محرم کے لیے کنگھی کرنا کیسا ہے؟ شرعی حکم اور دلائل
ماخوذ : فتاویٰ ارکان اسلام

سوال :

کیا محرم کے لیے اپنے بالوں میں کنگھی کرنا جائز ہے؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

محرم کی حالت میں انسان کو اپنے بالوں میں کنگھی نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ حالتِ احرام میں پراگندہ اور غبار آلود ہونا مطلوب ہے۔ اس کیفیت کو برقرار رکھنا مناسکِ حج و عمرہ کے آداب میں شامل ہے۔

غسل کی اجازت

✿ احرام کی حالت میں غسل کرنا جائز ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں۔

✿ غسل کے دوران اگر بال ازخود گِر جائیں اور وہ کسی قصد یا ارادے کے بغیر گرے ہوں، جیسے کہ خارش کی وجہ سے، تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔

کنگھی سے اجتناب کی وجہ

✿ کنگھی کرنے سے بالوں کے گرنے کا خدشہ ہوتا ہے، اور احرام کی حالت میں بالوں کو جان بوجھ کر گرانا ممنوع ہے۔

✿ لیکن اگر کوئی شخص غلطی، بھول یا غیر ارادی حرکت کے نتیجے میں کوئی ایسا کام کر بیٹھے جو احرام میں ممنوع ہو، تو اس پر بھی کوئی گناہ نہیں۔

قرآن مجید کی ہدایات

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

﴿وَلَيسَ عَلَيكُم جُناحٌ فيما أَخطَأتُم بِهِ وَلـكِن ما تَعَمَّدَت قُلوبُكُم وَكانَ اللَّهُ غَفورًا رَحيمًا ﴾ … سورة الأحزاب: 5

"اور جو بات تم سے غلطی کے ساتھ ہوگئی ہو اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں لیکن جو قصد دل سے کرو (اس پر مواخذہ ہے) اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔”

اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:

﴿رَبَّنا لا تُؤاخِذنا إِن نَسينا أَو أَخطَأنا﴾ … سورة البقرة: 286

"اے ہمارے پروردگار! اگر ہم سے بھول یا چوک ہوگئی ہو تو ہم سے مواخذہ نہ کیجئے۔”

ان آیات کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: "میں نے ایسا ہی کیا”۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ غلطی یا بھول کی صورت میں پکڑ نہیں۔

شکار سے متعلق واضح مثال

شکار جو کہ حالتِ احرام میں ممنوع ہے، اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿يـأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا لا تَقتُلُوا الصَّيدَ وَأَنتُم حُرُمٌ وَمَن قَتَلَهُ مِنكُم مُتَعَمِّدًا فَجَزاءٌ مِثلُ ما قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ يَحكُمُ بِهِ ذَوا عَدلٍ مِنكُم﴾ … سورة المائدة: 95

"اے مومنو! جب تم احرام کی حالت میں ہو تو شکار نہ مارنا، اور جو تم میں سے جان بوجھ کر اسے مارے تو (یا تو) اس کا بدلہ دے اور وہ یہ ہے کہ اسی طرح کا چوپایہ جسے تم میں سے دو معتبر شخص مقرر کر دیں (قربانی کرے)۔”

✿ اس آیت میں لفظ ﴿مُتَعَمِّدًا﴾ یعنی "جان بوجھ کر” کی قید یہ واضح کرتی ہے کہ اگر شکار غیر ارادی طور پر مارا گیا ہو، تو اس پر کوئی کفارہ واجب نہیں۔

✿ یہ قید شریعت کی رحمت و آسانی پر دلالت کرتی ہے۔

نتیجہ

لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ:

✿ وہ تمام افعال جو محرم پر ممنوع ہیں، اگر وہ نسیان، جہالت یا غیر ارادی طور پر سرزد ہو جائیں تو:

➊ ان پر کوئی فدیہ واجب نہیں۔

عمرہ یا حج فاسد نہیں ہوتا، برخلاف جماع وغیرہ کے جو عمداً کرنے سے عمرہ یا حج کو باطل کر دیتا ہے۔

یہ تمام دلائل اس بات کو تقویت دیتے ہیں کہ دین اسلام آسانی اور سہولت کا دین ہے، اور اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر آسانی ہی چاہی ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1