ماں باپ کی اجازت کے بغیر جہاد کا حکم کیا ہے؟
ماخوذ : فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)، جلد ۲، صفحہ ۲۱۱

میدانِ جہاد اور والدین کی اجازت

سوال:

مجھے جہاد کرنے کا بہت شوق ہے، لیکن میری والدہ اجازت نہیں دیتیں۔ کیا والدہ یا والد کی اجازت کے بغیر جہاد کرنا جائز ہے؟ اگر والدین میں سے ایک اجازت دے اور دوسرا نہ دے، تو کیا ایسی صورت میں جہاد جائز ہوگا؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر جہاد بالسیف (ہتھیاروں کے ساتھ قتال) نفیِرِ عام (یعنی فرض عین) نہ ہو، تو اس صورت میں مسلمان والدین کی اجازت لینا ضروری ہے۔

حدیث مبارکہ کی روشنی میں:

سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:

"ایک شخص، (سیدنا) جاہمہ رضی اللہ عنہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور جہاد کی اجازت طلب کی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا:
‘کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟’
اس نے عرض کیا: ‘جی ہاں!’
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
‘تم ان (کی خدمت) میں جہاد کرو۔’"

(صحیح البخاری ج ۱ ص ۴۲۱ ح ۳۰۰۴، صحیح مسلم: ۵/۲۵۴۹)

علماء کا اجماعی موقف:

  • اس حدیث اور دیگر احادیث کی بنیاد پر جمہور علماء کا موقف ہے کہ:
  • اگر والدین مسلمان ہوں، تو ان کی اجازت کے بغیر جہاد کرنا جائز نہیں۔
  • الّا یہ کہ جہاد فرض عین بن جائے اور نفیِرِ عام کا اعلان ہو جائے، جیسا کہ دشمن کا حملہ ہو یا حکومت کی طرف سے عام بلاوا ہو۔

تفصیل کے لیے دیکھیں:
فتح الباری (ج ۶ ص ۱۴۰، ۱۴۱)

خلاصہ:

  • اگر جہاد نفیِرِ عام (فرض عین) نہ ہو، تو والدین کی رضا مندی اور اجازت لینا لازم ہے۔
  • والدین کی نافرمانی اور ان کی اجازت کے بغیر ایسے جہاد میں شرکت جائز نہیں۔
  • اس موضوع کی مفصل بحث کے لیے رجوع کریں:
  • الجہاد فی سبیل اللہ از عبداللہ بن احمد الدکتور (ج ۱ ص ۹۰۔۹۲)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1