متعہ کے لیے روافض کا آیت فما استمتعتم سے استدلال کی حقیقت؟
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

روافض نکاح متعہ کی حلت پر آیت:
فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً
پیش کرتے ہیں، ان کی استدلال کی کیا حقیقت ہے؟

جواب:

فرمانِ الہی ہے:
فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً
(سورۃ النساء: 24)
جن عورتوں سے تم فائدہ اٹھاؤ، انہیں ان کے حق مہر ضرور ادا کرو۔
❀ امام طبری رحمہ اللہ (م: 310ھ) لکھتے ہیں:
اس آیت کی درست تفسیر یہ ہے: جن عورتوں سے تم نے نکاح کیا اور خلوت بھی اختیار کر لی، انہیں مہر ادا کرو۔ اس تفسیر کے صحیح ہونے کی وجہ یہ ہے کہ دلائل سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی جس متعہ النساء کو حرام قرار دیا ہے، وہ نکاح صحیح سے الگ چیز ہے۔
(تفسير الطبري: 3/738، طبع دار الحديث، القاهرة)
❀ ابن خويز منداد بصری رحمہ اللہ (م: 390ھ) فرماتے ہیں:
اس آیت کریمہ سے متعہ کا جواز کشید کرنا جائز نہیں، کیونکہ ایک تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح متعہ سے منع فرما دیا ہے اور اسے حرام قرار دے دیا ہے، دوسرا یہ کہ اللہ نے (اس سے اگلی آیت میں) ارشاد فرمایا:
فَانْكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَّ
(سورۃ النساء: 25)
تم ان عورتوں سے ان کے گھر والوں کی اجازت سے نکاح کرو۔
اور یہ بات تو معلوم ہی ہے کہ عورت کے گھر والوں کی اجازت، یعنی ولی اور دو گواہوں کی موجودگی میں جو نکاح ہوتا ہے، وہ نکاح شرعی ہی ہوتا ہے، نکاح متعہ کی صورت یہ نہیں ہوتی۔
(تفسير القرطبي: 5/129-130)
❀ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (م: 728ھ) لکھتے ہیں:
اس آیت کریمہ میں متعہ کے حلال ہونے کی کوئی دلیل نہیں۔
❀ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
وَأُحِلَّ لَكُمْ مَا وَرَاءَ ذٰلِكُمْ أَنْ تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُمْ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُمْ بِهِ مِنْ بَعْدِ الْفَرِيضَةِ إِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا
(سورۃ النساء: 24)
اور ان (مذکورہ محرمات) کے علاوہ جو عورتیں ہیں، وہ تمہارے لیے حلال کر دی گئی ہیں، (شرط یہ ہے) کہ تم اپنے مال (مہر) کے بدلے انہیں حاصل کر کے ان سے نکاح کرو اور تمہاری نیت بدکاری کی نہ ہو، پھر جن سے مہر کے عوض تم فائدہ اٹھاؤ، انہیں ان کے مقرر کیے ہوئے مہر دے دو، اگر تم مہر مقرر کر لینے کے بعد اس (میں کمی بیشی) پر راضی ہو جاؤ، تو تم پر کوئی گناہ نہیں۔ بے شک اللہ خوب جاننے والا، بڑی حکمت والا ہے۔
وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ مِنْكُمْ طَوْلًا أَنْ يَنْكِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ
(سورۃ النساء: 25)
اور جو شخص آزاد مومن عورتوں سے نکاح کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو۔
یہاں جن عورتوں سے فائدہ اٹھانے کی بات ہے، ان سے مراد وہ عورتیں ہیں، جن سے دخول ہو چکا ہے۔ نکاح کے بعد عورت سے دخول کرنے والے کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی بیوی کو حق مہر ادا کرے۔ جس عورت کو دخول سے قبل ہی طلاق ہو جائے اور خاوند اس سے دخول کی صورت میں فائدہ نہ اٹھا پایا ہو، وہ پورے حق مہر کی مستحق نہیں ہوتی، بلکہ اسے نصف مہر دیا جائے گا، جیسا کہ فرمان الہی ہے:
وَكَيْفَ تَأْخُذُونَهُ وَقَدْ أَفْضَىٰ بَعْضُكُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ وَأَخَذْنَ مِنْكُمْ مِيثَاقًا غَلِيظًا
(سورۃ النساء: 21)
اور تم مہر میں سے کیسے واپس لو گے، حالانکہ تم ایک دوسرے سے ملاپ کر چکے ہو اور ان عورتوں نے تم سے پختہ عہد لیا ہے؟
اس آیت میں بھی نکاح کے بعد ملاپ کو حق مہر کی ادائیگی کے لزوم کا سبب بتایا گیا ہے۔ وضاحت یوں ہے کہ اس آیت میں ابدی نکاح کو چھوڑ کر مال کے بدلے وقتی نکاح کی تخصیص کی کوئی صورت نہیں، بلکہ ابدی نکاح ہی مکمل حق مہر ادا کرنے کا زیادہ حق دار ہے۔ ضروری ہے کہ یہ آیت ابدی نکاح پر دلالت کرے۔ یہ دلالت خواہ تخصیص کے انداز سے ہو، خواہ عموم کے انداز سے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اس کے بعد لونڈیوں کے نکاح کا ذکر ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مذکورہ بات مطلق طور پر آزاد عورتوں کے نکاح کے متعلق تھی۔ اگر یہ کہا جائے کہ سلف کے ایک گروہ کی قرآت یوں تھی:
فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ إِلَىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى
تم ان عورتوں میں سے جس سے ایک مقرر وقت تک فائدہ اٹھاؤ۔
تو جواب یہ ہے کہ یہ قرآت متواتر نہیں، بلکہ اس کا زیادہ سے زیادہ رتبہ اخبار آحاد کی طرح ہے۔ ہم اس بات کے انکاری نہیں کہ متعہ شروع اسلام میں حلال تھا، لیکن یہاں بات یہ ہے کہ اس پر قرآن کریم دلالت کرتا ہے یا نہیں؟ دوسری بات یہ بھی ہو سکتی ہے کہ یہ الفاظ اگرچہ نازل ہوئے تھے، لیکن یہ مشہور قرآت میں ثابت نہیں ہوئے، لہذا یہ منسوخ ہیں۔ ان کا نزول اس وقت ہوا ہوگا، جب متعہ ابھی جائز تھا۔ جب متعہ کو حرام قرار دیا گیا، تو یہ الفاظ منسوخ ہو گئے اور وقتی نکاح میں حق مہر کی ادائیگی کا حکم مطلق (ابدی) نکاح میں مہر کی ادائیگی پر تنبیہ کرنے کے لیے رہ گیا۔ زیادہ سے زیادہ یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ دونوں قرآتیں حق ہیں۔ جب وقتی نکاح، یعنی متعہ حلال تھا، تو حق مہر دینا واجب تھا۔ یہ آغاز اسلام میں جائز تھا، لہذا اس آیت میں کوئی ایسی بات نہیں، جس سے یہ معلوم ہو کہ وقتی نکاح، یعنی متعہ اب بھی حلال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ تمہارے لیے عورتوں سے مقررہ وقت تک متعہ کرنا حلال کر دیا گیا ہے، بلکہ فرمانِ باری تعالیٰ یہ ہے کہ جن عورتوں سے تم نے فائدہ حاصل کیا ہے، ان کو حق مہر ادا کرو۔ عورت سے فائدہ اٹھانا حلال ہونے کی صورت میں ہو یا حرام کی صورت میں، یہ آیت دونوں طرح کے فائدے کو شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماع امت دونوں دلائل سے نکاح فاسد میں حق مہر واجب ہے۔ فائدہ حاصل کرنے والا جب اس کام کو حلال سمجھتا ہو، تو اس پر حق مہر واجب ہے۔ رہا حرام متعہ، تو اس آیت میں اس کا کوئی ذکر نہیں۔ اگر وہ کسی عورت سے اس کی رضا مندی سے بغیر نکاح کے فائدہ حاصل کرے گا، تو یہ زنا ہوگا۔ اس میں کوئی حق مہر نہیں۔ اگر عورت کو مجبور کیا گیا ہو، تو اس میں اختلاف مشہور ہے۔ یہ جو بات ذکر کی جاتی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے متعہ سے منع کیا تھا، تو خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے پہلے عورتوں سے متعہ حلال قرار دیا تھا، لیکن بعد میں اسے حرام کر دیا تھا۔ اس بات کو صحیح بخاری و صحیح مسلم وغیرہما میں ثقہ راویوں نے امام زہری رحمہ اللہ سے اور انہوں نے اس روایت کو محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ کے دونوں بیٹوں عبداللہ اور حسن سے بیان کیا ہے۔ وہ دونوں اسے اپنے والد محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ سے بیان کرتے ہیں، وہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے جب متعہ کو حلال کہا، تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: آپ (اس مسئلہ میں) راہِ حق سے پھسل گئے ہیں، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر والے سال متعہ اور گدھوں کے گوشت کو حرام قرار دے دیا تھا۔ امام زہری رحمہ اللہ سے اس روایت کو امام مالک بن انس رحمہ اللہ، امام سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ وغیرہما نے بیان کیا ہے جو کہ ان کے زمانے کے سب سے بڑے علمائے سنت و حفاظ حدیث اور ائمہ اسلام تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں، جن کے علم، عدالت اور حفظ پر مسلمانوں کا اتفاق رہا ہے۔ محدثین کرام کا اس حدیث کے صحیح ہونے اور تلقی بالقبول حاصل کرنے پر اتفاق ہے۔ اہل علم میں سے کسی نے اس میں کوئی طعن نہیں کی۔ اسی طرح صحیح بخاری میں ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعہ کو فتح مکہ والے سال قیامت تک کے لیے حرام قرار دیا تھا۔ یوں اہل سنت والجماعت نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور دیگر خلفائے راشدین کی اس چیز میں پیروی کی ہے جو انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کی ہے، جبکہ شیعہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی اس بات میں مخالفت کی ہے، جو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کی ہے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے مخالف کی بات مانی ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیوی اور لونڈی کو حلال قرار دیا ہے، جبکہ جس عورت سے متعہ کیا جائے، وہ نہ بیوی ہے، نہ لونڈی۔ اگر وہ بیوی ہوتی تو وراثت کی حقدار بنتی، اس پر مرد کی وفات کی وجہ سے عدت لازم ہوتی، نیز تین طلاقیں اس پر واقع ہوتیں، کیونکہ قرآن کریم میں بیوی کے یہی احکام ہیں۔ جب متعہ والی عورت میں نکاح کے لوازم موجود نہیں، تو اس سے معلوم ہوا کہ نکاح نہیں ہوا، کیونکہ لازم کے ختم ہونے سے ملزوم بھی ختم ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں بیویوں اور لونڈیوں کو حلال قرار دے کر باقی عورتوں کو حرام کہہ دیا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ، إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ، فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَاءَ ذٰلِكَ فَأُولٰئِكَ هُمُ الْعَادُونَ
(سورۃ المؤمنون: 5-7)
اہل ایمان اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، بیویوں اور لونڈیوں سے ایسے تعلقات رکھنے پر ملامت نہیں، لیکن جو لوگ تکمیل خواہش کے لیے کوئی دوسرا رستہ اختیار کریں، وہ باغی ہیں۔
متعہ کے حرام ہونے کے بعد جس عورت سے متعہ کیا جائے، وہ نہ بیوی ہے، نہ لونڈی، لہذا متعہ قرآنِ کریم کی نص سے حرام قرار پا رہا ہے۔ متعہ والی عورت کا لونڈی نہ ہونا، تو واضح ہے، لوازم نکاح نہ ہونے کی وجہ سے وہ بیوی بھی نہیں ہے، کیونکہ وراثت کا باعث بننا، عورت پر عدت کا ثابت ہونا، تین طلاقوں کا واقع ہونا اور دخول سے قبل طلاق کی صورت میں نصف حق مہر کا حق دار ہونا وغیرہ لوازم نکاح میں سے ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ کبھی بیوی وارث نہیں بھی بنتی، جیسا کہ ذمی عورت اور لونڈی ہے۔ ان سے کہا جائے کہ ان کے نزدیک ذمی عورت سے نکاح جائز ہی نہیں اور لونڈی سے بھی بوقت ضرورت نکاح کیا جا سکتا ہے، لیکن ان کے نزدیک متعہ مطلقاً جائز ہے۔ پھر کہا جائے گا کہ ذمی عورت اور لونڈی سے نکاح وراثت کا حق دار بننے کا سبب ہے، لیکن یہاں ایک رکاوٹ موجود ہے، یعنی غلامی اور کفر، جیسا کہ نسب بھی وراثت کا حق دار بناتا ہے، لیکن جب بیٹا غلام یا کافر ہو، تو رکاوٹ آجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب باپ کی زندگی میں بیٹا آزاد ہو جائے یا مسلمان ہو جائے، تو وہ باپ کا وارث بنے گا۔ اسی طرح جب ذمی بیوی اپنے خاوند کی زندگی میں مسلمان ہو جائے، تو اس کے وارث بننے پر مسلمانوں کا اتفاق ہے۔ یہ ساری صورت حال متعہ والی عورت سے مختلف ہے، کیونکہ اس کا نکاح (متعہ) وراثت کا سبب نہیں بنتا۔ یہ کسی بھی صورت میں وارث نہیں بن سکتی۔ یہ نکاح اس ولد زنا کی طرح ہے، جو اپنے خاوند کے بستر پر پیدا ہوا ہو۔ ایسا بچہ زانی کو کبھی بھی نہیں مل سکتا۔ وہ بچہ زانی کا ایسا بیٹا نہیں ہوگا، جو اس کا وارث بن سکے۔ اگر یہ کہا جائے کہ کبھی کبھی نسب کے احکام بدل جاتے ہیں، یہی معاملہ نکاح کا ہے۔ تو کہا جائے گا کہ اس میں اختلاف ہے اور جمہور اسے تسلیم کرتے ہیں، لیکن اس میں شیعہ کے لیے کوئی دلیل نہیں، کیونکہ متعہ والی عورت سے بیوی ہونے کے تمام لوازمات ختم ہیں۔ اس میں حلال نکاح کی کوئی خصوصیت موجود نہیں ہوتی۔
(منهاج السنة: 2/155)
معلوم ہوا کہ قرآن کریم سے نکاح متعہ قطعاً ثابت نہیں ہوتا، بلکہ صرف نکاح شرعی کا اثبات ہوتا ہے۔
تنبیہ: سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے متعہ کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ نے یہ آیت یوں تلاوت کی:
فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهِ مِنْهُنَّ إِلَىٰ أَجَلٍ مُسَمًّى
جن عورتوں سے تم ایک مقررہ مدت تک فائدہ اٹھاؤ۔
(تفسير الطبري: 9046، وسنده صحيح، 9047، وسنده صحيح، 9049، وسنده صحيح، 9050، وسنده صحيح)
پہلے پہل سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ متعہ کے جواز کے قائل تھے، لیکن بعد میں نسخ کا علم ہونے پر انہوں نے رجوع کر لیا تھا۔
❀ سیدنا ربیع بن سبرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
فما استمتعتم به منهن إلىٰ أجل مسمى
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے موت سے پہلے اس فتوے سے رجوع کر لیا تھا۔
(مستخرج أبي عوانة: 2/273، ح: 2384، وسنده صحيح)
فائدہ: جس روایت میں ہے کہ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی بھی یہی قرآت تھی، وہ ثابت نہیں، کیونکہ اس میں سعید بن ابی عروبہ اور ان کے استاد قتادہ بن دعامہ مدلس ہیں۔ لہذا اس بات کی نسبت سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی طرف درست نہیں۔
فما استمتعتم به منهن سے مراد نکاح ہے۔
سیدنا سبرہ بن معبد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا:
استمتعوا من هذه النساء، والاستمتاع عندنا التزويج
ان عورتوں سے فائدہ اٹھائیں۔ (صحابی کہتے ہیں:) ہمارے نزدیک فائدہ اٹھانے سے مراد نکاح ہے۔
(مسند الدارمي: 2241، مسند الحميدي: 870، مسند الإمام أحمد: 3/404، وسنده صحيح)
امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد نکاح ہے۔
(تفسير الطبري: 9039)
اگر کوئی کہے کہ اس سے مراد متعہ ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ سیدنا سبرہ الجہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو! بے شک میں نے آپ کو عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی تھی۔ اب اللہ نے قیامت تک اسے حرام کر دیا ہے۔ جس کے پاس کوئی ایسی عورت ہو، اسے چھوڑ دے اور آپ انہیں دی ہوئی چیزوں سے کچھ واپس نہ لیں۔
(صحیح مسلم: 1406/29)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے