متولی کے امام اور مؤذن کو ہٹانے یا مقرر کرنے کا اختیار
ماخوذ: قرآن وحدیث کی روشنی میں احکام ومسائل، جلد 02

سوال

متولی مسجد کو شرعاً مسجد میں کس امر کا اختیار ہے جس کو وہ بلاشبہ مصلیان مسجد باختیار خود کر سکتا ہے۔ جھاڑو کش و مؤذن مسجد جو سب کی رائے سے رکھا گیا ہو اور لوگ اُس سے خوش ہو بظاہر اُس کا نہ ہو، متولی اپنی ذاتی مخالفت کی وجہ سے یا مسجد میں دخل و تصرف و حکومت حاصل کرنے کی غرض سے اس کو موقوف کر سکتا ہے یا نہیں۔ اس طرح امام مسجد جو تمام مصلیوں کی رائے اور رضا مندی سے رکھا گیا ہو اور عرصہ دراز تک نماز پڑھاتا رہا ہو اور سب لوگ اُس سے خوش ہوں۔ اُس کو متولی محض اپنے اختیار سے بلا مشورہ و دیگر مصلیان کے موقوف کر سکتا ہے یا نہیں۔ اسی طرح بلا مشورہ دیگر مصلیان مسجد صرف اپنی رائے سے کسی امام اور مؤذن کو مقرر کر سکتا ہے یا نہیں؟

الجواب

متولی مسجد کے متعلق یہ کام ہوتے ہیں۔ مسجد کا انتظام حسب شرع اور اس کی آمدنی کا وصول و تحصیل اور اس کو مصارف ضروریہ میں صرف کرنا اور امام و مؤذن کو مقرر کرنا۔ سو یہ تمام امور بغیر مشورہ مصلیان مسجد نہ ہونے چاہئیں، بلا مشورہ کاروائی کرنے میں اندیشہ ہے۔ کہ اہل مسجد کو متولی کی نسبت کسی کاروائی کی وجہ سے بدگمانی و ناراضگی پیدا ہو جائے اور نزاع کی صورت قائم ہو جاوے۔ جبکہ حق تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ کی تاکید فرمائی چنانچہ فرمایا:
﴿وَشَاوِرْ‌هُمْ فِي الْأَمْرِ‌ ۖ﴾
باوجودیکہ آپ کی نسبت یہ فرمایا :
﴿النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ ۖ﴾
’’(مطلب اس کا یہ ہے کہ نبی کو مومنوں کے جان و مال میں اس قدر تصرف ہے کہ اتنا خود اُن کو نہیں۔‘‘
تو پھر نبی کے سوا اور لوگوں کو مشورہ کی کس قدر ضرورت ہے۔ آپ کے مشورہ کی کیفیت جا بجا احادیث میں مذکور ہیں۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کی یہ صفت بتائی ہے۔
﴿وَشَاوِرْ‌هُمْ فِي الْأَمْرِ‌ ۖ﴾
امام و مؤذن مسجد کو متولی بغیر مشورہ مصلیان کے بلاوجہ شرعی ہر گز نہیں موقوف کر سکتا، خصوصاً جب کہ دیگر مصلیان خوش ہوں۔ اور جب اہل مسجد کسی امام سے ناخوش ہوں تو ایسے امام کی نماز قبول نہیں ہوتی اور نہ ایسے امام کو مقرر کرنا درست ہے،عبد اللہ بن عمرو سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«ثلاثة لا يقبل الله منهم صلٰوة من تقدم وهم له كارهون» الحديث رواه ابو دائود و ابن ماجه كذا فى المنتقي
’’یعنی اللہ تعالیٰ اُس شخص کی نماز قبول نہیں کرتا جو امامت کے لیے آگے بڑھے اور لوگ اُس کی امامت سے ناخوش ہوں۔‘‘
اس کے ہم معنی اور بھی چند رواتیں آئی ہیں۔ حدیث مذکور کے تحت میں نیل الاوطار جلد نمبر ۳ صفحہ ۵۵ میں لکھا ہے۔
واحاديث الباب يقوي بعضها بعضا فينفض للاستدلال بها على التحريم ان يكونا لرجل اما مالقوم يكرهونه ويدل على التحريم نفي قبول الصلوة
آگے چل کر لکھا ہے
وقد قيد ذالك جماعة من أهل العلم بالكراهية الدينية بسبب شرعي فأما الكراهية لغير الدين فلا عبرة بها وقيدوه أيضاً بأن يكون الكارهون أكثر المامومين ولا اعتبار الكراهية الواحد والاثنين والثلاثة
’’یعنی اہل علم کی ایک جماعت نے یہ قید لگائی ہے کہ مقتدیوں کا امام سے کراہت کرنا شرعی وجہ سے ہونا چاہیے، اگر کراہت کسی دینی وجہ سے نہیں بلکہ کسی اور غرض سے ہے تو اس کا کچھ اعتبار نہیں۔ اور اہل علم مذکورین نے یہ بھی قید لگائی ہے کہ کراہت اکثر مقتدیوں کی ہونی چاہیے، ایک دو کی کراہت کا اعتبار نہیں جب کہ مقتدیوں کی جماعت کثیرہ ہو۔‘‘ ( هذا ما عندي خليل الرحمن مدرس مدرسه الحديث والفرقان)
جواب ہذا صحیح کتاب و سنت کے مطابق متولی صاحب کو مشورہ کرنا چاہیے مشورہ سے کام کرنا بہتر ہے اور مشورہ کا مسئلہ صحیح بکاری میں بسط کے ساتھ لکھا ہے۔
(فقط ابو محمد عبد الوہاب الملتانی تزیل الدہلی)
(الجواب صحیح ابو الحسن سید محمد، ہذا الجواب حق عبد الرحمن ولایتی مدرس مدرسہ میاں صاحب مرحوم دہلی)
(الجواب صحیح کتبہ محمد عبد اللہ ۱۹ شعبان ۱۳۲۸ھ ، الجواب صحیح سید محمد عبد السلام غفرلہ)
(الجواب حق الحق احق ان يتبع فماذا بعد الحق الالضلال مولانا حكيم ابو تراب عبد الوهاب صاحب بقلم ابو الخير غفر الله تعاليٰ)
(الجواب صحیح عبد الستار حسن عمر پوری، الجواب صحیح عبد الجبار عمر پوری)
(الجواب حق صحیح واللہ اعلم کتبہ عبد السلام البارکفوری عفی عنہ، جواب المجیب حق ۲۳ ذیقعد ۱۳۲۸ھ، )
(عند عبد الحکیم الصاد قفوری العظیم آبادی عفی عنہ، سارے جواب درصحیح ہیں ۔ واللہ اعلم بالصواب ۲۴ ذیقعد ۱۳۲۸ھ)
(حررہ العبد الفقیر ابو الطیب محمد شمس الحق عظیم آبادی عفا اللہ عنہ ، الجواب صحیح ہذا الجواب صحیح محمد مجیب اللہ عفی عنہ)
(محمد عین الدین عفی عنہ مٹیا برجی ،العائذ بالرحمن عبد المنان عفی عنہ وزیر آبادی)
حَامِدًا ومُصَلِّيًا
واضح ہو کہ خلیلی۔ مدرس الحدیث والفرقان نے جو کچھ ان مسائل کی نسبت تحریر فرمایا ہے۔ وہ بہت صحیح اور نہایت درست ہے، غافلوں کو بیدار، عاقلوں کو ہوشیار کرنے کے لیے کافی وافی ہے اور اس پر علمائے کرام و فضلائے عظام کی تصحیح مرض غفلت کے لیے دوائے شافی ہے۔ مگر میں جہاں تک خیال کرتا ہوں ان سوالوں کی ضرورت متولی صاحب کی ذاتی مخالفت پر پاتا ہوں جو بصورت عجز شرعی پہلو سے ہو کر نکلی ہے، اگر یہ خیال میرا صحیح ہے تو اس جیسے ہزاروں فتوے بھی متولی صاحب کو رو براہ نہیں کر سکتے، کیوں کہ ہر مسببات کا ازالہ اسباب کے ازالہ سے ہوا کرتا ہے، پس میرے نزدیک مناسب تدبیر یہی ہے کہ اُسی مسجد کے ممتاز مصلیان مل کر سعی کریں اور مابہ المخالفۃ کو اٹھا دیں۔ اگر وہ لوگ نہ کرسکتے ہوں تو مسلم الطرفین، ومعتقد الجانبین علماء کو تکلیف دیں کہ آپس میں صلح کرا دیں،اور اگر واقعی وہ خیال میرا صحیح نہیں ہے بلکہ متولی صاحب کو ان مسائل کی نسبت بھی معلوم ہے کہ مسجد میں سونا یا تعلیم صبیان وغیرہ جائز ہی نہیں ہے یا متولی من حیث متولی ہونے کے مالک اور مختار ہے ہو جاتا ہے۔ مصلیان مسجد سے کسی امر میں مشورہ لینے کی ضرورت نہیں رہتی تو متولی صاحب اُس فتویٰ مصمحہ کو صدق دل اور اخلاص سے ملاحظہ کریں اور شریعت سے جو بات ثابت ہو، اُس پر عمل درآمد کریں، حق بات کے قبول کرنے میں ذرا بھی عار نہ کریں۔
اولاً اس امر میں خوب غور کریں کہ شریعت محمدیہ کی بنا فیما بین اتفاق اور باہمی مشورہ پر ہے، خود سرور کائنات خلاصہ موجودات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ جل شانہ نے صحابہ سے مشورہ لینے کو فرمایا ہے۔
﴿وَشَاوِرْ‌هُمْ فِي الْأَمْرِ‌ ۖ﴾
باوجودیکہ ہ رکام کے لیے وحی آتی رہتی تھی، اور مسلمانوں کی ایک خاص اور ممتاز صفت فرمائی گئی
﴿وَشَاوِرْ‌هُمْ فِي الْأَمْرِ‌ ۖ﴾
اور حدیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔
« إذا كان أمراؤكم خياركم وأغنياؤكم سمحاءكم وأموركم شورى بينكم فظهر الأرض خير لكم من بطنها وإذا كان أمراؤكم شراركم وأغنياؤكم بخلاءكم وأموركم إلى نسائكم فبطن الأرض خير لكم من ظهرها »
’’یعنی اے مسلمانو! جب تمہارے سردار اچھے کام کریں اور مالدار لوگ سخاوت کریں اور تمہارے کام آپس کے مشورے سے ہوں تو زمین کے اوپر رہنا تمہارے لیے اُس کے اندر رہنے سے اچھا ہے۔ اور اگر اس کے الٹے سب کام ہوں تو زمین کے اندر دفن ہونا تمہارے لیے اُس کے اوپر رہنے سے بہتر ہے۔‘‘
یہ حدیث قابل غور و لائق عبرت ہے متولی صاحب اس پر غور کریںا ور ہر گز اپنے آپ کو مختار نہ سمجھیں بلکہ ہر کام کے لیے مصلیان مسجد سے مشورہ کر لیں۔ مشورہ سے جو بات طے ہو اُس کو نافذ کریں۔ اور مسجد کی آبادی اور اس کی آمدنی کا بھی خیال رکھیں۔ میرے نزدیک ایسا متولی قابل تولیت نہیں، جو آپس میں مشورہ نہ کرے۔ اور جو جی میں آئے خود رائی سے سیاہ و سفید کرے، بلکہ متولی ایسے کی تولیت بالکل ناجائز ہے۔ کیوں کہ جب شریعت سے امامت کے متعلق صاف طور پر حکم ہے کہ ایسا ہر گز امام نہ بنایا جائے جس کی امامت سے لوگ ناراض ہوں۔ تو بھلا وہ متولی کیسے قابل تولیت کے ہو سکتا ہے جس کی خود رائی سے لوگ تنگ ہوں، صورت سوال سے صاف ظاہر ہے کہ متولی صاحب محض جابرانہ تولیت چلانا چاہتے ہیں، جو ان کو کسی طرح جائز نہیں، پس قانون آسمانی
﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ‌ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ ۚ﴾
مصلیان مسجد کو چاہیے کہ متولی صاحب کو روکیں ورنہ معزول کر دیں۔
وهذا هو الحق أن يتبع والسّلام على من اتبع الهدي.
( حرره الراجي رحمة ربه القوي ابو النعمان الاعظمي السوي صانه اللّٰه عن كل غبي و غوي)
(الجواب صحیح العبد محمد سلیمان عفی عنہ، (فتویٰ متعلق مساجد طبع کلکتہ)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے