مجذوب لوگوں کو مساجد میں جگہ دینا
ہمارے ممالک کی بعض مساجد میں کچھ مجذوب قسم کے لوگ بھی برآمدوں یا حجروں میں پڑے گندگی پھیلاتے رہتے ہیں۔ اور ان لوگوں میں سے کچھ تو ساتر لباس سے بے نیاز اور مادر پدر آزاد ہوتے ہیں۔ اور لوگوں سے گداگری کرتے یا مانگتے پھرتے ہیں۔ ان میں سے کبھی کبھی ایسے مجذوب و دیوانے بھی نظر آ جاتے ہیں جو سڑکوں پر بھٹکتے پھرتے ہیں۔ اور مختلف قسم کی حرکتوں سے لوگوں کو پریشان کرتے رہتے ہیں۔ مثلاً سر کھلا ہے اور بال بکھرے ہوئے ہیں۔ اور گندے اس قدر کہ دیکھنے سے متلی ہو۔ اور پھر اوپر سے بال ایسے بے ڈھنگے کہ بچے اور عورتیں ڈر جائیں۔ اور اپنی شکلیں یوں بگاڑنے کے ساتھ ساتھ ہی بعض نے اپنی بغل میں پتھر دبا رکھا ہوتا ہے۔ اور کئی تو بڑے بڑے کفریہ کلمات اور گالیاں بھی بکتے رہتے ہیں۔ کسی کی شرمگاہ تک ننگی ہے۔ اور انتہائی احمقانہ حرکتیں کرتا رہتا ہے۔
لیکن قربان جائیے ہمارے مسلمانوں کے جو خود باہوش و حواس ہوتے ہوئے بھی ان ننگے بدن اور بے دین لوگوں کو ولی مانتے ہیں۔ ان کے ہاتھ پاؤں دباتے ہیں۔ ان سے مرادیں مانگتے ہیں۔ اور نہ معلوم انہیں کیا اور کیا مانتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے مسلمانوں کو جہالت و گمراہی سے محفوظ فرمائے۔ کہاں مقام ولایت اور کہاں یہ اسلامی تعلیمات نظافت و پاکیزگی کا منہ چڑانے والے دیوانے۔
اصلاح المساجد ص 225
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اولیاء الرحمن اور اولیاء شیطان کے مابین فرق کے موضوع پر لکھی گئی اپنی بے نظیر ”کتاب الفرقان بین اولیاء الرحمن و اولیاء الشیطان“ میں لکھا ہے کہ:
”بندہ اللہ کا ولی اسی وقت ہو سکتا ہے جبکہ وہ مومن و متقی ہو، اور جو شخص نیکیاں کیے بغیر اور برائیاں چھوڑے بغیر اللہ کا تقرب ڈھونڈے وہ اللہ کا ولی نہیں ہو سکتا۔ “
اور ایسے ہی دیوانہ و پاگل بھی ولی نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اس کا نہ ایمان صحیح ہے، اور نہ ہی اس کی عبادتیں صحیح ہیں۔ اور درجہ ولایت کے حصول کے لیے یہ دونوں چیزیں ضروری ہیں۔ جس دیوانے کو کبھی افاقہ نہ ہو وہ مرفوع القلم ہے۔ اور تمام احکام سے معذور ہے۔
اور اس سے شیخ الاسلام رحمہ اللہ کا اشارہ ان احادیث کی طرف ہے جن میں دیوانے کو معذور قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ابو داؤد اور نسائی، ابن ماجہ، ابن حبان، دارمی، مسند احمد، مستدرک حاکم اور المنتقی بن الجارود میں مروی ہے، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
رفع القلم عن ثلاثة عن النائم حتى يستيقظ وعن المبتلى حتى يبدأ وعن المجنون حتى يعقل أو يفيق وعن الصبي حتى يكبر حتى يحتلم
تین آدمیوں سے قلم (گناہ و ثواب) اٹھا لیا گیا ہے۔ سویا ہوا ، جب تک کہ وہ جاگ نہ جائے۔ پاگل سے جب تک اسے افاقہ نہ ہو جائے۔ اور بچے سے جب تک کہ بالغ و جوان نہ ہو جائے۔
صحیح ابی داؤد -3698 صحیح نسائی – 3210- ابن ماجه 2041 – ابن حبان الموارد 1496 – مسند احمد 108،101/1 – الارواء 4/2 – صحيح الجامع -179/3/2 – نصب الرايه 161/4، 162
ایسے ہی ابو داؤد و ترمذی، ابن ماجہ، ابن خزیمہ، ابن حبان، دار قطنی، مستدرک حاکم و مسند احمد اور بیہقی میں چار مختلف طرق سے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ جن میں سے اگرچہ تین طرق پر کلام کیا گیا ہے۔ لیکن ایک طریق صحیح سند سے ثابت ہے۔ اور دوسرے طرق اسی کے موید ہیں۔ لہذا کبار محدثین نے ان کے مجموعے پر صحیح کا حکم لگایا ہے۔ چنانچہ ان میں سے صحیح طریق کے الفاظ ہیں:
رفع القلم عن ثلاثة عن المجنون المغلوب على عقله حتى يفيق عن النائم حتى يستيقظ، وعن الصبي حتى يحتلم
تین آدمیوں سے قلم اٹھا لیا گیا ہے۔ دیوانے سے جب تک کہ اسے افاقہ نہ ہو جائے۔ اور سوئے ہوئے سے جب تک کہ وہ بیدار نہ ہو جائے۔ اور بچے سے جب تک کہ وہ بالغ نہ ہو جائے۔
صحیح ابی داؤد 832/3 صحيح الترمذى 1150 – ابن ماجه 2042 – صحيح الجامع 3514،13،12 ـ ابن حيان 1497 – الحاكم 258/1 حواله بالا ايضاً
ان دونوں صحابہ کے علاوہ اسی مفہوم و معنی کی متعدد احادیث متعدد دیگر صحابہ کرام مثلاً حضرت ابو قتادہ، حضرت ابو ہریرہ، حضرت ثوبان، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہیں۔ جن کی اسناد متکلم فیه ہیں۔ اور ان کی تخریج حافظ ہیثمی رحمہ اللہ نے مجمع الزوائد جلد سوم جزء ششم ص 254 پر۔ اور علامہ زیلعی نے نصب الرایہ جلد چہارم ص 164، 165 پر کر دی ہے۔
غرض ان احادیث سے معلوم ہوا کہ جس دیوانے کو کبھی بھی افاقہ نہ ہوتا ہو وہ تو مرفوع القلم یا معذور ہے۔ اور اگر کسی کو کبھی افاقہ ہو جاتا ہو تو افاقہ کی حالت میں اگر اس سے کفر، نفاق یا گناہ سرزد ہوا ہو تو وہ بھی کافر، منافق یا فاسق ہوگا۔
البتہ اگر یہ دیوانگی کے عالم میں صادر ہوں تو پھر مواخذہ نہ ہوگا۔ اور ایسی حالت میں ایسا کوئی شخص ولی بھی نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ درجہ ولایت کو پانے کے لیے روحانی و جسمانی اور کپڑوں کی صفائی و سترائی کے ساتھ ساتھ افعال خیر و افعال صالحہ اور ایمان کامل و عقیدہ صحیحہ بنیادی عنصر ہیں۔
لہذا اگر کوئی ولایت کا دعویٰ کرے اور فرائض کی ادائیگی اور محارم و ممنوعات سے اجتناب نہ کرے بلکہ اس کے برعکس افعال کا ارتکاب کرے۔ اور ساتھ ہی کوئی دعویٰ بھی کرے۔ کہ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ضروری نہیں۔ بلکہ وہ ایسی منازل سے آگے گزر چکا ہے۔ تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے، نہ کہ ولی اللہ۔ مزید تفصیل کے لیے شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب الفرقان بين أولياء الرحمن وأولياء الشيطان دیکھی جا سکتی ہے۔
ایسے مجذوب لوگوں کو ولی ماننا صحیح نہیں ہے۔ اور نہ ہی ایسے لوگوں کو مساجد کے حجروں یا برآمدوں میں جگہ دینی چاہیے۔ تاکہ مساجد کا احترام مجروح نہ ہو۔