ماں کا وراثت میں کسی بیٹے کے حق میں دست برداری کا شرعی حکم
تحریر : فتاویٰ سعودی فتویٰ کمیٹی

ماں کا وراثت میں اپنے کسی بیٹے کے حق میں دست بردار ہو جانا
اگر یہ مال تمہارے باپ کی وراثت سے تمھاری ماں کے حصے آئے تو پھر اس کے لیے روا نہیں کہ کچھ کے حق میں وصیت کر دے اور کچھ کو چھوڑ دے، بلکہ اس پر ان کے درمیان عدل کرنا واجب ہے تاکہ وہ اس کے ساتھ حسن سلوک کرنے میں بھی برابر ہوں۔
صحیح بخاری اور مسلم میں حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان کے والد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے: میں نے اپنے اس بیٹے کو اپنا ایک غلام تحفتا دیا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے اپنے ہر بیٹے کو اسی طرح دیا ہے؟ وہ کہنے لگے: نہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر اس کو واپس لے لو۔“ [صحيح مسلم 1622/6]
ایک روایت میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کیا تم نے اپنی تمام اولاد کے ساتھ ایسا کیا ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل کرو۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 2587 صحيح مسلم 1622/18]
ایک اور حدیث میں ہے: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ”کیا مجھے اچھا لگتا ہے کہ وہ تمہارے ساتھ حسن سلوک میں برابر ہوں؟“ انہوں نے کہا: کیوں نہیں ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر ایسانہیں۔“ [صحيح مسلم 1266/17]
یہ اس صورت میں ہے کہ اگر وہ (ماں) اس کو صحت کی حالت میں دے۔
[اللجنة الدائمة: 14893]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے