والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا
❀ ﴿وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا﴾
” اور تیرے رب نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ سے اچھا سلوک کرو۔“
(17-الإسراء:23)
❀ ﴿وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا ۖ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا﴾
” اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی تاکید کی۔ اس کی ماں نے اسے تکلیف اٹھا کر پیٹ میں اٹھایا اور تکلیف اٹھا کر اسے جنا۔“
(46-الأحقاف:15)
❀ ﴿وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَىٰ وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ﴾
”اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے ساتھ (اچھا سلوک کرنے کی) نصیحت کی ہے۔ ماں نے اس کو تھک تھک کر( اپنے پیٹ میں) اٹھایا، اس کی دودھ چھڑائی دو برس میں ہے (ہم نے آدمی کو یہ حکم بھی دیا) کہ میرا شکر کرتا رہ اور اپنے ماں باپ کا۔ میرے پاس ہی لوٹ کر آنا ہے۔“
(31-لقمان:14)
❀ ﴿وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا﴾
”اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرو گے اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو گے۔“
(2-البقرة:83)
❀ ﴿وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا﴾
” اور ہم نے انسان کو ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی نصیحت کی۔“
(29-العنكبوت:8)
❀ ﴿وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا﴾
” اور اللہ تعالی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔“
(4-النساء:36)
کافر ماں باپ کے ساتھ بھی حسن سلوک کرنا
① عن أسماء بنت أبى بكر قالت أتتني أمي راغبة فى عهد النبى صلى الله عليه وسلم فسألت النبى أصلها قال نعم وفي رواية قدمت أمي وهى مشركة
” اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ میرے پاس میری ماں آئی اور وہ مشرکہ تھی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا میں اس سے حسن سلوک کروں؟ آپ نے فرمایا: ہاں، اس سے صلہ رحمی کر، اچھا سلوک کر۔“
(صحیح بخاری، کتاب الادب، باب صلة الوالد المشرك: 5978)
سب سے زیادہ حسن سلوک کا حقدار
② عن أبى هريرة قال جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله من أحق بحسن صحابتي قال أمك قال ثم من قال أمك قال ثم من قال أمك قال ثم من قال ثم أبوك
” ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ پوچھنے لگا: اے اللہ کے رسول! سب سے زیادہ کس کا حق ہے کہ میں اس کے ساتھ حسن سلوک کروں۔ آپ نے فرمایا: تیری ماں کا۔ پوچھا کہ پھر کس کا؟ آپ نے فرمایا: تیری ماں کا۔ پوچھا پھر کس کا؟ آپ نے فرمایا: تیری ماں کا۔ پوچھا: پھر کس کا؟ آپ نے فرمایا: پھر تیرے باپ کا۔“
(صحیح بخاری، کتاب الادب، باب من أحق بحسن الصحبة: 5971؛ صحيح مسلم، کتاب البر والصلة: 6501)
③ عن بهز بن حكيم عن أبيه عن جده قال قلت يا رسول الله من أبر قال أمك ثم أمك ثم أمك ثم أباك
” ایک صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ میں کس سے نیکی کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی ماں سے پھر اپنی ماں سے پھر اپنی ماں سے پھر اپنے باپ سے۔“
([حسن] ابوداود، باب فی برالوالدین: 5139)
④ عن المقدام بن معديكرب أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال إن الله يوصيكم بأمهاتكم ثلاثا إن الله يوصيكم بآبائكم
” مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ پاک تمہیں وصیت کرتے ہیں یہ کہ تم اپنی ماؤں کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ یہ بات آپ نے تین مرتبہ فرمائی۔ (پھر فرمایا) کہ اللہ پاک تمہیں وصیت کرتے ہیں یہ کہ تم اپنے باپوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔“
( [صحيح] ابن ماجه، ابواب الادب، باب بر الوالدين: 3661)
سب سے پسندیدہ عمل
⑤ عن عبد الله قال سألت النبى صلى الله عليه وسلم أى العمل أحب إلى الله قال الصلاة على وقتها قال ثم أى قال ثم بر الوالدين قال ثم أى قال الجهاد فى سبيل الله
” عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کو کونسا عمل زیادہ پسند ہے؟ آپ نے فرمایا: وقت پر نماز پڑھنا۔ پھر انہوں نے پوچھا: پھر کونسا؟ آپ نے فرمایا: ماں باپ سے اچھا سلوک کرنا۔ پھر انہوں نے پوچھا: پھر کونسا؟ آپ نے فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔“
(صحيح البخاري، كتاب الادب، باب قوله ووصينا الانسان بوالديه: 5970)
اللہ کی خوشنودی والدین کی خوشنودی میں ہے
⑥ عن عبد الله بن عمرو عن النبى صلى الله عليه وسلم قال رضى الرب فى رضى الوالد وسخط الرب فى سخط الوالد
” عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رب کی خوشنودی والد کی خوشنودی میں ہے اور رب کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے۔“
([صحيح] الترمذي، ابواب البر والصلة ، باب ما جاء من الفضل في رضا الوالدين: 1899، ابن حبان ج 1 حدیث: 328؛ المستدرك: 7331)
(نوٹ) اس حدیث میں والد سے مراد ماں باپ دونوں ہیں۔
⋆ المراد بالوالد الجنس او اذا كان حكم الوالد هذا فحكم الوالدة اقوى وبالاعتبار اولى
فائدہ: اگر کسی انسان پر اس کے والدین راضی ہیں تو سمجھو اس کا اللہ اس پر راضی ہے اور اگر اس پر اس کے والدین ناراض ہیں تو سمجھو اس کا اللہ بھی اس پر ناراض ہے۔ اس رضا و غضب سے مراد اسلام کے تابع رضا و غضب ہے۔
( تحفة الاحوذی)
⑦ عن عبد الرحمن بن عوف قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول قال الله تعالى أنا الرحمن وهى الرحم شققت لها من اسمي من وصلها وصلته ومن قطعها بتته
” عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ فرماتے سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: میں مہربان ہوں اور یہ قرابت داری ہے میں نے اپنے نام سے اس کا نام کاٹ کر دیا ہے جو اسے ملائے گا میں اسے ملاؤں گا اور جو اسے کاٹے گا میں اسے کاٹوں گا۔“
([صحیح] ابوداود، كتاب الزكاة، باب في صلة الرحم: 1694)
فائدہ: یعنی جو رشتہ داری کو ملائے گا، جوڑے گا، اللہ تعالیٰ اس کا تعلق اپنے ساتھ جوڑ لیں گے۔ اور جو رشتہ داری کو ختم کرے، اسے توڑے گا، اللہ تعالیٰ اس کا تعلق اپنے ساتھ سے توڑ دیں گے اور عام رشتہ داروں میں سب سے زیادہ صلہ رحمی کا حق والدین کا ہے۔
والدین جنت کا بہترین دروازہ ہیں
⑧ عن أبى الدرداء قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول الوالد أوسط أبواب الجنة فإن شئت فأضع ذلك الباب أو احفظه
” ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: والدین جنت کا بہترین دروازہ ہیں یہ تیری مرضی ہے کہ تو اس دروازے کو ضائع کرے یعنی ان کو ناراض کر کے یا اس کی حفاظت کرے ان کی خدمت کر کے ان کو خوش کر کے۔“
( [صحيح] ترمذی، ابواب البر والصلة، باب ما جاء من الفضل في رضا الوالدين: 1900، ابن ماجه ، کتاب الطلاق، باب الرجل يامره ابوه بطلاق امرأته: 2089)
فائدہ: اس حدیث کے مطابق ماں باپ جنت کا سب سے بہترین دروازہ ہیں یعنی جنت میں جانے کے لیے سب سے اچھا عمل والدین کی خدمت، ان کی اطاعت اور فرمانبرداری ہے۔
⑨ عن عائشة قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم دخلت الجنة فسمعت فيها قراءة فقلت من هذا قالوا حارثة بن النعمان فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم كذلكم البر كذلكم البر وكان أبر الناس بأمه
”عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں جنت میں داخل ہوا میں نے قرآن پڑھنے کی آواز سنی۔ میں نے کہا: یہ کون ہے؟ فرشتوں نے کہا: یہ حارثہ بن نعمان ہے۔ نیکی کرنے کا ثواب اسی طرح ہے۔ نیکی کرنے کا ثواب اسی طرح ہے۔ وہ اپنی ماں کے ساتھ سب سے بڑھ کر سلوک کیا کرتا تھا۔“
(مستدرك حاكم 7247 قال الحافظ فى التلخيص على شرط البخاري ومسلم. وقال الألباني: هذا سند صحيح على شرط الشيخين . وقد اخرجه ابن وهب فى الجامع 22 واللفظ له والحاكم 208/3 والحميدي 136/1 / 285 وابو يعلى 399/7 عن سفيان عنه وصححه الحاكم على شرطهما ووافقه الذهبي؛ سلسلة الأحاديث الصحيحة ج 2 ص 582 رقم 913)
(اسی وجہ سے یعنی ماں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی وجہ سے وہ قرآن زمین پر پڑھتا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے پڑھنے کی آواز جنت میں سنی)
جنت والدین کے قدموں کے نیچے ہے
⑩ عن معاوية بن جاهمة أن جاهمة جاء إلى النبى صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله أردت أن أغزو وقد جئت أستشيرك فقال هل لك من أم قال نعم قال فالزمها فإن الجنة عند رجليها
” معاویہ بن جاہمہ رضی اللہ عنہ یہ بیان فرماتے ہیں کہ میرے باپ جاہمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ سے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول! میں جہاد میں جانے کا ارادہ رکھتا ہوں اور آپ سے مشورہ لینے آیا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تیری ماں ہے؟ (یعنی زندہ ہے) اس نے کہا: ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پس اس کو لازم پکڑ یعنی اس کی خدمت کر بے شک جنت اس کے پاؤں کے پاس ہے۔“
(حسن صحيح النسائي، كتاب الجهاد، باب الرخصة في التخلف لمن له والدة: 3104)
⑪ عن جاهمة قال أتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم أستشيره فى الجهاد فقال النبى صلى الله عليه وسلم ألك والدان قلت نعم قال الزمهما فإن الجنة تحت أرجلھما
”جاہمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جہاد کرنے کا مشورہ طلب کرنے آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تیرے والدین ہیں؟ میں نے کہا: ہاں۔ آپ نے فرمایا: انہیں لازم پکڑ کیونکہ جنت ان دونوں کے پاؤں تلے ہے۔“
( [ صحيح] معجم الكبير للطبراني جلد 2 ص 289 رقم 2202؛ وقال فى المجمع 8/ 138؛ رواه الطبراني فى الاوسط ورجاله ثقات )
فائدہ: والدین کے قدموں کے نیچے جنت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی اطاعت اور فرمانبرداری سے اللہ انسان کو جنت عطا فرما دیتے ہیں بعض لوگ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ شاید بیوی کے قدموں کے نیچے جنت ہے اور وہ بیوی کو خوش رکھنے کے لیے سب کو ناراض کر دیتے ہیں حتی کہ ماں باپ کی بھی پروا نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کو اللہ سے ڈرنا چاہیے اور ان کو سمجھ لینا چاہیے کہ والدین کے حقوق بیوی سے مقدم ہیں۔
والدین اولاد کے حق میں مستجاب الدعاء ہیں اور نفل نماز پر والدین کی اطاعت مقدم ہے
⑫ عن أبى هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاث دعوات مستجابات لا شك فيهن دعوة المظلوم ودعوة المسافر ودعوة الوالد على ولده
”ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین دعائیں مستجاب( قبول کی جانے والی) ہیں ان کے مستجاب اور قبول ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ (1) مظلوم کی دعا (2) مسافر کی دعا (3) والدین کی اولاد کے حق میں دعا۔“
(حسن الترمذى ابواب البر والصلة باب ما جاء في دعاء الوالدين: 1905؛ ابن ماجه ، أبواب الدعاء ، باب دعوة الوالد ودعوة المظلوم: 3862)
⑬ عن أبى هريرة عن النبى صلى الله عليه وسلم قال لم يتكلم فى المهد إلا ثلاثة عيسى ابن مريم وصاحب جريج وكان جريج رجلا عابدا فاتخذ صومعة فكان فيها فأتته أمه وهو يصلي فقالت يا جريج فقال يا رب أمي وصلاتي فأقبل علىٰ صلاته فانصرفت فلما كان من الغد أتته وهو يصلي فقالت يا جريج فقال يا رب أمي وصلاتي فأقبل علىٰ صلاته فانصرفت فلما كان من الغد أتته وهو يصلي فقالت يا جريج فقال يا رب أمي وصلاتي فأقبل علىٰ صلاته فقالت اللهم لا تمته حتىٰ ينظر إلىٰ وجوه المومسات فتذاكر بنو إسرائيل جريجا وعبادته وكانت امرأة بغي يتمثل بحسنها فقالت إن شئتم لأفتننه لكم قال فتعرضت له فلم يلتفت إليها فأتت راعيا كان يأوي إلىٰ صومعته فأمكنته من نفسها فوقع عليها فحملت فلما ولدت قالت هو من جريج فأتوه فاستنزلوه وهدموا صومعته وجعلوا يضربونه فقال ما شأنكم قالوا زنيت بهذه البغي فولدت منك فقال أين الصبي فجاءوا به فقال دعوني حتىٰ أصلي فصلىٰ فلما انصرف أتى الصبي فطعن فى بطنه وقال يا غلام من أبوك قال فلان الراعي قال فأقبلوا علىٰ جريج يقبلونه ويتمسحون به وقالوا نبني لك صومعتك من ذهب قال لا أعيدوها كما كانت من طين ففعلوا وبينا صبي يرضع من أمه فمر رجل راكب علىٰ دابة فارهة وشارة حسنة فقالت أمه اللهم اجعل ابني مثل هذا فترك الثدي وأقبل إليه فنظر إليه فقال اللهم لا تجعلني مثله ثم أقبل علىٰ ثديه فجعل يرتضع قال فكأني أنظر إلىٰ رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يحكي ارتضاعه بإصبعه السبابة فى فيه فجعل يمصها قال ومروا بجارية وهم يضربونها ويقولون زنيت سرقت وهى تقول حسبي الله ونعم الوكيل فقالت أمه اللهم لا تجعل ابني مثلها فترك الرضاع ونظر إليها فقال اللهم اجعلني مثلها
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی لڑکا جھولے میں نہیں بولا مگر تین لڑکے ایک تو عیسی علیہ السلام دوسرے جریج کے ساتھی اور جریج کا قصہ یہ ہے کہ وہ ایک عابد شخص تھا سو اس نے ایک عبادت خانہ بنایا اس میں رہتا تھا۔
اس کی ماں آئی وہ نماز پڑھ رہا تھا ماں نے پکارا: او جریج! پس اس نے کہا: اے رب میری ماں پکارتی ہے اور میں نماز میں ہوں آخر وہ نماز میں ہی رہا۔ اس کی ماں چلی گئی پھر جب دوسرا دن ہوا پھر آئی اور پکارا: او جریج! پس اس نے کہا: اے رب میری ماں پکارتی ہے اور میں نماز میں ہوں آخر وہ نماز میں ہی رہا۔ اس کی ماں چلی گئی پھر جب تیسرا دن ہوا پھر آئی اور پکارا او جریج! پس اس نے کہا: اے رب میری ماں پکارتی ہے اور میں نماز میں ہوں آخر وہ نماز میں ہی رہا۔ اس کی ماں بولی: یا اللہ! اس کو مت مار جب تک بد کار عورتوں کا منہ نہ دیکھے (بددعا کی)۔
پھر بنی اسرائیل نے جریج اور اس کی عبادت کا چرچہ شروع کیا اور بنی اسرائیل میں ایک بد کار عورت تھی جس کی خوبصورتی سے لوگ مثال دیتے تھے وہ بولی اگر تم کہو تو میں جریج کو فتنہ میں ڈالوں۔ پھر وہ عورت جریج کے سامنے گئی لیکن جریج نے اس طرف خیال بھی نہ کیا۔ آخر وہ ایک چرواہے کے پاس آئی جو جریج کے عبادت خانہ کے قریب ٹھہرا کرتا تھا۔ اور اجازت دی( اس عورت نے )اس چرواہے کو اپنے ساتھ صحبت کرنے کی اس چرواہے نے صحبت کی پس وہ بدکار عورت حاملہ ہو گئی جب اس نے بچہ جنا تو بولی یہ بچہ جریج کا ہے۔ (جھوٹ بولا) لوگ یہ سن کر جریج کے پاس آئے اور اس کو عبادت خانہ سے اتارا اور عبادت خانہ گرا دیا اور اس کو مارنے لگے( دیکھئے ماں کی بددعا کیسے لگی)۔
وہ بولا کیا ہوا ہے تمہیں؟ انہوں نے کہا تم نے اس بد کار عورت سے زنا کیا ہے اس نے تجھ سے ایک بچہ بھی جنا ہے جریج نے کہا: وہ بچہ کہاں ہے؟ لوگ اس بچہ کو لائے۔ جریج نے کہا: ذرا مجھ کو چھوڑ دو میں نماز پڑھ لوں پھر نماز پڑھی اور بچے کے پاس آیا اور اس کے پیٹ کو ٹھونسا دیا اور کہا: اے بچے! تیرا باپ کون ہے؟ وہ بولا فلاں چرواہا۔ یہ سن کر لوگ دوڑے جریج کی طرف اور اس کو چومنے چاٹنے لگے اور کہنے لگے تیرا عبادت خانہ ہم سونے سے بنا دیتے ہیں وہ بولا مٹی سے بنا دو جیسے پہلے تھا۔
ایک عورت اپنے بچے کو دودھ پلا رہی تھی تو اس کے قریب سے ایک سوار گزرا جس نے بہت اچھی پوشاک پہن رکھی تھی۔ اس عورت نے کہا: اے اللہ! میرے بیٹے کو اس شخص جیسا کر دے تو بچہ ماں کی چھاتی چھوڑ کر اس سوار کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا: اے اللہ! تو مجھے اس جیسا نہ بنانا؟ پھر مڑکر ماں کی چھاتی سے دودھ پینے لگا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میری نظروں میں اس وقت بھی وہ منظر پھر رہا ہے وہ کہ کس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی چوس کر دکھائی تھی۔
اس کے بعد اس کے پاس سے لوگ ایک لونڈی کو لے کر گزرے تو اس عورت نے کہا: اے اللہ! میرے بیٹے کو اس لونڈی جیسا نہ بنانا۔ یہ سن کر پھر بچے نے اپنی ماں کی چھاتی چھوڑ دی اور کہنے لگا: اے اللہ! مجھے اس جیسا بنا دے۔ اس کی ماں نے پوچھا: کیوں، تو ایسا کیوں بنا چاہتا ہے؟ بچہ کہنے لگا کہ وہ سوار ایک ظالم شخص تھا جب کہ اس لونڈی کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ اس نے چوری کی ہے زنا کیا ہے حالانکہ اس نے ایسا نہیں کیا۔
(مسلم ، کتاب البر والصلة، باب تقديم بر الوالدين على التطوع بالصلوة وغيرها: 6509)
فائدہ: ان احادیث سے معلوم ہوا کہ ماں کی دعا اولاد کے حق میں یا بددعا اللہ تعالی رد نہیں فرماتے قبول فرمالیتے ہیں اور والدین کی بد دعا اولاد کو بھی نہیں چھوڑتی۔
والدین کی اطاعت دنیاوی مشکلات کا مداوا ہے
⑭ عن ابن عمر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال بينما ثلاثة نفر يتمشون أخذهم المطر فأووا إلىٰ غار فى جبل فانحطت علىٰ فم غارهم صخرة من الجبل فسدت عليهم فقال بعضهم لبعض انظروا أعمالا عملتموها لله صالحة فادعوا الله بها لعله يفرجها فقال أحدهم اللهم إنه كان لي والدان شيخان كبيران ولي امرأة ولي صغار كنت أرعى عليهم فإذا رحت عليهم فحلبت بدأت بوالدي أسقيهما قبل بني وإنه نأىٰ بي الشجر فما أتيت حتىٰ أمسيت فوجدتهما قد ناما فحلبت كما كنت أحلب فجئت بالقدح فقمت عند رءوسهما أكره أن أوقظهما من نومهما وأكره أن أسقي الصغار قبلهما والصغار يتضاغون عند قدمي فلم يزل ذلك دأبي ودأبهم حتىٰ طلع الفجر فإن كنت تعلم أني فعلت ذلك ابتغاء وجهك فافرج لنا فرجة نرىٰ منها السماء ففرج الله لهم فرجة حتىٰ رأوا منها السماء وقال الثاني اللهم إنه كانت لي ابنة عم أحبها كأشد ما يحب الرجال النساء فطلبت إليها نفسها فأبت حتىٰ آتيها بمائة دينار فسعيت حتىٰ جمعت مائة دينار فأتيتها بها فلما قدرت بين رجليها قالت يا عبد الله اتق الله ولا تفتح الخاتم إلا بحقه فقمت عنها اللهم إن كنت تعلم أني فعلت ذلك ابتغاء وجهك فافرج لنا منها فرجة ففرج لهم وقال الآخر اللهم إني كنت استأجرت أجيرا بفرق من أرز فلما قضىٰ عمله قال أعطني حقي فعرضت عليه حقه فرغب عنه فلم أزل أزرعه له حتىٰ جمعت منه بقرا وراعيها فجاءني فقال اتق الله ولا تظلمني فأعطني حقي فقلت اذهب إلىٰ تلك البقر وراعيها فخذها فقال اتق الله ولا تستهزئ بي فقلت إني لا أستهزئ بك خذ تلك البقر وراعيها فأخذها فذهب بها فإن كنت تعلم أني فعلت ذلك ابتغاء وجهك فافرج ما بقي ففرج الله عنهم
ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بنی اسرائیل کے تین اشخاص راستے میں جارہے تھے اتنے میں بارش شروع ہوئی وہ پہاڑ کی ایک غار میں گھس گئے۔ اتفاقاً پہاڑ کا ایک پتھر غار کے منہ پہ آ گرا منہ بند ہو گیا۔
اب کیا کریں؟ آپس میں صلاح کرنے لگے بھائی ایسا کرو کہ تم لوگوں نے جو نیک اعمال خالص اللہ کے لیے کئے ہیں ان کے ذریعے سے دعا مانگو شاید اللہ مشکل آسان کر دے تم کو نجات دلوائے۔ پھر ایک شخص ان تینوں میں یوں کہنے لگا یا اللہ! تو جانتا ہے میرے ماں باپ دونوں بوڑھے تھے اور میرے بچے بھی چھوٹے چھوٹے موجود تھے۔ ان کی پرورش کے لیے جانوروں کو چرایا کرتا تھا جب شام کو گھر آتا تو دودھ دوہتا تو سب سے پہلے اپنے ماں باپ کو پلاتا پھر اپنے بچوں کو۔ ایک دن ایسا ہوا جانور دور دراز ایک درخت چرنے کے لیے چلے گئے اور مجھ کو دیر ہوگئی میں شام تک نہیں آیا۔ (جب گھر پہنچا )دیکھا تو میرے والدین سو گئے ہیں۔
میں نے عادت کے مطابق دودھ دوہا اور صبح تک دودھ لیے ان کے سرہانے کھڑا رہا مجھے یہ اچھا نہیں معلوم ہوا کہ ان کو نیند سے جگاؤں اور نہ میں نے اس کو پسند کیا کہ پہلے بچوں کو دودھ دوں۔ گورات بھر بچے میرے پاؤں کے پاس چلاتے رہے۔ دودھ مانگتے رہے (مگر میں نے نہ دینا تھا نہ دیا )صبح تک یہی حال رہا اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ میں نے یہ کام خالص تیری رضا کے لیے کیا تھا تو اس پتھر کو اتنا ہٹا دے کہ ہم آسمان کو دیکھیں تو اللہ تعالی نے اس پتھر کو اتنا ہٹا دیا کہ آسمان دیکھنے لگے۔
پھر دوسرے شخص نے دعا مانگی: اے اللہ! تجھے معلوم ہے کہ میں اپنی چچا زاد بہنوں میں سے ایک لڑکی سے شدید محبت کرتا تھا اتنی شدید محبت جتنی مرد عورت سے کر سکتا ہے۔ اس لڑکی نے کہا: تو مجھے اس وقت تک حاصل نہیں کر سکتا جب تک سو 100 دینار ادا نہ کرے۔ میں نے سو دینار حاصل کرنے کے لیے کوشش کی اور جمع کر لیے لیکن جب میں اس کی ٹانگوں کے درمیان بیٹھا (زنا کا ارادہ کیا) تو اس نے کہا: اللہ سے ڈر اور نا جائز طریقے سے مہر نہ توڑ۔ یہ سن کر میں اٹھ گیا اور اسے چھوڑ دیا۔ اے اللہ! جیسا کہ تو جانتا ہے یہ کام میں نے تیری رضا کی خاطر کیا تو ہمارا راستہ کھول دے۔ چنانچہ ان کے لیے دو تہائی راستہ کھل گیا۔ تیسرے نے کہا: اے اللہ! جیسا کہ تو جانتا ہے کہ میں نے ایک مزدور کو ایک فرق مونجی کے عوض ملازم رکھا تھا اور جب( کام کے بعد) اسے اُجرت دی تو اس نے لینے سے انکار کر دیا اور میں نے وہ مونجی زمین میں بو دی اور (اس کی آمدنی اتنی ہوئی کہ) میں نے اس سے گائیں اور چرواہا خرید لیا۔ وہ مزدور آیا اور کہنے لگا۔ اے اللہ کے بندے مجھے میرا حق ادا کر دے۔ میں نے اس سے کہا: جاؤ وہ گائیں اور ان کا چرواہا لے لو، وہ سب تمہارا ہے۔ وہ کہنے لگا: کیا تم مجھے سے مذاق کر رہے ہو؟ میں نے کہا: میں تم سے مذاق نہیں کر رہا بلکہ وہ سب ہے ہی تمہارا۔ اے اللہ جیسا کہ تو جانتا ہے، اگر یہ سب میں نے تیری رضا کی خاطر کیا تھا تو ہمارا راستہ کھول دے اور ہماری مشکل آسان کر دے۔ چنانچہ ان کا راستہ کھل گیا اور ان کی مصیبت ٹل گئی۔
(البخاري، كتاب الادب، باب اجابة دعاء من بر والديه: 5974)
فائدہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ والدین کی خدمت سے اللہ دنیا کی مشکلات اور پریشانیوں سے بھی نجات دے دیتے ہیں۔
والدین کی اطاعت گناہوں کا کفارہ ہے
⑮ عن ابن عمر أن رجلا أتى النبى صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله إني أصبت ذنبا عظيما فهل لي توبة قال هل لك من أم قال لا قال هل لك من خالة قال نعم قال فبرها
” ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا اے اللہ کے رسول! میں نے ایک بڑا گناہ کیا ہے کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے؟ آپ نے فرمایا: کیا تیری ماں ہے؟ ایک روایت میں ہے کیا تیرے والدین ہیں۔ اس نے کہا نہیں۔ آپ نے فرمایا: کیا تیری خالہ ہے؟ اس نے کہا: ہاں آپ نے فرمایا: اس کے ساتھ نیک سلوک کر۔“
(صحيح الترمذی، ابواب البر والصلة، باب ما جاء في بر الخالة: 1904)
⑯ عن ابن عمر قال أتى النبى رجل فقال يا رسول الله إني أذنبت ذنبا كبيرا فهل لي من توبة قال ألك والدان قال لا قال فلك خالة قال نعم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم فبرها إذا
” ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں نے بہت سے گناہ کیے ہیں۔ کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ آپ نے فرمایا: کیا تیرے والدین ہیں؟ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: تیری خالہ ہے؟ اس نے کہا: ہاں۔ آپ نے فرمایا: تب تو اس کے ساتھ نیک سلوک کر۔“
(مستدرك حاكم الرقم 7261)
فائدہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ والدین کی خدمت سے ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنے سے اللہ تعالی کبیرہ گناہوں کو بھی معاف فرما دیتے ہیں۔
والدین کی اطاعت سے رزق میں فراخی
⑰ عن أنس بن مالك قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول من سره أن يبسط له فى رزقه أو ينسأ له فى أثره فليصل رحمه
” انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو یہ اچھا لگے کہ اس کی روزی بڑھے یا اس کا اثر( یعنی عمر) دراز ہو تو اپنے ناتے کو ملائے۔“
(مسلم، كتاب البر والصلة، باب صلة الرحم وتحريم قطيعتها: 6523)
فائدہ: انسان کے سب رشتوں ناتوں سے بہترین اور قریب ترین رشتہ والدین کا رشتہ ہے تو معلوم ہوا کہ والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے سے اللہ انسان کا اثر دراز فرمادیتے ہیں اور رزق میں فراخی فرمادیتے ہیں۔
⑱ عن أبى هريرة عن النبى قال تعلموا من أنسابكم ما تصلون به أرحامكم فإن صلة الرحم محبة فى الأهل مثراة فى المال منسأة فى الأثر
” ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے نسبوں سے اتنا سیکھو جس کے ساتھ تم اپنےناتوں کو ملاؤ کیونکہ ناتوں کو ملانا اہل خانہ میں محبت کا، مال میں کثرت کا اور اثر (یعنی عمر) میں وسعت کا سبب ہے۔“
(صحيح الترمذى، كتاب البر والصلة، باب ما جاء في تعليم النسب: 1979)
والدین کی اجازت سے جہاد کرے
⑲ عن عبد الله بن عمرو قال جاء رجل إلى رسول الله فاستأذنه فى الجهاد فقال أحيا والداك قال نعم قال ففيهما فجاهد
” عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر جہاد میں جانے کی اجازت چاہی آپ نے فرمایا: تیرے ماں باپ زندہ ہیں؟ اس نے کہا: ہاں۔ آپ نے فرمایا: ان دونوں میں جہاد کرے (یعنی ان کی خدمت کر) اور ایک روایت میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: اپنے ماں باپ کے پاس جا اور ان کی اچھی طرح خدمت کر۔“
(البخاري، كتاب الجهاد، باب الجهاد باذن الابرين: 3004)
فائدہ: امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح بخاری جلد 2 ص 883 میں پہلے یہ باب قائم کیا ہے” باب لا يجاهد إلا بإذن الوالدين“ کہ آدمی نہ جہاد کرے مگر والدین کی اجازت ہے۔
پھر یہ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما والی حدیث ذکر کی ہے یعنی امام بخاری اس حدیث سے یہ مسئلہ ثابت کر رہے ہیں کہ آدمی والدین کی اجازت کے بغیر جہاد نہ کرے۔
⑳ عن عبد الله بن عمرو قال أتى رجل رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله إني جئت أريد الجهاد معك أبتغي وجه الله والدار الآخرة ولقد أتيت وإن والدي ليبكيان قال فارجع إليهما فأضحكهما كما أبكيتهما
” عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اس نے کہا: میں اللہ کی رضا اور اخروی گھر طلب کرتے ہوئے آپ کے ساتھ جہاد میں جانا چاہتا ہوں اور میں اس حال میں آیا ہوں کہ میرے والدین رو رہے تھے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو ان کی طرف لوٹ جا تو انہیں ہنسا جیسے انہیں رلایا ہے۔“
(صحيح ابن ماجه ، كتاب الجهاد، باب الرجل يغزو وله أبوان: 2782، ابوداود، كتاب الجهاد، باب في الرجل يغزو وابواه كارمان. واللفظ له: 2028)
㉑ أن رجلا هاجر إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم من اليمن فقال هل لك أحد باليمن قال أبواي قال أذنا لك قال لا قال فارجع إليهما فاستأذنهما فإن أذنا لك فجاهد وإلا فبرهما
” ایک آدمی یمن سے ہجرت کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لایا آپ نے فرمایا: کیا یمن میں تمہارا کوئی رشتہ دار ہے؟ اس نے کہا میرے والدین ہیں۔ آپ نے فرمایا: تمہارے والدین نے تجھے اجازت دی ہے اس نے کہا، نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: واپس ہو جا اور اپنے والدین سے اجازت لے اگر ماں باپ تجھے اجازت دیں تو جہاد کر، وگرنہ والدین کے ساتھ نیکی کر۔“
(ابوداود، كتاب الجهاد، باب في الرجل يغزو وابواه کارهان: 2530)
اعتراض: جو لوگ جہاد کے لیے والدین کی اجازت ضروری نہیں سمجھتے وہ قرآن مجید کی ایک آیت پیش کرتے ہیں:
❀ ﴿قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ﴾
”آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے لڑکے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے کنبے قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وہ رہائش گاہیں جنہیں تم پسند کرتے ہو اگر یہ تمہیں اللہ سے، اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ عزیز ہیں، تو تم انتظار کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنا امر (عذاب وغیرہ) لے آئے اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔“
(9-التوبة:24)
جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور جہاد فی سبیل اللہ سے تمہیں تمہارے باپ تمہارے بہن بھائی وغیرہ زیادہ محبوب ہیں تو اللہ کے عذاب کا انتظار کرو۔
کہتے ہیں کہ جو والدین سے اجازت لیتا ہے سمجھو اس نے والدین کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور جہاد فی سبیل اللہ سے زیادہ محبوب سمجھا ہے اور جو والدین یا کسی اور چیز کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور جہاد سے زیادہ محبوب سمجھتا ہے وہ اللہ کے عذاب کا انتظار کرے۔
جواب: جو جہاد کے لیے والدین کی اجازت ضروری سمجھتے ہیں وہ والدین کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور جہاد سے زیادہ محبوب نہیں جانتے وہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مانتے ہوئے یہ فتوی دیتے ہیں کہ جہاد کے لیے والدین کی اجازت ضروری ہے تو گویا انہوں نے والدین کو اللہ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ محبوب جان کر یہ فتویٰ نہیں دیا بلکہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو محبوب جان کر ان کی بات کو مان کر فتویٰ دیا ہے۔
نوٹ: کچھ لوگ ان علما کو منکر جہاد سمجھتے ہیں جو جہاد کے لیے والدین کی اجازت کو ضروری سمجھتے ہیں۔ بھائیو! جہاد سے انکار نہیں اور نہ ہی جہاد کی فضیلت سے انکار ہے جہاد قیامت تک جاری رہے گا پہلے بھی جہاد تھا اب بھی جہاد ہے اور قیامت تک رہے گا۔ الجهاد ماض إلى يوم القيامة.
حافظ عبدالمنان نور پوری رحمہ اللہ کا فتویٰ
حافظ عبدالمنان نور پوری رحمہ اللہ یہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں ان جہادوں میں جانے کے لیے والدین سے اجازت حاصل کرنا ضروری ہے صحیح بخاری اور ابو داود میں حدیثیں دیکھ لیں اور اس سلسلہ میں مجلہ الدعوۃ میں حافظ عبد السلام بھٹوی رحمہ اللہ کا ایک مضمون چھپا تھا وہ مطالعہ فرمالیں اگر والدین سے اجازت لیے بغیر جہاد میں چلا گیا تو کبیرہ گناہ کا مرتکب ہوا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقوق الوالدین کو کبائر میں شمار فرمایا ہے دین وقرض کے علاوہ شہید فی سبیل اللہ کے تمام گناہ شہادت کے ساتھ معاف ہو جاتے ہیں۔
(احکام ومسائل جلد 1 ص 461)
فضیلۃ الشیخ حافظ عبد السلام بھٹوی رحمہ اللہ کا فتویٰ
”عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے جہاد کے لیے اجازت مانگی۔ آپ نے فرمایا: تمہارے ماں باپ زندہ ہیں؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: تو انہی میں جہاد کرے۔“
(البخاري، كتاب الجهاد باب: 3004:138)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر باب باندھا ہے” الجهاد بإذن الأبوين“ ماں باپ کی اجازت کے ساتھ جہاد۔ اس کی شرح میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جمہور علما فرماتے ہیں جب ماں باپ دونوں یا ان میں سے کوئی ایک منع کر دے تو جہاد حرام ہے بشرطیکہ وہ دونوں مسلمان ہوں کیونکہ ان سے حسن سلوک اس پر فرض عین ہے اور جہاد فرض کفایہ ہے البتہ جب جہاد فرض عین ہو جائے تو کوئی اجازت نہیں لی جائے گی۔
(فتح الباری حدیث: 2004)
جب جہاد فرض عین ہو جائے اس وقت اگر کوئی شخص ماں باپ کے کہنے کی وجہ سے جہاد پر نہ جائے تو اللہ کے عذاب کا خطرہ ہے، اللہ تعالی فرماتے ہیں:
❀ ﴿قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ ۗ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ﴾
”کہہ دیجئے! اگر تمہارے باپ، تمہارے بیٹے، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں، تمہارے خاندان، تمہارے مال جو تم نے کمائے ہیں، وہ کاروبار جس کے مندے سے تم ڈرتے ہو اور وہ رہائش گاہیں جنہیں تم پسند کرتے ہو (اگر یہ سب چیزیں) تمہیں اللہ اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا حکم (عذاب) لے آئے اور اللہ تعالیٰ نا فرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ “
(9-التوبة:24)
مندرجہ ذیل صورتوں میں جہاد فرض عین ہو جاتا ہے۔
(الف) جب دشمن مملکت اسلامیہ کی سرزمین پر حملہ یا قبضہ کرلے (تفصیل کے لیے دیکھیں تفسیر قرطبی مسئله رابعه آیت 21 سوره توبه)
(ب) جب امیر کسی گروہ یا خاص شخص کو نکلنے کا حکم دے دے: وإذا استنفرتم فانفروا (بخاری: 2825) جب تمہیں نکلنے کا حکم دیا جائے تو نکلو ۔
(ج) جب کوئی شخص میدان میں ہو اور لڑائی شروع ہو جائے:
❀ ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبَارَ﴾
”اے وہ لوگ جو ایمان لائے ہو! جب تم ان لوگوں سے لڑائی کی مڈ بھیڑ میں ملو جو کافر ہیں تو ان سے پیٹھ مت پھیرو۔“
(8-الأنفال:15)
اولاد کا مال والدین کا مال ہے
㉒ عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن رجلا أتى النبى صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله إن لي مالا وولدا وإن والدي يحتاج مالي قال أنت ومالك لوالدك إن أولادكم من أطيب كسبكم فكلوا من كسب أولادكم
”صحابی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا، میرے پاس مال ہے اور میرا والد میرے مال کا محتاج ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اور تیرا مال تیرے والد کا ہے۔ تمہاری اولاد تمہاری پاکیزہ کمائی سے ہے تم اپنی اولاد کی کمائی کھاؤ۔“
([حسن] ابوداود، كتاب البيوع، باب في الرجل يأكل من مال ولده: 3530)
فائدہ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اولاد کا مال والدین کا ہے۔ جب والدین کو ضرورت پڑ جائے اولاد کے مال کی تو والدین کو حق ہے کہ وہ جتنا چاہے لے سکتے ہیں۔ ہاں! والدین کو بھی چاہیے کہ ظلم و زیادتی سے بچیں اور اولاد کے درمیان انصاف کریں آج کل معاشرہ اس کے برعکس ہے کہ مرد حضرات جو کماتے ہیں وہ سارے کا سارا بیوی کی جیب میں اور بیوی صاحبہ (ماشاء اللہ) اپنے خاوند کے والدین سے پوچھتی ہے کہ پانچ دس روپے چاہیے؟
بھائیو! یہ بات کتنی شرم کی ہے ہمیں اللہ سے ڈرنا چاہیے اور والدین کو بیوی پر ترجیح دینی چاہیے۔
والدین کے حکم سے بیوی کو طلاق دینا
㉓ عن عبد الله بن عمر قال كانت تحتي امرأة وكنت أحبها وكان عمر يكرهها فقال لي طلقها فأبيت فأتى عمر النبى صلى الله عليه وسلم فذكر ذلك له فقال النبى صلى الله عليه وسلم طلقها
”عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میرے نکاح میں ایک عورت تھی میں اس کو چاہتا تھا لیکن عمر رضی اللہ عنہ( میرے باپ) اس کو برا جانتے تھے۔ انہوں نے مجھے کہا: تو اسے طلاق دے دے۔ میں نہ مانا وہ (عمر رضی اللہ عنہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور آپ کے سامنے یہ بات عرض کی تو آپ نے (مجھے) فرمایا: اس عورت کو طلاق دے دو۔ “ (یعنی باپ کا حکم مان)
( [صحيح] أبو داود، كتاب الادب، باب في بر الوالدين: 5138 )
㉔ عن أبى الدرداء قال إن رجلا أتاه فقال إن لي امرأة وإن أمي تأمرني بطلاقها فقال أبو الدرداء سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول الوالد أوسط أبواب الجنة فإن شئت فأضع ذلك الباب أو احفظه
”ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی ان کے پاس آیا اور کہا، میری ایک بیوی ہے اور میری ماں مجھے اسے طلاق دینے کا حکم دیتی ہے۔ ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ فرماتے سنا تھا کہ والد جنت کا بہترین دروازہ ہے اگر تو چاہے تو ( ان کی خدمت کر کے )اس دروازے کی حفاظت کرلے یا ان کی نافرمانی کر کے اسے ضائع کر لے۔“
(صحيح الترمذى، كتاب ابواب البر والصلة، باب ما جاء من الفضل في رضا الوالدين: 1900)
نوٹ: والد سے مراد: ماں باپ ہیں۔ كما تقدم
مطلب: ابودرداء رضی اللہ عنہ کا مقصد حدیث سنانے کا یہ تھا کہ ماں کی بات مان اور بیوی کو طلاق دے دے۔
فائدہ: اگر ایک آدمی کے والدین اس کی بیوی سے خوش نہیں ہیں ناراض ہیں اس سے تنگ ہیں اور وہ اپنے بیٹے کو حکم دیتے ہیں کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے تو بیٹے پر فرض ہے کہ والدین کا حکم مان کر بیوی کو طلاق دے بشرطیکہ واقعی اس کا قصور اور غلطی ہو، اور اگر اس کا قصور اور غلطی نہ ہو اور والدین اس کو شریعت کے خلاف حکم دیتے ہیں، کہتے ہیں رفع الیدین نہ کیا کر، دربار پر جایا کر، غیر اللہ کے نام پر گیارہویں دلوایا کر وغیرہ وغیرہ۔
اور اگر وہ عورت اپنے خاوند کے والدین کی یہ باتیں نہیں مانتی تو پھر ایسی صورت میں والدین کی بات مان کر بیوی کو طلاق نہیں دینا چاہیے۔
والدین کا حق کیسے ادا ہو سکتا ہے
㉕ عن أبى هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يجزي ولد والدا إلا أن يجده مملوكا فيشتريه فيعتقه
” ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی بیٹا اپنے باپ کا حق پورا نہیں کر سکتا مگر کہ وہ اپنے باپ کو غلام پائے تو اسے خرید کر آزاد کردے۔“
(صحيح مسلم، کتاب العتق ، باب فضل عتق الوالد: 3799، الترمذي، كتاب البر والصلة ، باب ما جاء في حق الوالدين: 1906)
فائدہ: اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ انسان ساری عمر والدین کی خدمت کرتا رہے ان کی اطاعت کرتا رہے ان کے آگے اف تک نہ کہے اپنی کمر پر اٹھا کر والدین کو حج کروائے پھر بھی والدین کا پورا حق ادا نہیں کر سکتا ہاں والدین کے حق ادا کرنے کی صرف ایک ہی صورت ہے وہ یہ ہے کہ والدین کو غلام لونڈی کی صورت میں پائے اور ان کو خرید کر آزاد کردے۔
والدین کے دوستوں سے صلہ رحمی
㉖ عن ابن عمر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن أبر البر صلة المرء أهل ود ابيه بعد ان يولي
” ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نیکیوں میں سے بڑی نیکی، آدمی کا اپنے باپ کی وفات کے بعد اس کے دوستوں سے صلہ رحمی کرنا ہے۔“
(صحیح ابوداود، کتاب الادب، باب في بر الوالدين: 5143)
والدین کے لیے دعا
نیک بخت اولاد کی سعادت مندی یہ ہے کہ ماں باپ کے حق میں نیک دعائیں کرے کیونکہ اس کی تعلیم قرآن وحدیث میں دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ماں باپ کے لیے دعا کرنے کا یہ طریقہ بتایا ہے کہ تم اس طرح دعا کیا کرو:
❀ ﴿رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا﴾
” اے میرے رب! جس طرح انہوں نے مجھے بچپن میں پالا ہے اسی طرح تو بھی ان پر رحم کر۔“
(17-الإسراء:24)
❀ ﴿رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ﴾
”اے رب ہمارے! مجھے، میرے ماں باپ اور مومنوں کو جس دن (عملوں کا )حساب ہونے لگے بخش دے۔“
(14-إبراهيم:41)
㉗ عن أبى هريرة عن النبى صلى الله عليه وسلم قال القنطار اثنا عشر ألف أوقية كل أوقية خير مما بين السماء والأرض وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن الرجل لترفع درجته فى الجنة فيقول أنىٰ هذا فيقال باستغفار ولدك لك
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خزانہ بارہ ہزار اوقیہ کا ہے ہر اوقیہ آسمان وزمین کے درمیان کی ہر چیز سے بہتر ہے۔“ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت میں شخص کا درجہ بڑھایا جاتا ہے تو پوچھتا ہے یہ کیوں ہوا ہے؟ تو اسے بتایا جاتا ہے کہ تیری اولاد نے تیرے لیے بخشش طلب کی ہے۔“
([حسن] ابن ماجه، كتاب الادب، باب بر الوالدين: (3660) بعض علما کا اسے ضعیف قرار دینا درست نہیں)
کافر اور مشرک والدین کے لیے مغفرت کی دعا کرنا ممنوع ہے
جو والدین مشرک فوت ہو جائیں ان کے لیے مغفرت کی دعا کرنا گناہ ہے اور ممنوع ہے۔
❀ ﴿مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَىٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ﴾
” نبی اور اہل ایمان والوں کے لیے درست نہیں ہے کہ مشرکین کے لیے بخشش طلب کریں اگر چہ وہ قرابت داری کیوں نہ ہوں جب کہ ان پر واضح ہو چکا ہے کہ وہ لوگ جہنمی ہیں۔“
(9-التوبة:113)
بے نماز والدین کے لیے مغفرت کی دعا کرنا ممنوع ہے
جو والدین بے نماز ہیں اور وہ اسی حالت میں مر جاتے ہیں تو ان کے لیے بھی مغفرت کی دعا کرنا ممنوع ہے اس لیے کہ بے نماز مشرک ہے اور مشرک کے لیے بخشش کی دعا کرنا ممنوع ہے۔ كما تقدم
بے نماز کافر اور مشرک ہے
❀ ﴿فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ﴾
” اگر وہ توبہ کرلیں نماز پڑھیں اور زکوۃ دیں تو پھر وہ تمہارے دینی بھائی ہیں۔“
(9-التوبة:11)
فائدہ: اس آیت سے ثابت ہوا کہ دینی بھائی بننے کے لیے نماز کی ادائیگی شرط ہے جو نماز نہیں پڑھتا وہ دینی بھائی نہیں ہے یعنی غیر مسلم ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
㉘ إن بين الرجل وبين الشرك والكفر ترك الصلاة
”بے شک مسلمان آدمی اور کفر و شرک کے درمیان نماز چھوڑنے کا فرق ہے۔“
(صحيح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان اطلاق اسم الكفر على من ترك الصلوة: 246)
㉙ قال النبى صلى الله عليه وسلم ليس بين العبد والشرك إلا ترك الصلاة فإذا تركها فقد أشرك
” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندے اور شرک کے درمیان صرف نماز چھوڑنے کا فرق ہے، تو جب اس نے نماز چھوڑ دی تو اس نے شرک کیا۔“
(ابن ماجه، ابواب المساجد والجماعات ، باب ما جاء فيمن ترك الصلوة: 1080 سنده ضعیف لضعف يزيد بن ابان الرقاشي ومعنى الحديث صحيح لان الحديث السابق يغني عنه)
㉚ فمن تركها متعمدا فقد خرج من الملة
” جس نے جان بوجھ کر نماز چھوڑی پس تحقیق وہ ملت (یعنی دین) سے خارج ہو گیا۔“
([حسن] الترغيب، الرقم: 797)
والدین کی نافرمانی حرام ہے
㉛ عن المغيرة بن شعبة عن النبى صلى الله عليه وسلم قال إن الله حرم عليكم عقوق الأمهات
” مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تم پر ماں کی نافرمانی اور ستانا حرام قرار دیا ہے۔“
(صحیح بخاری، کتاب الادب، باب عقوق الوالدين من الكبائر: 5974)
㉜ عن معاذ بن جبل قال أوصاني رسول الله صلى الله عليه وسلم بعشر كلمات قال لا تشرك بالله شيئا وإن قتلت أو حرقت ولا تعقن والديك وإن أمراك أن تخرج من أهلك ومالك
” معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دس کلمات کی وصیت کی۔ آپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنانا، اگر چہ تجھے قتل کر دیا جائے یا تجھے جلا دیا جائے اور اپنے والدین کی نافرمانی نہ کرنا اگر چہ وہ دونوں تجھے حکم دیں کہ تو اپنے اہل اور مال سے نکل جائے۔“
(صحيح الترغيب والترهيب، باب الترهيب من عقوق الوالدين: 2516)
والدین کی نافرمانی بہت بڑا کبیرہ گناہ ہے
㉝ عن عبد الرحمن بن أبى بكرة عن أبيه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ألا أنبئكم بأكبر الكبائر قال ثلاثا قالوا بلى يا رسول الله قال الإشراك بالله وعقوق الوالدين
” ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہیں کبیرہ گناہوں میں سے جو بڑے گناہ ہیں نہ بتاؤں؟ ہم نے کہا: کیوں نہیں، اللہ کے رسول! بتلائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا۔“
(صحيح البخاری، کتاب الادب، باب عقوق الوالدين من الكبائر: 5976)
㉞ عن أبى أمامة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاثة لا يقبل الله منهم صرفا ولا عدلا عاق ومنان ومكذب بالقدر
” ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی تین آدمیوں کی فرضی اور نفلی عبادت قبول نہیں فرماتے والدین کا نافرمان، احسان جتلانے والا اور تقدیر کو جھٹلانے والا۔“
( كتاب السنة لابن أبي عاصم الرقم 323. قال الالبانی حسن والله اعلم)
والدین کو جھڑکنا اور ڈانٹنا حرام ہے
❀ ﴿فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا﴾
” پس ماں باپ کے لیے اف تک نہ کہو ہوں تک نہ کرنا اور نہ انہیں ڈانٹو جھڑکو۔“
(17-الإسراء:23)
فائدہ: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اگر والدین بڑھاپے کی وجہ سے کوئی ایسی بات کریں جو تمہیں نا پسند ہو تو پھر بھی تم نے اف تک نہیں کہنا یعنی والدین کے سامنے ایسی بات نہیں کرنی جس سے انہیں تکلیف یا پریشانی ہو۔ ان بھائیوں کو اللہ سے ڈرنا چاہیے جو والدین کو جھڑکتے ہیں، گالیاں دیتے ہیں وگرنہ دنیا اور آخرت میں ذلت ان کا مقدر بن جائے گی۔
والدین کو پریشان کرنا جائز نہیں ہے
㉟ عن عبد الله بن عمرو قال جاء رجل إلى رسول الله فقال جئت أبايعك علىٰ الهجرة وتركت أبوي يبكيان قال ارجع إليهما فأضحكهما كما أبكيتهما
”عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ اس نے کہا: میں آپ سے ہجرت کرنے پر بیعت کرنے آیا ہوں اور اپنے والدین روتے ہوئے چھوڑ آیا ہوں تو آپ نے فرمایا: تو ان کی طرف لوٹ جا، تو انہیں ہنسا جیسے انہیں رلایا ہے۔“
([صحیح] ابوداود، كتاب الجهاد، باب في الرجل يغزو وابواه کارهان: 2528)
فائدہ: ہجرت بہت اونچا اور افضل عمل ہے اتنا عظیم عمل ہے کہ ہجرت سے اللہ کریم انسان کی سابقہ زندگی کے تمام (صغیرہ و کبیرہ) گناہ معاف فرمادیتے ہیں۔ اتنا عظیم عمل ہونے کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے والدین کی اجازت کے بغیر ہجرت کی بھی اجازت نہیں فرمائی۔
والدین کے نافرمان کی ناک خاک آلود ہو
㊱ عن أبى هريرة عن النبى صلى الله عليه وسلم قال رغم أنفه ثم رغم أنفه ثم رغم أنفه قيل من يا رسول الله قال من أدرك أبويه عند الكبر أحدهما أو كليهما فلم يدخل الجنة
”ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی ناک خاک آلود ہو پھر اس کی ناک خاک آلود ہو۔ پھر اس کی ناک خاک آلود ہو( یعنی رسوا ہو) جو اپنے ماں باپ دونوں کو یا کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پائے پھر( ان کی خدمت کر کے) جنت میں نہ جائے۔“
(صحيح مسلم، كتاب البر والصلة، باب رغم من ادرك ابويه او احدهما عند الكبير فلم يدخل الجنة: 6510)
فائدہ: محترم بھائیو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بار بار اس بد بخت کے لیے بددعا فرما رہے ہیں جو والدین کی خدمت کر کے جنت حاصل نہیں کرتا۔ بھائیو! جس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بددعا فرمائیں سوچئے دنیا و آخرت میں کیسے عزت پاسکتا ہے، کیسے کامیاب ہو سکتا ہے؟
والدین کے نافرمان پر اللہ کی پھٹکار
㊲ عن أبى هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم رقي المنبر فقال آمين آمين آمين فقيل له يا رسول الله ما كنت تصنع هذا فقال قال لي جبريل رغم أنف عبد أدرك رمضان فانسلخ منه لم يغفر له فقلت آمين ثم قال رغم أنف عبد أدرك والديه أو أحدهما فلم يدخله الجنة فقلت آمين ثم قال رغم أنف عبد ذكرت عنده فلم يصل عليك فقلت آمين
” ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھے تو فرمایا: آمین آمین آمین۔ پوچھا گیا اے اللہ کے رسول! آپ نے ایسے کیوں کیا ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جبرئیل علیہ السلام نے مجھے کہا، اللہ اس آدمی کا ناک خاک آلود کرے یا اس پر اللہ کی پھٹکار ہو۔“
(ابن خزيمة، باب فضائل شهر رمضان العبادة في رمضان: 1888)
⋆ جس نے رمضان کا ماہ پایا تو اس کو بخشا نہیں گیا تو میں نے کہا: آمین۔
⋆ پھر جبرئیل نے فرمایا کہ اس آدمی کا ناک خاک آلود ہو یا اس پر پھٹکار ہو جس نے اپنے ماں باپ دونوں کو یا ان میں سے کسی ایک کو پایا (پھر ان کی خدمت کر کے) جنت میں داخل نہ ہوا تو میں نے کہا: آمین۔
⋆ پھر جبرئیل نے فرمایا کہ اس آدمی کا ناک خاک آلود ہو یا اس پر پھٹکار ہو جس شخص کے پاس آپ کا ذکر کیا جائے تو وہ آپ( صلی اللہ علیہ وسلم) پر درود نہ پڑھے تو میں نے کہا: آمین۔
فائدہ: بھائیو! والدین کے نافرمان پر سید الملائکہ جبرئیل علیہ السلام بد دعا فرما رہے ہیں اور رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم آمین کہہ رہے ہیں۔
والدین کا نافرمان لعنتی ہے
㊳ عن أبى هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ملعون من عمل عمل قوم لوط ملعون من عمل عمل قوم لوط ملعون من عمل عمل قوم لوط ملعون من ذبح لغير الله ملعون من عق والديه
”ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ یہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص لعنتی ہے جس نے لوط علیہ السلام کی قوم کا عمل کیا آپ نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی اور فرمایا: وہ شخص لعنتی ہے جس نے غیر اللہ کے لیے ذبح کیا اور وہ شخص بھی لعنتی ہے جس نے والدین کی نافرمانی کی۔“
(الترغيب والترهيب ، باب الترهيب من عقوق الوالدين. قال الألباني حسن والله اعلم: 2515)
والدین کو برا بھلا کہنے والا ملعون ہے
㊴ عن أبى الطفيل عامر بن وائلة قال كنت عند على بن أبى طالب فأتاه رجل فقال ما كان النبى صلى الله عليه وسلم يسر إليك قال فغضب وقال ما كان النبى صلى الله عليه وسلم يسر إلى شيئا يكتمه الناس غير أنه قد حدثني بكلمات أربع قال فقال ما هن يا أمير المؤمنين قال قال لعن الله من لعن والده لعن الله من ذبح لغير الله لعن الله من آوى محدثا لعن الله من غير منار الأرض
”ابوطفیل عامر بن وائلہ بیان کرتے ہیں کہ میں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پاس تھا کہ ایک آدمی علی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو اس نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم تیرے پاس راز کی کیا بات کرتے تھے؟ وہ فرماتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ غصہ ہوئے اور فرمایا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس کچھ بھی راز کی بات نہیں کرتے تھے کہ جسے لوگوں سے چھپاتے ہوں سوائے اس کے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار کلمے بتائے۔ راوی کہتے ہیں: اس نے کہا: اے امیر المؤمنین! وہ کونسے ہیں؟ راوی بیان کرتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جس نے اپنے ماں باپ پر اللہ کی لعنت بھیجی (یعنی ان کو لعنتی کہا)، اللہ کی لعنت ہو اس شخص پر جس نے غیر اللہ کے لیے جانور ذبح کیا، اللہ کی لعنت ہو اس شخص پر جس نے بدعتی کو جگہ دی۔ اور اللہ کی لعنت ہو اس شخص پر جس نے زمین کے نشانات کو تبدیل کیا۔“
(صحیح مسلم، کتاب الاضاحی، باب تحريم الذبح لغير الله تعالى ولعن فاعله: 5124)
㊵ عن عبد الله بن عمرو قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن من أكبر الكبائر أن يلعن الرجل والديه قيل يا رسول الله وكيف يلعن الرجل والديه قال يسب الرجل أبا الرجل فيسب أباه ويسب أمه فيسب أمه
”عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کبیرہ گناہوں میں سے بڑا گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنے والدین کو لعنتی کہے۔ پوچھا گیا کیا آدمی اپنے والدین کو لعنتی کہتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ آدمی دوسرے آدمی کے والد کو گالی دیتا ہے تو (جواباً) وہ اس کے باپ کو گالی دیتا ہے، یہ اُس کی ماں کو گالی دیتا ہے تو (جواباً) وہ اس کی ماں کو گالی دیتا ہے۔“
(البخاری، کتاب الادب، باب لا يسب الرجل والديه: 5973)
㊶ عن عبد الله بن عمرو قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من الكبائر أن يشتم الرجل والديه قالوا يا رسول الله وهل يشتم الرجل والديه قال نعم يسب أبا الرجل فيسب أباه ويسب أمه فيسب أمه
”عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی اپنے والدین کو برا بھلا کہے کبیرہ گناہ ہے۔ صحابہ نے عرض کیا: یارسول اللہ! کیا آدمی اپنے والدین کو برا بھلا کہتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں یہ کسی آدمی کے باپ کو برا بھلا کہتا ہے، تو (جواباً) وہ اس کے باپ کو برا بھلا کہتا ہے، یہ اُس کی ماں کو برا بھلا کہتا ہے تو (جواباً) وہ اس کی ماں کو برا بھلا کہتا ہے۔“
(صحيح الترمذي ، كتاب البر والصلة، باب ماجاء في عقوق الوالدين: 1902)
فائدہ: معلوم ہوا کہ جو کسی کے والدین کو گالی دیتا ہے اور وہ جواباً اس کے والدین کو گالی دیتا ہے تو پہلے شخص نے گویا اپنے والدین کو گالی دی۔
والدین کے نافرمان جہنمی ہے
㊷ عن عبد الله بن عمرو عن النبى صلى الله عليه وسلم قال لا يدخل الجنة منان ولا عاق ولا مدمن خمر
”عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت میں نہیں داخل ہو گا بہت زیادہ احسان جتلانے والا، ماں باپ کا نافرمان اور ہمیشہ شراب پینے والا۔“
( صحيح سنن النسائى ، كتاب الاشربة، باب الرواية في المدمنين في الخمر: 5672)
㊸ عن عمرو بن مرة الجهني قال جاء رجل إلى النبى صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله شهدت أن لا إله إلا الله وأنك رسول الله وصليت الخمس وأديت زكاة مالي وصمت رمضان فقال النبى صلى الله عليه وسلم من مات علىٰ هذا كان مع النبيين والصديقين والشهداء يوم القيامة هكذا ونصب إصبعيه ما لم يعق والديه
”عمرو بن مرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آیا اس نے کہا، اے اللہ کے رسول! میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں اور میں پانچ نمازیں پڑھتا ہوں، اپنے مال کی زکوۃ دیتا ہوں اور رمضان کے روزے رکھتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اس پر (یعنی مذکورہ اعمال پر) مر جائے وہ قیامت کے دن انبیاء، صدیقین (انتہائی سچے) اور شہداء کے ساتھ اس طرح ہوگا اور آپ نے دو انگلیوں کو کھڑا کیا جب کہ اس نے والدین کی نافرمانی نہ کی ہوگی۔“
(الترغيب والترهيب ، باب الترهيب من عقوق الوالدين. قال الألباني صحيح والله اعلم: 2515)
فائدہ: آپ کا مقصد یہ تھا کہ توحید ورسالت کا اقرار کرنے والا، نماز پڑھنے والا، اپنے مال کی زکوۃ دینے والا اور روزے رکھنے والا قیامت کے دن انبیاء، صدیقین انتہائی سچے لوگوں اور شہداء کے ساتھ ہوگا لیکن شرط یہ ہے کہ وہ والدین کا نافرمان نہ ہو اگر وہ مذکورہ سارے اعمال کرنے کے ساتھ ساتھ والدین کا نافرمان بھی ہے پھر وہ قیامت کے دن انبیاء، صدیقین (انتہائی سچے لوگوں) اور شہداء کے ساتھ نہیں ہوگا۔
والدین کے نافرمان جنت میں داخل نہیں ہوں گے
㊹ عن جبير بن مطعم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لا يدخل الجنة قاطع رحم
”جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رشتہ داری کو توڑنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔“
(صحیح مسلم، کتاب البر والصلة والآداب، باب صلة الرحم وتحريم قطيعتها: 6521)
فائدہ: عام رشتے داروں سے قطع رحمی کرنے والا جنت میں نہیں جاسکتا تو والدین سے قطع رحمی کرنے والا جنت میں کیسے جا سکتا ہے جن کے ساتھ صلہ رحمی کرنے کا سب سے زیادہ حکم ہے۔
قیامت کے دن اللہ والدین کے نافرمان کو نہیں دیکھے گا
㊺ عن عبد الله قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ثلاثة لا ينظر الله عز وجل إليهم يوم القيامة العاق لوالديه والمرأة المترجلة والديوث وثلاثة لا يدخلون الجنة العاق لوالديه والمدمن علىٰ الخمر والمنان بما أعطى
عبد الله رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن تین آدمیوں کی طرف اللہ تعالیٰ نہیں دیکھے گا: ● والدین کا نافرمان۔ ● مردوں کی مشابہت کرنے والی عورت۔ ● دیوت۔
تین آدمی جنت میں داخل نہیں ہوں گے: ● اپنے والدین کا نافرمان، ● ہمیشہ شراب پینے والا ● اور دیئے ہوئے پر بہت زیادہ احسان جتلانے والا۔“
([صحيح] النسائی، کتاب الزكوة، باب المنان بما اعطى: 2562)
والدین کے نافرمان کو دنیا میں سزا
㊻ عن أبى بكرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ما من ذنب أجدر أن يعجل الله تعالى لصاحبه العقوبة فى الدنيا مع ما يدخر له فى الآخرة من البغي وقطيعة الرحم
”ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی گناہ اس لائق نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کے مرتکب کو جلد دنیا میں اس کا عذاب دے اور آخرت میں بھی اس کے عذاب کو اس کے لیے جمع رکھے (مگر دو گناہ اس لائق ہیں) بغاوت کرنا اور رشتوں ناتوں کو توڑنا۔“
([صحيح] أبو داود، كتاب الادب، باب في النهي عن البعي: 4902)
فائدہ: انسان کے سب رشتوں ناتوں سے بہترین اور قریب ترین رشتہ والدین کا رشتہ ہے تو جو والدین سے رشتہ نہیں جوڑے گا ان کے حقوق پورے نہیں کرے گا اللہ کریم دنیا کے اندر جلد از جلد اس کو کسی پریشانی یا مصیبت کے اندر ڈال کر دے گا اور آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ اس کو عذاب دیں گے۔
㊼ عن العوام بن حوشب قال نزلت مرة حيا وإلىٰ جانب ذلك الحي مقبرة فلما كان بعد العصر انشق منها قبر فخرج رجل رأسه رأس حمار وجسده جسد إنسان فنهق ثلاث نهقات ثم انطبق عليه القبر فإذا عجوز تغزل شعرا أو صوفا فقالت امرأة ترىٰ تلك العجوز قلت ما لها قالت تلك أم هذا قلت وما كان قصته قالت كان يشرب الخمر فإذا راح تقول له أمه يا بني اتق الله إلىٰ متىٰ تشرب هذه الخمر فيقول لها إنك تنهقين كما ينهق الحمار قالت فمات بعد العصر قالت فهو ينشق عنه القبر بعد العصر كل يوم فينهق ثلاث نهقات ثم ينطبق عليه القبر
”عوام بن حوشب بیان کرتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ قبیلہ میں اترا اور اس قبیلہ کا ایک قبرستان تھا نماز عصر کے بعد قبرستان میں سے ایک قبر پھٹی، اس سے ایک ایسا انسان نکلا جس کا سر گدھے کا اور جسم انسان کا تھا۔ وہ گدھے کی طرح تین دفعہ رینکا۔ پھر قبر اس پر بند ہو گئی۔ اچانک وہاں ایک بڑھیا اون یا بال کات رہی تھی۔ عوام بن حوشب فرماتے ہیں ایک عورت نے کہا کہ اس عورت کو دیکھ رہا ہے میں نے کہا: اسے کیا ہے؟ اس عورت نے کہا: یہ بڑھیا (قبر سے نکلنے والے) اُس انسان کی ماں ہے۔ میں نے کہا: اس کا کیا قصہ ہے؟ اس نے کہا: یہ شراب پیتا تھا۔ جب شام کو گھر آتا تو اس کی ماں اسے کہتی: اے بیٹے اللہ سے ڈر کب تک تو شراب پیتا رہے گا وہ( جواباً )اسے کہتا تو گدھے کی طرح رینکتی رہتی ہے۔ عورت نے کہا: یہ عصر کے بعد فوت ہوا اور اب ہر روز عصر کے بعد اس کی قبر پھٹتی ہے اور گدھے کی طرح تین دفعہ رینکتا ہے پھر اس پر قبر بند ہو جاتی ہے۔“
(الترغيب والترهيب باب الترهيب من عقوق الوالدين. قال الالباني حسن والله اعلم 2017)
والدین کی اطاعت شریعت کے خلاف میں نہیں کی جائے گی
❀ ﴿وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۖ وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا﴾
”اگر والدین کوشش کریں کہ تو میرے ساتھ شرک کرے جس کا تجھے کچھ علم نہیں تو ان کی اطاعت نہ کرنا لیکن دنیا کے معاملات میں ان کا اچھی طرح ساتھ دینا۔“
(31-لقمان:15)
اس آیت کے شان نزول کے سلسلہ میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرے سلسلہ میں قرآن مجید کی کئی آیتیں نازل ہوئیں ان میں سے ایک آیت اس وقت نازل ہوئی جب ان کی ماں نے قسم کھائی کہ ان سے (سعد سے) کبھی بات نہ کرے گی جب تک کہ وہ اپنا دین (یعنی اسلام) نہیں چھوڑے گا نہ کھائے گی، نہ پیئے گی، وہ کہنے لگی اللہ نے تجھے ماں باپ کی اطاعت کرنے کا حکم دیا ہے اور میں تیری ماں ہوں تجھے حکم دیتی ہوں اس بات کا (کہ تو دین اسلام کو چھوڑ دے)۔
پھر تین دن تک وہ اس حالت میں رہی نہ کچھ کھایا نہ پیا یہاں تک کہ اس کو غش آ گیا آخر اس کا بھائی عمار کھڑا ہوا اور پانی پلایا( پانی پی کر) وہ سعد کو بد دعا دینے لگی۔ اس موقع پر الله تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ﴿وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ …﴾
(مسلم، کتاب الفضائل ، باب في فضل سعد بن ابی وقاص: 6238)
㊽ عن على أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لا طاعة فى معصية الله إنما الطاعة فى المعروف
” علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں، صرف اطاعت اچھے کاموں میں ہے۔“
(مسلم، كتاب الامارة، باب وجوب طاعة الأمراء في غير معصية 4765)
㊾ عن النواس بن سمعان قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا طاعة لمخلوق فى معصية الخالق
” نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت نہیں۔“
([صحيح] شرح السنة: 2455)
㊿ عن على قال بعث النبى صلى الله عليه وسلم سرية فاستعمل عليهم رجلا من الأنصار وأمرهم أن يطيعوه فغضب عليهم فقال أليس أمركم النبى صلى الله عليه وسلم أن تطيعوني قالوا بلى قال قد عزمت عليكم لما جمعتم لي حطبا وأوقدتم نارا ثم دخلتم فيها فجمعوا حطبا فأوقدوا فلما هموا بالدخول فجعل بعضهم ينظر إلىٰ بعض فقال قوم إنما تبعنا النبى صلى الله عليه وسلم فرارا من النار أفندخلها فبينما هم كذلك خمدت النار وسكن غضبه فذكر للنبي صلى الله عليه وسلم فقال لو دخلوها ما خرجوا منها أبدا إنما الطاعة فى المعروف
”حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دستہ روانہ فرمایا اور اس کا امیر ایک انصاری کو مقرر فرمایا اور لوگوں کو حکم دیا کہ اس کی اطاعت کرنا۔ یہ شخص ان سے ناراض ہو گیا اور کہنے لگا: کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تم کو حکم دیا تھا کہ میری اطاعت کرنا؟ سب نے کہا: درست ہے۔ اس نے کہا: میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ تم لوگ لکڑیاں جمع کرو پھر آگ جلاؤ اور اس آگ میں داخل ہو جاؤ۔ ان لوگوں نے لکڑیاں جمع کیں اور آگ جلائی لیکن جب اس میں داخل ہونے کا ارادہ کیا تو رُک کر ایک دوسرے کو دیکھا اور ان میں سے بعض نے کہا: ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت آگ سے بچنے کے لیے قبول کی تھی تو کیا اب ہم پھر آگ ہی میں کود جائیں؟ جب وہ لوگ یہ باتیں سوچ اور کر رہے تھے آگ بجھ گئی اور اس شخص کا غصہ بھی ٹھنڈا ہو گیا۔ بعد ازاں اس بات کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا: اگر یہ لوگ آگ میں داخل ہو جاتے تو پھر کبھی آگ سے نہ نکلتے اور ہمیشہ جہنم کی آگ میں جلتے اور اطاعت صرف جائز احکام میں ہے۔“
(البخاري، كتاب المغازی، باب سرية عبدالله بن حذافة: 4340)
(51) عن عبد الله عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال السمع والطاعة على المرء المسلم فيما أحب وكره ما لم يؤمر بمعصية فإذا أمر بمعصية فلا سمع ولا طاعة
” عبد الله رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان فرماتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: مسلم شخص پر سننا اور اطاعت کرنا ان چیزوں میں لازم ہے جسے وہ پسند کرے یا نا پسند کرے جب تک اسے نافرمانی کا حکم نہ دیا جائے۔ تو جب اسے نافرمانی کا حکم دیا جائے تو پھر نہ سننا ہے اور نہ اطاعت۔“
([صحیح] ابوداود، كتاب الجهاد، باب في الطاعة: 2626)
فائدہ: قرآن واحادیث کے دلائل سے ثابت ہوا کہ شریعت کی مخالفت میں والدین کی بات نہیں تسلیم کی جائے گی بلکہ دنیا کے کسی شخص کی بات شریعت کے خلاف نہیں مانی جائے گی خواہ والدین ہوں یا امیر، استاد ہو یا کوئی اور۔
فتفكر وتدبر وكن من الصالحين العاملين
قیامت کے دن اولاد کو باپ کے نام سے پکارا جائے گا یا ماں کے نام سے؟
صحیح بات یہی ہے کہ باپ کے نام سے پکارا جائے گا امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح بخاری میں باب باندھا ہے:” باب ما يدعى الناس بآبائهم“ (لوگوں کو ان کے باپوں کے نام سے پکارا جائے گا)
اس کے بعد یہ حدیث نقل کی ہے:
(52 ) عن ابن عمر عن النبى صلى الله عليه وسلم قال إن الغادر يرفع له لواء يوم القيامة يقال هذه غدر فلان بن فلان
” ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن دھوکے باز کے لیے ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا کہا جائے گا یہ فلاں بن فلاں کی دھوکہ بازی ہے۔“
(صحیح البخاری، کتاب الادب، باب ما يدعى الناس بآبائهم: 6177)
فائدہ: باقی جن روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ ماں کے نام سے پکارا جائے گا وہ ضعیف ہیں۔