سوال:
مدلس راویوں کی عن والی روایات بخاری و مسلم میں کیوں قابل قبول ہوتی ہیں؟ خاص طور پر امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کی روایات کے حوالے سے وضاحت کریں۔ جزاک اللہ۔
جواب:
الحمدلله رب العالمین و الصلوة و السلام علی رسوله الامین، اما بعد:
امام سفیان ثوری رحمہ اللہ اور تدلیس
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ نے امام سفیان بن سعید الثوری رحمہ اللہ کو مدلسین کے طبقۂ ثانیہ میں ذکر کیا ہے۔
(طبقات المدلسین: ۲/۵۱، الفتح المبین: ص۳۹)
مگر اس تحقیق پر کئی اہل علم نے اشکال کیا ہے، اور دلائل کی روشنی میں یہ ثابت کیا ہے کہ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ طبقۂ ثالثہ کے مدلس تھے، جن کی عن والی روایت قابل حجت نہیں ہوتی، خاص طور پر غیر صحیحین میں۔
مدلس راوی کی روایت کے اصول
اصول حدیث کے مطابق:
- اگر مدلس راوی ثقہ راویوں سے تدلیس کرے تو اس کی روایت قابل قبول ہوتی ہے۔
- لیکن اگر ضعیف راویوں سے تدلیس کرے تو اس کی عنعنہ والی روایت مردود ہوتی ہے۔
(الموقظہ فی علم مصطلح الحدیث للذہبی: ص۴۵، مع شرحہ کفایۃ الحفظہ: ص۱۹۹)
امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کی تدلیس اور اس کے اثرات
امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کے بارے میں کئی محدثین نے تصریح کی ہے کہ وہ ضعیف راویوں سے بھی تدلیس کرتے تھے، جس کی بنیاد پر ان کی عن والی روایت غیر صحیحین میں مردود سمجھی جاتی ہے۔
چند اہم گواہیاں
امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ:
سفیان ثوری نے بعض غیر ثقہ راویوں سے تدلیس کی۔
(الجرح والتعدیل: ۴/۲۲۵، سندہ صحیح)
امام عبدالرحمن بن مہدی رحمہ اللہ:
میں نے سفیان ثوری سے ایک حدیث کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا:
"یہ ثقہ سے نہیں ہے”۔
(الانتقاء لابن عبدالبر: ص۱۴۸، و سندہ صحیح)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ:
وہ ضعیف راویوں سے تدلیس کرتے تھے۔
(میزان الاعتدال: ۲/۱۶۹، سیر اعلام النبلاء: ۷/۲۴۲، ۲۷۴)
حافظ ابن حبان رحمہ اللہ:
مدلس راوی، اگر ثقہ ہو، تو اس کی صرف وہی روایات حجت ہوتی ہیں جن میں سماع کی تصریح ہو، اور سفیان ثوری بھی انہی میں سے ہیں۔
(الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان: ۱/۹۰، علمی مقالات: ۱/۲۶۶)
حافظ ابن حبان کی مزید تصریح:
سفیان ثوری بعض اوقات ضعیف و ناقابل حجت لوگوں سے سن کر بھی بطور تدلیس روایت کرتے تھے، لہٰذا جب تک سماع کی تصریح نہ ہو، ان کی روایت حجت نہیں ہوتی۔
(المجروحین: ۱/۹۲، علمی مقالات: ۱/۲۶۷)
حاکم نیشاپوری رحمہ اللہ:
سفیان ثوری کو مدلسین کے تیسرے طبقے میں رکھا ہے، جو مجہول راویوں سے تدلیس کرتے تھے۔
(معرفۃ علوم الحدیث: ص۱۰۶، جامع التحصیل: ص۹۹)
امام یحییٰ بن سعید القطان رحمہ اللہ:
میں نے سفیان ثوری سے صرف وہی احادیث لکھیں جن میں حدثنی یا سمعت کہا، سوائے دو کے۔
(العلل و معرفۃ الرجال للامام احمد: ۱/۲۰۷، و سندہ صحیح)
صحیحین میں مدلسین کی روایات کیوں قابل قبول ہوتی ہیں؟
بنیادی اصول:
صحیح بخاری اور صحیح مسلم کو تلقی بالقبول حاصل ہے، اور محدثین کے اصول کے مطابق، صحیحین میں مدلسین کی روایات یا تو سماع پر محمول ہوتی ہیں یا ان کے شواہد و متابعات کی بنیاد پر صحیح مانی جاتی ہیں۔
یہ قاعدہ امت کے جلیل القدر محدثین کی تحقیق سے ثابت ہے، جن میں شامل ہیں:
- حافظ ابن حجر
- حافظ ذہبی
- امام نووی
- حافظ ابن الصلاح
- شیخ عبدالرحمن المعلمی الیمانی
امام نووی رحمہ اللہ کی تصریح:
"صحیحین میں مدلس کی عن والی روایت بالاتفاق حجت ہے، کیونکہ ان کے شواہد موجود ہوتے ہیں۔”
(شرح صحیح مسلم: ۱/۱۳۶، دوسرا نسخہ: ۳/۱۷۸)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ:
"صحیحین میں مدلسین کی روایات سماع یا معتبر متابعات پر محمول ہوتی ہیں۔”
(روایات المدلسین فی صحیح البخاری، روایات المدلسین فی صحیح مسلم، دارالبشائر الاسلامیہ بیروت)
نتائج اور خلاصہ
- امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کی تدلیس ثابت ہے، اور وہ طبقۂ ثالثہ کے مدلس تھے۔
- غیر صحیحین میں ان کی عن والی روایت قابل قبول نہیں جب تک سماع کی تصریح یا معتبر متابعت نہ ہو۔
- صحیحین میں مدلسین کی روایات سماع، متابعت، اور دیگر قرائن کی بنا پر صحیح مانی جاتی ہیں۔
اہل ایمان کو کیا کرنا چاہیے؟
- اندھی تقلید سے بچیں اور تحقیق کے اصولوں کو سمجھیں۔
- صحیح بخاری و صحیح مسلم میں موجود روایات پر اعتماد کریں۔
- ضعیف اور ضعیف الاسناد روایات سے احتیاط کریں۔
اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه، آمین۔