مدبر غلام: آزادی کا وعدہ اور فروخت کا حکم
تحریر: عمران ایوب لاہوری

تدبیر (غلام کو مرنے کے بعد آزاد کر دینا) جائز ہے مالک کی موت کے ساتھ ہی وہ غلام آزاد ہو جائے گا لیکن بوقت ضرورت مالک اسے بیچ بھی سکتا ہے
مدبر غلام اسے کہتے ہیں جس کا مالک اسے کہہ دے:
أنت حر بعد موتي
”تو میری موت کے بعد آزاد ہے ۔“
[نيل الأوطار: 160/4 ، سبل السلام: 1964/4]
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
أن رجلا أعتق غلاما له عن دبر فاحتاج فأخذه النبى صلى الله عليه وسلم فقال من يشتريه منى فاشتراه نعيم بن عبدالله بكذا و كذا فدفعه إليه
”ایک آدمی نے اپنا ایک غلام مرتے وقت آزاد کر دیا ، پھر و محتاج ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے (غلام کو ) پکڑا اور فرمایا مجھ سے کون اسے خریدے گا؟ پھر نعیم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کچھ قیمت (800 درہم) کے عوض اسے خرید لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ غلام اس کے حوالے کر دیا ۔“
[بخارى: 2534 ، كتاب العتق: باب بيع المدبر ، ابو داود: 3955 ، ابن ماجة: 2513 ، ترمذي: 1219 ، احمد: 369/3 ، نسائي: 69/5]
(شافعیؒ) بوقت ضرورت مدبر غلام کو فروخت کیا جا سکتا ہے۔
(ابو حنیفہؒ ) مدبر غلام کو فروخت کرنا مطلق طور پر نا جائز ہے۔
(جمہور ، مالکؒ) اسی کے قائل ہیں۔
(نوویؒ) مذکورہ حدیث واضح طور پر مانعین کا رد کرتی ہے۔
[فتح البارى: 493/4 ، قفو الأثر: 956/3 ، المهذب: 9/2 ، المبسوط: 179/7 ، المغني: 390/2]
(راجح) بوقت ضرورت مدبر غلام کو فروخت کرنا جائز ہے۔
[نيل الأوطار: 161/4 ، فتح البارى: 493/4 ، الروضة الندية: 329/2]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1