مجالد بن سعید راوی کے بارے میں محدثین کی آراء
اصل مضمون غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کا تحریر کردہ ہے، اسے پڑھنے میں آسانی کے لیے عنوانات، اور اضافی ترتیب کے ساتھ بہتر بنایا گیا ہے۔

جمہور محدثین کی رائے میں مجالد بن سعید ہمدانی کوفی کو "ضعیف” قرار دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں، ان کی زندگی کے آخری حصے میں وہ اختلاط کا بھی شکار ہو گئے تھے۔ اس سلسلے میں چند محدثین کے اقوال درج ذیل ہیں:

حافظ عبد الرحیم بن حسین عراقی رحمہ اللہ (406-765ھ) فرماتے ہیں:

"وَقَدْ ضَعَّفَہُ الْجُمْہُورُ، وَقَدِ اخْتَلَطَ أَخِیرًا”
ترجمہ: "جمہور محدثین کرام نے انہیں ضعیف قرار دیا ہے، اور وہ آخری عمر میں مختلط بھی ہو گئے تھے۔” (طرح التثریب في شرح التقریب: 389/2)

حافظ ابو الحسن علی بن ابوبکر ہیثمی (807-735ھ) فرماتے ہیں:

"وَقَدْ ضَعَّفَہُ الْجُمْہُورُ”
ترجمہ: "انہیں جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔” (مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: 33/5، 190)

علامہ محمود بن احمد عینی حنفی (855-762ھ) لکھتے ہیں:

"وَمُجَالِدٌ ضَعَّفَہُ الْجُمْہُورُ”
ترجمہ: "مجالد کو جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔” (عمدۃ القاري شرح صحیح البخاري: 240/6، تحت الحدیث: 934)

علامہ ابن مُفْلِح (884-816ھ) فرماتے ہیں:

"وَقَدْ ضَعَّفَہُ الْـأَکْثَرُ”
ترجمہ: "اکثر محدثین نے انہیں ضعیف کہا ہے۔” (المبدع في شرح المقنع: 345/7)

علامہ عبدالروف مناوی رحمہ اللہ (1031-952ھ) حافظ عراقی سے نقل کرتے ہیں:

انہیں جمہور نے ضعیف کہا ہے۔ (فیض القدیر: 14/6، ح: 8247)

علامہ احمد بن محمد بن علی شوکانی رحمہ اللہ (1250-1173ھ) فرماتے ہیں:

"وَقَدْ ضَعَّفَہُ الْجُمْہُورُ”
ترجمہ: "انہیں جمہور محدثین کرام نے ضعیف قرار دیا ہے۔” (نیل الأوطار: 273/2)

امام ابو عبد اللہ احمد بن محمد بن حنبل رحمہ اللہ (241-164ھ) فرماتے ہیں:

"مُجَالِدٌ حَدِیثُہٗ عَنْ أَصْحَابِہٖ کَأَنَّہٗ حُلْمٌ”
ترجمہ: "مجالد کی اپنے اصحاب سے بیان کردہ حدیث ایسے ہے جیسے خواب۔” (المجروحین لابن حبّان: 11/3، وسندہٗ صحیحٌ)

مزید فرماتے ہیں: "حَدِیثُ مُجَالِدٍ عَنِ الشَّعْبِيِّ، کَأَنَّہٗ حُلْمٌ”
ترجمہ: "مجالد کی شعبی سے بیان کردہ روایت گویا خواب ہے۔” (مسائل الإمام أحمد وإسحاق بن راھویہ: 750)

اور فرماتے ہیں: "ضَعِیفُ الْحَدِیثِ”
ترجمہ: "اس کی حدیث ضعیف ہے۔” (سؤالات المیموني: 362)

نیز فرماتے ہیں: "فَإِنَّہٗ کَانَ یُکْثِرُ وَیَضْطَرِبُ”
ترجمہ: "مجالد زیادہ روایات بیان کرتا تھا اور اضطراب کا شکار رہتا تھا۔” (المعرفۃ والتاریخ للإمام یعقوب بن سفیان: 165/2، وسندہٗ صحیحٌ)

امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ (204-150ھ) فرماتے ہیں:

"وَالْحَدِیثُ عَنْ مُّجَالِدٍ یُّجَالِدُ الْحَدِیثَ”
ترجمہ: "مجالد سے بیان کی گئی روایات (صحیح) حدیث کی مخالفت کرتی ہیں۔” (المجروحین لابن حبّان: 11/3، وسندہٗ حسنٌ)

امام ابو عبد اللہ محمد بن سعد بن منیع رحمہ اللہ (230-168ھ) فرماتے ہیں:

"وَکَانَ ضَعِیفًا فِي الْحَدِیثِ”
ترجمہ: "یہ حدیث میں ضعیف تھا۔” (الطبقات الکبرٰی: 349/6)

علامہ ابراہیم بن یعقوب جوزجانی (م: 259ھ) لکھتے ہیں:

"یُضَعَّفُ حَدِیثُہٗ”
ترجمہ: "اس کی بیان کردہ حدیث کو ضعیف قرار دیا جائے۔” (أحوال الرجال: 126)

امام ابو عبد الرحمن احمد بن شعیب نسائی رحمہ اللہ (303-215ھ) فرماتے ہیں:

"ضَعِیفٌ”
ترجمہ: "یہ ضعیف راوی ہے۔” (الضعفاء المتروکون، ص: 233)

نوٹ: بعض اہل علم نے امام نسائی رحمہ اللہ سے مجالد کو "ثقہ” قرار دینے کا ذکر کیا ہے، لیکن اس کا ثبوت نہیں مل سکا۔

امام ابو الحسن علی بن عمر دار قطنی رحمہ اللہ (385-306ھ) فرماتے ہیں:

"لَیْسَ بِقَوِيٍّ”
ترجمہ: "یہ قوی راوی نہیں ہے۔” (الضعفاء المتروکون: 532)

نیز فرماتے ہیں: "لَیْسَ بِثِقَۃٍ،۔۔۔، لاَ یُعْتَبَرُ بِہٖ”
ترجمہ: "یہ ثقہ راوی نہیں ہے۔ اس کا کوئی اعتبار نہیں کیا جائے گا۔” (سؤالات البرقاني: 474)

امام ابو حاتم محمد ابنِ حبان رحمہ اللہ (م: 354ھ) فرماتے ہیں:

"وَکَانَ رَدِيْئَ الْحِفْظِ، یُقَلِّبُ الْـأَسَانِیدَ، وَیَرْفَعُ الْمَرَاسِیلَ، لَا یَجُوزُ الِاحْتِجَاجُ بِہٖ”
ترجمہ: "اس کا حافظہ بہت کمزور تھا۔ یہ سندوں کو بدل دیتا تھا اور مراسیل کو مرفوع بنا دیتا تھا۔ اس کی بیان کردہ حدیث سے دلیل لینا جائز نہیں۔” (المجروحین: 11-10/3)

امام ابو زکریا یحییٰ بن معین رحمہ اللہ (233-158ھ) فرماتے ہیں:

"مُجَالِدٌ ضَعِیفٌ، وَاھِي الْحَدِیثِ”
ترجمہ: "مجالد ضعیف راوی ہے اور اس کی بیان کردہ احادیث کمزور ہیں۔” (الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم: 362/8، وسندہٗ صحیحٌ)

نیز فرماتے ہیں: "مُجَالِدٌ وَّحَجَّاجٌ لَّا یُحْتَجُّ بِحَدِیثِہِمَا”
ترجمہ: "مجالد اور حجاج کی بیان کردہ حدیث کو دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔” (تاریخ ابن معین بروایۃ الدوري: 3142)

مزید فرماتے ہیں: "کَانَ ضَعِیفًا”
ترجمہ: "یہ ضعیف راوی تھا۔” (الضعفاء الکبیر للعقیلي: 233/4، وسندہٗ حسنٌ، المجروحین لابن حبّان: 1039، وسندہٗ حسنٌ)

ایک مرتبہ فرمایا: "إِسْرَائِیلُ وَشَرِیکٌ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ مُّجَالِدٍ”
ترجمہ: "اسرائیل اور شریک میرے نزدیک مجالد سے بہتر راوی ہیں۔” (تاریخ ابن معین: 3056)

امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے مجالد کو ایک مقام پر "ثقہ” بھی کہا ہے۔ (تاریخ یحیی بن معین بروایۃ العبّاس الدوري: 1277)

تبصرہ: امام صاحب کا توثیق والا قول جمہور کے بھی اور ان کے اپنے دیگر اقوال کے بھی خلاف ہے، لہٰذا جمہور کے موافق قول لیا جائے گا۔

امام ابو سعید یحییٰ بن سعید قطان رحمہ اللہ (198-120ھ) فرماتے ہیں:

"فِي نَفْسِي مِنْہُ شَيْئٌ”
ترجمہ: "میرا دل اس کے بارے میں صاف نہیں۔” (الجرح والتعدیل لابن أبي حاتم: 361/8، وسندہٗ صحیحٌ)

امام یحییٰ بن سعید قطان رحمہ اللہ نے عبداللہ بن سعید سے پوچھا کہ کہاں جا رہے ہو؟ انہوں نے بتایا کہ میں وہب بن جریر کے پاس سیرت لکھنے جا رہا ہوں، جو مجالد سے مروی ہے۔ اس پر آپ نے فرمایا:
"تَکْتُبُ کَذِبًا کَثِیرًا، لَوْ شِئْتَ أَنْ یَّجْعَلَہَا لِيْ مُجَالِدٌ کُلَّہَا عَنِ الشَّعْبِيِّ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ فَعَلَ”
ترجمہ: "آپ بہت سے جھوٹ لکھنے جا رہے ہیں۔ اگر آپ چاہیں کہ مجالد میرے لیے ان ساری سندوں کو شعبی اور مسروق کے واسطے سے سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تک پہنچا دے، تو وہ ایسا کر دے گا۔” (الجرح والتعدیل: 361/8، وسندہٗ صحیحٌ)

اس سے مراد یہ ہے کہ مجالد کا حافظہ اس حد تک بگڑ چکا تھا کہ وہ تلقین قبول کرنے لگا تھا، یعنی جب اسے کوئی من گھڑت سند بیان کر کے کہتا کہ اصل سند اس طرح ہے تو وہ اسے تسلیم کر لیتا تھا۔

امام ابو حاتم رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ کیا مجالد کی بیان کردہ حدیث کو دلیل بنایا جا سکتا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: نہیں، اور مزید کہا:
"وَلَیْسَ مُجَالِدٌ بِقَوِيِّ الْحَدِیثِ”
ترجمہ: "مجالد کی بیان کردہ حدیث قوی نہیں ہوتی۔” (الجرح والتعدیل: 362/8)

امام ابو احمد عبد اللہ بن عدی رحمہ اللہ (365-277ھ) فرماتے ہیں:

"أَکْثَرُ رِوَایَتِہٖ عَنْہُ (الشَّعْبِيِّ)، وَعَامَّۃُ مَا یَرْوِیہِ غَیْرُ مَحْفُوظٍ”
ترجمہ: "اس نے زیادہ تر روایات شعبی کے واسطے سے بیان کی ہیں اور اس کی بیان کردہ اکثر روایات غیر محفوظ (منکر) ہیں۔” (الکامل في ضعفاء الرجال: 423/6)

امام ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی رحمہ اللہ (279-209ھ) فرماتے ہیں:

"وَقَدْ ضَعَّفَ مُجَالِدًا بَعْضُ أَھْلِ الْعِلْمِ، وَھُوَ کَثِیرُ الْغَلَطِ”
ترجمہ: "بعض اہل علم نے مجالد کو ضعیف قرار دیا ہے، اور وہ بہت زیادہ غلطیاں کرتا ہے۔” (سنن الترمذي، تحت الحدیث: 648)

نیز فرماتے ہیں: "وَقَدْ تَکَلَّمَ بَعْضُہُمْ فِی مُجَالِدِ بْنِ سَعِیدٍ مِنْ قِبَلِ حِفْظِہٖ”
ترجمہ: "بعض اہل علم نے حافظے کی خرابی کی بنا پر مجالد پر کلام کیا ہے۔” (سنن الترمذي، تحت الحدیث: 1172)

امام ابو بکر محمد بن حسین بیہقی رحمہ اللہ (458-384ھ) فرماتے ہیں:

"غَیْرُ مُحْتَجٍّ بِہٖ”
ترجمہ: "اس کی بیان کردہ حدیث سے دلیل نہیں لی جا سکتی۔” (السنن الکبریٰ للبیہقي: 128/8)

علامہ علی بن احمد ابنِ حزم رحمہ اللہ (456-384ھ) کہتے ہیں:

"ضَعِیفٌ”
ترجمہ: "یہ ضعیف راوی ہے۔” (المحلّٰی بالآثار: 62/3)

مزید فرماتے ہیں: "ھَالِکٌ”
ترجمہ: "سخت ضعیف ہے۔” (المحلّٰی: 429/10)

دیگر محدثین کی آراء:

حافظ منذری (مختصر سنن أبي داوٗد: 256/6)، حافظ بو صیری (اتّحاف الخیرۃ المھرۃ: 45)، علامہ ابن ملقن (البدر المنیر: 391/9)، حافظ ابن حجر (فتح الباري: 480/9) اور حافظ ابنِ کثیر (البدایۃ والنھایۃ: 141/8) نے بھی انہیں "ضعیف” قرار دیا ہے۔ لہٰذا حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ کا اس کی حدیث کی ایک سند کو "حسن” کہنا صحیح نہیں ہے۔

حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"مَشْہُورٌ، صَاحِبُ حَدِیثٍ، عَلٰی لِینٍ فِیہِ”
ترجمہ: "مشہور محدث ہے، البتہ کمزور راوی ہے۔” (میزان الاعتدال للذھبي: 438/3)

نیز فرماتے ہیں: "لَیْسَ بِالْقَوِيِّ”
ترجمہ: "یہ قوی نہیں ہے۔” (سیر أعلام النبلاء للذھبي: 146/2)

مجالد کے بارے میں توثیقات

معدلین کی رائے:

امام ابنِ شاہین رحمہ اللہ نے امام یحییٰ بن معین سے اس کا "ثقہ” ہونا ذکر کیا ہے۔ (تاریخ الثقات: 1435)

اس کا جواب اوپر دیا جا چکا ہے کہ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ کی یہ بات جمہور محدثین اور خود ان کے اپنے اقوال کے خلاف ہے، لہٰذا اسے مرجوح قرار دیا جائے گا۔

امام ابو عبد اللہ سفیان بن سعید ثوری رحمہ اللہ (161-93ھ) فرماتے ہیں:

"وَقَدْ تَکَلَّمَ النَّاسُ فِیہِ، وَبِخَاصَّۃٍ یَحْیَی بْنُ سَعِیدٍ، وَھُوَ ثِقَۃٌ”
ترجمہ: "ائمہ دین نے اس پر جرح کی ہے، خصوصاً امام یحییٰ بن سعید نے، تاہم وہ ثقہ ہے۔” (المعرفۃ والتاریخ: 100/3)

امام ابو یوسف یعقوب بن سفیان فسوی رحمہ اللہ (م: 277ھ) فرماتے ہیں:

"وَأَمَّا مُجَالِدٌ وَّالْـأَجْلَحُ، فَقَدْ تَکَلَّمَ النَّاسُ فِیہِمَا، وَمُجَالِدٌ عَلٰی کُلِّ حَالٍ أَمْثَلُ مِنَ الْـأَجْلَحِ”
ترجمہ: "مجالد اور اجلح دونوں کے بارے میں محدثین کی جرح موجود ہے اور مجالد ہر حال میں اجلح سے بہتر ہے۔” (المعرفۃ التاریخ: 83/3)

نوٹ: یاد رہے کہ اجلح کندی جمہور محدثین کے نزدیک "ثقہ” ہے۔ اس کے بارے میں علامہ ہیثمی فرماتے ہیں: "وَالْـأَکْثَرُ عَلٰی تَوْثِیقِہٖ” یعنی "اکثر محدثین کرام اس کی توثیق کرتے ہیں۔” (مجمع الزوائد: 189/1)

تفصیل کے لیے حافظ ابو یحییٰ نورپوری کی کتاب "صحیح بخاری کا مطالعہ اور فتنہ انکار حدیث” (ص: 275-271) ملاحظہ فرمائیں۔

نوٹ: امام بخاری رحمہ اللہ سے مجالد کو "صدوق” کہنا ثابت نہیں ہے۔

امام ابو الحسن احمد بن عبداللہ عجلی رحمہ اللہ (261-181ھ) فرماتے ہیں:

"جَائِزُ الْحَدِیثِ، حَسَنُ الْحَدِیثِ”
ترجمہ: "اس کی حدیث درست اور حسن ہے۔” (تاریخ الثقات: 460)

امام ابو بسطام شعبہ بن حجاج عتکی رحمہ اللہ (م: 160ھ) نے الحسن بن علی بن عاصم سے کہا:

"یَا حَسَنُ اسْتَخِرِ اللّٰہَ، وَأَدْبِرْ عَلٰی مُجَالِدٍ”
ترجمہ: "حسن! اللہ سے خیر طلب کرو اور مجالد کے پاس جاؤ۔” (الضعفاء الکبیر للعقیلي: 232/4، وسندہٗ حسنٌ)

امام ابو الحسن علی بن عبداللہ مدینی رحمہ اللہ (234-161ھ) نے امام شعبی رحمہ اللہ کے شاگردوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:

"مُجَالِدٌ فَوْقَ أَشْعَثَ بْنِ سَوَّارٍ، فَوْقَ أَجْلَحَ الْکِنْدِيِّ”
ترجمہ: "مجالد، اشعث بن سوار سے کم اور اجلح کندی سے بلند درجے کا ہے۔” (المعرفۃ والتاریخ للفسوي: 1713، وسندہٗ صحیحٌ)

امام ابو عبداللہ محمد بن مثنیٰ بصری رحمہ اللہ (215-118ھ) فرماتے ہیں:

"یُحْتَمَلُ حَدِیثُہٗ لِصِدْقِہٖ”
ترجمہ: "اس کی سچائی کی بنا پر اس کی حدیث روایت کی جائے گی۔” (تہذیب التہذیب لابن حجر: 37/10)

نوٹ: امام مسلم رحمہ اللہ نے مجالد بن سعید سے اصول میں کوئی روایت نہیں لی۔ صحیح مسلم میں مجالد کی روایت متابعت میں (دوسرے راوی کے ساتھ ملا کر) آئی ہے۔

تنبیہ نمبر 1

ابو سعید عبداللہ بن سعید اشجع کندی (م: 257ھ) کہتے ہیں:

"ذَکَرَ رَجُلٌ عُثْمَانَ عِنْدَ مُجَالِدِ بْنِ سَعِیدٍ، فَقَالَ : مُجَالِدُ بْنُ سَعِیدٍ لِّغُلَامِہٖ : جُرَّہٗ وَاطْرَحْہُ فِي الْبِئْرِ”
ترجمہ: "مجالد بن سعید کے پاس ایک شخص نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا، تو وہ اپنے غلام سے کہنے لگا: اسے کھینچ کر کنویں میں پھینک دو۔” (الضعفاء الکبیر للعقیلي: 234/4)

تبصرہ: اس کی سند "انقطاع” کی وجہ سے "ضعیف” ہے، کیونکہ ابو سعید 257ھ میں فوت ہوئے جبکہ مجالد بن سعید 144ھ میں فوت ہو گئے تھے۔ دونوں کا ملاقات اور سماع ثابت نہیں، بلکہ ممکن ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "ھٰذِہٖ حِکَایَۃٌ مُّرْسَلَۃٌ” یعنی "یہ مرسل (منقطع) حکایت ہے۔” (تاریخ الإسلام: 977/3، بتحقیق بشّار)

امام عبدالرحمٰن بن مہدی کہتے ہیں:

"یحییٰ بن سعید اور ابو اسامہ کی مجالد سے بیان کردہ حدیث کچھ بھی نہیں، کیونکہ انہوں نے مجالد کے حافظے کی خرابی کے بعد اس سے بیان کیا ہے۔ البتہ شعبہ، حماد بن زید اور ہشیم کی حدیث صحیح ہے، کیونکہ وہ مجالد کا حافظہ خراب ہونے سے پہلے اس سے بیان کرتے ہیں۔”
(الجرح والتعدیل: 361/8)

وضاحت: امام ابن ابو حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد آخری عمر میں حافظے کا بگاڑ ہے۔

خلاصہ:

مجالد بن سعید کوفی راوی جمہور محدثین کے نزدیک "ضعیف” ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے