مدرسے کے اساتذہ کو زکوٰۃ دینے کا شرعی حکم اور حدود
ماخوذ: احکام و مسائل، زکٰوۃ کے مسائل، جلد 1، صفحہ 274

سوال :

ہمارے گاؤں نگری بالا میں مقامی بچوں کے لیے ایک مدرسہ قائم کیا گیا ہے۔ اس مدرسے میں تین اساتذہ بچوں کو تعلیم دینے کے لیے مقرر کیے گئے ہیں۔ ان اساتذہ کی سالانہ تنخواہ اٹھارہ ہزار روپے (18000 روپے) رکھی گئی ہے۔ یہ رقم مقامی لوگوں کی زکوٰۃ اور قربانی کے چمڑوں کے ذریعے مہیا کی جاتی ہے۔
پوچھا گیا ہے کہ:

  • کیا اس طریقہ کار میں کوئی غیر شرعی امر پایا جاتا ہے؟
  • اگر کوئی شرعی رکاوٹ ہو تو اس سے مطلع کیا جائے؟
  • واضح رہے کہ ان اساتذہ کے قیام و طعام کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا۔

جواب :

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اللہ تعالیٰ نے صدقہ اور زکوٰۃ کے آٹھ مصارف قرآنِ کریم میں بیان فرمائے ہیں:

﴿إِنَّمَا ٱلصَّدَقَٰتُ لِلۡفُقَرَآءِ وَٱلۡمَسَٰكِينِ وَٱلۡعَٰمِلِينَ عَلَيۡهَا وَٱلۡمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمۡ وَفِي ٱلرِّقَابِ وَٱلۡغَٰرِمِينَ وَفِي سَبِيلِ ٱللَّهِ وَٱبۡنِ ٱلسَّبِيلِۖ فَرِيضَةٗ مِّنَ ٱللَّهِۗ وَٱللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٞ﴾
(سورۃ التوبہ، آیت 60)

یعنی:

"صدقہ (زکوٰۃ) تو صرف ان لوگوں کے لیے ہے:
◈ فقیر
◈ مسکین
◈ زکوٰۃ جمع کرنے والے عامل
◈ وہ جن کے دلوں کو اسلام کی طرف مائل کرنا مقصود ہو
◈ غلاموں کی آزادی کے لیے
◈ مقروض
◈ اللہ کی راہ میں (فی سبیل اللہ)
◈ مسافر کے لیے
یہ اللہ کی طرف سے فرض کردہ ہے، اور اللہ علم والا، حکمت والا ہے۔

آپ کی بیان کردہ صورتحال کی شرعی حیثیت:

آپ نے جو صورت ذکر کی ہے — یعنی مدرسے کے اساتذہ کو زکوٰۃ اور قربانی کے چمڑے کی آمدنی سے تنخواہ دینا — تو اس کا جواز اسی وقت ہے جب کہ:

  • وہ اساتذہ فقیر یا مسکین ہوں
  • یا وہ "فی سبیل اللہ” کی مد میں آئیں

اگر ان میں سے کوئی ایک مصرف بھی صادق آتا ہے تو پھر زکوٰۃ کا استعمال اس جگہ جائز ہوگا۔

اگر یہ آٹھ مصارف میں سے کسی میں بھی نہ آئیں تو پھر:

  • اس صورت میں زکوٰۃ کا اس مصرف پر خرچ کرنا جائز نہیں ہوگا
  • قربانی کے چمڑوں کی آمدنی کا استعمال بھی اسی شرط کے ساتھ مشروط ہے

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1