی دعوت
مذہب کو فرد کا ذاتی مسئلہ ماننے کا مطلب ہے کہ:
- تقویٰ عزت کا معیار نہیں
- نیکی اور بدی مستقل اقدار نہیں
- احکاماتِ شریعت ناقابلِ عمل ٹھہریں گے
یہ اسلام کے اصولوں سے کھلی بغاوت ہے اور معاشرتی و ریاستی زندگی میں الحاد کا راستہ ہموار کرتا ہے۔