ماہ شوال کے چھ روزے
تخلیق انسانی کا مقصد وحید اللہ رب العزت کی عبادت و بندگی ہے، اس لیے مختلف قسم کی عبادات فرض کی گئی ہیں۔ یہ عبادات روزانہ کی بنیاد پر ہوں یا سالا نہ کی ، خاص بات اور لائق توجہ امر ان کا تسلسل ہے۔
مثلاً نماز کے بعد کے ذکر واذکار کا التزام اور فرائض کے ساتھ ساتھ سنن ونوافل کا اہتمام اسی تسلسل کی ایک صورت ہے۔
صدقہ فطر اور عام صدقہ کی ترغیب فرضی زکاۃ کا تسلسل ہے۔
رسول الله ﷺ کے فرمان: تَابِعُوا بَيْنَ الْحَقِّ وَالْعُمْرَةِ
(سنن الترمذي ، كتاب الحج، باب ماجاء في ثواب الحج والعمرة رقم الحديث: ۸۱۰، و إسناده حسن)
سے عبادت حج کا تسلسل ظاہر و بین ہے۔
اور بالکل یہی صورت حال روزوں میں بھی ہے۔ پورے ماہ کے روزے رکھنے کے بعد مسلمان کو ترغیب دی گئی ہے کہ اس عبادت کو یہیں پر ختم نہ کرے بلکہ مزید نفلی روزوں کا اہتمام کرے اور اپنے لیے مزید نیکیوں کا حصول ممکن بنائے۔
صحیح مسلم میں سید نا ابو ایوب انصاریؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتَّا مِنْ شَوَّالٍ ، كَانَ كَصِيَامِ الدَّهْرِ .
’’جس نے رمضان کے روزے رکھے ، پھر اس کے بعد ماہ شوال کے چھ روزے رکھے وہ ایسے ہے جیسے زندگی بھر روزے رکھے ۔‘‘
صحیح مسلم، کتاب الصيام، باب استحباب صوم ستة أيام من شوال ….. رقم الحديث: ١١٦٤)
السنن الكبرى للنسائی میں درج ذیل الفاظ ہیں:
مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ اتَّبَعَهُ سِتَّةَ أَيَّامٍ مِنْ شَوَّالٍ، فَكَأَنَّمَا صَامَ السَّنَّةَ كُلَّهَا .
’’جس نے رمضان کے روزے رکھے، پھر اس کے بعد شوال کے چھ دنوں کے روزے رکھے گویا اس نے پورا سال روزے رکھے ۔“
(السنن الكبرى للنسائي: ٢٨٧٨ و في نسخة: ٢٨٦٥)
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے رمضان اور بعد کے چھ روزوں کے زندگی بھر کے روزے ہونے کے بارے میں فرمایا کہ ایک نیکی کا اجر دس گنا ملتا ہے اس طرح یہ زندگی بھر کے روزوں کے برابر ہیں۔
(صحيح ابن خزيمة (۳/ ۲۹۸)
یہ روزے کیسے رکھے جائیں؟
شوال کے روزے رکھنے کے بارے میں اختیار ہے کہ چاہے مہینے کے آغاز میں رکھے یا درمیان میں یا آخر میں رکھے۔ تاہم آغاز میں رکھتے ہوئے شروع کے کچھ دن چھوڑ کر رکھے جائیں۔
امام مالک رحمہ اللہ کی کراہیت اس پر محمول ہے کہ رمضان اور شوال کے روزوں کے درمیان فصل ہو جیسا کہ امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے الاستذکار (۳/ ۳۷۹۔ ۳۸۰) میں مفصل ذکر کیا ہے۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے ان کے بیٹے امام عبداللہ نے ان روزوں کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا:
’’لا بَأْسَ بِصِيَامِهَا إِنَّمَا قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم سِتَّةُ أَيَّامٍ مِنْ شَوَالٍ ، فَإِذَا أَصَامَ سِتَّةَ أَيَّامٍ مِنْ شَوَالٍ لَا يُبَالِي فَرَقَ أَوْ تَابِعَ “
ان روزں کے رکھنے میں کوئی حرج نہیں نبی کریم ﷺ نے شوال کے چھ روزوں سے متعلق فرمایا ہے ،لہذا جب شوال میں چھ روزے رکھے تو کوئی مضائقہ نہیں الگ الگ رکھے یا اکٹھے پے در پے رکھے۔
(مسائل الإمام أحمد رواية ابنه عبد الله ٢/ ٦٦٢ رقم: ٨٩٥)
معلوم ہوا کہ اس میں وسعت ہے اور ماہ شوال کے کسی بھی حصے میں یہ روزے رکھے جاسکتے ہیں۔
هَذَا مَا عِنْدِي وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ.