ماہِ رجب کے روزے : سنت یا بدعت؟
یہ اقتباس الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر (ترجمان سپریم کورٹ، الخبر، سعودی عرب) کی کتاب بدعات رجب و شعبان سے ماخوذ ہے۔

بدعت کا اجمالی سا تعارف :۔

نیکی اور ثواب کا نام ہے، اللہ تعالیٰ کے ارشادات اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات کی تعمیل کا ، اور اس کے ماسوا جو کچھ بھی ہے ، اگر اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر تصدیق والا ہے تو ٹھیک ، ورنہ دین و شریعت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ، اور کوئی بھی عمل بظاہر چاہے کتنا ہی اچھا اور موجب اجر وثواب محسوس ہو رہا ہو، لیکن وہ اللہ کے ہاں مقبول تب ہی ہے جب اُسے اللہ اور اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پسند فرمائیں جبکہ یہ ایک معروف بات ہے کہ اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم اسی عمل کو پسند فرماتے ہیں جس کا حکم خود اللہ تعالیٰ نے دیا ہو ، یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا یا اس کی ترغیب دلائی ہو۔
لیکن ایک کام ایسا ہے کہ اس کا موقع بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں آیا ہو، کوئی خاص مجبوری اور امر مانع بھی نہ ہو، تب بھی نہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود سے کیا، نہ صحابہ کرام کو اُس کے کرنے کا حکم یا اشارہ فرمایا ، اور نہ ہی قرون خیر میں سے کسی نے اس پر عمل کیا ہو، تو پھر ایسے کام میں خیر و بھلائی اور اجر وثواب کی توقع رکھنا بالکل عبث و بے کار بات ہے۔
مثال کے طور پر قرآن کریم کی تلاوت کرنا باعث سعادت و برکت اور کار اجر و ثواب ہے، ہر حرف کے بدلے دس نیکیاں ملتی ہیں، جیسا کہ ترمذی شریف اور سنن دارمی میں ارشاد نبوی ہے :
من قرأ حرفا من كتاب الله فله حسنة و الحسنة بعشر أمثالها، لا أقول آلم حرف ولكن ألف حرف ولام حرف و ميم حرف
صحيح الترمذي : 2327 ، سنن دارمی 429/2 ، رياض الصالحين: 416
جس نے کتاب اللہ سے ایک حرف پڑھا ، اسے نیکی ملتی ہے اور ہر نیکی کا ثواب اب دس گنا ہوتا ہے اور میں یہ نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے، بلکہ الف حرف ہے ، لام حرف ہے اور میم حرف ہے۔
اب اگر کوئی شخص یہ سوچے کہ تلاوت قرآن کار ثواب تو ہے ہی ، اور اللہ تعالیٰ کے بندے اُس سے قریب تر اُس وقت ہوتے ہیں جبکہ وہ سجدہ کی حالت میں ہو جیسا کہ صحیح مسلم، ابوداؤد، نسائی ، مسند احمد اور بیہقی میں ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :
أقرب ما يكون العبد من ربه وهو ساجد فأكثروا الدعاء
مختصر مسلم : 298 ، صحیح ابی داؤد : 778، صحيح النسائي : 1089، مشكوة بتحقيق الالبانى ،3811، صحيح الجامع الصغير 380/1
بندہ اپنے رب کے قریب تر اس وقت ہوتا ہے جب وہ سجدہ کی حالت میں ہوتا ہے، پس اس حالت میں بکثرت دعاء کیا کرو۔
اب اگر کوئی شخص قرب الہی کے اس مقام پر قرآن کریم کی تلاوت شروع کردے تو آپ ہی بتائیں کہ اس کا ایسا کرنا صحیح ہوگا ؟ ہر گز نہیں ، کیونکہ اس حالت میں نہ خود نبی نے تلاوت فرمائی ہے اور نہ ہی اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا ہے، بلکہ الٹا اس طرح سجدہ میں قرآن کریم کی تلاوت کرنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا ہے، جیسا کہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :
الا إني نهيت أن أقرأ القرآن راكعا أو ساجدا
مسلم مع النووى 196/4/2، مشکوة 279/1
خبردار! مجھے رکوع یا سجدہ کی حالت میں قرآن پڑھنے سے روکا گیا ہے۔
اس مثال کو اچھی طرح ذہن میں رکھیں تو پھر سارا مسئلہ بآسانی حل ہو جاتا ہے، کیونکہ بالکل یہی حال اُن تمام دینی ایجادات و اختراعات یا بدعات کا ہے جنھیں کسی نے خود اپنی مرضی سے اور اپنی ہی طرف سے دین میں داخل کر کے اُن پر عمل شروع کر دیا ہو۔

ماہ رجب کے روزے :۔

ان اصولی امور کو پیش نظر رکھتے ہوئے اب ذرا اپنے گردو پیش کا جائزہ لیں تو آپ کو سینکڑوں ایسے اعمال نظر آجائیں گے جنہیں اسلام کے نام لیواؤں نے دین کا حصہ بنا رکھا ہے، حالانکہ کتاب و سنت ، تعامل صحابہ اور علمائے امت سے ان کا ثبوت نہیں ملتا ، آپ دور نہ جائیں، ماہ رجب میں سرانجام دیئے جانے والے بعض امور پر ہی غور کر لیں اور ان کی سند کا پتہ چلائیں تو بات صاف ہو جائے گی مثلا :
بعض لوگوں نے اس مہینے میں کئی روزے ایجاد کر رکھے ہیں، کسی کو ”معراج شریف“ کا روزہ کہا جاتا ہے، کسی کو ”مریم روزہ“ کا نام دیتے ہیں، کسی کو ”ہزاری روزہ“ اور کسی کو” لکھی روزہ“ کہتے ہیں ، حالانکہ یہ روزے نہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود رکھے اور نہ ہی ان کا حکم فرمایا ، یا ترغیب دلائی ، بلکہ اس کے برعکس ایک ضعیف سند والی روایت میں ہے :
نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صيام رجب
سنن ابن ماجه تحقيق محمد فواد عبد الباقی 554/1، حدیث نمبر 1743 ، في اسناده
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رجب کے روزے رکھنے سے منع فرمایا ہے.
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب اس روایت کی سند تو ضعیف ہے لیکن مصنف ابن ابی شیبہ میں ایک صحیح روایت ہے جس سے مذکورہ حدیث کے مفہوم کی تائید ہوتی ہے، اُس میں منقول ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ، اگر ماہ رجب میں لوگوں کو روزہ رکھتے ہوئے دیکھتے تو ان کے سامنے کھانے کا برتن رکھ کر اُن کے ہاتھوں پر اپنے کوڑے سے چوٹیں مارتے اور فرمایا کرتے تھے :
كلوا فإنه شهر كان تعظمه الجاهلية
ارواء الغليل للألباني 113/4
کھاؤ، اس مہینے کی ایسی تعظیم تو جاہلیت کا شیوہ ہے۔
ظاہر ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ان خود ساختہ یا عہد جاہلیت کی یاد تازہ کرنے والے روزوں کی ممانعت فرما رہے ہیں ، ورنہ اگر کوئی شخص ہر دوسرے دن کا روزہ رکھنے والوں میں سے ہو، جسے ’’صوم داؤدی‘‘ کہا جاتا ہے تو وہ حسب عادت روزہ رکھ سکتا ہے ، ایسے ہی سال بھر ایام بیض یعنی چاند کی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کے روزے رکھنے والا شخص بھی یہ روزے رکھ سکتا ہے۔
کیونکہ یہ روزے مسنون ہیں ، اور ہر ہفتہ میں پیر اور جمعرات کے دو روزے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھے ، ان کے علاوہ اگر کوئی شخص اپنی طرف سے یا بزرگوں نے فرمایا ، جیسی سند سے بیان کردہ روزے رکھتا ہے تو وہ بدعات میں شمار ہوں گے ، ان کا نام’’ لکھی‘‘ رکھیں یا ’’ہزاری‘‘ اور انہیں ’’مریم روزہ‘‘ کا نام دیں یا ’’معراج کا روزہ‘‘ کہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم خلفائے راشدین و صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، ائمہ اربعہ اور علمائے دین رحمہم اللہ سے یہ ہرگز ثابت نہیں ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے