محدث العصر شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ اور مسئلہ تدلیس
الحمد لله رب العلمين و الصلوة والسلام على رسوله الأمين، أما بعد:
کسی سند میں بعض اوقات تمام راوی ثقہ و صدوق ہوتے ہیں لیکن محدثین اسے ضعیف ہی شمار کرتے ہیں کیونکہ اس میں کوئی علت ہوتی ہے، مثلاً مدلس راوی کا عنعنہ وغیرہ۔ مدلس راوی ثقہ و صدوق ہونے کے باوجود اگر سماع کی صراحت نہیں کرے گا تو اس کی روایت ضعیف ہی متصور ہوگی ۔
تدلیس کی چند درج ذیل اقسام ہیں:
تدلیس الاسناد:
تدلیس الاسناد یہ ہے کہ راوی سند میں اپنے شیخ کو گرادے شیخ کے شیخ سے جس سے اس کی ملاقات ہوئی ہو، روایت بیان کرنا شروع کر دے اور روایت بھی ایسے صیغے سے بیان کرے جس میں سماع کا احتمال موجود ہو لیکن صراحت نہیں۔
تدلیس العطف:
اس میں راوی دو یا زیادہ استادوں سے روایت بیان کرتا ہے، جبکہ سنا صرف ایک سے ہوتا ہے اور دوسرے کو اس پر عطف کے ساتھ جمع کر دیتا ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے دوسرے سے بھی سماعت کی ہے۔
تدلیس التسویہ:
اس میں راوی اپنے شیخ سے اوپر کے کسی ضعیف راوی کو گرا دیتا ہے۔
تدلیس الشیوخ:
اس میں راوی اپنے شیخ کا وہ نام ، لقب یا کنیت ذکر کرتا ہے جس سے عام لوگ ناواقف ہوتے ہیں۔
مدلسین کی ’’عن‘‘ والی روایات کو قبول کرنے کے حوالے سے اگر چہ مختلف اقوال ہیں، لیکن اس حوالے سے صحیح اور راجح موقف امام شافعی رحمہ اللہ کا ہے جس کو محدثین نے اختیار کیا اور اسکے مقابلے میں طبقات والا موقف مرجوح ہے جیسا کہ خود حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اپنے بنائے طبقات کے خلاف جاتے نظر آتے ہیں اور بعد والوں نے بھی اس سلسلے میں ان سے شدید اختلاف کیا ہے جس کی بیشمار مثالیں موجود ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی طبقاتی تقسیم اور علماء
🌸الشیخ ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ:
الشیخ ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ کا میدانِ تحقیق میں ایک نام ہے انہوں نے بھی حافظ ابن حجر سے شدید اختلاف کیا ہے، آپ نے حسن بصری کی معنعن روایات کو ضعیف قرار دیا، حالانکہ وہ حافظ ابن حجر کے ہاں طبقہ ثانیہ کے مدلس ہیں۔
مثلا دیکھئے:
ارواء الغليل (2 ص 288 ح 505)
ابو قلابہ عبداللہ بن زید الجرمی جو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے نزدیک طبقہ اولیٰ کے ہیں انکی روایت کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’إسناده ضعيف لعنعنة أبي قلابة وهو مدعور بالتدليس‘‘
🌿(ماشه مسیح ابن خزیمہ ج 3 ص 268 تحت ح 2043)
حافظ ابن حجر نے حسن بن ذکوان ، قتادہ اور محمد بن عجلان کو طبقہ ثالثہ میں ذکر کیا ہے، یعنی انکی معنعن روایات ضعیف ہیں، لیکن امام الالبانی نے انکی معنعن روایات کو صحیح یا حسن قرار دیا ہے۔ دیکھئے حسن بن ذکوان صحیح ابوداؤد ( ج1 ص 33 ح 8) قتادہ رحمہ اللہ: الصحيحه ( ج4 ص 202 ح 1647 ) ابن عجلان: الصحیحہ (ج3 ص101 ح1110)
ان مثالوں سے حافظ ابن حجر سے امام الالبانی کا طبقات کے سلسلے میں اختلاف کھل کر سامنے آ گیا۔
صاحب تحفۃ الاحوذی،عبدالرحمان مبارکپوری رحمہ اللہ
عبدالرحمان محدث مبارکپوری رحمہ اللہ نے ابراہیم نخعی کی عن والی روایت پر جرح کی ہے، جبکہ وہ عند الحافظ طبقہ ثانیہ کے مدلس ہیں کی عن والی روایت پر جرح کی ہے۔
فضيلة الشيخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ
ابراہیم نخعی سلیمان الاعمش دونوں حافظ ابن حجر کی طبقاتی تقسیم کے مطابق طبقہ ثانیہ کے ہیں، لیکن الشیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ نے انکی معنعن روایات پر جرح کی اور ان روایات کو غیر صحیح قرار دیا ہے۔
ابراہیم نخعی (توضیح الکلام ج 2 ص 758)
سلیمان بن مہران الائمش (توضیح الکلام ج 2 ص 765)
ان مثالوں سے یہ بات واضح ہوئی کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی طبقاتی تقسیم کلی طور پر درست نہیں اور نہ اسے تلقی بالقبول حاصل ہے۔
استاد محترم فضیلۃ الشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کے بارے میں پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ انہوں نے حدیث کے جس بہت بڑے مجموعے پر عمل ہوتا رہا اسے ضعیف قرار دیدیا۔ تدلیس کے معاملے میں سختی کی اور کئی ایک وہ احادیث جو امام البانی رحمہ اللہ ودیگر علماء کی تحقیق سے صحیح قرار پا چکی تھیں انہیں ضعیف قرار دیدیا، یعنی انکا مقصد ہی احادیث کو ضعیف قرار دیکر نا قابل عمل بنانا تھا۔ معاذ اللہ
حقیقت یہ ہے کہ استاد محترم نے سلف صالحین کے بنائے ہوئے اصولوں کی روشنی میں احادیث پر صحت یا ضعف کا حکم انتہائی غیر جانبداری سے لگایا ہے، یہی وجہ ہے کہ کہیں بھی انہیں کسی حدیث یا راوی کے بارے میں اپنی تحقیق مرجوح معلوم ہوئی تو علانیہ حق کی طرف رجوع کیا۔
وہ تو صحیح احادیث کا دفاع کرنے والے تھے ، اسکی بہترین مثال یہ ہے کہ انہوں نے صحیحین کا زبردست دفاع کیا اور ہمیں صحیحین کے حوالے سے عظیم الشان منسج دیا، بڑے واشگاف الفاظ میں لکھ گئے ہیں کہ ’’صحیحین کا دفاع میرے ایمان کا حصہ ہے‘‘
اللہ اکبر ! اس سے بڑھ کر اور دفاع حدیث کیا ہو سکتا ہے۔
قارئین کرام ! تدلیس کی بنا پر راوی کی معنعن روایت کو ضعیف قرار دیا جاتا ہے
جیسا کہ پاکستان کے نامور محقق فضیلۃ الشیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ فرماتے ہیں ’’اور یہ طے شدہ اصول ہے کہ مدلس کی معنعن روایت قبول نہیں‘‘
🌿(توضیح الاحکام ج 2 ص 765 دوسرا نسخہ 1030)
حافظ ابن حجر نے مدلس رواۃ پر طبقات المدلسین کے نام سے کتاب لکھی ہے۔
استاذ محترم نے اس پر الفتح المبین کے نام سے عظیم الشان تحقیق وتعلیق لکھی ہے ۔ راقم نے جب اس کو پڑھا تو معلوم ہوا حافظ ابن حجر کی طبقات المدلسین کے 42 راوی ایسے ہیں جن پر تدلیس کا الزام ہی غلط ہے۔
جن اقوال کے ذریعے سے بعض راویوں پر تدلیس کا الزام لگایا جاتا ہے جب استاذ محترم نے ان کی تحقیق کی تو ثابت ہوا وہ اقوال ان محد ثین سے ثابت ہی نہیں جن کی بنیاد پر اس راوی کو مدلس قرار دیا گیا ہے یا پھر اسے مدلس قرار دینے والے محدث ان علماء میں سے ہیں جو تدلیس اور ارسال کو ایک چیز گردانتے ہیں، اس طرح وہ ثقہ و صدوق راوی تدلیس سے بری ٹھہرا، یعنی اسکی ” عن ” والی احادیث کا مجموعہ جس کو ضعیف تصور کر لیا گیا تھا وہ بھی صحیح قرار پایا۔
قارئین کرام! ان 42 میں سے پانچ رواۃ تو ایسے ہیں جو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے نزد یک طبقہ ثالثہ کے ہیں، یعنی ان پانچ محدثین کی معنعن روایات طبقات ابن حجر ماننے والوں کے نزدیک ضعیف ہی ہیں۔ اللہ رب العالمین استاد محترم کی قبر کو نور سے منور فرمائے، ان پر اپنی رحمت کی بارشیں نازل کرے ، ان کیلئے اس خدمت حدیث کو ذریعہ نجات بنائے ۔ آمین
انہوں نے ان پانچ محدثین کو تدلیس سے بری قرار دیا اس سے ان تمام کی معنعن روایات کا مجموعہ بھی قابل عمل ٹھہر ا جسے مردو د تصور کر لیا گیا تھا۔
قارئین کرام ! جب استاد محترم کے نزدیک کوئی بھی راوی تدلیس سے بری ہو جاتا ہے تو اس پر انکا انداز بھی قابل دید ہوتا ہے۔ راقم اسکی بھی مثال بیان کرے گا، یہ صرف صحیح حدیث سے محبت کی بنا پر ہی ہوتا ہے۔
حافظ ابن حجر کی طبقات المدلسین کے طبقہ ثالثہ ( جس طبقہ کے راوی کی معنعن روایت طبقات کے ماننے والوں کے نزدیک بھی ضعیف ہوتی ہے ) سے ان پانچ ثقہ محدثین کی تفصیل ذکر کی جاتی ہے جنہیں استاد محترم نے تدلیس سے بری قرار دیا ہے۔
① احمد بن عبدالجبار العطاردی:
آپ جمہور کے نزدیک ثقہ ہیں اس پر تفصیلی مضمون شیخ زبیر رحمہ اللہ کی کتاب علمی مقالات جلد 4 ص 392 میں دیکھا جا سکتا ہے۔ حافظ ابن حجر نے آپ کو طبقات المدلسین میں طبقہ ثالثہ میں ذکر کیا ہے، حالانکہ التقریب میں آپکو ضعیف بھی قرار دیا ہے، اس لحاظ سے طبقات المدلسین میں انھیں طبقہ ثالثہ نہیں خامسہ ملنا چاہیے تھا ۔
🌸استاد محترم شیخ زبیر رحمہ اللہ اپنے مذکورہ مضمون میں فرماتے ہیں:
فائدہ:
تحریر تقریب التہذیب میں حافظ ابن حجر کا رد کیا گیا ہے اور احمد بن عبدالجبار کو ’’بل : صدوق حسن الحديث ربما خالف‘‘ قرار دیا گیا ہے۔
🌿(دیکھئے مقالات ج1 ص 67-68، مقالات ج 4 ص395)
② محمد بن عیسی بن نجيح:
ثقہ محدث ہیں، سنن نسائی اور ابن ماجہ کے راوی ہیں صحیح بخاری میں انکی روایات معلقاً مروی ہیں ۔ انہیں طبقات المدلسین میں تیسرے طبقے میں ذکر کیا گیا ہے ۔حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: ’’قال صاحبه أبو داؤد: كان مدلسًا وكذا وصفه الدارقطني‘‘ (طبقات المدلسين)
انہیں علامہ علاقی ، ابوزرعہ العراقی سیوطی ،الحلمی ،الد مینی اور ابن طلعت نے مدلسین میں شمار کیا ہے۔
🌸شیخ زبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
امام ابوداود سے ان کی تدلیس کا معاملہ ابوعبید محمد بن علی بن عثمان الاجری نے سوالات الآجری (1737) میں نقل کیا ہے اور آجری خود مجہول الحال ہے لم أجد من وثقہ اس کی توثیق کہیں سے بھی نہیں ملی ، لہذا اسے مدلس قرار دینا: ’’وهذا لم يثبت عن أبي داؤد‘‘ امام ابوداود سے ثابت نہیں۔
شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ امام دار قطنی والی بات کے حوالے سے فرماتے ہیں: ’’وقول مدار الدارقطني لم يثبت عنه أيضًا‘‘ ان كو مدلس قرار دینے کے لحاظ سے دار قطنی کا قول بھی ثابت نہیں۔
آخر میں فرماتے ہیں :
قلت : وهو بريء من التدليس
🌿(الفتح المبين : 118)
محمد بن عيسى بن نجیح تدلیس سے بری ہیں۔
③ مروان بن معاویہ الفزاری:
آپ ثقہ محدث ، صحیحین اور سنن اربعہ کے راوی ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’كان مشهوراً بالتدليس وكان يدلس الشيوخ أيضًا وصفه الدارقطني بذالك‘‘
🌿(طبقات المدلسين : 124)
آپ تدلیس الاسناد اور تدلیس الشیوخ کرتے تھے ان کو امام دارقطنی نے تدلیس سے متصف قرار دیا ہے۔
استاد محترم فرماتے ہیں:
’’سأل عباس الدورى يحيى بن معين عن حديث رواه مروان بن معاوية عن علي بن أبي الوليد فقال:هذا علي بن الغراب‘‘
🌿(تاریخ الدوری: 2843)
’’يعني أنه كان يدلس تدليس الشيوخ ولم يثبت عنه تدليس الإسناد فهوبريء فهو بريء من التدليس وقول الحافظ ابن حجر فيه مرجوح‘‘
یہ تدلیس الشیوخ کرتے تھے، ان سے تدلیس الاسناد ثابت نہیں ہے اور یہ تدلیس (مضر)سے بری تھے۔ حافظ ابن حجر کی رائے مرجوح ہے۔
اسکے بعد محمد بن طلعت کی رائے ذکر کرتے ہیں :
’’فالصواب أن مروان يدرس الشيوح فقط وهذا النوع من التدليس لا ينظر فيه إلى عنعنة المدرس وإنما ينظر إلى أسماء شيوخ .‘‘ مجم المدلسين (ص443) قلت (شيخ زبير رحمه الله) أصاب فيما أرى وللتحقيق ميدان واسع.
درست بات یہ ہے کہ مروان صرف تدلیس الشیوخ کرتا تھا اور تدلیس کی یہ جو قسم ہے اس میں مدلس کے عنعنہ کو نہیں دیکھا جائے گا، اس میں اس کے شیوخ کے ناموں کی طرف دیکھا جائے گا۔
استاد محترم آخر میں فرماتے ہیں: میرے خیال میں محمد بن طلعت کی بات ہی درست ہے۔ باقی تحقیق کا میدان بڑا وسیع ہے۔
④ مکحول الشامی:
آپ مشہور تابعی ہیں ۔ صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں، طبقات المدلسین میں آپ کو تیسرے طبقے میں لایا گیا ہے، اس لحاظ سے آپ کی صحیح مسلم کے علاوہ باقی تمام معنعن روایات ضعیف ٹھہریں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وصفه بذلك ابن حبان وأطلق الذهبي أنه كان يدرس ولم أره للمتقدمين إلا في قول ابن حبان. (طبقات المدلسين)
ان کو تدلیس سے متصف امام ابن حبان نے قرار دیا ہے اور ذہبی نے بھی مطلقا کہا ہے کہ یہ تدلیس کرتے تھے۔ میں نے متقدمین میں انکے مدلس ہونے کے بارے میں ابن حبان کے قول کے علاوہ اور کسی کا قول نہیں دیکھا۔
ان کو مدلس شمار کرنے والوں میں علامہ علائی، ابو زرعہ، ابن العراقی ذہبی ، دمینی اور ابن طلعت کے نام آتے ہیں۔
🌸استاد محترم شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
بأن الإمام ابن حبان يطلق التدليس على الإرسال وقول الدهبي في ميزان الإعتدال (177/4) يدل على أن التدليس و الإرسال شيء واحد عند الحافظ الذهبي. قلت فلم يثبت تدليس مكحول رحمه الله إنما هو إرسال عن عبار الصحابة، والله أعلم قلت وهو بريء من التدليس على الراحح . والحمد لله .
که امام ابن حبان تدلیس کا لفظ ارسال پر بولتے تھے۔ امام ذہبی کا میزان الاعتدال میں قول اس پر دلالت کرتا ہے کہ تدلیس اور ارسال حافظ ذہبی کے ہاں ایک ہی چیز ہے۔ میں کہتا ہوں مکحول رحمہ اللہ سے تدلیس کرنا ثابت نہیں وہ تو کبار صحابہ سے ارسال کرتے تھے۔ واللہ اعلم
میرے نزدیک راجح قول کے مطابق وہ تدلیس سے بری تھے ۔ والحمد للہ
⑤ ابو عبيدة بن عبد اللہ بن مسعود:
آپ ثقہ امام صحیحین کے ساتھ ساتھ سنن اربعہ کے بھی راوی ہیں ۔ حافظ ابن حجر نے آپ کو طبقہ ثالثہ میں ذکر کیا ہے، یعنی صحیحین کے علاوہ باقی کتابوں میں آپکی معنعن روایات ضعیف قرار پائیں گی، الا یہ کہ کہیں سماع کی صراحت یا تصحیح شاہد موجود ہو۔
🌸استاد محترم شیخ زبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وهو برى من التدليس.
کہ ابو عبیدہ بن عبد اللہ بن مسعود تدلیس سے بری تھے۔
قارئین کرام ! یہ طبقات المدلسین کے طبقہ ثالثہ کے وہ پانچ رواۃ ہیں جن کی معنہ روایات حافظ ابن حجر اور ان کے طبقات کو ماننے والوں کے نزدیک ضعیف قرار پا چکی تھیں ۔ استاد محترم حافظ زبیر رحمہ اللہ نے تحقیق کر کے ان پانچوں محمد ثین کو تدلیس سے بری قرار دیا جس سے ان کی معنعن روایات صحیح و قابل عمل قرار پائیں یہ تو طبقہ ثالثہ کی بات ہے ورنہ پورے طبقات المدلسین میں جن کو مدلس قرار دیا گیا اور استادمحترم کے نزدیک وہ تدلیس سے بری ہیں۔ ان کی تعداد بیالیس ہے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ جب استاد محترم کے نزدیک کوئی ثقہ محدث تدلیس سے بری قرار پاتا ہے تو اس وقت آپ اللہ رب العالمین کا شکر ادا کرتے نظر آتے ہیں، جیسا کہ امام مکحول الشامی کے ترجمہ میں ہم دیکھ چکے ہیں۔ انکے علاوہ احمد بن عبد اللہ احمد بن اسحاق الاصبہانی ، زید بن اسلم العمری، عبدربہ بن نافع کے ترجمہ میں فهو برىء من التدليس يا اس جیسا جملہ کہنے کے بعد والحمد للہ کا جملہ ادا کر کے اللہ رب العالمین کا شکر ادا کیا ہے۔ استاد محترم کا یہ انداز اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ وہ صحیح احادیث اور ثقہ محدثین سے بے پناہ محبت کرتے تھے انکا مقصد احادیث کو ضعیف قرار دینا نہیں بلکہ انکا مقصد دفاع حدیث ہی تھا۔
استاد محترم نے تدلیس کے مسئلے میں کوئی سختی نہیں کی انہوں نے سلف صالحین سے اصول لیے، پھر ان کی روشنی میں رواۃ اور احادیث پر حکم لگایا تدلیس کے مسئلے میں امام شافعی رحمہ اللہ کا فیصلہ کن قول موجود ہے جسے شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے اختیار کیا۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فقلنا : لا نقبل من مدلس حديثا حتى يقول فيه: حدثني أو سمعت .
🌿(كتاب الرسالة 53)
ہم مدلس سے اس وقت تک کوئی بھی حدیث قبول نہیں کرتے جب تک وہ تصریح سماع حدثنی یا سمعت نہ کہے۔
شیخ زبیر رحمہ اللہ اس موقف کو اختیار کرنے والے اکیلے نہیں ہیں،ان سے صدیوں پہلے آنے والے امام ابن حبان امام شافعی کے بتائے اس اصول کے بارے میں فرماتے ہیں:
فمالم يقل المدلس و إن كان ثقة : حدثني أو سمعت فلا يجوز الإحتجاج بخبره و هذا أصل أبي عبد الله محمد بن إدريس الشافعي رحمه الله و من تبعه من شيوخنا .
🌿(کتاب الحجر وحين ج 1ص92)
قارئین کرام ! تدلیس کے مسئلے میں امام شافعی رحمہ اللہ کے اصول کو اپنانے والوں کی ایک طویل فہرست ہے، اس کے مقابلے میں طبقات کو ماننے والوں کے منہج میں تضاد نظر آتا ہے۔ کہیں تو حافظ ابن حجر کے طبقات کی بڑی شد و مد سے تلقین کرتے نظر آتے ہیں اور کہیں طبقات کو غلط بھی قرار دے دیتے ہیں، کہیں تو تدلیس کے حوالے سے بڑے نرم مزاج نظر آتے ہیں کہ ان رواۃ کی تدلیس ان کے ہاں مقبول ٹھہرتی ہیں جو اپنے نزدیک ضعفاء سے تدلیس کرتے تھے یا جنہیں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے طبقات میں طبقہ ثالثہ الاٹ کیا ( مثلاً امام زہری رحمہ اللہ ) انکے ہاں وہ رواۃ بھی غیر مدلس قرار پائے اور انکی معنعن مرویات بھی مقبول قرار پائیں کہیں یہی نرم مزاج تدلیس کے مسئلے میں فولاد بن گئے کہ مدلس کی عن“ کی وجہ سے صحیح مسلم کی روایات (جن کو بلحاظ صحت تلقی بالقبول حاصل ہے ) کو بھی ضعیف قراردے دیا غیر مدلس یا برىء من التدليس رواة (ابوقلابہ وغیرہ) کی معنعن احادیث کو ضعیف قرار دے دیا۔
قارئین کرام! استاد محترم رحمہ اللہ نے تدلیس اور طبقات کے حوالے سے بہترین منہج اختیار کیا بڑا آسان کر کے اسکو دوسروں کو سمجھایا۔ حقیقت پوچھیں تو استاد محترم کے مضبوط دلائل پڑھ کر شرح صدر ہو چکا ہے، والحمد للہ اور ہم سمجھتے ہیں کہ کوئی غیر جانبدار ہو کر استاد محترم کے اس سلسلے میں لکھے گئے مضامین اور شیخ صدیق رضا حفظہ اللہ کا مقالات اثریہ پر لکھا ہوا رد پڑھ لے تو وہ یقیناً استاد محترم کے صبح کو اختیار کر لے گا، ان شاء اللہ ۔ جیسا کہ پاکستان کے دیگر بڑے علماء الشیخ مبشر احمد ربانی، الشیخ داود ارشد ، الشیخ عمر صدیق اور الشیخ یحیی عارفی حفظہم نے اختیار کر لیا، لیکن شرط یہ ہے کہ استاد محترم کی وہ مخالفت قلوب واذہان سے نکال دی جائے جس کی طرف شیخ الحدیث المحدث رفیق الاثری حفظہ اللہ نے جناب یونس اثری کی طرف سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں ارشاد فرمایا کہ ’’اگر چہ بہت سے لوگ ( جن میں غیروں کے علاوہ اپنے بھی پیش پیش تھے ) انکے پیچھے پڑے ہوئے تھے لیکن وہ کسی کی پرواہ نہیں کرتے تھے مستحکم دلائل کے ساتھ اچھے انداز میں جواب دیتے تھے۔‘‘
🌿(سہ ماہی البیان کراچی سلسلہ نمبر 8 ص 13،12)
اللہ رب العالمین توفیق سے نوازے۔ آمین