مذہب اہل مدینہ اور اہل حدیث

یہ تحریرمولانا ابو صحیب داؤد ارشد حفظہ اللہ کی کتاب تحفہ حنفیہ سے ماخوذ ہے۔ یہ کتاب دیوبندی عالم دین ابو بلال جھنگوی کیجانب سے لکھی گئی کتاب تحفہ اہلحدیث کا مدلل جواب ہے۔

مذہب اہل مدینہ اور اہل حدیث

ہمارے معاصر جھنگوی صاحب نے مدینے والوں سے اہل حدیث کے اختلافات بھی گنوائے ہیں۔ اس کے تحت وہ امام مالک رحمہ اللہ اور اہل حدیث کے درمیان اختلاف ثابت کرتے ہیں۔ حالانکہ مدینہ طیبہ کے رہنے والے صرف امام مالک ہی نہیں بلکہ متعد د امام ہیں جو صحابہ کی اولاد سے ہیں۔ مگر ابو بلال صاحب کو مدینہ طیبہ میں صرف ایک ہی عالم نظر آیا ہے اور ان کے مؤقف کو ہی وہ اہل مدینہ کا مؤقف باور کراتے ہیں۔ جو ان کی جہالت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
بلاشبہ امام مالک ایک عظیم الشان امام ہیں۔ سنت کے فدائی اور قرآن کے عالم ہیں۔ مگر حق کا ان میں حصر نہیں۔ اور نہ ہی تعامل اہل مدینہ صرف امام مالک رحمہ اللہ کے موقف کا نام ہے کیونکہ امام مالک کا مدینہ کے علماء میں شمار ہوتا ہے۔ الغرض علماء مدینہ کا وہ جزو تو ہیں مگر کل نہیں۔
اب آئیے ترتیب وار ان مسائل کی حقیقت ملاحظہ کریں جن کی جھنگوی صاحب نے وضاحت کی ہے۔

◈مسئلہ رفع الیدین :-

حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم جب نماز شروع کرتے اور جب رکوع کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع الیدین کرتے۔
( صحیح بخاری ص 102 ج 1 )

اس حدیث کے راوی امام مالک رحمہ اللہ ہیں اور اس حدیث پر ان کا عمل ہے۔

❀ حافظ ابن عبد البر مالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
روى ابن وهب والوليد بن مسلم وسعيد بن ابی مریم واشهب وابو المصعب عن مالك أنه كان يرفع يديه على حديث ابن عمر هذا الى ان مات
’’یعنی امام ابن وحب ،امام ولید بن مسلم ، امام سعید بن ابی مریم ، امام اشعب اور امام ابو مصعب ، امام مالک سے بیان کرتے ہیں کہ وہ ابن عمر کی حدیث کے موافق نماز میں رفع الیدین کرتے رہے یہاں تک کہ ان کی وفات ہو گئی۔‘‘
( التمهيد ص 213 ج 9)

پگڑی پر مسح :

فرماتے ہیں کہ آپ پگڑی پر مسح کے قائل ہیں جبکہ مدینہ کا امام اس کی اجازت نہیں دیتا۔
(موطا امام مالک ص 23 تحفہ اہل حدیث ص 77)
الجواب:- بھائی اگر امام مدینہ حضرت امام مالک کو اس سنت کا علم نہیں ہو سکا تو کیا ہوا جبکہ مہاجر مدینہ اور امام الانبیاء اور خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ سے پگڑی پر مسح کرنا ثابت ہے۔

❀ حضرت عمرو بن امیہؓ بیان کرتے ہیں کہ
رایت النبي نكت يمسح على عمامته وخفيه
’’یعنی میں نے نبی صلى الله عليه وسلم کو عمامہ مبارک اور موزوں پر مسح کرتے دیکھا۔‘‘
( بخاری شریف ص 33 ج 1 )

❀ حضرت بلالؓ راوی ہیں کہ
ان رسول الله ﷺ مسح على الخفين والخمار
’’یعنی بلا شبہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے (وضو میں) موزوں اور پگڑی پر مسح فرمایا۔‘‘
(صحیح مسلم ص 134 ج 1)

❀ حضرت ثوبانؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ایک لشکر کو بھیجا ان کو سردی لگ گئی جب وہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے پاس آیا تو نبی صلى الله عليه وسلم نے ان کو پگڑی اور جرابوں پر مسح کرنے کا حکم فرمایا۔
( سنن ابی داؤد مع عون ص 56 ج 1 و مسند احمد ص 277 ج 5)
امام حاکم وذھبی فرماتے ہیں کہ یہ شرط مسلم پر صحیح ہے۔

❀حضرت سلیمان فارسیؓ بیان کرتے ہیں کہ
فانی رایت رسول الله صلى الله عليه وسلم يمسح على حماره وعلى خفيه
’’یعنی میں نے رسول اللہ ﷺ کو پگڑی اور موزوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا۔‘‘
(صحیح ابن حبان ص 1 26 ج 3)

❀حضرت خزیمہ بن ثابتؓ بیان کرتے ہیں کہ
ان النبي ما كان يمسح على الخفين والحمار
’’ بلا شبہ نبیﷺ موزوں اور پگڑی پر مسح فرمایا کرتے تھے۔‘‘
( معجم طبرانی الاوسط ص 266 ج 2 رقم الحدیث (1454)

علامہ ہیشمی فرماتے ہیں کہ اس کی سند حسن ہے۔
(مجمع الزوائد ص 256 ج1)
آپ کے استاذ المکرم فرماتے ہیں کہ اپنے وقت میں اگر علامہ ہیشمی کو صحت اور ستم کی پرکھ نہیں تو اور کس کو تھی۔
( حاشیہ احسن الکلام ص 290 ج 1 طبع چہارم 1413 ھ )

پگڑی پر مسح کرنے کی روایات متعدد صحابہ کرامؓ سے مروی ہیں جو تقریبا بیس کے لگ بھگ ہیں۔ اگر فریق ثانی نے اس کا جواب تحریر کیا اور ہم مجبور کر دیئے گئے تو جواب الجواب میں خاکسار اس پر مفصل بحث کر دے گا۔ ان شاء اللہ اور مبتدعین کی جملہ تحریفات و تاویلات فاسدہ کو طشت از بام کر کے رکھ دے گا۔ ان شاء اللہ۔

امام ترمذی پگڑی پر مسح کے قائلین کاذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ابو بکر صدیقؓ ،عمر فاروقؓ، انس بن مالکؓ، امام اوزاعی، امام احمد، امام اسحق، امام وکیع بن الجراح، پگڑی پر مسح کے قائل تھے۔
( ترمذی مع تحفہ ص 105 ج 1)

اسی طرح امام ابی ثور امام داود بن علی،حضرت ابی المامہؓ ،حضرت سعدؓ، حضرت ابی درداءؓ، حضرت عمر بن عبد العزیز، قتاده مکحول۔
( عون المعبود ص 56 ج 1)
حضرت ابو موسیٰ الاشعریؓ، حضرت علیؓ، امام سفیان ثوری، امام حسن بصری بھی پگڑی پر مسح کے قائل تھے۔
(المحلی بالاعمار ص 306 ج 1)

سوال یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلى الله عليه وسلم اور صحابہ کرام کا مقدس گروه بالخصوص خلفاء الراشدین آپ کے نزدیک مدینہ طیبہ کے باشندے نہ تھے۔ کہ آپ ہمیں مذہب اہل مدینہ سے اختلاف کا طعنہ دے رہے ہیں۔

مزید سینے کہ امام مالکؒ کے نزدیک پورے سر کا مسح فرض ہے۔ اگر سر کا کچھ حصہ مسح کرنے سے رہ گیا تو وضو نہیں ہو گا۔
( التحميد ص 125 ج 20)

ظاہر ہے کہ یہ مؤقف حنفیہ کے خلاف ہے۔ کیونکہ ان کے نزدیک سر کا چوتھائی حصہ فرض ہے۔ علاوہ ازیں امام مالک مطلق پگڑی پر مسح کے قائل نہیں۔
(موطاص 23)

حالانکہ حنفی نامیہ کے ساتھ ملا کر پگڑی پر مسح کے قائل ہیں۔
فما کان جوابکم فھو جوابنا

◈تمیم میں ایک ضرب کا ثبوت:

فرماتے ہیں کہ آپ کے نزدیک تمیم کی ایک ضرب ہے جبکہ مدینہ کے امام کے ہاں دوضربیں ہیں۔
(موطا تحفہ اہل حدیث ص 77)
الجواب : عبدالرحمن بن ابذی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر فاروقؓ کے پاس ایک شخص آیا۔ اس نے کہا میں جنسی ہو گیا اور پانی نہیں پاتا۔ حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا کہ تو نماز ادانہ کر (یہاں تک پانی ملے) کہ تب حضرت عمار بن یاسرؓ نے کہا کہ اے عمر فاروقؓ وہ واقعہ یاد کرو جب میں اور آپ ایک سریہ میں تھے اور ہم دونوں جنبی ہو گئے۔ آپ نے تو نماز ادانہ کی لیکن میں نے مٹی پر لیٹ کر نماز پڑھ لی۔ جب رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے پاس آئے تو آپ علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ
يكفيك ان تضرب بيدك الارض ثم تنفخ ثم تمسح بهما وجهك وكفيك
تجھے اتناہی کافی تھا کہ تو زمین پر ہاتھ مارتا اور ہاتھوں کو پھونک مار کر (جھاڑ) لیتا پھر ان دونوں ہاتھوں سے چہرے اور ہاتھوں کا مسح کر لیتا۔
( بخاری ص 48 ج 1 و مسلم ص 161 ج 1 واللفظ للمسلم )
یہی حدیث حضرت ابو موسیٰ الاشعریؓ حضرت عمار بن یاسرؓ سے روایت کرتے ہیں۔
( بخاری ص 50 ج 1 و مسلم ص 161 ج 1 )

امام ترمذی فرماتے ہیں کہ ایک ضرب سے تمیم کرنے کے قائل حضرت علیؓ، حضرت عمارؓ، حضرت ابن عباسؓ، اور متعدد تابعین ہیں اور یہی قول ہے امام احمدؒ اور امام اسحٰقؒ کا۔
(ترمذی مع تحفہ ص 133 ج 1)
یہی فتوی ہے قتادہ، سعید بن مسیتب اور عروہ بن زبیر کا۔
(المحلى ص 376 ج 1)

آپ سے بھائی سوال یہ ہے کہ امام الانبیاء اور خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ ، حضرت علیؓ ،حضرت ابن عباسؓ ،حضرت عمار بن یاسرؓ ،امام سعیدؒ بن مسیب اور عروہ بن زبیر، مدنی نہیں۔ اگر واقعی ان کو آپ مدنی نہیں جانتے تو پھر آپ کسی دماغی ہسپتال میں داخلہ لیجیے تصنیف آپ کے بس کا روگ نہیں۔ اگر یہ مدنی ہیں یقینا ہیں تو پھر کس منہ سے ہم پر مذہب اہل مدینہ سے اختلاف کا آوازہ کس رہے ہو۔
پھر یہ واضح ہو کہ امام مالکؒ سے ایک ضرب سے تیمم کرنے کی روایت بھی موجود ہے ۔ جس کا اعتراف مولانا محمد تقی عثمانی نے کر رکھا ہے ۔ ملاحظہ ہو
(درس ترمذی ص 16383)
یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ احناف کے نزدیک تمیم میں دوضربیں رکن ہیں۔ جس کا یہ مطلب ہے کہ ایک ضرب سے تقسیم جائز ہی نہیں۔ جبکہ امام مالک فرماتے ہیں کہ ایک ضرب سے بھی تمیم جائز ہے۔

❀امام ابن عبد البرؒ لکھتے ہیں کہ
وقال مالك ان مسح وجهه ويديه بضربة واحدة اجزاه وان مسح يديه الى الكوعين اجزاه
’’یعنی امام مالک فرماتے ہیں کہ اگر ایک ہی ضرب سے منہ اور ہاتھوں پر مسح کر لیا جائے تو یہ کفایت کر جاتا ہے اور اگر نصف ہاتھوں کا مسح کرے تب بھی کفایت کر جاتا ہے۔ ‘‘
(التمهيد لما فی السوطا من المعانی والاسانید ص 282 ج 19)
حالانکہ حنفیہ کے نزدیک مسح کہنیوں تک کرنا فرض ہے اور اسی طرح ایک ضرب سے تمیم کے یہ قائل بھی نہیں۔ مگر مؤلف تحفہ اہل حدیث اپنے گھر کا تو جائزہ نہیں لیتا لیکن فریق ثانی پر امام مالکؒ سے اختلاف ثابت کر کے مذہب اہل مدینہ سے بغاوت کا الزام لگارہا ہے۔
اے جی اگر یہ بغاوت ہے تو سب سے زیادہ اس کے مر تکب آپ ہیں۔

◈نماز میں سورۃ فاتحہ کا بیان

فرماتے ہیں کہ آپ جہری و سری نمازوں میں مقتدی کے لیے فاتحہ کو فرض کہتے ہیں جبکہ امام مدینہ جہری نمازوں میں فاتحہ کی مقتدی کو اجازت نہیں دیتے۔
( تحفہ اہل حدیث ص 77)
الجواب : اولا: بلاشبہ امام مالک کا یہی معروف مسلک ہے۔ لیکن امام قرطبی مالکی فرماتے ہیں کہ
الصحيح من هذه الاقوال قول الشافعي واحمد ومالك في القول الآخر ان الفاتحة متعينة في كل ركعة لكل احد على العموم
یعنی ان اقوال میں صحیح قول امام شافعی امام احمد اور ایک قول میں امام مالک کا قول ہے کہ فاتحہ ہر رکعت میں ہر ایک کے لیے ضروری ہے۔
( تفسیر قرطبی ص 119 ج 1) بحوالہ تو ضیح الکلام ص 65 ج1)
علامہ قرطبی فقہ مالکی کے مسلمہ امام ہیں۔ ان کے کلام کو بلا دلیل رد کرنا بھی بڑی جسارت ہے۔
ثانیاً:
امام مالک کا نام کس منہ سے لیتے ہو جب کہ آپ کو اقرار ہے کہ وہ سری میں فاتحہ پڑھنے کے قائل تھے۔ حالانکہ احناف کے نزدیک مقتدی پر سرے سے واجب ہی نہیں بلکہ متاخرین کے اقوال تو اس کی حرمت ( حرام) پر ہیں۔
ثالثاً:
احناف کے نزدیک آخری دور کعت میں مطلق قرآت فرض ہی نہیں۔ خواہ امام ہو یا مقتدی بلکہ احناف کے نزدیک اگر امام مسافر ہو اور مقتدی مقیم ہوں اور امام دور کعت پڑھ کر سلام پھیر دے تو مقتدی آخری دو رکعتوں میں بھی قراۃ کے مجاز نہیں۔ حالانکہ امام مالک چاروں رکعت میں فاتحہ کو واجب کہتے ہیں۔

❀علامہ ابن عبد البرؒ فرماتے ہیں کہ
واجمع العلماء على ايجاب القرأة في الركعتين الأوليين من صلاة اربع واختلفوا في الركعتين الاخرتين فمذهب مالك والشافعي واحمد واسحق و ابی ثور وداود ان القرأة فيهما بفاتحة الكتاب واجبة ومن لم يقرا فيها بفاتحة الكتاب واجبة ومن لم يقرا فيهما بها فلا صلاة له وعليه اعادة ماصلی
یعنی چار رکعتوں کی نماز میں پہلی دور کعتوں میں قرآہ تمام علماء کے نزدیک واجب ہے۔ ہاں البتہ آخری دور کعتوں میں اختلاف ہے۔ امام مالک ،امام شافعی، امام احمد ،امام اسحٰق، امام ابو ثور، امام داود وغیرہ کا مذہب ہے کہ آخری دور کعت میں بھی سورہ فاتحہ کا پڑھنا واجب ہے اور جس شخص نے ان آخری دور کعت میں فاتحہ نہ پڑھی تو اس کی نماز نہیں ہوئی اس پر واجب ہے کہ وہ دوبارہ نماز ادا کرے۔
(التمهيد لمافى الموطا من المعانی والا سانید ص 194 ج 20)

امام مالک رحمتہ اللہ کے اقوال کو بنیاد بنا کر اہل حدیث کو مطعون کرنے والے سنیو! مدینہ کا امام کیا کہہ رہا ہے اور تم کس طرف جارہے ہو ؟
رابعاً:
یہ مسئلہ تو امت مرحومہ میں مختلف فیہ ہے۔ آپ کے استاذ المکترم فرماتے ہیں کہ: حضرت عبادة بن الصامت نے صحیح سمجھایا غلط بہر حال یہ بالکل صحیح بات ہے کہ حضرت عبادہ امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنے کے قائل تھے اور ان کی یہی تحقیق اور یہی مسلک ومذ ہب تھا۔ مگر فہم صحابی اور موقوف صحابی حجت نہیں۔
(احسن الکلام ص 156 ج 2)

حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ انصار کے قبیلہ خزرج سے تھے اور مدینہ طیبہ کے باشندے تھے۔ معروف بدری صحابی ہیں۔
( تقریب ص 164)
مذہب اہل مدینہ سے اختلاف ثابت کرنے والو پہلے اپنے استاد کی کتاب کا اچھی طرح مطالعہ کر لیا کرو۔
خامساً:
مولانا سر فراز خان صاحب صفدر کی مذکورہ عبارت سے ثابت ہوا کہ موقوفات صحابہ حجت نہیں۔ جبکہ مؤلف تحفہ اہل حدیث کہتے ہیں کہ یہ موقف و مذ ہب شیعہ کا ہے۔
(تحفہ اہل حدیث ص 75)
معلوم ہوا کہ آپ بھی شیعہ کے معنی بھائی ہیں۔
سادساً:
مناظروں میں آپ حضرات فاتحہ سے جس طرح جان چھڑاتے ہیں وہ قابل دید ہے۔ اس بات پر بڑا اصرار کرتے ہیں کہ امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنا ثابت کریں۔ شاید آپ کو یاد ہو کہ نہ ہو کہ مناظرہ جلال پور بھٹیاں میں آپ کی پوری ٹیم نے اس پر اصرار کیا تھا ۔ جس پر راقم نے کھڑے ہو کر کہا تھا کہ بلا شبہ ہمارا مسلک نہیں ہے کہ امام و مقتدی اور منفرد پر سورۃ فاتحہ پڑھنی لازمی و ضروری ہے۔ اور اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔ لیکن آپ کا اصرار ہے کہ صرف مقتدی کا فاتحہ پڑھنا ثابت کریں۔ ہم آپ کی بات مان لیتے ہیں ابھی یہاں ہی بات پہنچی تھی تو آپ اپنے بمع حواریوں کے اس پر بڑے خوش ہوئے تھے۔ لیکن جب میں نے اپنی بات کو پورا کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے نزدیک امام کے پیچھے مقتدی کو سورۃ فاتحہ نہیں پڑھنی چاہیے ۔ لہذا آپ یہ ثابت کریں گے کہ مقتدی کو سورۃ فاتحہ نہیں پڑھنی چاہیے۔ اس پر آپ حضرات گھٹنے ٹیک گئے تھے۔

بالآخر آپ نے عوام کا سہارا لیتے ہوئے کہا کہ جیسے یہ فیصلہ کریں گے۔ جس پر عوام نے یہی فیصلہ کیا کہ اہل حدیث امام کے پیچھے مقتدی کا فاتحہ پڑھنا ثابت کریں گے جبکہ حنفی امام کے پیچھے مقتدی کا فاتحہ نہ پڑھنا ثابت کریں گے ۔ جس پر آپ کو چار ولا چار مناظرہ کا کرنا پڑا لیکن حسب وعدہ ایک بھی صحیح حدیث مقتدی کے فاتحہ نہ پڑھنے پر پیش نہ کر سکے۔ ہاں البتہ آپ نے اس مناظرہ میں بددیانتیاں ضرور کی تھیں۔

◈مدرک رکوع کی رکعت ہوتی ہے کہ نہیں ؟

فرماتے ہیں کہ آپ کے ہاں رکوع میں ملنے والے کی رکعت نہیں ہوتی جبکہ امام مدینہ کے ہاں ہو جاتی ہے۔
( تحفہ اہل حدیث ص 77)
الجواب :- اولاً: پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک چاروں رکعت میں سورہ فاتحہ کو پڑھنا واجب ہے۔ جبکہ حنفی آخری دور کعتوں میں کلی قرآہ کے ہی سرے
سے منکر ہیں۔
فماکان جوا بکم فھو جو ابنا؟
ثانیاً:
حدیث صحیح مرفوع متواتر میں ہے کہ
لاصلاة لمن يقرا بفاتحة الكتاب
( بخاری ص 104 ج 1 و مسلم ص 169 ج 1)
یعنی رسول اللہ صلى الله عليه وسلم فرماتے ہیں کہ جس شخص نے سورۃ فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہیں۔
یہ حدیث اپنے عموم کی وجہ سے امام و مقتدی اور منفرد کو شامل ہے۔ لہذا رکوع میں ملنے والے کی رکعت کو شمار کرنا اس حدیث کے عموم کے خلاف ہے جس کی کوئی دلیل نہیں۔ آپ ذرا ہمت کیجیے اور پورے ذخیرہ احادیث کو پڑھ کر کسی ایسی حدیث صحیح، مرفوع متصل کی نشان دہی کیجیے جس میں اس امر کا بیان ہو کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے رکوع میں ملنے والے کی رکعت کو شمار کرنے کا ارشاد فرمایا ہو۔ مگر یقین جانیے کہ پوری دنیا کے مبتدعین دیابنہ سر توڑ کوشش بھی کریں تو ایسی حدیث ثابت نہیں کر سکتے۔

◈جنازہ میں سورۃ فاتحہ کی قرآة :

فرماتے ہیں آپ کے ہاں جنازہ میں قرآت فاتحہ فرض ہے جبکہ امام مدینہ فرماتے ہیں کہ ہمارے شہر مدینہ میں اس پر عمل نہیں۔
(تحفہ اہل حدیث ص 77)
الجواب:- اولاً:- حضرت طلحہ بن عبد اللہؓ فرماتے ہیں کہ
صلیت خلف ابن عباسؓ على جنازة فقراً بفاتحة الكتاب وقال لتعلموا انها سنة
’’یعنی میں نے حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کی اقتداء میں نماز جنازہ پڑھی تو آپ نے سورہ فاتحہ کو بھی نماز جنازہ میں پڑھا۔ اور کہا کہ تم جان لو کہ یہ سنت ہے۔‘‘
( بخاری ص 178 ج 1)
جب صحابی یہ کہے کہ یہ کلام سنت ہے تو اس سے مراد بالا تفاق رسول اللہ ﷺ کی سنت ہوتی ہے۔ مفصل دیکھیے
( دین الحق ص 671 ج 1 )
اس حدیث سے دو باتیں معلوم ہو ئیں۔
➊نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کا پڑھنا رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا طریقہ ہے۔
➋ حضرت ابن عباسؓ نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھا کرتے تھے۔ حضرت ابن عباسؓ کا شمار جلیل القدر صحابہ کرامؓ میں ہوتا ہے۔ امت مرحومہ نے ان کو حمرالامت کے لقب سے نوازا ہے۔ جھنگوی صاحب سے سوال ہے کہ کیا ابن عباسؓ مدنی نہیں ؟ اگر ہیں یقیناً ہیں، تو پھر کس منہ سے ہم پر اختلاف مذہب اہل مدینہ کا طعنہ دے رہے ہو کچھ تو شرم کرو۔
طلحہ بن عبداللہ مدنی ہیں۔ تقریب ص 157 ظاہر ہے کہ یہ واقعہ خاص مدینہ طیبہ میں صحابہ کی جماعت اور کثیر تابعین کرام اولاد صحابہ کی موجودگی میں پیش آیا ہو گا مگر کسی کا ابن عباسؓ پر انکار ثابت نہیں۔ جس سے ثابت ہوا کہ تمام اہل مدینہ کا سہی موقف و مذہب تھا۔ لیکن جھنگوی صاحب اناڑیوں کی طرح ہمیں للکارتے ہوئے اہل مدینہ کی مخالفت کا سینہ گزٹ واویلہ کر رہے ہیں۔
نماز جنازہ میں قرآة کے قائل ابن مسعودؓ ، حسنؓ بن علی ، سهل بن حنیفؓ، علی مرتضیؓ ، ابوہریرہؓ، ابودرداءؓ، انس بن مالکؓ،عبد الله بن عمروؓ ،مسور بن مخرمہ تابعین سے سعید بن مسیبؒ، حسن بصری وغیرہ ہیں۔
(فتح الباری ص 158 ج 3 وا محلی لابن حزم ص 353 ج 3 د مرعاۃ ص 380 ج 5 مصنف ابن ابی شیبہ ص 295 298 3)

صحابہ کرام کے علاوہ تابعین کے گروہ میں سے بتائیے سعید بن مسیب کا شمار مدینہ منورہ کے چوٹی کے فقہاء میں ہوتا ہے یا نہیں۔ اگر آپ اس کے منکر ہیں تو کثرت سے[ رب زدنی علما]کا وظیفہ کیا کریں۔ ساتھ ساتھ معجون نجاح بھی استعمال کریں۔ ان شاء اللہ آپ کو تقلیدی تعصب کی بیماری سے شفا ہو گی۔ اور آپ کتب طبقات علماء کو پڑھنے کے قابل ہو جائیں گے
۔ جس سے آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ کون تھے ؟

◈ مسجد میں نماز جنازہ :

فرماتے ہیں کہ آپ کے ہاں مسجد میں جنازہ پڑھا جا سکتا ہے جبکہ امام مدینہ اسے مکروہ سمجھتے ہیں۔
( تحفہ اہل حدیث ص 78)
الجواب: اولاً:
آپ جس مسجد کے پیش نام اور خطیب ہیں اس کے موسس مکرم حافظ عبدالشکور صاحب مرحوم کی نماز جنازہ مسجد میں ادا کی گئی تھی۔ بلکہ ان کو دفن بھی مسجد کے صحن میں کیا گیا تھا۔ بتائیے جناب مسجد میں دفن کرنے میں اہل مدینہ میں سے کونسے امام و بزرگ آپ کے ساتھ ہیں۔
ثانیاً:
ام المومنین صدیقہ کا ئنات حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ
والله لقد صلى رسول الله على ابنا بيضاء في المسجد سهيل واخيه
اللہ کی قسم رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے بیضاء کے بیٹوں سہیل اور ان کے بھائی کی نماز جنازہ مسجد میں پڑھی تھی۔
( صحیح مسلم ص 313 ج 1)

❀ علامہ ابن عبد البر فرماتے ہیں کہ
ويدل على صحة ذلك ان ابابكر صلى عليه عمر في المسجد وصلى صهيب على عمر في المسجد بحضر جلة الصحابة من غير نكير منهم وليس من انكر ذلك بعد هم بحجة عليهم فصار بمان كرهنا سنة يعمل بها قديما فلا يجوز مخالفتها
اور ام المومنین کی حدیث کی صحت پر دلیل ہے کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ کی نماز جنازہ عمر فاروقؓ نے مسجد (نبوی) میں پڑھائی اور عمر فارقؓ کی نماز جنازہ حضرت صہیبؓ نے مسجد (نبوی) میں پڑھائی کبائر اور اجل صحابہ کرام کی موجودگی میں بغیر کسی کی نکیر کے اور بعد والوں کا انکار کرنا ان پر حجت نہیں ؟ لہذا جو یہاں مسجد میں جواز جنازہ کا ذکر ہے وہ سنت ہے۔ جس پر قدیم سے عمل ہے پس اس کی مخالفت جائز نہیں۔
(التمهيد لمافی الموطا من المعانی والا سائید ص 222 ج 21)
اس کی وضاحت تو جھنگوی صاحب ہی کر سکتے ہیں کہ محمد مصطفی ﷺ، ام المومنین حضرت عائشہؓ، عمر فاروقؓ، صہیبؓ ، اور دیگر جلیل القدر اور اجل صحاب کرام مدنی تھے یا کہ نہیں ؟ اگر یہ تمام مدنی تھے تو یقیناً تھے تو پھر کس منہ سے مدینے والوں سے اختلاف کہتے ہو۔

◈وتر کی رکعات کی تعداد :

فرماتے ہیں کہ آپ کے ہاں وتر ایک ہے جبکہ امام مدینہ کے ہاں وترکم از کم تین ہیں۔
( تحفہ اہل حدیث ص 78)
الجواب : اولاً:
حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ رات کی نماز دو دور کعت ہے جب تم میں سے کسی کو طلوع فجر کا خوف ہو تو
(صلى ركعة واحدة توترله ماقد صلى )
وہ ایک رکعت وتر پڑھ لے یہ رکعت اس کی پہلی نماز کو طاق کر دے گی۔
( بخاری ص 135 ج 1 ء مسلم ص 257 ج 1 )
صحیح مسلم کی ایک حدیث میں ہے
الوتر ركعة من اخر الليل
یعنی وتر ایک رکعت ہے،رات کے آخری حصہ میں۔
(مسلم شریف ص 257 ج 1 و نسائی ص 200 ج 1 )
ایک رکعت وتر کے قائل مندرجہ ذیل صحابہ کرامؓ تھے۔
(1) ابوبکر صدیقؓ
(۲) عمر فاروقؓ
(۳) عثمان غنی ؓ
(۴) علی مرتضیؓ
(۵) عبد اللہ بن عمرؓ
(۶) ابی بن کعبؓ
(۷) زید بن ثابتؓ
(۸) معاذ بن جبلؓ
(۹) امیر معاویہؓ
(۱۰) سعد بن ابی وقاصؓ
(۱۱) ابن عباسؓ
(۱۲) فضل بن عباسؓ
(۱۳) معاذ القاریؓ
(۱۴) ابو درداءؓ
(۱۵) فضالہ بن عبیدؓ
(۱۶) حذیفہؓ بن یمان
(۱۷) ابن مسعودؓ
(۱۸) عقبهؓ بن ولید
(۱۹) عبد اللہ بن زبیرؓ
(۲۰) ابو موسیٰ الاشعریؓ
(۲۱) ابوامامهؓ
(۲۲) ابوہریرةؓ
(۲۳) تمیمؓ الداری
(۲۴) ابوایوبؓ الانصاری
(۲۵) سائبؓ بن یزید
(۲۶) ام المومنین حضرت عائشہؓ
( طرح التكريب للعراقی ص 28 ج 2 او ترمذی مع تحفہ ص 340 ج 1 و مرعاة ص 259 ج 4 و عون المعبود ص 534 ج 1 ،و ابن ابی شیبہ ص 292 ج 2، وقيام الليل ص 205 والمجموعه شرح المهذب ص 23 ج 4، والد لیل الواضح ص 52)
اگر تابعین کرام کی فہرست کو اس میں شامل کیا جائے تو ایک اچھا خاصہ کتابچہ تیار ہو جائیگا۔ مگر ہم صحابہ کرام پر ہی اکتفا کرتے ہوئے جھنگوی صاحب سے سوال کرتے ہیں کہ کیا یہ حضرات مدنی تھے یا عجم کے رہنے والے تھے؟
ثانیاً:
بلاشبہ موطا میں امام مالک کا یہ قول ہے کہ وتر تین رکعت ہیں۔ لیکن ان کے پڑھنے کی تفصیل نہیں ہے۔ امام ابن عبدالبر نے صراحت کی ہے کہ وہ دور کعت پڑھ کر سلام پھیرنے کے بعد ایک عدد وتر پڑھنے کے قائل ہیں۔ انہوں نے صحیح سند سے امام مالکؒ سے نقل کیا ہے کہ اگر کسی کے وتر رہ جائیں اور صبح ہو جائے تو کیسے ادا کرے۔ امام مالکؒ نے جواب دیا کہ اگر تو اس نے رات کو کچھ نوافل وغیرہ پڑھے تھے تو ایک رکعت وتر پڑھ لے اور اگر رات کو نفل نہ پڑھے تھے تو دور کعت پڑھ کر سلام پھیر دے پھر ایک رکعت وتر پڑھ لے۔
(التمهيد لمافی الموطا من المعافى والاسانید ص 251 138)

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ امام مالک رحمتہ اللہ کے نزدیک وتر تو ایک رکعت ہی ہے لیکن وتر کے ساتھ دور کعت کو ملا کر پڑھنا چاہیے۔ اس طریقہ وتر کے ہم بھی قائل ہیں۔ بلکہ ہمارے نزدیک افضل طریقہ ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ امام مالک رحمہ اللہ ایک رکعت وتر کے قائل ہیں۔ مولانا محمد تقی عثمانی حنفی دیوبندی فرماتے ہیں کہ: آئمہ ثلاثہ کے نزدیک و تر ایک رکعت سے لے کر سات رکعات تک جائز ہیں۔
( درس ترمذی۔ اس قول کو امام ترمذی ص 215 ج 2)

اگر امام مالکؒ کے نزدیک و تر تین رکعات ہی ہیں تو صراحت کیجیے مولانا عثمانی نے جھوٹ بولا ہے؟ نہیں بھائی انہوں نے جھوٹ نہیں بولا بلکہ امام مالک کا موقف ایک رکعت کا ہی ہے۔ اس قول کو امام ترمذی نے (السنن ص 340 ج 1) میں ابن حزم نے (المحلی ص 89 ج 2) میں امام مالک کی طرف منسوب کیا ہے۔

◈گھوڑے کی حلت و حرمت :

فرماتے ہیں کہ آپ کے ہاں گھوڑا حلال ہے جبکہ عام مدینہ کے ہاں گھوڑا حرام ہے۔
( تحفہ اہل حدیث ص 78)
الجواب : اولا :
بلاشبہ امام مالکؒ گھوڑے کے گوشت کو مکروہ کہتے ہیں۔ مگر حضرت یہ تو بتائیے کہ حضرت امام ابو حنیفہ کا کیا موقف ہے۔ ان کے اس سلسلہ میں دو قول ہیں جن میں سے ایک کا مفاد یہ ہے کہ مکروہ تحریمی ہے جبکہ دوسرے کا مفاد مکروہ تنزیہی ہے۔
(فتح القدير ص 422 ج 8)
ظاہر ہے کہ ان میں شدید اختلاف ہے۔ کیونکہ مکروہ تحریمی حرام کے قریب تر ہوتا ہے اور تمبریہی حلال کے قریب تر ہوتا ہے۔ اس میں آپ کس کو ترجیح دیتے ہیں۔
پھر آپ کی معتمد کتاب در مختار جس کے بارے میں آپ یہ کہتے نہیں تھکتے کہ فقہ حنفی کی معتبر کتاب در مختار علامہ علاؤ الدین نے روضہ رسول صلى الله عليه وسلم کے پاس بیٹھ کر لکھی ہے۔ دیکھیں نہ آپ مدینہ کے امام کی مانتے ہیں اور نہ ہی مدینہ کی کتاب کو مانتے ہیں۔
(تحفہ اہل حدیث ص 79)
شکر ہے کہ آپ در مختار کو معتبر مانتے ہیں۔ اسے مدینہ کی تصنیف کہتے ہیں اور نہ ماننے والوں کو ما شاء اللہ طعن بھی کر رہے ہیں۔ مگر بھائی اسی کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ
ان أبا حنيفة رجع عن حرمته قبل موته بثلاثة ايام وعليه الفتوى
یعنی ایک قول یہ ہے کہ امام ابو حنیفہ نے اپنی وفات سے تین دن پہلے گھوڑے کی تحریم سے رجوع کر لیا تھا اور اسی پر فتوی ہے۔
د(ر مختار علی ہامش رد المختار ص 305 ج 6 کتاب الذبائح)
دیکھئے اب آپ ہی اپنی معتبر کتاب اور مدینہ کی تصنیف کو مانتے ہیں کہ نہیں ؟ مگر قارئین کرام آپ یقین جانئے کہ یہ صرف ہاتھی کے دانت ہیں۔ جھنگوی صاحب اپنی مدنی کتاب پر اعتماد کبھی بھی نہیں کریں گے۔
ثانیاً:
قاضی ابو یوسف اور امام محمد دونوں ہی گھوڑے کو حلال کہتے ہیں۔
(ہدايه مع فتح القدير ص 420 ج 8)
بتائیے یہ مدینہ کی عظمت و شرف کے منکر تھے؟
فماکان جو ابکم فھو جوابنا
ثالثاً:
حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ فرماتی ہیں کہ
نحرنا فرسا على عهد رسول الله ن فا كلناه
یعنی ہم نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے زمانہ مبارک میں گھوڑے کو ذبح کر کے اس کا گوشت کھایا۔
( بخاری ص 829 ج 2 و مسلم ص 150 ج2)

❀حضرت جابر بن عبد اللہؓ راوی ہیں کہ
النبي ﷺ يوم خيبر عن لحوم الحمر و رخص في لحوم الخيل
نبی صلى الله عليه وسلم نے جنگ خیبر کے دن پالتو گدھوں کے گوشت کھانے سے منع فرمایا اور گھوڑے کا گوشت کھانے کی اجازت دی۔
( بخاری ص 829 ج 2 و مسلم ص 150 ج 2)

❀امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ
امام شافعی اور جمہور علماء سلف وخلف کا مذ ہب یہ ہے کہ گھوڑے کا گوشت مباح ہے مکروہ نہیں۔ یہ مذہب ہے عبد اللہ بن زبیرؓ، فضالہ بن عبیدؓ،انس بن مالکؓ ،اسماء بنت ابی بکرؓ، سوید بن غفلہؓ، علقمہ ،اسود، عطاء، شریح ،سعید بن جبیر، حسن بصری ،ابراہیم نخعی، حماد بن سلیمان، احمد اسحاق، ابو ثور, ابو یوسف, محمد داؤد ,اور جمہور محد ثین کرام کا ہے۔
( شرح صحیح مسلم ص 150 ج 2)

ابو بلال صاحب آپ سے سوال ہے کہ ان مذکورہ بزرگ ہستیوں میں سے کوئی حرمین شریفین کا بھی رہنے والا تھا کہ نہیں ؟ اگر ہیں یقیناً ہیں تو پھر مدینہ کا نام لے کر کیوں جھوٹ بولتے ہو۔
رابعاً:
علماء احناف نے بھی آج کل گھوڑے کو حلال و مباح کہنا شروع کر دیا ہے۔ چنانچہ بریلویت کے معروف مترجم مولوی غلام رسول صاحب شیخ الحدیث جامع نعیمیہ کراچی فرماتے ہیں کہ صحیح یہی ہے کہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک گھوڑے کا گوشت کھانا مکروہ تنزیہی ہے۔ اور یہ کراہت تنزیہی بھی اس بناء پر تھی کہ جہاد میں گھوڑوں کی ضرورت پڑتی تھی اور اب ٹینک توپ ٹرک جیپ کا دور ہے اور گھوڑوں کی جہاد میں مطلقا ضرورت نہیں ہے۔ تو اب امام ابو حنیفہ کے قول کے مطابق بھی گھوڑوں کا گوشت کھانا مکروہ تنزیہی نہیں ہے اور قرآن مجید اور احادیث کی روشنی میں گھوڑے کا گوشت کھانا بلا کراہت جائز ہے۔
( شرح صحیح مسلم ص 104 ج 6)

❀آپ کے شیخ الہند مولانا محمود حسن خاں مرحوم فرماتے ہیں کہ
اس میں بھی تحریمی و تنزیہی ہر دوروائتیں ہیں مگر راجح یہ ہے کہ اس میں کراہت تنزیہی ہے۔
(الورد الشذی ص 266)
اس عبارت کا واضح مفاد یہ ہے کہ گھوڑا حلال ہے حرام نہیں۔ مگر بھائی امام مالک تو اس کو مکروہ (حرام) کہتے ہیں اس لیے مدینہ کے امام سے ہمارا ہی اختلاف نہیں جناب کا بھی ہے۔
فماکان جوابکم فھو جوابنا

◈ایام قربانی:

فرماتے ہیں کہ آپ کے ہاں قربانی چار دن ہے جبکہ امام مدینہ کے ہاں تین دن ہے۔
( تحفہ اہل حدیث ص 78)
الجواب:- اولاً:
چار دن کی قربانی کے قائل اہل حدیث ہی نہیں امت مرحومہ سے متعدد اہل علم کا بھی یہی موقف ہے۔ حافظ ابن عبدالبر فرماتے ہیں کہ امام شافعی،امام اوزاعی فرماتے ہیں کہ قربانی چار دن ہے اور یہی مروی ہے علی بن ابی طالبؓ، ابن عباسؓ ، عطاءؓ، حسنؓ اور عمر بن عبد العزیزؓ سے (التمهيد لمانی الموطا من المعانی والا سانید ص 196 ج 23)
علامہ ابن حزم نے امام زہری سے بھی یہی نقل کیا ہے۔
(المحلی ص 41 ج 6)
ثانیاً:
حضرت جبیر بن مطعمؓ بیان کرتے ہیں کہ
ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال كل ايام التشريق ذبح
رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ ایام التشریق ذبح (قربانی) کے دن ہیں۔
(سنن دار قطنی ص 284 ج 4، و مسند احمد ص 82 ج 4، وابن حبان الموارد 1008، و بیہقی ص 296 ج 9 ،و طبرانی اوسط بحوالہ مجمع الزوائد ص 28 ج 4،و طبرانی کبیر ص 138 ج، 2 رقم الحدیث 1583، و مسند بزار بحوالہ مجمع الزوائد ص 254 ج، 3 والتمهيد ص 197 ج 23)
علامه ھیشمی فرماتے ہیں کہ مسند احمد کے راوی ثقہ ہیں۔ اور ہزار کے راویوں کی توثیق کی گئی ہے۔ یہ بات فریقین کے مسلمات میں سے ہے کہ ایام تشریق یوم النحر کے تین دن بعد کے ہیں۔
جس سے ثابت ہوا کہ قربانی کے چار دن ہیں۔ اب اس کی وضاحت تو جھنگوی صاحب کریں گے کہ حضرت علیؓ ،حضرت ابن عباسؓ ،حضرت عمر بن عبد العزیزؓ ،اور امام زہری مدنی تھے یا نہیں؟
اگر مدنی تھے یقیناً تھے تو پھر کس منہ سے کہتے ہو کہ اہل حدیث کا مدینے کے اماموں سے اختلاف ہے۔

◈دیوانے کی بڑ

فرماتے ہیں کہ صحاح ستہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مدینہ میں نہیں لکھی گئیں بلکہ روس کے مختلف علاقوں میں لکھی گئیں۔ مدینہ میں لکھی جانے والی کتاب موطا امام مالک ہے۔ جس کے ساتھ آپ کو زبردست اختلاف ہے۔ دوسری کتاب فقہ حنفی کی معتبر کتاب در مختار علامہ علاؤ الدین نے روضہ رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھ کر لکھی ہے۔ دیکھیں نہ آپ مدینہ کے امام کی مانتے ہیں اور نہ ہی مدینہ کی کتاب کو مانتے ہیں پھر بھی آپ اہل حدیث ہیں اور مدینے والے ہیں۔ کتنا بڑا فریب ہے۔
(تحفہ اہل حدیث ص 79)
الجواب : اولًا:
کیا حنفی موطا امام مالک کے ایک ایک حرف کو واجب الاطاعت سمجھتے ہیں اور اس کے کسی مسئلہ سے اختلاف کو مدینہ سے بغاوت سے تعبیر کرتے ہیں۔ اگر نہیں کرتے یقینا نہیں کرتے تو پھر آپ کے اس لعن طعن کا مقصود کیا رہ جاتا ہے۔ اس شخص سے بڑھ کر کون زیادہ جاہل و نادان ہے کہ جس بات پر اس کا اپنا عمل نہیں وہ مخالف کو حجت باور کرائے ۔
ثانیاً:
اگر آپ پلہ چھڑانے کی غرض سے یہ کہہ دیں کہ ہم موطا امام مالک کی ایک ایک بات کو تسلیم کرتے ہیں۔ تو یہ اتنا بڑا جھوٹ ہے کہ مولوی ابو بلال کے علاوہ کوئی عالم بول ہی نہیں سکتا۔ ویسے ہم نے آگے چند مسائل کی نشاندہی بھی کی ہوئی ہے جو موطا کے مسائل حنفیہ کے خلاف ہیں۔
ثالثاً:
موطا امام مالک میں مروی احادیث صحیحہ مرفوعہ کو ہم دل و جان سے قبول کرتے ہیں اسے اپنا دین و ایمان جانتے ہیں۔ رہے موطا میں تابعین عظام اور امام مالک کے اقوال توان کو بھی ہم جو قرآن وسنت کے موافق ہیں قبول کرتے ہیں اور جو چیزیں قرآن و سنت سے متصادم ہیں ان کو ہم ترک کرتے ہیں۔ اور امام مالک رحمہ اللہ کو مجتہد و عالم ہونے کی وجہ سے ماجور بھی تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن ان کی تحقیقات کو حرف آخر کا نام نہیں دیتے۔

❀حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ
وقد طلب المنصور من الامام مالك أن يجمع الناس على كتابه فلم يجبه إلى ذلك وذلك من تمام علمه واتصافه بالانصاف وقال ان الناس قد جمعوا واطلعوا على اشياء لم نطلع عليها
یعنی خلیفہ منصور نے امام مالک رحمہ اللہ علیہ سے اجازت چاہی کہ وہ تمام لوگوں کو ان کی کتاب پر جمع کر دیں تو امام مالک رحمہ اللہ نے اسے قبول نہ کیا۔ اس سے ان کے وسعت علم اور انصاف کا کمال ظاہر ہوتا ہے اور امام مالک رحمہ اللہ نے کہا لوگ جمع ہوئے اور مطلع ہوئے ان چیزوں پر جن پر ہم مطلع نہیں ہوئے۔
(اختصارعلوم الحدیث ص 40)

اس واقعہ کو امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دھلوی نے بھی قدرے الفاظ کے تغیر سے (حجۃ اللہ البالغہ ص 145 ج 1) میں بیان کیا ہے۔
دیکھئے مدینہ کا امام کیا کہہ رہا ہے اور جھنگوی صاحب کیا راگنی الاپ رہے ہیں۔ وہ تو اپنی تحقیق کو امت مرحومہ پر لازم و ضروری قرار نہیں دیتے مگر جھنگوی صاحب ان سے اختلاف کو مدینہ سے بغض و عداوت باور کراتے ہیں ۔
رابعاً:
امام بخاری نے صحیح بخاری کو مسجد حرام میں تصنیف کیا تھا اور تراجم ابواب کا کام مسجد نبوی میں روضہ رسول ﷺ اور منبر نبوی علیہ التحیۃ و السلام کے درمیان انجام دیا تھا
(حدیة ساری ص 490)
لیکن اس حقیقت کے برعکس جھنگوی صاحب یہ غلط بیانی کرے ہیں کہ پوری صحاح ستہ روس میں لکھی گئی تھی اس غلط بیانی اور جھوٹ کی کوئی حد اور کنارہ ہے ہم پوری ذریت دیوبند کو چیلنج کرتے ہیں کہ آپ کسی مسلمہ مؤرخ و محدث سے بسند صحیح ثابت کریں کہ پوری صحاح ستہ روس کے مختلف علاقوں میں لکھی گئی تھیں اور ان میں سے ایک حرف بھی ارض حرم میں نہیں لکھا گیا۔ اگر آپ یہ ثابت کر دیں تو ہم آپ کو منہ مانگا انعام دیں گے۔ مگر یاد رہے پوری دنیا کے مبتدعین جمع ہو کر سر توڑ کوشش کریں تب بھی یہ لوگ کسی واضح دلیل سے اپنے دعوے کو ثابت نہیں کر سکتے یہ سب واہیات اور بکواس ہے جو منکرین حدیث سے ادھار لی گئی ہے کہ ذخیرہ احادیث اسلام کے خلاف عجم کی سازش ہے
(مفہوم مقام حدیث ص 22 بحوالہ آئینہ پرویزیت ص 177)
افسوس کہ مبتدعین کو صرف احادیث میں ہی عجمیوں کا دکھ ہے قراء سبعہ میں سے پانچ عجمی ہیں،
(الجواہر المضیہ ص 423 ج 2)
عربی زبان کی امامت علماء اصول متکلمین اور مفسرین کی اکثریت عجمی ہے مقدمہ ابن خلدون ص 500 اوروں کو جانے دیجیئے آپ کے امام اعظم بھی عربی النسل نہیں۔ لیکن کتنے ستم کی بات ہے کہ انہیں محدثین کا عجمی ہوتا تو کھٹکتا ہے لیکن جس کے مقلد ہونے کا دم بھرتے ہیں اس کی عجمیت پر انہیں فخر ہے۔

امام مالک رحمہ اللہ علیہ سے حنفیت کا اختلاف

ہم چند ایسے مسائل کی نشان دہی بھی کرنا ضروری سمجھتے ہیں جو قرآن و سنت سے ثابت ہیں جمہور امت نے ان کو قبول کیا ہے۔ بالخصوص امام مالک رحمہ اللہ نے ان کو اختیار کیا ہے۔ لیکن حنفیت نے ان کو ترک کر کے نام مدینہ کی مخالفت کی ہے حالانکہ ان مسائل میں حنفیہ کے پاس قیاس فاسد اور تاویلات و تحریفات کے سوادامن میں کچھ بھی نہیں۔
آئیے آپ بھی ملاحظہ کریں۔
❀حضرت رافع بیان کرتے ہیں کہ
ان رسول الله استسلف من رجل بكرا
یعنی رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص سے جوان اونٹ کا بچہ ادھار لیا۔
( صحیح مسلم ص 30 ج 2 و نسائی ص 219 ج 2 و مشکوۃ ص 251)
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ جانور ادھار لینا جائز ہے اور یہ جمہور علماء اسلام کا مؤقف ہے اور اس پر امام مالکؒ کا فتویٰ ہے۔
(شرح مسلم ص 30 و مرقاۃ ص 699)

❀حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے اس باندی کے بارے سوال کیا گیا جو کہ محصنہ نہیں ہے اور زنا کرے تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ
ان زنت فاجلدوها
’’اگر زنا کرے تو اسے کوڑے لگاؤ۔‘‘
(الحدیث بخاری ص 1011 ج 2 و مسلم ص 70)
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ آقا اپنی لونڈی پر حد قائم کر سکتا ہے۔
یہ مذہب ہے امام مالک اور جمہور علماء اسلام کا جیسا کہ ملا علی القاری نے مرقاۃ ص 138 ج 7 پر صراحت کی ہے۔

❀ارشاد ربانی ہے کہ
ولا تباشروهن …
’’اور عورتوں کو ہا تھ نہ لگاؤ جب تم مسجد میں اعتکاف سے ہو‘‘
(البقرة: 187)
حدیث میں آیا ہے کہ
لا اعتكاف الافى مسجد جامع
’’یعنی اعتکاف نہیں مگر جامع مسجد میں۔‘‘
(ابوداؤد ص 335 ج 1 و دار قطنی ص 201 ج 2, بیہقی ص 315 ج 4)
قرآن کی آیت اور حدیث اس بات پر گواہ ہے کہ اعتکاف فقط مسجد میں ہی مشروع ہے۔ لیکن حنفیہ کا مذہب ہے کہ عورت گھر میں اعتکاف بیٹھ سکتی ہے۔ حالانکہ یہ موقف بھی امام مدینہ اور جمہور علماء اسلام کے خلاف ہے۔
جیسا کہ نووی نے (شرح مسلم ص 371 ج 1) میں صراحت کی ہے۔

❀حضرت علی مرتضیؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ
الا لا يقتل المومن بكافر
یعنی خبر دار مسلمان کافر کے بدلہ میں قتل نہ کیا جائے گا۔
(ابوداؤد ص 267 ج 2 ومسند احمد ص 122 ج 1 و نسائی ص 236 ج 2 و ترمذی مع تحفہ ص 312 ج 2 و ابن ماجہ ص 195)

یہ حدیث اس بات کی گواہ ہے کہ کافر کے بدلے میں مومن قتل نہ کیا جائے گا۔ یہ قتل نہ کیا جائے مذہب ہے امام مدینہ اور جمہور امت مرحومہ کا۔
جیسا کہ نووی نے شرح مسلم ص 260 میں اور ابن حجر نے فتح الباری ص 219 ج 12 میں صراحت کی ہے۔

❀ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ
ان رسول الله ﷺ قضى بيمين و شاهد
رسول اللہﷺ نے ایک گواہ اور قسم پر فیصلہ کیا ہے۔
(مسلم ص 74 ج 2) یہ حدیث تقریبا بیس صحابہ کرام سے مروی ہے۔
(تنقیح الرواۃ ص 126 ج 3)
یہ حدیث اس بات پر گواہ ہے کہ اگر مدعی اثبات دعوئی پر دو گواہ پیش نہ کر سکے تو ایک قسم اور گواہی پر دعویٰ پایہ ثبوت کو پہنچ جاتا ہے۔
یہ مذہب ہے امام مالک اور جمہور امت اسلام کا۔
جیسا کہ نووی نے شرح صحیح مسلم ص 74 ج 2 میں ابن عبدالبر نے التمہید ص 153 ج 2 میں صراحت کی ہے۔

❀حضرت ابوہرہؓ بیان کرتے ہیں کہ
ان رسول الله قال اذا شرب الكلب في اناء احدكم فليغسله سبعا
یعنی رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کے برتن میں کتا منہ ڈال دے تو اس کو سات بار دھویا جائے۔
( بخاری ص 29 ج 1 و مسلم ص 137 ج 1 )
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ کتا جس برتن کو چاٹ لے اس کو سات بار دھونا حکم نبوی ہے یہ مذہب ہے امام مدینہ اور جمہور علماء اسلام کا۔
جیسا کہ نووی نے شرح مسلم ص 137 ج 1 میں اور ابن عبدالبر نے التمہید ص 268 ج 18 میں صراحت کی ہے۔ لیکن حنفیہ کے نزدیک تین بار دھونا ہی کافی ہے۔

❀ام المومنین ام سلمہؓ بیان کرتی ہیں کہ
نبی صلى الله عليه وسلم نے اپنے حجرے کے دروازے پر کچھ جھگڑنے کی آواز سنی تو آپ نے باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ میں بھی بشر ہوں میرے پاس ایک مقدمہ آتا ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے تم میں سے کسی کی تقریر دوسرے سے عمدہ ہوتی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ سچا ہے۔ اس کے موافق فیصلہ کر دیتا ہوں پھر جس کو ( ظاہری بھروسہ) پر دوسرے مسلمان کا حق دلا دوں وہ اس کو لے لے یا چھوڑ دے (اس کے اختیار میں ہے)
فانما قطعة من النار
بلاشبہ وہ آگ کا ایک ٹکرا ہے۔( بخاری ص 332 ص 1064 ء مسلم ص 75 ج 2)

یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ قاضی کا فیصلہ کسی نا جائز چیز کو جائز اور حرام کو حلال نہیں کر سکتا۔ یہ مذہب ہے امام مدینہ اور جمہور علماء اسلام کا۔
جیسا کہ نووی نے شرح مسلم ص 75 ج 2 میں اور حافظ ابن حجر نے فتح الباری ص 149 ج 13 میں صراحت کی ہے۔

لیکن حنفیہ کا موقف ہے کہ قاضی کا فیصلہ باطن میں بھی نافذ ہو جاتا ہے۔ اگر کسی عورت نے کسی مرد پر دعویٰ کیا کہ اس نے اس سے نکاح کیا ہے اور جھوٹے گواہ بھی گزار دیئے قاضی نے عورت کے حق میں فیصلہ دے دیا یہ اس مرد کی عورت ہے تو اگر واقع میں نکاح نہیں ہوا تھا تا ہم اس عورت کا اس مرد کے ساتھ رہنا سہنا اور جماع کرنا جائز اور درست ہے۔
(ہدایہ مع فتح القدير ص 154 ج 3)

❀حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ
كان النبي صلى الله عليه وسلم اذا صلي ركعتي الفجر فان كنت مستيقظة حدثني
یعنی رسول اللہ ﷺ جب سنت فجر ادا فرما لیتے تو اگر میں جاگتی ہوتی تو مجھ سے باتیں کرتے۔
(الحدیث بخاری ص 155 ج 1 و مسلم ص 255 ج1)
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ سنت فجر کے بعد انسان گفتگو کر سکتا ہے۔
یہ موقف ہے امام مدینہ اور جمہور امت کا جبکہ حنفیہ کے نزدیک سنت فجر کے بعد کلام کرنا مکروہ ہے۔
جیسا کہ نووی نے شرح مسلم ص 255 ج 1 میں صراحت کی ہے۔

❀حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ
رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ
اذا ادرك احدكم سجدة من صلوة العصر قبل ان تغرب الشمس فليتم صلاته واذا ادرك سجدة من صلوة الصبح قبل ان تطلع الشمس فليتم صلاته
یعنی جس نے نماز عصر کی ایک رکعت سورج غروب ہونے سے پہلے پالی ( یعنی پڑھ لی ) وہ عصر کی نماز کو پورا کرے اور جس نے سورج طلوع ہونے سے پہلے ایک رکعت نماز صبح کی پالی ( پڑھ لی) وہ صبح کی نماز کو پورا کرے۔
( بخاری ص 79 ج 1 و مسلم ص 221 ج 1 )
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اگر دوران نماز سورج طلوع ہو جائے یا غروب ہو جائے تو نمازی کی نماز ہو جاتی ہے ۔ یہ مذہب ہے امام مدینہ اور جمہور امت مرحومہ کا۔ لیکن حنفی اس حدیث کے نصف حصہ کو تو قبول کرتے ہیں کہ اگر ایک رکعت نماز عصر کی سورج غروب ہونے سے قبل ادا کی تھی تو باقی نماز کو پورا کر لے لیکن باقی نصف تقلیدی جمود کی وجہ سے قبول نہیں۔ کہ اگر صبح کی نماز کے دوران سورج طلوع ہو جائے تو نماز کو باطل کہتے ہیں۔ جمہور امت امام مدینہ اور حنفیہ کے مذہب کو امام نووی نے (شرح مسلم ص 222 ج1) میں بیان کیا ہے۔

❀حضرت عبد اللہ بن زیدؓ راوی ہیں کہ
ان رسول الله به خرج إلى المصلى فاستسقى فاستقبل القبلة وقلب ردائه وصلى رکعتین
یعنی نبی ﷺ طلب بارش کے لیے لوگوں کے ساتھ عید گاہ کی طرف گئے۔ وہاں آپ ﷺ نے قبلہ کی طرف رخ کرتے ہوئے اپنی چادر کو پلٹا اور دور کعت نماز پڑھی۔
(بخاری ص 137 ج 1 و مسلم ص 292 ج1)
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ بارش طلب کرنے کے لیے دور کعت نماز ادا کرنا سنت ہے۔ یہ مذہب ہے امام مدینہ اور جمہور امت مرحومہ کا۔
جیسا کہ امام ابن عبدالبر نے (التمہید ص 172 ج 17 ) میں، نووی نے (شرح مسلم ص 292 ج 1 ) میں صراحت کی ہے۔
لیکن امام ابو حنیفہ کا قول ہے کہ استسقاء میں نماز نہیں ہے۔
(موطا امام محمد ص 158)

◈تلک عشرة کاملتہ :

یہ وہ مسائل ہیں جن میں حنفیہ کا امام مدینہ سے اختلاف ہے حالانکہ امام مدینہ کے موافق جمہور امت کا تعامل بھی ہے اور قرآن و سنت کی واضح نصوص بھی ان کے مؤید ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
لنکڈان
ٹیلی گرام
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل