سوال:
مباہلہ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جواب:
مباہلہ شرعاً جائز ہے۔ ہر منحرف، کافر، ملحد اور باطل پرست سے مباہلہ کیا جا سکتا ہے۔
علامہ ابن الاثیر رحمہ اللہ (606ھ) فرماتے ہیں:
المباهلة الملاعنة، وهو أن يجتمع القوم إذا اختلفوا في شيء فيقولوا: لعنة الله على الظالم منا
مباہلہ اور ملاعنہ یہ ہے کہ جب کسی جماعت کا کسی مسئلہ میں اختلاف ہو جائے، تو وہ اکٹھے ہو کر کہیں: ہم میں سے جو ظالم ہے، اس پر اللہ کی لعنت ہو۔
(النہایہ فی غریب الحدیث: 1/167؛ لسان العرب لابن منظور: 11/72)
❀ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ ﴿٦١﴾
(3-آل عمران:61)
(اے نبی!) علم آجانے کے باوجود جو کوئی تم سے جھگڑے، تو اس سے کہو: آؤ! ہم اپنی آل و اولاد کے ساتھ آتے ہیں، تم اپنی آل و اولاد کے ساتھ آؤ، پھر مباہلہ کریں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجیں۔
❀ سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
اہل نجران کے دو افراد، عاقب اور سید، ملاعنہ (مباہلہ) کے ارادے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ ایک نے دوسرے سے کہا: ایسا نہ کرو، اللہ کی قسم! اگر وہ نبی ہوں اور ہم نے ان سے ملاعنہ کیا، تو نہ ہم بچیں گے اور نہ ہماری نسلیں۔
(صحیح البخاری: 4380؛ صحیح مسلم: 2420)
❀ شارح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (852ھ) لکھتے ہیں:
اس میں دلیل ہے کہ حق واضح ہونے کے بعد اگر مخالف اصرار کرے، تو اس سے مباہلہ کرنا مشروع ہے۔ اہل علم کی ایک جماعت نے مباہلہ کیا۔ تجربہ سے معلوم ہے کہ جو باطل پرست مباہلہ کرتا ہے، وہ ایک سال سے زیادہ زندہ نہیں رہتا۔ میرا بھی ایک متعصب ملحد سے مباہلہ ہوا، وہ صرف دو ماہ زندہ رہا۔
(فتح الباری: 8/95)
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مباہلہ کے لیے آئے، اگر وہ مباہلہ کے لیے نکل آتے، تو واپسی پر انہیں نہ مال و متاع ملتا اور نہ اہل و عیال صحیح سلامت ملتے۔
(مسند الإمام أحمد: 2225؛ السنن الکبری للنسائی: 10995، وسندہ صحیح)
❀ نیز فرماتے ہیں:
وددت أن هؤلاء الذين يخالفوني في الفريضة نجتمع فنضع أيدينا على الركن، ثم نبتهل فنجعل لعنت الله على الكاذبين
جو لوگ مجھ سے وراثت (مسئلہ عول) میں اختلاف کرتے ہیں، میرا دل چاہتا ہے کہ ہم جمع ہوں، رکن یمانی پر ہاتھ رکھیں اور مباہلہ کرتے ہوئے جھوٹوں پر اللہ کی لعنت کریں۔
(الفقیہ والمتفقہ للخطیب: 2/123، وسندہ صحیح)
❀ عکرمہ رحمہ اللہ آیت تطہیر کے بارے میں فرماتے ہیں:
من شاء باهلته أنها نزلت في أزواج النبي صلى الله عليه وسلم
میں اس پر مباہلہ کرنے کو تیار ہوں کہ یہ آیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے بارے میں نازل ہوئی۔
(تفسیر ابن کثیر: 6/411، وسندہ حسن)
شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728ھ) کا بعض اتحادی صوفیوں سے مباہلہ ثابت ہے۔
(مجموع الفتاوی: 4/82-83)
حافظ ابن القیم رحمہ اللہ (751ھ) فرماتے ہیں:
اہل باطل سے مجادلہ میں سنت کا طریقہ یہ ہے کہ جب ان پر اللہ کی حجت قائم ہو جائے اور وہ حق کی طرف نہ پلٹیں، بلکہ عناد پر رہیں، تو انہیں مباہلہ کی دعوت دی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مباہلہ کا حکم دیا اور یہ نہیں فرمایا کہ مباہلہ آپ کے بعد امت کے لیے جائز نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ایک شخص کو مباہلہ کی دعوت دی، جس نے ایک فروعی مسئلہ کا انکار کیا تھا۔ اس دعوت مباہلہ پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نکیر نہیں کی۔
(زاد المعاد: 3/561)
علامہ محمد صدیق حسن خان رحمہ اللہ (1307ھ) فرماتے ہیں:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی مباہلہ جائز ہے، مگر کسی اہم شرعی مسئلہ میں، جس پر مخالف کو اس قدر اشتباہ اور عناد ہو کہ اسے مباہلہ سے ہی دور کیا جا سکے۔ بعض اسلاف نے مباہلہ کیا، مثلاً حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے صفات باری تعالیٰ کے مسئلہ پر مباہلہ کیا۔ اسی طرح حافظ ابن حجر رحمہ اللہ وغیرہ نے مقلدین کی ایک جماعت سے مباہلہ کیا، وہ ٹھہر نہ پائے اور شکست خوردہ ہو گئے، والحمدللہ۔ جس نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت کے لیے مباہلہ جائز نہیں، اس کی بات درست نہیں، اس کے پاس کوئی دلیل نہیں، وہ گویا دینی مسائل سے جاہل ہے۔