جو شخص اپنے رشتہ دار کا مالک بن جائے تو وہ (رشتہ دار ) آزاد ہو جائے گا
حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من ملك ذا رحم محرم فهو حرّ
”جو شخص کسي محرم رشتہ دار کا مالک بنا تو وہ آزاد ہو جائے گا ۔“
[صحيح: إروء الغليل: 1746 ، ابو داود: 3949 ، كتاب العتق: باب فيمن ملك ذا رحم محرم ، ترمذي: 1365 ، ابن ماجة: 2524 ، أحمد: 15/5 ، منحة العبود: 245/1 ، شرح معاني الآثار: 109/3 ، بيهقي: 289/10 ، حاكم: 214/2]
(ابو حنیفہؒ) جو شخص کسی بھی محرم رشتہ دار کا مالک ہوا تو وہ آزاد ہو جائے گا۔
(احمدؒ) اسی کے قائل ہیں۔
(شافعیؒ) صرف اولاد ، باپ اور ماں آزاد ہو گی ان کے علاوہ اور کوئی قریبی آزاد نہیں ہو گا ۔
(مالکؒ) صرف اولاد ، والد اور بہن بھائی آزاد ہوں گے۔
(اہل ظاہر ) ملکیت سے کوئی بھی آزاد نہیں ہو گا۔
[نيل: 152/4 ، سبل السلام: 1961/4 ، شرح مسلم للنووى: 153/10 ، الروضة الندية: 323/2 ، عون المعبود: 480/10 ، قفو الأثر: 1782/5]
(راجح) مجرد ملکیت ہی تمام رشتہ داروں کے لیے آزادی کا موجب ہے۔
[سبل السلام: 1961/4]
مندرجہ ذیل حدیث بھی اس کے مخالف نہیں ہے:
لا يجزي ولد عن والده إلا أن يجده مملوكا فيشتريه فيعتقه
”بچہ اپنے باپ کا حق ادا نہیں کر سکتا مگر صرف اس صورت میں کہ وہ اسے غلام پائے تو خرید کر آزاد کر دے ۔“
[مسلم: 1510 ، كتاب العتق: باب فضل عتق الوالد ، ترمذي: 1906 ، ابو داود: 5137 ، احمد: 230/2 ، الأدب المفرد للبخارى: 10 ، ابن ماجة: 3659 ، شرح معاني الآثار: 109/3 ، الحليلة لأبي نعيم: 345/6]
کیونکہ یہاں تاکید اعتق کا ذکر کیا گیا ہے یہ مجرد ملکیت سے ہی آزادی کے منافی نہیں ہے۔
[الروضة الندية: 323/2]