سوال
محمد صدیق کی دو شادیاں تھیں۔ پہلی بیوی سے ایک بیٹا اور ایک بیٹی پیدا ہوئے۔ پھر پہلی بیوی کا انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد محمد صدیق نے دوسری شادی کا ارادہ کیا، تو گھر والوں نے اس وقت مرحومہ (پہلی بیوی) کی ساری ملکیت بیٹے اور بیٹی کے نام منتقل کروا دی۔ بعد ازاں محمد صدیق نے دوسری شادی کرلی، جس سے ایک بیٹی پیدا ہوئی۔ اب محمد صدیق کا انتقال ہوچکا ہے اور ان کی بیوی اور ایک بیٹی زندہ ہیں۔
ایسی صورت میں دوسری بیوی سے پیدا ہونے والی بیٹی کو اپنے والد کی پہلی (اصل) ملکیت سے کوئی حصہ نہیں ملا۔ البتہ والد کے بعد حاصل کی گئی دکانوں میں سے اس بیوی اور بیٹی کو شریعت کے مطابق حصہ دیا گیا۔
اب دریافت یہ ہے کہ مرحوم محمد صدیق کی پہلی (اصل) ملکیت سے دوسری بیوی اور بیٹی کو حصہ ملے گا یا نہیں؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ اگر مرحومہ (فوتی) اپنی زندگی میں اپنی ساری ملکیت اپنے بیٹے اور بیٹی کے حوالے کردے تو یہ بالکل جائز ہے، بشرطیکہ اس وقت کوئی دوسری اولاد نہ ہو۔ یہ صورت اس وقت ناجائز ہوتی ہے جب کچھ اولاد کو ملکیت دے دی جائے اور کچھ کو محروم کردیا جائے، حالانکہ دیگر اولاد بھی اس وقت موجود ہوں۔
چونکہ اس وقت مرحومہ کی کوئی اور اولاد نہیں تھی، اس لیے جو کچھ انہوں نے بیٹے اور بیٹی کے نام لکھ دیا تھا، وہ درست اور ان ہی کا شمار ہوگا۔
باقی جائیداد جو محمد صدیق نے بعد میں بنائی، اس میں سب وارثین کو ان کے شرعی حصے کے مطابق حصہ مل گیا۔ جو پہلے مرحومہ (فوتی) نے لکھ کر دیا تھا، وہ صرف ان وارثین کی ملکیت شمار ہوگی، جو اس وقت موجود تھے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب