سوال
زید گزشتہ چھ سال سے ایک مسجد میں تراویح کی نماز میں قرآن مجید سنارہا ہے اور نمازی حضرات اس سے خوش ہیں۔ زید نماز روزہ کا پابند، قاری اور نیک سیرت شخص ہے، لیکن مسجد کے ایک متولی صاحب ذاتی رنجش کی وجہ سے زید کو آئندہ تراویح میں قرآن مجید سنانے سے روکنا چاہتے ہیں۔ کیا شرعاً متولی کو زید کو روکنے کا حق ہے؟ اگر متولی جبراً زید کو روکے تو کیا اس پر عند اللہ پکڑ ہوگی؟
الجواب
زید جو کہ صوم و صلوٰۃ کا پابند، حافظ قرآن، قاری، اور نیک سیرت شخص ہے، اور عرصہ سے تراویح کی نماز پڑھاتا آ رہا ہے، اس کی امامت پر آج تک کسی نمازی نے اعتراض نہیں کیا اور تمام نمازی اس سے خوش ہیں۔ ایسی صورت میں زید تراویح پڑھانے کا شرعاً مستحق ہے۔
جو متولی ذاتی عناد کی بنا پر زید کو تراویح پڑھانے سے روکنا چاہتا ہے، وہ اس آیت کریمہ کے تحت آتا ہے:
"وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللَّـهِ أَن يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَىٰ فِي خَرَابِهَا”
(سورہ البقرہ: آیت 114)
ترجمہ: "اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ کی مسجدوں میں اللہ کا ذکر کرنے سے روکے اور ان کی بربادی کے درپے ہو۔”
علامہ شوکانی اپنی تفسیر فتح القدیر میں اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو لوگوں کو مسجدوں میں نماز پڑھنے، قرآن مجید کی تلاوت کرنے، اور ذکر الٰہی کرنے سے روکتا ہے۔ ایسا شخص بڑا ہی ظالم ہے۔
لہذا، شرعی طور پر متولی کو زید کو تراویح پڑھانے سے روکنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اگر متولی زید کو جبراً روکتا ہے تو وہ اس آیت کے مطابق ظالم شمار ہوگا اور عند اللہ اس کی پکڑ ہو سکتی ہے۔
خلاصہ
◄ زید کو تراویح پڑھانے سے روکنے کا شرعی کوئی جواز نہیں ہے، خاص طور پر جب وہ متقی، قاری، اور نیک سیرت ہو۔
◄ متولی اگر ذاتی رنجش کی بنا پر زید کو روکتا ہے، تو وہ قرآن کی آیت کے تحت ظالم شمار ہوگا۔
◄ زید کو تراویح پڑھانے سے روکنا شرعاً ناجائز ہے۔
حوالہ جات
◄ تفسیر فتح القدیر
◄ مولانا عبد السلام بستوی، ترجمان دہلی, 6 محرم الحرام 1380 ھ