محدثین ضعیف روایات کیوں بیان کرتے تھے؟ – وضاحت
سوال:
محدثین کرام نے "کتبِ صحیحہ” کے علاوہ دیگر کتب حدیث میں ضعیف اور موضوع روایات کیوں ذکر کی ہیں؟ اس بارے میں وضاحت درکار ہے۔
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا بیان:
’’بل اکثر المحدثین فی الاعصار الماضیة من سنة مائتین و هلم جرا اذا ساقوا الحدیث یاسنادہ اعتقدوا انهم برؤا من عهدته۔ والله اعلم‘‘
(لسان المیزان ج۳ ص۷۵ ترجمۃ سلیمان بن احمد بن ایوب الطبرانی، دوسرا نسخہ ج۳ ص۳۵۳، اللالی المنصوعہ للسیوطی ج۱ ص۱۹، دوسرا نسخہ ص۲۵، تذکرۃ الموضوعات للفتنی ص۷)
ترجمہ:
بلکہ سن 200 ہجری سے لے کر اس کے بعد کے ادوار میں اکثر محدثین جب کسی حدیث کو اس کی سند کے ساتھ بیان کر دیتے تو ان کا یہ عقیدہ ہوتا تھا کہ وہ اس روایت کی ذمہ داری سے بری الذمہ ہو چکے ہیں۔
واللہ اعلم
حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا موقف:
لیکن (ابو نعیم الاصبہانی نے) روایات بیان کیں جیسا کہ ان جیسے محدثین کسی خاص موضوع کے بارے میں تمام روایتیں بیان کر دیتے تھے تاکہ (لوگوں کو) علم ہو جائے۔ اگرچہ ان میں سے بعض کے ساتھ حجت نہیں پکڑی جاتی تھی۔
(منہاج السنہ ج۴ ص۱۵)
امام سخاوی رحمہ اللہ کا قول:
اکثر محدثین خصوصاً طبرانی، ابو نعیم اور ابن مندہ جب سند کے ساتھ حدیث بیان کرتے تو وہ یہ عقیدہ رکھتے یعنی سمجھتے تھے کہ وہ اس کی مسئولیت سے بری ہوچکے ہیں۔
(فتح المغیث شرح الفیۃ الحدیث ج۱ ص۲۵۴، الموضوع)
نتیجہ:
مندرجہ بالا اقوال اور تحقیقات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ:
❀ صحیحین (صحیح بخاری و صحیح مسلم) کے علاوہ دیگر کتب حدیث مثلاً:
◈ الادب المفرد للبخاری
◈ مسند احمد
◈ وغیرہما
ان میں ضعیف روایات بھی شامل کی گئی ہیں۔
❀ محدثین کرام نے جب کسی روایت کو اس کی مکمل سند کے ساتھ بیان کیا، تو ان کا یہ مقصد نہیں ہوتا تھا کہ وہ اسے حجت یا دلیل کے طور پر بیان کر رہے ہیں۔ بلکہ:
◈ ان کا مقصد صرف روایت اور علم کی ترسیل ہوتا تھا۔
◈ وہ اس ذمہ داری سے بری الذمہ ہو جاتے تھے کیونکہ روایت کی سند کو واضح کر دیا گیا تھا۔
اصولی نکتہ:
ان کتب (صحیحین کے علاوہ) میں موجود احادیث سے حجت یا استدلال صرف اسی وقت ممکن ہے جب:
◈ اصول حدیث کو مدنظر رکھا جائے۔
◈ اسماء الرجال (راویوں کے حالات) کو جانچ لیا جائے۔
بغیر ان اصولوں کے:
❀ صحیحین کے علاوہ دیگر کتب حدیث کی روایات سے قطعیت کے ساتھ استدلال کرنا یا حجت کے طور پر پیش کرنا جائز نہیں ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب