مجنون یا بے ہوش شخص کی نماز و روزے کا شرعی حکم
ماخوذ : فتاویٰ ارکان اسلام

مجنون کی نمازیں اور روزے رکھنے کا حکم

سوال:

ایک شخص کو دو مہینے تک کسی بھی چیز کا شعور نہ رہا، جس کی وجہ سے نہ اس نے نماز پڑھی اور نہ ہی رمضان کے روزے رکھے، تو شریعت میں اس کا کیا حکم ہے؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایسے شخص پر، جو بے شعوری یا مجنونیت کی حالت میں ہو، شرعی احکام جیسے نماز اور روزہ واجب نہیں ہوتے۔ تاہم، مختلف حالتوں کے اعتبار سے اس کا حکم درج ذیل تفصیل کے مطابق ہے:

روزوں کا حکم:

اگر صحت یاب ہو جائے:

جب وہ شعور میں واپس آ جائے اور اس پر رمضان کے روزے فرض تھے، تو اسے ان کی قضا دینا لازم ہو گی۔

اگر اس کی موت ہو جائے:

اگر وہ صحت یابی کے بغیر فوت ہو جائے تو اس کے ذمہ کوئی قضا لازم نہیں۔

اگر دائمی معذور ہو:

اگر وہ دائمی معذوری جیسے انتہائی ضعیفی کا شکار ہو جائے، تو اس صورت میں اس کا ولی ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائے گا۔

نماز کی قضا کا حکم:

اس مسئلے میں علماء کا اختلاف ہے:

1. جمہور علماء کا موقف:

◈ جمہور علماء کے مطابق ایسے شخص پر نمازوں کی قضا لازم نہیں۔
◈ اس موقف کی دلیل حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت ہے:

"ان پر ایک دن اور رات بے ہوشی طاری رہی، اور انہوں نے اس دوران کی نمازوں کی قضا نہیں کی۔”

’’المصنف‘‘ لعبدالرزاق: ۲/۴۷۹۔

2. متاخرین حنابلہ کا موقف:

◈ ان کے مطابق ایسے شخص پر نمازوں کی قضا لازم ہے۔
◈ ان کی دلیل حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کے بارے میں مروی ہے:

"ان پر ایک دن اور ایک رات بے ہوشی طاری رہی، تو انہوں نے اس عرصہ کی فوت شدہ نمازوں کی قضا کی۔”

’’المصنف‘‘ لعبدالرزاق: ۲/۴۷۹۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1